بن جذام: جعفر مستغفری نے ان کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان سے مروی حدیث کے اسناد کچھ اشتباہ ہے، اور انہوں نے باسنادہ یحییٰ بن سعید اموی سے انہوں نے کلبی سے، انہوں نے ابو صالح سے، انہوں نے ابن عباس سے روایت کی، کہ ابو البابہ بن عبد المنذر، وداعہ بن جذام یا حرام اور اوس بن ثعلبہ، غزوہ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ دے سکے۔ جب انہیں اس باب میں ان آیات کا علم ہوا، جو ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں کے ساتھ باندھ لیا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ان لوگوں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود انہیں نہیں کھولیں گے۔ یہ اسی حالت میں رہیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک مجھے جناب باری سے کوئی حکم موصول نہیں ہوگا میں بھی کچھ نہیں کروں گا۔
جب قرآنِ حکیم کی یہ آیت ’’خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحاً وَآَخَرَ سیاً عَسَی اللہ ان یتُوبَ عَلَیْہم‘‘ نازل ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھول دیا بعدہ یہ لوگ اپنا مال و متاع اٹھا کر اس لیے لے آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے مساکین میں تقسیم فرمادیں کہ اسی مال کی کوشش نے انہیں اس مہم میں شرکت سے روکا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس سلسلے میں بھی خدائی ہدایت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اس پر مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی۔’’خُذْ مِنْ اَمَوالِہمْ صَدقَہَّ تُطَہّرھم وتَزکیہم بہا، وصَلِّ عَلَیہِمْ۔ اِنَّ صَلَوئکَ سَکنٌ لَہْم‘‘: اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ جعفر لکھتے ہیں کہ یہی قول کلبی کا ہے لیکن محدثین کے یہاں غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے والے حضرات کے نام ہلال بن امیہ، مرارہ بن ربیع اور رکعب بن مالک ہیں تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔