سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ
سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
امیرالمومنین صاحبُ الِحلم والحَیا ذوالنورین
ابن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف قریشی اموی ہیں ان کانسب اوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب عبدمناف میں مل جاتاہے ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی اور بعض لوگوں نے ابوعمروبیان کی ہے یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ پہلے ان کی کنیت ان کےبیٹے عبداللہ کے نام پررکھی گئی تھی جن کی والدہ رقیہ بنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تھیں پھران کی کنیت ابوعمروہوگئی حضرت عثمان کی والدہ اروی بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس عبداللہ بن عامرکی پھوپھی زاد بہن تھیں اور اروی کی والدہ بیضابنت عبدالمطلب تھیں جورسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی تھیں ذوالنورین انھیں کالقب ہے امیرالمومنین تھے یہ اول(زمانہ)اسلام میں اسلام لائے تھے ان کوحضرت ابوبکر نے اسلام کی طرف بلایاتھا پس اسلام لے آئےیہ اسلام لانے والوں میں چوتھے شخص ہیں ہم کو ابوجعفرنے اپنی سندکویونس بن بکیرتک پہنچاکر ابن اسحاق سے نقل کرکے خبر دی وہ کہتے تھے کہ جب حضرت ابوبکراسلام لائے اوراپنے اسلام کوظاہر کیاتوانھوں نے لوگوں کو اللہ عزوجل اور اس کے رسول کی طرف بلایا۔حضرت ابوبکر کو ان کی قوم کے لوگ بہت عزیزرکھتے تھےاوروہ نہایت نرمی والے تھے اور قریش کے نسب کو قریش سے زیادہ جانتے تھے اور قریش میں جس قدر واقعات اچھے یابرے گذرےتھےان سے خوب واقف عالم تھے قریشی ان کے پاس آتے تھےاوران سے اکثر معاملات میں دوستانہ صلاح لیتےتھےبوجہ ان کے عالم اور تجربہ کاراور خوش خلق ہونے کے اورحضرت ابوبکر(اسی ذریعہ سے لوگوں کواسلام کی طرف بلانے لگے یعنی ان کوجن پر انھیں وثوق تھااورجوان کے پاس آمدورفت رکھتے تھے پس ان کے ہاتھ پر موافق ان روایات کے جو مجھے پہنچی ہیں حضرت زبیربن عوام اور حضرت عثمان بن عفان اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور کئی صحابہ اسلام لائے یہ سب لوگ حضرت ابوبکر کے ہمراہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں گئےحضرت نے ان پراسلام کوپیش کیااورانھیں قرآن پڑھ کرسنایا اورانھیں فرائض اسلام تعلیم کئے یہ سب لوگ اسلام لائےاورفرائض اسلام کااقرارکیا یہ آٹھ آدمی تھے جنھوں نے اسلام کی طرف سبقت کی اورنمازپڑھی اور صدقہ دیا۔حضرت عثمان جب اسلام لائے تورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی رقیہ کاان کے ساتھ نکاح کردیاان دونوں نےحبشہ کی طرف دومرتبہ ہجرت کی پھرمکہ لوٹ آئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی توحسان بن ثابت کے اوس بن ثابت کےیہاں فروکش ہوئے اسی وجہ سے وہ عثمان کوزیادہ دوست رکھتے تھے اور ان کی شہادت کے بعد روتے تھے اس کوابن اسحاق نے بیان کیاہے انھوں نے حضرت رقیہ کی وفات کے بعد حضرت ام کلثوم بنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کرلیاتھاجب ان کا بھی انتقال ہوگیاتو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگر میری کوئی تیسری لڑکی ہوتی تمھارے ساتھ اس کو منسوب کردیتاہے ہم کو احمد بن عثمان بن ابی علی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابورشید یعنی عبدالکریم بن احمد بن منصورنے خبردی وہ کہتےتھے ہم سےابومسعود یعنی سلیمان بن ابراہیم بن محمدبن سلیمان نےبیان کیاوہ کہتےتھے ہمیں حافظ ابوبکرمردویہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوبکر یعنی محمد بن عبداللہ بن محمد بن احمدبن اسحاق مفسرمقری نے خبردی ہمیں محمد بن ابراہیم مردویہ نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سےعلی بن احمد بسطام نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہمیں سہل بن عثمان نے خبردی وہ کہتےتھےہم سے نضربن منصورعزی نے بیان کیاوہ کہتے تھے مجھ سے ابوالمحبوب یعنی عقبہ بن علقمہ نے بیان کیاوہ کہتے تھے میں نے حضرت علی بن ابی طالب کوکہتےہوئے سناکہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا کہ اگرمیری لڑکیاں چالیس ہوتیں توعثمان کے ساتھ یکے بعددیگرے نکاح کردیتا یہاں تک کہ ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہتی حضرت عثمان کے بیٹے عبداللہ حضرت رقیہ سے پیداہوئے تھےان کی چھ سال کی عمرتھی کہ ۴ھ ہجری میں وفات پائی حضرت عثمان غزوۂ بدرمیں شریک نہیں تھے کیوں کہ ان کی بی بی رقیہ بنت رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم مرض موت میں مبتلاتھیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہیں رہنے کاحکم دیاتھا پس جناب کے فرمان کے موافق حضرت عثمان وہیں رہے جس روزنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اورمسلمانوں کی مشرکوں پر فتح پانے کی خبرمدینہ میں آئی اسی روز حضرت رقیہ کاانتقال ہوا۔(باوجودیکہ حضرت عثمان بدر میں شریک نہ تھے)لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں )ان کاحصہ اورجہاد کاثواب قائم کردیاتھا پس وہ رتبہ میں انھیں لوگوں کے برابرہیں جوبدرمیں شریک ہوئےتھے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دس آدمیوں کے واسطے جنت کی گواہی دی تھی ان میں سے ایک یہ بھی ہیں ہم کوابوالفضل یعنی عبداللہ خطیب بن ابی نضرنے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالخطاب یعنی نصربن احمد نے اجازتاً اگرچہ سماعاً نہیں ہے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن طلحہ بن ہارون نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں احمد بن سلیمان نے خبردی وہ کہتے تھےہم سے یحییٰ بن جعفرنےبیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے علی بن عاصم نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے عثمان بن غیاث نےبیان کیاوہ کہتے تھے مجھ سے ابوعثمان نہدی نے ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے میں رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فلاں شخص کے باغ میں تھااوراس باغ کادروازہ بند کرلیاگیاتھایکایک ایک شخص نے دروازہ کھٹکھٹایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عبداللہ بن قیس اٹھواوردروازہ کھولو اور اس کو جنت کی بشارت دو میں کھڑاہوااوردروازہ کھول دیا وہ ابوبکرصدیق تھےان کو میں نے اس کی خبردی جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا انھوں نے اللہ کی حمد کی اورباغ میں داخل ہوئےاورسلام کرکے بیٹھ گئے میں نےپھردروازہ بندکردیا پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنکے سے زمین کھرچنے لگے پھردوسرے شخص نے دروازہ کھٹکھٹایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبداللہ بن قیس اٹھواس کے واسطے دروازہ کھول دو اور اس کوجنت کی بشارت دو پس میں نے اٹھ کردروازہ کھولدیاوہ عمربن خطاب تھے جوکچھ مجھے رسول خدانےحکم دیاتھامیں نے ان کوخبردی۔پس عمربن خطاب نےاللہ کی حمدکی اور باغ میں داخل ہوئے اورسلام کرکے بیٹھ گئے اور میں نے دروازہ بندکرلیاپھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنکے سے زمنی کھرچنے لگے پھرتیسرے شخص نے دروازہ کھٹکھٹایانبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبداللہ بن قیس اس کے لئے دروازہ کھول کراس کوجنت کی خوشخبری دواس مصیبت کے معاوضے میں جوان کوپیش آئےگی بس میں کھڑا ہوااوردروازہ کھول دیاوہ حضرت عثمان تھے جورسول خدا نے مجھ سے فرمایاتھا ان کواس کی میں نے خبردی حضرت عثمان نے کہااللہ ہی سے مددمانگی جاتی ہے اور اسی پربھروسہ ہے پھرباغ کے اندر آئے اورسلام کرکے بیٹھ گئے ہم کوابومنصوربن مکارم نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالقاسم یعنی نصربن احمدبن صفوان نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسن یعنی علی بن احمد بن سراج نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوطاہر یعنی ہبتہ اللہ بن ابراہیم بن انس نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسن یعنی علی بن عبیداللہ بن جوق نےخبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوجابر یعنی زیدبن عبدالعزیز بن حیان نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے محمد بن عبداللہ بن عمارنے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے معانی بن عمران نے سعید بن حجاج سے انھوں نے حربن ضیاح سے نقل کرکے بیان کیاکہ میں نے عبیداللہ بن اخنس کوکہتے ہوئے سنا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نضیل آئے اورکہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابوبکر۱)جنت میں اورعمر۲)جنت میں اورعثمان۳) جنت میں اور علی۴) جنت میں اورطلحہ۵) جنت میں اورزبیر۶)جنت میں اورعبدالرحمن بن عوف۷) جنت میں اورسعد۸)جنت میں اگرمیں چاہوں تودسویں شخص کابھی نام بتاؤں بعداس کے انھوں نے اپنا نام بتایاابوالمنصورنے کہاکہ ہم سے معانی بن عمران نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے سفیان نے منصور سےانھوں نے ہلال بن یساف سے انھوں نے ابوطالب سے انھوں نےسعیدبن زید سے نقل کرکے بیان کیاکہ ایک شخص نے سعیدبن زیدسے کہاکہ میں حضرت علی کوایسامحبوب رکھتاہوں کہ ان سے زیادہ کسی کو ہرگز محبوب نہیں سمجھتاہوںسعیدنے کہابہت اچھاہےکہ توجنتی شخص سے محبت رکھتا ہے۔اس نے کہاحضرت عثمان سے ایسی دشمنی رکھتاہوں کہ مجھ کو کسی چیزسے ہرگزایسی دشمنی نہیں ہےسعید نےکہابراکیاتونے کہ توجنتی شخص سے دشمنی رکھتاہے پھرسعید بیان کرنے لگے کہ ایک مرتبہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کوہ حراپر موجود تھے اورآپ کے ساتھ ابوبکروعمروعثمان و علی و طلحہ وزبیر( رضی اللہ عنہم)موجودتھے آپ نے فرمایااے حراثابت رہ (کیوں کہ ) تجھ پر سوانبی اور صدیق اورشہیدکے دوسراکوئی نہیں ہے ہم کو احمدبن عثمان بن ابی علی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابورشیدیعنی عبدالکریم بن احمد بن منصورنے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومسعود بن سلیمان بن ابراہیم بن محمد بن سلیمان نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوبکرمردویہ نے خبردی وہ کہتےتھےہم سے ابوالاحوص نے ابوابراہیم اسدی سے انھوں نے اوزاعی سے انھوں نے حسان بن عطیہ سے نقل کر کےبیان کیاوہ کہتے تھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عثمان اللہ برترنے تمھارے اگلے پچھلےظاہروباطن گناہ بخش دئے وہ گناہ جوقیامت کے دن تک ہونے والے ہیں ہم کوابوالفرج یعنی یحییٰ بن محمودثقفی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے حسن بن احمد نے خبردی اورمیں اپنی موجودگی میں سنتاتھا وہ کہتےتھے ہم سے حافظ احمد بن عبداللہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابوبکربن خلاد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حارث بن اسامہ نے بیان کیا۔نیزابونعیم نے کہااورہم سے عبداللہ بن حسن بن بندارنے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے محمد بن اسمعیل زرگرنے بیان کیا وہ دونوں کہتےتھے ہم سے روح بن عبادۃ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے سعیدبن قتادہ نے انھوں نے انس سےنقل کرکے بیان کیاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ)کوہ احد پر تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ ابوبکر و عمروعثمان بھی تھے پھرکوہ(احد)ہلنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے احد قائم رہ (تجھ پر) نبی اور صدیق اورشہیدہیں ہم کوابوالبرکات یعنی حسن بن محمدبن ہبتہ اللہ شافعی دمشقی نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوالعشائرمحمد بن خلیل قیسی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالقاسم یعنی علی بن محمد بن علی مصیصی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد یعنی عبدالرحمٰن بن عثمان بن قاسم نے خردی وہ کہتےتھے ہم سے ابوالحسن یعنی خثیمہ بن سلیمان بن حیدرہ طرابلسی نے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سے ابوالحسن یعنی احمد بن عبداللہ بن محمد بن سلیمامعمارنے مقام صنعاء میں بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابراہیم بن احمدیمامی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے یزیدبن ابی حکیم نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے سفیان ثوری نے کلبی سے انھوں نےابوصالح سے انھوں نے ابن عباس سے اس آیت ونزعنا مافی صدورھم من غلمیں روایت کرکے بیان کیاہے کہ یہ دس آدمیوں کے حق میں نازل ہوئی وہ ابوبکر۱)اورعمر۲)اورعثمان۳) اور علی۴) اور طلحہ۵) اورزبیر۶)اورسعد۷)اور عبدالرحمٰن بن عوف ۸)اورسعید بن زید۹) اورعبداللہ بن مسعود۱۰)ہیں ہم کوابومحمدیعنی حسن بن علی بن ابی القاسم یعنی حسین بن حسن اسدی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ہمارے داداابوالقاسم نےخبردی وہ کہتےتھےمیں نےابوالقاسم یعنی علی بن محمد بن مصیصی سے اس حدیث کو پڑھاتھاوہ کہتےتھے ہمیں ابو نصر یعنی محمد بن احمد بن ہارون بن موسیٰ عبداللہ غسانی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسن یعنی خثیمہ بن سلیمان بن حیدرہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ہلال بن علاء نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے میرے والداورعبداللہ بن جعفرنے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے عبداللہ بن عمرنے زید بن ابی انیسہ سے انھوں نے اسمعیل بن ابی خالدسے انھوں نے قیس بن ابی حازم سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سے حضرت عثمان کے غلام ابوسہلہ نے بیان کیاوہ کہتے تھے میں واقعہ دارمیں (اپنے آقا) حضرت عثمان سے عرض کیاکہ یا امیرالمومنین آپ (بھی ان لوگوں سے )لڑیں اورعبداللہ نے بھی کہاکہ یاامیرالمومنین آپ بھی لڑیں حضرت عثمان نے کہانہیں خداکی قسم میں(ان سے) نہ لڑوں گا (کیوں کہ)مجھ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات کاوعدہ کیاہے پس مجھے آخرکاروہ بات حاصل ہونے والی ہے۔ابونعیم نےکہااورہم سےہلال نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے اسحاق ارزق نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے ابوسفیان نے ضحاک بن زاحم سے انھوں نے نزال بن سبرہ ہلانی سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم نے حضرت علی سے کہایاامیرالمومنین ہم سے حضرت عثمان بن عفان کاحال بیان کیجئے۔کہا حضرت علی نے وہ ایک شخص تھے کہ ملاء اعلیٰ میں ذوالنورین (کے لقب سے)پکارے جاتےتھےاوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دامادتھے آپ کی دوبیٹیاں ان کے عقد میں آئی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے واسطے جنت میں ایک محل کی ذمہ داری قبول کی تھی ہم کواسمعیل بن عبیداورابراہیم بن محمدوغیرھمانے اپنی سندوں کومحمدبن عیسیٰ تک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابوہشام رفاعی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے یحییٰ بن یمان نے بن زہرہ کے ایک شیخ سے انھوں نے حارث بن عبدالرحمن بن ابی ذیاب سے انھوں نے طلحہ بن عبداللہ سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرنبی کے لیے ایک رفیق ہوتاہے میرے رفیق یعنی جنت میں عثمان ہیں۔ابونعیم نے کہااور ہم سے محمد بن عیسیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے ابوزرعہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حسن بن بشر نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حکم بن عبدالملک نے قتادہ سے انھوں نے انس بن مالک سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتے تھے جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان کاحکم دیا(اس زمانے میں )حضرت عثمان بن عفان رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے اہل مکہ کے پاس گئے تھے انس بن مالک نے کہاکہ لوگوں نے بیعت کی پھرانس بن مالک نے کہاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ عثمان اللہ اوراس کے رسول کے کام میں ہیں(یہ فرماکر)اپناایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پررکھا (اورفرمایایہ ہاتھ عثمان کاہے میں ان کی طرف سے خود بیعت کرتاہوں)پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کادست مبارک حضرت عثمان کے واسطے ان لوگوں کے ہاتھوں سے جواپنے لئے وہ پیش کرتے تھے بہترتھا۔راوی نے کہااورہم سے محمد بن عیسیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےمحمدبن بشار نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے محمد بن بشارنے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےایوب نے ملاّ حہ سے انھوں نے ابوالاشعث صنعانی سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے(بعدشہادت حضرت عثمان کے)چند خطیب شام میں خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے ان میں کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے بھی تھےپس ان میں ایک آخری شخص کھڑے ہوئے جومرہ بن کعب سے پکارے جاتے تھےاورکہا اگر میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث نہ سنی ہوتی توہرگزاس وقت نہ کھڑاہوتا حضرت نے فتنوں کاذکرکیااوران کوبہت قریب بتایاپھر ادھرسے ایک شخص نقاب پوش نکلے حضرت نے فرمایایہ اس وقت ہدایت پرہوں گے میں اٹھ کے دیکھا تووہ عثمان بن عفان تھے پھرمیں نے ان کا چہرہ حضرت کے سامنے کردیااورپوچھا کہ یہی شخص ہیں حضرت نے فرمایا ہاں ایساہے حضرت ابن عمرسےبھی مروی ہے ۔راوی نے کہااورہم سے محمد بن عیسیٰ نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے احمدبن ابراہیم دورقی نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے علاء بن عبدالرحمن عطاء نے بیان کیا وہ کہتے تھےہم سے حارث بن عمیرنے عبیداللہ بن عمرسے انھوں نے نافع سے انھوں نے ابن عمرسےنقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھےہم لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کہاکرتے تھےابوبکراورعمراورعثمان بہترین دوست ہیں بعض لوگوں نے کہابزرگی میں اوربعض لوگوں نے کہاخلافت میں۔ہم کوابویاسر نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن احمد سے نقل کرکے خبردی وہ کہتے تھےمجھ سےمیرےوالدنے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے ابوقطن نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے یونس نے ابن ابنی اسحاق سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے نقل کر کے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ حضرت عثمان ایام محصوریت میں مکان سے(کوٹھے)پرچڑھ آئے اور کہا کہ میں اللہ کی قسم دے کرپوچھتاہوں کس نےرسول خداکوسناہے کہ جب وہ جنبش میں آیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لات مارکرفرمایااے حراسکون کرکیوں کہ تجھ پر نبی اور صدیق اور شہید کے سوا اورکوئی نہیں ہے۔اورمیں آپ کے ساتھ تھاپس بہت سے لوگوں نے اس کوبیان کیا راوی نے کہاپھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہاکہ میں اللہ کی قسم دے کرپوچھتاہوں ان سے جورسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بیعت الرضوان کے واقعہ میں موجودتھے جب مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین یعنی اہل مکہ کی طرف بھیجاتھااورفرمایاتھاکہ یہ میراہاتھ ہے اوریہ عثمان کا ہاتھ ہے پس میرے لئے بیعت کرلی اس کابھی سب لوگوں نے اقرارکیاپھرحضرت عثمان نے کہامیں اللہ کی قسم دے کرپوچھتاہوں ان لوگوں سے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود ہوں جب آپ نے یہ فرمایاکون شخص ہے جواس گھرکومول لے کرمسجد میں اضافہ کردے اس کوجنت میں ایک گھرملے گاپس میں ہی نے اس کواپنے مال سے خریدکرمسجدمیں اضافہ کردیاپس اس کابھی سب لوگوں نے اقرارکیاپھرکہامیں اللہ کی قسم دے کرپوچھتاہوں ان لوگوں سے کہ جوجیش العسرت کے واقعہ میں رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجودہوں جب آپ نے فرمایاکون ہے جوآج کے دن قابل قبول خدمت کرے میں نے آدھے لشکرکااپنےمال سے سامان مہیاکیاپس سب لوگوں نے اس کی گواہی دی۔پھرحضرت عثمان نےکہامیں خداکی قسم دے کرپوچھتا ہوں جو واقعہ بیررومہ سے واقف ہیں کہ اس کاپانی مسافروں کے ہاتھ بیچاجاتاتھا میں نے اس کواپنے مال سے خریدکیااوروہ پانی مسافروں کے لئے وقف کردیاپس اس کی بھی سب لوگوں نے گواہی دی راوی کہتا ہے اورہم سے عبداللہ نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے ہمارےوالد نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے عبدالصمد نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سےقاسم یعنی ابن افضل نےبیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عمرو بن مرہ نے سالم بن ابی جعدسے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتے تھےحضرت عثمان نے (بحالت محصورہونے کے)رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں کوبلایاچنانچہ ان میں عماربن یاسربھی تھےاورکہامیں تم لوگوں سے پوچھتاہوں اور یہ بھی چاہتاہوں کہ مجھے سچ سچ جواب دینا تم سے اللہ واسطے قسم دے کرپوچھتاہوں کیاتم جانتے ہوکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے قریش کوزیادہ بزرگ سمجھتے تھےاورتمام قریش سے بنی ہاشم کوزیادہ برگزیدہ سمجھتے تھے(حضرت عثمان کایہ کلام سب لوگوں نے سنا)اورسکوت کیاحضرت عثمان نے فرمایااگرجنت کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوتیں تومیں بنی امیہ۱؎ کودے دیتا تاکہ وہ سب کے سب جنت میں داخل ہوجائیں پھرطلحہ اورزبیرکوبلوابھیجا حضرت عثمان نے فرمایاکیامیں تم سے عمار کی حالت نہ بیان کروں میں (ایک مرتبہ)رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آرہاتھااورآپ میراہاتھ پکڑے ہوئے بطحاء مکہ میں ٹہل رہےتھے۔یہاں تک کہ عمارکے والدپرآپ کاگذرہوااوران دونوں کوکافروں کی طرف سے سخت تکلیف دی جارہی تھی پس عمار کے والدنے کہایارسول اللہ ہمیشہ یہی حالت رہتی ہے پس ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاتم صبرکرو اوردعاکی اے اللہ یاسرکی اولاد کوبخشدے اور توبخش چکاراوی نے کہااورہم سے ہمارے والد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حجاج نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے لیث نے بیان کی وہ کہتےتھے مجھ سے عقیل نے ابن شہاب سے انھوں نے یحییٰ بن سعید بن عاص سے نقل کرکےبیان کیاان کوسعید بن عاص نے خبردی کہ حضرت ام المونین عائشہ زوجۂ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت عثمان دونوں نے اس کوبیان کیا کہ حضرت ابوبکرنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (اندرآنے کے واسطے) اجازت طلب کی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بسترپرلیٹے ہوئے اورحضرت عائشہ کی چادراوڑھے ہوئےتھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اورحضرت عائشہ کی چادر اوڑھے رہے اوران سے اپنی حاجت بیان کی پھرحضرت عمرنے اجازت چاہی آپ نے ان کوبھی حکم دیااوراسی حالت پررہے اورانھوں نے بھی اپنی حاجت بیان کی اورلوٹ گئےپھرمیں نے آپ سے اجازت چاہی پس آپ (اٹھ کر)بیٹھ گئے اورحضرت عائشہ سے فرمایاکہ اپنا کپڑااوڑھ لوپھرمیں نے اپنی حاجت آپ سے بیان کی اورواپس آیا حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا یا رسول اللہ میں نے آپ کو نہیں دیکھاکہ آپ ابوبکروعمرکے واسطے اٹھ کربیٹھ گئے ہوتے جس طرح کہ حضرت عثمان کے لیے آپ اٹھ بیٹھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ عثمان ایک باحیا شخص ہیں اورمیں اندیشہ کرتاہوں کہ اگران کو اسی حالت میں اجازت دے دوں تووہ اپنی حاجت مجھ سے نہ بیان کریں گےاورلیث نے کہاکہ بہت سے راویوں نے یہ کہاہے کہ حضرت نے یہ جواب دیا کہ کیااس سے شرم نہ کروں جس سے ملائکہ شرم کرتے ہیں۔
۱؎یعنی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کاقریش کواورقریش میں سے بنی ہاشم کو زیادہ محبوب رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ امام وقت کواپنی قوم سے محبت کرنا شرعاً ؟ایسی چیزہے اسی وجہ سےمیں اپنی قوم بنی امیہ کومحبوب رکھتاہوں لوگ حضرت عثمان پر یہ اعتراض بھی کرتے تھے کہ وہ اپنی قوم کوترجیح دیتے ہیں ۱۲۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافتہم کومسمار بن عمربن عویس اورابوالفرح یعنی محمد بن عبدالرحمن واسطی اوران کے سوا بہت سے لوگوں نے اپنی سند کومحمد بن اسمعیل نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے ابوعوانہ نے حصین سےانھوں نے عمروبن میمون سے نقل کرکےبیان کیاکہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوزخمی ہونے سے چند روزپیشتر مدینہ میں دیکھاکہ آپ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف کے پاس تشریف لائے اورفرمایاکہ تم دونوں کی کیارائے ہے کیا(معاملہ خلافت میں تمھاراخیال یہ ہے کہ)زمین پرتم نے ایسابارڈالاجس کی وہ متحمل نہ تھی ان دونوں نے کہاکہ (نہیں بلکہ)ہم نے ایسابوجھ لاداکہ جس کی وہ طاقت رکھتی ہےاورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے قصہ کوبیان کیا راوی نے کہا لوگوں نے حضرت عمرسے کہایاامیرالمومنین خلیفہ کرنے کی آپ وصیت کردیجئےحضرت عمرنے فرمایاکہ میں کسی کو اس امرمیں ان لوگوں یاگروہ سے زیادہ حقدار نہیں پاتا ہوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اوران سے (زیادہ)خوش تھے۔علی اور عثمان اور زبیراورطلحہ اورسعدیاعبدالرحمن کانام بتایا اورفرمایاکہ عبداللہ بن عمربھی تمھارے پاس حاضر رہا کرے گامگراس کو خلافت سے کوئی تعلق نہ ہوگایہ کلمہ محض حضرت عبداللہ بن عمرکی تسکین کے لیے فرمایاپس اگرخلافت سعد کوملے تووہ اس کےقابل ہیں ورنہ جوشخص تم میں خلیفہ ہوان سے مدد لیتارہےکیوں کہ میں نے ان کوکسی خرابی اورخیانت کی وجہ سے نہیں معزول کیااور یہ بھی کہا کہ میں اپنے بعدکے خلیفہ کومہاجرین اولین کے حقوق پہچاننےاوران کی حرمت کی حفاظت کرنے کی وصیت کرتاہوں اورانصارکے ساتھ نیکی کرنے کی وصیت کرتاہوں جنھوں نے ان سے پہلے ہی مدینہ میں سکونت اختیارکی تھی کہ ان کے محاسن توقبول کرلے اوران کی برائیوں سے چشم پوشی کرلے۔اوراس کومیں تمام رعایاکے ساتھ نیکی کرنے کی وصیت کرتاہوں کیوں کہ وہ اسلام کے مددگارہیں اورمال حاصل کرنے کے ذریعہ ہیں اوردشمنوں کے غصہ کا سبب ہیں کہ ان سے کچھ نہ لیا جائےسوااس کے جوان کی حاجت سے زیادہ ہووہ بھی ان کی خوشی سے اوربدووں کے ساتھ نیکی کرنے کی وصیت کرتاہوں کیوں کہ وہ عرب کی اصل اوراسلام کے مادہ ہیں اورمنجملہ اس کے یہ ہے کہ ان کے زائد مال سے زکوۃ لی جائے اوران کے فقیروں کودے دی جائےاورمیں خلیفہ کواللہ کے ذمہ اوراس کے رسول کے ذمہ کی وصیت کرتاہوں اوریہ کہ وہ لوگوں کے معاہدوں کوپوراکرے اوریہ کہ ان کے ہمراہ جہادکرے اورلوگوں کو ان کی طاقت بھرتکلیف دے جب حضرت عمرکی وفات ہوگئی اورہم جنازہ لے کے نکلے(اورجنازہ حجرۂ نبوی کے قریب پہنچ گیاتو)عبداللہ بن عمرنےسلام کیااورکہاعمربن خطاب اجازت مانگتاہے حضرت عائشہ نے کہاکہ تم لوگ ان کو داخل کرو(یعنی حجرہ میں دفن کرو)پس لوگوں نے ان کوداخل کیااوران کے دونوں دوستوں کے ساتھ دفن کیا۔جب ان کے دفن سے فراغت ہوئی تویہ لوگ (ایک جگہ)جمع ہوئے اور عبدالرحمن نے کہا کہ تم اپنے کام کواپنے میں سے تین شخصوں کے سپرد کرو۔زبیرنےکہا کہ میں نے اپنے کام کوعلی کے سپرد کیاطلحہ نے کہامیں نے عثمان کے سپردکیاسعد نے کہامیں نے عبدالرحمن کے سپردکردیا۔ عبدالرحمن نے کہاتم میں سے کون خلافت سے بری ہوتاہے کہ ہم اس امرخلافت کو اس کے سپرد کردیں اوراس کواللہ کی قسم اوراسلام کی قسم کہ جو سب سے افضل ہو اسی کو خلیفہ بنائے (یہ سن کر) طلحہ وزبیرچپ ہورہے عبدالرحمن نے کہاکہ کیاتم لوگ امرخلافت کومیرے حوالہ کرتے ہو خدا کی قسم جوشخص میرے نزدیک افضل ہوگااسی کومیں خلیفہ بناؤں گادونوں نے اس کومنظورکرلیاپس عبدالرحمن نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑکے کہاکہ تم کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت اور اسلام کی قدامت کاشرف حاصل ہے پس میں تم کو خداکی قسم دلاتاہوں کہ اگرمیں تم کوخلیفہ بنادوں توتم عدل کرنااوراگرعثمان کوخلیفہ بنادوں توتم ان کی اطاعت کرنا بعد اس کے حضرت عثمان سے ایساہی کہا جب دونوں سے عہد لے چکے توکہاکہ اے عثمان اپناہاتھ اٹھائیےاورانھوں نے حضرت عثمان کے ہاتھ پربیعت کی۔حضرت عثمان کی بیعت خلافت بروزشنبہ غرہ محرم۲۴ھ ہجری میں حضرت عمرکی تدفین کے تین دن بعد ہوئی یہ ابوعمرکاقول ہے۔
حضرت عثمان کی شہادتحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت مدینہ میں جمعہ کے دن سترہ یااٹھارہ تاریخ ذی الحجہ ۳۵ھ میں ہوئی تھی اس کونافع نےبیان کیاہے اور ابوعثمان نہدی نے بیان کیاہے کہ ایام تشریق (یعنی ۹۔۱۰۔۱۱۔۱۲۔۱۳ذی الحجہ)کے وسط میں شہادت ہوئی تھی اورواقدی نے کہاہے کہ ان کی شہادت جمعہ کے دن ذی الحجہ کی آٹھ راتیں گذرکریوم ترویحہ(یعنی ۸ ذی الحجہ)۳۵ھ ہجری میں ہوئی تھی بعض نے کہاہے کہ جمعہ کے دن دورات ذی الحجہ باقی رہے شہادت ہوئی تھی واقدی کہتے ہیں کہ آپ کولوگوں نے انچاس روزمحصوررکھازبیرنے کہاہے کہ دوماہ بیس یوم محصوررکھا۔ہم کو عبدالوہاب بن ہبتہ اللہ نے اپنی سندکوعبداللہ بن احمد تک پہنچاکرخبردی وہ کہتے تھےمجھ سے میرے والدنےبیان کیا وہ کہتےتھےہم سے اسحق بن عیسیٰ طباع نے ابومعشر سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھےحضرت عثمان جمعہ کے دن اٹھارہویں ذی الحجہ کے گذرنے کے بعد۳۵ھ ہجری میں شہید ہوئے اور ان کی خلافت بارہ دن کم بارہ برس رہی تھی اوربعض نے کہاہے کہ گیارہ برس گیارہ ماہ چوبیس روز خلافت رہی راوی نے کہااورہم سے عبداللہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے یونس نے ابوالیعفور عبدی سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عثمان بن عفان کے غلام ابوسعید سے نقل کرکے بیان کیاہے وہ کہتےتھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محصورہونے کی حالت میں بیس غلاموں کو آزاد کیااورایک پائجامہ منگاکرپہنااس سے پہلےانھوں نے پائجامہ کا استعمال نہ کیاتھانہ زمانہ اسلام میں نہ زمانہ جاہلیت میں اورکہامیں نے آج شب کورسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کوخواب میں دیکھاہے اور حضرت ابوبکر اورعمرکوبھی دیکھاوہ مجھ سے کہتےتھے صبرکرو کیوں کی شام کوہمارے پاس افطارکرو گے۔پھرحضرت عثمان نے کلام اللہ کواپنے سامنے کھولا(اورقرات شروع کی)پس جب شہید ہوئے تو قرآن پاک ان کے سامنے تھا۔ہم کوابراہیم بن محمداوران کے علاوہ بہت لوگوں نے اپنی سندکو ابوعیسیٰ تک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھے ہم سے محمودبن غیلان نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے حجیر بن مثنیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے لیث بن سعد نے معاویہ بن صالح سے انھوں نے ربیعہ بن یزید سے انھوں نےعبداللہ بن عامر سے انھوں نے نعمان ابن بشیرسےانھوں نے حضرت عائشہ سے نقل کرکےبیان کیاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایااے عثمان امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کوایک لباس (یعنی لباس خلافت)پہنائیگاپس اگرلوگ تم سے وہ لباس اتارنا چاہیں توہرگزنہ اتارنا۔نیز ہم کواحمد بن عثمان بن علی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابورشید یعنی عبدالکریم بن احمد بن منصور نے خبردی وہ کہتے تھے ہم کوابومسعود یعنی سلیمان نے خبردی وہ کہتےتھے ہم کو ابوبکر بن مردویہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہم کوابوعلی بن شاذان نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے عبداللہ بن اسحاق نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے محمدبن غالب نےبیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے فضل ابن جبیروراق نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے خالد بن عبداللہ نے عطاء بن سائب سے انھوں نے سعید بن جبیرسے انھوں نے ابن عباس سے نقل کرکے بیان کیاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان سے فرمایاتم مظلومیت کی حالت میں قتل کیے جاؤگےاور تمھارے خون کا قطرہ(آیت)فسیکفیکہم اللہپرگرےگاحضرت ابن عباس کہتےتھے کہ ان کے مصحف میں اس آیت پراب تک خون کانشان ہے جب حضرت عثمان گھرگئے اورمحاصرہ (کازمانہ)طویل ہوگیااورجن لوگوں نےان کامحاصرہ کیاتھاوہ مصری اوربصری اورکوفی تھےاوران کی ساتھ میں بعض اہل مدینہ بھی تھےان لوگوں نے یہ ارادہ کیاتھاکہ ان سے خلافت نکل جائے مگریہ نہ کرسکے اور(اس بات سے)ڈرے کہ ان کے پاس شام اوربصرہ وغیرہ سے لشکر آجائے اورحجاج آجائیں اورسب کوہلاک کردیں پھر حضرت عثمان کو انھوں نےگھیرلیااور ان کوقتل کیا رضی اللہ عنہ وارضاہ ہم نے ان کی شہادت اورخلافت اورتمام فتوحات اوران کے حالات اورجواعتراضات ان پر کیے گئے تھے ان کی کیفیت اوریہ کہ کس شخص نے ان پربغاوت کی ترغیب دی بہ تفصیل اپنی کتاب تاریخ کامل میں بیان کی ہے۔پس ہم (کوئی وجہ)نہیں دیکھتے ہیں کہ اس ذکرسےیہاں طوالت دیں۔اورجب آپ شہید ہوگئے تورات کودفن ہوئےاوران کے جنازے کی نمازجبیربن مطعم نے پڑھی تھی بعض لوگوں نے کہاہے کہ حکیم بن حزام نے اوربعض نے کہاہے مسوربن محزمہ نے پڑھی تھی بعض لوگوں نے کہا کہ ان پرکسی نے نمازنہیں پڑھی(کیوں کہ) باغیوں نے نماز سے منع کیاتھاحش کوکب میں بمقام بقیع دفن ہوئے حش کوکب کوحضرت عثمان نے مول لے کر بقیع میں زیادہ کردیاتھا۔اورعبداللہ بن زبیران کے دفن کے واسطے آئے اور ام النبیین بنت عینیہ بن حصن فزاریہ اورنائلہ بنت فرافصہ کلبیہ ان کی دونوں بیبیاں موجودتھیں۔جب ان کو قبرمیں لے چلےتوان کی بیٹی عائشہ چلائیں ان سے زبیرنے کہاچپ رہ ورنہ میں تجھ کوقتل کرڈالوں گا جب حضرت عثمان کوانھوں نے دفن کردیاتوعائشہ سے کہااب رو جب تک رونے کوجی چاہے ہم کو ابویاسربن ابی حبہ نے اپنی سندکوعبداللہ بن احمد تک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھے مجھ سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے جریرنے جریرسے انھوں نے ام موسیٰ سے نقل کرکے بیان کیا وہ کہتی تھیں کہ حضرت عثمان نہایت خوبصورت تھے اوربعض نے کہاہے کہ میانہ قدتھےنہ ٹھنگنے تھے نہ لمبے تھےخوبصورت تھےپتلاچہرہ تھاداڑھ بڑی تھی گندمی رنگ تھا بال بہت تھے ان کے تمام اعضا فربہ تھے۔اپنی داڑھی کوزردرنگتے تھے اپنے دانتوں کو سونے کے تارسے بندھواتے تھے۔ ان کی عمر بیاسی برس کی تھی بعض نے کہاہے کہ چھیاسی برس کی تھی اس کوقتادہ نے بیان کیاہے اوریہ بھی کہا گیاہے کہ نوے برس کی تھی بہت سے شاعروں نے ان کامرثیہ کہاچنانچہ حسان بن ثابت نے کہاہے؎
۱؎ من سرہ الموت صرفالامزاج لہ فلیات مادبتہ فی دار عثمانا
ضحواباشمط عنوان السجودبہ یقطع اللیل تسبیحا وقراناً
صبرافدالکم امی وماولدت قد ینفع الصبر فی المکروہ احیانا
لتسمعن وشبکافی دیارہم اللہ اکبرباثارات عثمانا
۱؎ترجمہ جس کو خالص موت دیکھنے کی آرزو ہوکہ اس میں اورکسی چیزکی آمیزش نہیں ٘اس کو چاہیےکہ عثمان کے گھرجائے ٘لوگوں نے ایک ایسے شخص کوذبح کرڈالا جس کی پیشانی پرسجدہ کے نشان تھے٘اوروہ تمام رات تسبیح وتلاوت میں بسرکرتاتھا٘اے مسلمانوصبرکرو تم پرمیری ماں اوربھائی فداہوجائیں٘ مصیبت کے وقت صبراکثرنفع دیتاہے ٘یقیناًتم ضرور ان کے شہروں میں تاخت وتاراج کی خبرسنوگے ٘اللہ اکبرعثمان کے خون کاانتقام لیاجائےگا۱۲۔
بعض اہل شام نے اس مرثیہ میں اورشعربڑھائے ہیں ان کے بیان کی کوئی حاجت نہیں چنانچہ اس میں ایک شعریہ بھی ہے ؎
۱؎ یالیت شعری و لیت الطیرتخبرنی ماکان بین علی وابن عفانا
یہ اشعار ان لوگوں نے صرف اس لیے بڑھائےتھے تاکہ لوگوں کوحضرت علی سے لڑنے کی ترغیب ہواوران کے اس خیال کوقوت پہنچے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کوعلی رضی اللہ عنہ نے قتل کیاہے نیز حسان نے یہ اشعار بھی کہے ہیں ؎
۲؎ ان تمس دارنبی عفان موحشہ باب صریع وباب محرق حزب
فقد یصادف باغی الخیر حاجتہ فیہا وبادی الیہاالجودو الحسب
اورقاسم بن امیہ بن ابی الصلب نے کہاہے ؎
۳؎ لعمری لبئس الذبح ضحینہم خلاف رسول اللہ یوم الاضاحیا
ان دونوں کے علاوہ اورشاعروں نے بھی مرثیہ کہاہےہم اس کے بیان سے طول نہ دیں گے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
۱؎ترجمہ۔کاش مجھے معلوم ہوجاتا کوئی پرندہ مجھے بتادیتا ٘کہ علی اورعثمان کے درمیان کیاواقعات پیش آئے۱۲۔
۲؎ترجمہ۔گوعفان کی اولاد کے گھراب وحشت ناک ہورہے ہیں ٘کوئی دروازہ گراہواہے اورکوئی جلاہوا ٘مگراب بھی حاجت مندوں کی وہاں حاجت روائی ہوتی ہے ٘اورجودوحسب وہیں پناہ لیتاہے۱۲۔
۳؎ ترجمہ۔قسم اپنی جان کی اے لوگوتم نے بری قربانی کی ٘رسول اللہ کے بعدقربانی والے دن۱۲۔