سیدنا) اسامہ (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) اسامہ (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن زید بن حارثہ بن شراحیل بن حارثہ بن شرحیل بن کعب بن عبدالعزی بن زید بن امرء القیس بن عامر بن نعمان بن عامر بن عبدود بن عوف بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زید لات بن رفیدہ بن ثور بن کلب ابن ویرہ کلبی ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کے نسب میں ابن رفیدہ بن لوی بن کلبکو ذکر کیا ہے یہ غلطی ہے وہ ثور بن کلب ہیں اس میں کچھ شک نہیں ہے ان کی والدہ ام ایمن ہیں جو رسول خدا ﷺ کی کھلائی تھیں پس یہ اور ایمن علاتی (٭خون کے نکال ڈالنے سے زخم جلد اچھا ہو جاتا ہے اسی واسطے یہ تدبیر حضرت نے کی۔ غایت درجہ کی محبت اس حدیث سے ظاہر ہوتی ہے) بھائی ہیں۔ حضرت اسامہ کی کنیت ابو محمد اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو زید اور بعض کہتے ہیں ابو یزید اور بعض کہتے ہیں ابو خارجہ اور یہ اپنے والدین کے وقت سے رسول خدا ﷺ کے مولی (آزاد کردہ غلام) ہیں۔ یہ حب رسول اللہ کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ حضرت ابن عمر نے رویت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اسامہ مجھے سب لوگوں سے زیدہ محبوب ہیں یا یہ فرمایا کہ منجملہ میرے محبوب لوگوںکے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ تمہارے نیکوکار لوگوں میں سے ہوں پس تم لوگ ان کے ساتھ اچھا برتائو کیا کرو۔
انھیں نبی ﷺ نے اٹھارہ برس کی عمر میں عامل بنایا تھا۔
ہم سے منصور بن مکارم بن احمد بن سعد مودب موصل نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابو القاسم نصر بن احمد بن صفوان نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو الحسن علی بن ابراہیم سراج نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو طاہر ہبۃ اللہ بن ابراہیم بن انس نے خبر دیوہ کہتے تھے ہمیں ابو الحسن علی بن عبداللہ بن طوق نے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابو جابر یزید ابن عبدالعزیز بن حبان نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن ابراہیم بن عمار نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں معانی بن عمران نے شریک سے انھوںنے ابن عباس بن ذریح سے انھوں نے بہی سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتی تھیں (ایک مرتبہ) اسامہ دروازے کی چوکھٹ پر گر پڑے اور ان کے چہرے میں خراش آگیا تو مجھے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ تم ان کا خون دور کر دو مجھے اس سے نفرت معلوم ہوئی لہذا رسول خدا ﷺ خود اسے چوس چوس (٭) کے تھوکنے لگے اور فرمایا کہ مجھے اسامہ سے (اس قدر محبت ہے کہ) اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں اسے (بہت عمدہ عمدہ) کپڑے پہناتا اور اسے زیور پہناتا تاکہ وہ خوبصورت معلوم ہو۔
سجین ابو الفضل عبداللہ بن احمد نے خبر دی وہ کہتے تھے میں ابو خطاب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں نصر بن احمد بن بطر قاری نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو الحسن بن زرقویہ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں اسماعیل بن محمد صفار نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں رمادی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے عبدالرزاق نے معمر سے انھوں نے زہری سے انھوںنے عروہ سے انھوں نے حضرت اسامہ بن زید سے روایت کی کہ رسول خدا ﷺ (ایک مرتبہ) ایک گدھے پر سوار ہوئے اس کی پشٹ پر ایک چادر ڈال دی گئی تھی اور اپ نے اپنے پیچھے اسامہ کو سوار کر لیا اور آپ (اس وقت) حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کے لئے تشریف لیے جاتے تھے۔ یہ قصہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے وظیفے مقرر کیے تو حضرت اسامہ بن زید کا وظیفہ پانچ ہزار مقرر کیا اور اپنے صاحبزادہ حضرت عبداللہ بن عمر کا دو ہزار حضرت ابن عمر نے کہا کہ آپ نے اسامہ کو مجھ پر ترجیح دی حالانکہ میں ان کاموں میں شریک ہوا ہوں جن میں اسامہ شریک نہیں ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اسامہ رسول خدا ﷺ کو تجھ سے زیادہ محبوب تھے اور ان کے باپ رسول خدا ﷺ کو تیرے باپ سے زیادہ محبوب تھے۔
حضرت اسماہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے (ان کی خلافت کے وقت) بیعت نہیں کی نہ ان کے ساتھ ان کی کسی جنگ میں شریک ہوئے حضرت اسامہ نے ان سے کہا کہ (اے علی) اگر آپ اپنا ہاتھ کسی اژدہے کے منہ میں ڈال دیں تو میں بھی اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ کے ساتھ ڈال دوں گا مگر آپ سن چکے ہیں کہ مجھے رسول خدا ﷺ نے کیا فرمایا تھا جب میں نے اس شخص کو قتل کیا جو لا الہ الا اللہ کہہ رہا تھا لہذا میں آپ کے ہرامہ لڑنے سے مجبور ہوں (کیوں کہ آپ کی لڑائی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ہے) اور یہ واقعہ (جس کی طرف حضرت اسامہ نے اشارہ کیا) اس طرح پر ہے کہ ہمیں ابو جعفر عبید اللہ ابن احمد بن علی بن سمیں بغدادی نے اپنی اسناد کے ساتھ یونس بن بکیر سے انھوں نے ابن اسحاق سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے محمد بن اسامہ بن محمد بن اسامہ بن زید نے اپنے والد سے انھوں نے ان کے دادا حضرت اسامہ بن سے روایت کر کے بیان کیا وہ کہتے تھے میں نے ایک جہاد میں ایک کافر کو پایا میں تھا اور انصار میں سے ایک شخص تھے ہم دونوں نے اس پر تلوار کھینچی اس نے کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ مگر ہم نے اسے نہیں چھوڑا یہں ت کہ اسے قتل کر دیا پھر جب ہم رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا کہ اے اسامہ لا الہ الا اللہ کا کیا جواب دو گے میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اس نے صرف جان بچانے کے لئے لا الہ الا اللہ کہہ دیا تھا آپ نے فرمایا اے اسامہ لا الہ الا اللہ کا کیا جواب دو گے پس قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا تھا کہ آپ برابر یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میرا گذتہ اسلام کالعدم (٭یعنی یہ قتل مجھ سے حالت کفر میں صادر ہوا ہوتا حالت کفر کے گناہ بعد اسلام لانے کے معاف ہو جاتے ہیں) ہو جاتا اور میں آج مسلمان ہوا ہوتا پھر میں نے کہا کہ میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ اب کسی ایسے شخص کو جو لا الہ الا اللہ کہتا ہو قتل نہ کروں گا۔
محمد بن اسحاق صالح بن کیسان سے وہ عبید الہ بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوںنے کہا میں نے حضرت سامہ بن زید کو نبی ﷺ کی قبر کے پاس نمازپڑھتے ہوئے دیکھا اسی اثنا میں مروان ایک جنازے کی نماز پڑھنے کے لئے بلایا گیا چنانچہ جب وہ اس کی نماز پڑھ کے لوٹا اور حضرت اسامہ حضرت کے مکان کے دروازہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے تو ان سے مروان نے کہا کہ تم چاہتے ہو کہ کہ تمہارا مرتبہ لوگوں کو ظاہر ہو خدا تمہارے ساتھ (برا معاملہ) کرے اور ایک بری بات ان میں کہی پھر وہ لوٹ کے چلا اتنے میں حضرت اسامہ فارغ ہوگئے اور انھوں نے کہا کہ اے مروان تو نے مجھے ایذا دی اور تو بدگو اور فحش بکنے والا ہے اور میں نے رسول خدا ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالی بدگو اور فحش بکنے والے سے ناخوش رہتا ہے۔ حضرت اسامہ کا رنگ سیاہ تھا اور ناک ان کی چپٹی تھی۔ حضرت معاویہ کے اخیر زمانے میں سن۵۸ یا سن۵۹ھ میں وفات پائی اور بعض لوگ کہتے ہیں سن۵۴ھ میں وفات پائی۔ ابو عمر (ابن عبدالبر) نے کہا ہے کہ یہی میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد مقام جرف میں وفات پائی اور ان کی نعش مدینہ منورہ میں لائی گئی۔ ان سے ابو عثمان نہدی نے اوع عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ وغیرہ نے روایت کی ہے۔ ان کا تذکرہ تینوںنے لکھا ہے۔
میں کہتا ہوں ابن مندہ نے بیان کیا ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت اسامہ کو اس لشکر کا سردار بنایا تھا جسے آپ نے غزوہ موتہ کی طرف بھیجا تھا اپنے اس مرض میں جس میں آپ نے وفات پائی حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ نبی ﷺ نے اس لشکر پر جسے آپ نے موتہ کی طرف بھیجا تھا ان کے والد حضرت زید بن حارثہ کو سردار بنایا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالب سردار لشکر بنیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ۔ ہاں اسامہ کو بھی آپ نے ایک لشکر کا سردار بنایا تھا اور اس لشکر کو حکم دیا تھا کہ شام کی طرف جائے اس لشکر میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے جب رسول خدا ﷺ کا مرض بڑھ گیا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ اسامہ کا لشکر روانہ ہو جائے چنانچہ آپ کی وفات کے بعد وہ لشکر روانہ ہوا یہ واقعہ غزوہ موتہ کا نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)