سیّدنا عثمان ابن مظعون رضی اللہ عنہ
سیّدنا عثمان ابن مظعون رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن جمح بن عمروبن ہصیص بن کعب بن لوی بن غالب قریشی جمحی ہیں ۔ان کی کنیت ابوسائب تھی۔سخیلہ بنت عنبس بن اہیان بن حذافہ بن جمح ان کی والدہ تھیں اوریہی سائب بن مظعون اورعبداللہ بن مظعون کی والدہ تھیں یہ عثمان اول(زمانہ) اسلام (میں)اسلام لائے تھے ابن اسحاق نے کہاہے کہ عثمان بن مظعون تیرہ آدمیوں کے بعد اسلام لائے تھے انھوں نے اوران کےبیٹے سائب نے مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ حبش کی طرف ہجرت کی تھی یہ پہلی ہجرت تھی۔عثمان حبش ہی میں تھے کہ ان کوخبرپہنچی کہ قریش اسلام لے آئے پس یہ واپس چلے آئے۔ہم کوابوجعفر بن سمین نے اپنی سندکویونس بن بکیرتک پہنچاکر ابن اسحاق سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے جب ان لوگوں کوجوکہ حبش میں تھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اہل مکہ۱؎کے سجدہ کرنے کی خبرپہنچی تووہ لوگ وہاں سے چل نکلے اوران کے ساتھ اورلوگ بھی تھےاورخیال یہ کرتے تھےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب نے پیروی کرلی جب مکہ سےقریب ہوگئے توان کی خبران لوگوں کو(اچھی طرح سے)ملی(اب)ان کوحبش جاناگراں گزرا اورمکہ میں بغیر دینے والے کے داخل ہونے سے خائف ہوئے(اسی پس وپیش میں)وہیں پر ٹھہرگئےیہاں تک کہ ان میں سے ہرایک بعض اہل مکہ کی امان میں مکہ کے اندرداخل ہوا۔عثمان بن مظعون ولیدبن مغیرہ کی امان میں آئے ابن اسحٰق نے کہاہے کہ مجھ سےصالح بن ابراہیم ابن عبدالرحمن بن عوف نے اپنے والد سےانھوں نے اس شخص سے نقل کرکے بیان کیاہے جس نے بیان کیاکہ جب عثمان نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب کو تکلیف پہنچتی ہے اور یہ ولید بن مغیرہ کے امان میں رات دن(چین سے بسر)کرتے ہیں عثمان نے کہاخداکی قسم میری صبح و شام ایک مشرکہ کی امان میں امن کے ساتھ گذرتی ہے اورمیرے دوستوں اور میرے اہل بیت کو اللہ کی راہ میں تکلیف اوراذیت پہنچ رہی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ مجھ میں کوئی سخت نقص ہے پس یہ ولید بن مغیرہ کے پاس گئے اورکہا کہ تمھاراذمہ پوراہوگیاکیوں کہ میں تمھاری امان میں تھااب یہ چاہتاہوں کہ یہاں سے نکل کررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس جاؤں مجھ کو ان کی اوران کے اصحاب کی پیروی(لازم)ہےولید نے کہا شاید اےبھتیجے تم کوکوئی تکلیف پہنچی یاتمھاری بے حرمتی کی گئی عثمان نے کہانہیں لیکن میں اللہ کی امان سے راضی ہوں اور میں یہ نہیں چاہتا کہ اس کے سوائے دوسروں سے امن چاہوں ولیدنے کہاکہ تم مسجدچلواور(وہیں)میرے امان مجھ پراعلانیہ پھیردو عثمان نے کہاچلوپس دونوں گھرسے نکل کرمسجد کی طرف چلے(وہاں پہنچ کر)ولیدنے کہایہ عثمان بن مظعون (یہاں اس واسطے)آئے ہیں کہ مجھ پر امان کوپھیردیں عثمان نےکہاکہ سچ ہےمیں نے ولید کی امان کوولیدپرواپس کیا پھرعثمان بن مظعون اورلبیدبن ربیعہ بن جعفربن کلاب قیسی قریش کی مجلس میں گئے اوران کے ساتھ عثمان بیٹھے لبید نے یہ شعران کوپڑھ کرسنایا کہ خبردارہوجاؤ اللہ کے سوائے سب چیزیں باطل ہیں عثمان نے کہاکہ تم سچے ہو۔پھرلبید نے کہا کہ ہرنعمت کو ضروری زوال ہےعثمان نے کہاتوتم جھوٹے ہو۔لوگوں نے انکی طرف پھرکردیکھااورلبیدسے کہاکہ تم یہ شعر پھر پڑھو لبید نے پھرپڑھا عثمان نے بھی پھراس کے ایک مصرعہ کی تصدیق کی اورایک کی تکذیب کی اور کہاکہ جنت کی نعمت کوزوال نہیں ہے لبیدنے کہاخداکی قسم اے گروہ قریش تمھاری محفلیں تو ایسی (خراب طریقہ سے)نہ تھیں(آ ج کیاہوگیا)پس ان میں سے ایک احمق کھڑاہوا اوراس نے عثمان بن مظعون کوایک طمانچہ ماراجس کی وجہ سے ان کی آنکھ نیلی ہوگئی پس جوعثمان کے گرد(بیٹھے ہوئے)تھے انھوں نےکہااے عثمان بیشک تم ایک مضبوط پناہ میں تھے اورتمھاری آنکھ اس سے محفوظ تھی جو(اس وقت) تم کو(مصیبت)پہنچی ہے عثمان نے کہااللہ کی امان زیادہ مضبوط اورباعزت ہےاورمیری دوسری آنکھ بھی اس مصیبت کی آرزومندہے جواس آنکھ کوپہنچی مجھ کورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اورجوایمان لاکران کے ساتھ ہیں ان کی پیروی لازم ہے ولید نے کہاکہ میری امان میں (رہنے سے)تمھارا کیا(حرج )ہے۔عثمان نے کہاکہ اللہ کی امان کے سواکسی کی امان کی حاجت نہیں ہے پھرعثمان نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔یہ غزوۂ بدرمیں شریک تھےیہ عبادت میں تمام لوگوں سے زیادہ کوشش کرتے تھے۔یہ دن کوروزہ رکھتے تھے اوررات کو عبادت کرتے تھے خواہشات (نفسانی)سے پرہیز رکھتےتھے اورعورتوں سے کنارہ کشی رکھتے تھے انھوں نے ترک دنیا اور خصی کرادینے کی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تھی مگرآپ نے اس سے منع کیا۔ یہ ان شخصوں میں ہیں جنھوں نے اپنی ذات پرشراب کو(پہلے ہی سے)حرام کیاتھا۔اوریہ بھی کہاتھاکہ میں شراب نہ پیوں گا(کیوں کہ)میری عقل جاتی رہتی ہے اورمجھ سے کم درجہ کے لوگ مجھ پرہنستے ہیں یہ مہاجرین میں اول شخص ہیں جنھوں نے مدینہ میں وفات پائی۲ھ ہجری میں ان کی وفات ہوئی تھی۔بعض لوگوں نے بیان کیاہے کہ غزوۂ بدرکی شرکت کے ایک سال دس مہینہ بعد ان کی وفات ہوئی تھی۔یہ پہلے شخص ہیں کہ بقیع میں دفن ہوئے۔ہم کوابراہیم بن محمد بن مہران وغیرہ نے اپنی سندکومحمد بن عیسیٰ تک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھےہم سے محمد بشار نے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے سفیان نے عاصم بن عبیداللہ سے انھوں نے قاسم بن محمد سے انھوں نے حضرت عائشہ سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون کی نعش کوبوسہ دیااورآپ رورہے تھے۔آپ کی دونوں آنکھوں سے اشک جاری تھے اورجب ابراہیم فرزند رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے(ان سے مخاطب ہوکر)فرمایاکہ خلف صالح یعنی عثمان بن مظعون سے جا کرمل جاؤاورایک روایت میں ہے کہ یہ جملہ آپ نے اپنی صاحبزادی زینب علیہ السلام کے واسطے فرمایاتھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان کی قبرپرایک پتھرنشانی کے لیے رکھ دیاتھااوران کی قبر پر تشریف لےجایاکرتےتھےحضر ت ابن عباس نے روایت کی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عثمان بن مظعون کی نعش کے پاس تشریف لے گئے اوران کے اوپرجھکےپھرسراٹھایاپھردوبارہ جھکے بعد اس کے سراٹھالیاپھرسہ بارہ جھکے بعداس کے سراٹھایااوربلندآواز سے فرمایاکہ اے ابوالسائب اللہ تم سے درگزرکرےتم دنیاسے اس حال میں گئے کہ دنیاکی کسی چیزسےآلودہ نہیں ہوئے حضرت ابن عباس سے روایت ہے ک جب عثمان بن مظعون کی وفات ہوئی تو ان کی بی بی نے کہا کہ جنت تم کو مبارک ہوتورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف غصہ سے دیکھااورفرمایاکہ تم کویہ کیونکر معلوم ہواانھوں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ وہ آپ کے سواراوررفیق تھے حضرت نے فرمایا باوجودیکہ میں خداکارسول ہوں مگرمیں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیامعاملہ کیاجائے گا اس عورت کی بابت اختلاف ہے جس نے ایساکہاتھابعض لوگوں کابیان ہے کہ وہ انھیں کی بی بی ام سائب تھیں اوربعض کاقول ہے کہ وہ ام علاء انصاریہ تھیں جن کے یہاں وہ رہتےتھے اوربعض کابیان ہے کہ وہ ام خارجہ بنت زیدتھیں۔ان کی بی بی نے ان کے مرثیہ میں یہ اشعارکہےتھے ؎
۲؎ یاعین جودی بدمع غیرممنون علٰی رزیتہ عثمان بن مظعون
علٰی امرء بات فی رضوان خالقہ طوبیٰ لہ من فقیدالشخص مدفون
طاب البقیع لہ سکنٰی وغرقدہ واشرقت ارضہ من بعد تعیین
واورث القلب حزنالاانقطاع لہ حتی الممات فماترقیٰ لہ شونی
ام علاء کہتی تھیں میں نے خواب میں دیکھاکہ عثمان بن مظعون کےلیے ایک نہرجاری ہے پس میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کوجاکراس کی خبردی آپ نےفرمایاکہ یہ ان کے اعمال نیک کا ثمرہ ہے۔ان کاتذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
۱؎یہ واقعہ اس طرح پرہے کہ ایک مرتبہ کفارقریش جمع تھے آپ نے ان کو سورۂ والنجم سنائی اثنائے تلاوت میں شیطان نے بتوں کی تعریف کچھ ایسے لہجہ میں بیان کی کہ کفارسمجھے یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کررہے ہیں لہذا سورۂ والنجم میں جب حضرت سجدہ کرنے لگے توسب نے آپ کے ہمراہ سجدہ کیابعدکوجب حضرت کو یہ کیفیت معلوم ہوئی تو حضرت نے فرمایا کہ یہ جملہ میرانہ تھا میں نے نہیں کہااس پرسب کافرپھرخلاف ہوگئے۱۲۔
۲؎ ترجمہ۔اے آنکھ جاری کرآنسوجن کاسلسلہ قطع نہ ہو٘حادثہ پرعثمان بن مظعون کے٘ ایسے شخص کے حادثہ پرجواپنے خالق کی رضامندی میں شب بسرکرتاتھا ٘خوشخبری ہواس کے لیے جسم اس کادفن ہوچکاہے ٘بقیع اوراس کا گورستان پاکیزہ ہوگیا ٘زمین اس کے دفن سے روشن ہوگئی٘ اس کی وفات نےقلب کوایساصدمہ دیاہے جوموت تک منقطع نہ ہوگا ٘اورمیری یہ حالت نہ بدلے گی۱۲۔
(ااسد الغابۃ جلد بمبر 6-7)