بن حجرہ بن ربیعہ بن وائل بن لعمیر الحضرمی۔ یہ ابو عمرو کا قول ہے ابو القاسم بن عساکر الدمشقی نے ان کا نسب یوں بیان کیا ہے: وائل بن حجر بن سعد بن مسروق بن وائل بن ضمعج بن وائل بن ربیعہ بن وائل بن نعمان بن زید بن مالک بن زید اور ایک اور روایت کے رو سے ان کا نسب یوں تھا: وائل بن حجر بن سعید بن مسروق بن وائل بن نعمان بن ربیعہ بن حارث بن عوف بن سعد بن عوف بن عدی بن مالک بن شرجیل بن مالک بن مرہ بن حمیر بن زید الحضرمی ابو ہنیدہ حضرمی، حضر موت کے سرداروں سے تھے، اور ان کا والد وہاں کے ملوک سے تھا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے آنے سے کئی دن پیشتر ہی صحابہ کرام کو ان کے آنے کی بشارت دے دی تھی کہ عنقریب حضر موت کا حاکم اللہ اور رسول کی خوشنودی کی خاطر حلقۂ اسلام میں شامل ہونے کے لیے آنے والا ہے۔
جب وائل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خوش آمدید کہا اپنی چادر بچھا کر اس پر انہیں بٹھایا اور ان کے لیے اور ان کی اولاد کے لیے دعائے خیر فرمائی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر موت کے سرداروں کا انہیں حاکم اعلیٰ مقرر فرمادیا۔ اور وہاں انہیں جاگیر عطا کی اور معاویہ بن ابو سفیان کو ان کے ساتھ روانہ کردیا اور حکم دیا، کہ ی جاگیر معاویہ بن سفیان کر دے دینا۔
معاویہ بن سفیان نے وائل سے کہا کہ چونکہ گرمی سخت ہے اس لیے مجھے اپنے پیچھے بٹھالو وائل نے کہا تم بادشاہوں کے حاشیہ نشینوں میں سے نہیں ہو۔ انہوں نے کہا۔ اپنے جوتے ہی مجھے دے دو وائل نے کہا اونٹنی کے سایے سے کام لو انہوں نے کہا یہ ناکافی ہے۔
وائل نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی کہ جب میرے اہل قبیلہ کو علم ہوا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں تو وہ مجھے نکال باہر کریں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گھبراؤ مت میں تمہیں اس سے دُگنا دوں گا۔
قبول اسلام کے بعد وائل کوفے میں قیام پذیر ہوگئے اور امیر معاویہ کےعہد حکومت تک وہیں ٹھہرے رہے اس دوران میں امیر معاویہ کے دربار میں حاضر ہوئے تو انہوں نے جنابِِ وائل کو اپنے ساتھ تخت پر جگہ دی اس وقت انہیں خیال آیا کاش میں نے انہیں اس موقعہ پر اونٹنی پر اپنے آگے بٹھایا ہوتا جنگ صفین میں وائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور اپنے قبیلے کا جھنڈا ان کے پاس تھا۔
ان کے دونوں بیٹوں علقمہ اور عبد الجبار نے ان سے احادیث نقل کی ہیں ایک روایت کے رو سے عبد الجبار نے اپنے والد سے کوئی حدیث روایت نہیں کی بلکہ کلیب بن شہاب جرمی اور ان کی بیوی ام یحییٰ کے علاوہ ابراہیم بن محمد بن عیسیٰ سے انہوں نے بندار سے انہوں نے یحییٰ بن سعید اور عبد الرحمان بن مہدی سے انہوں نے سفیان سے انہوں نے سلمہ بن کہیل سے انہوں نے حجر بن عبس سے انہوں نے وائل بن حجر سے روایت کی کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۂ فاتحہ پڑھتے سنا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر المعضوب علیہم والضالین کے بعد آمین کہی۔ اور مد پڑھتے وقت اپنی آواز کو اونچا کیا۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔