بن قیس بن ابان الثقفی: سفیان کے بھائی تھے۔ ان کی حدیث کو امیمہ دختر رقیقہ نے اپنی والدہ کی سند سے یوں بیان کیا کہ جب طائف کو فتح کرنے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو ان کے گھر بھی تشریف لے گئے اور رقیقہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ستو پلائے آپ نے فرمایا اے رقیقہ اہل طائف کے بت کی کبھی عبادت نہ کرنا، اور نہ اس کے سامنے جھکنا اس نے جواب دیا اگر میں ایسا کروں، تو مجھے قتل کردیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ پوچھیں کہ تیرا رب کون ہے، تو کہنا جو اس بت کا رب ہے وہی میرا رب ہے اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ اٹھالیا اور واپس ہولیے۔
امیمہ کہتی ہیں کہ جب بنو ثقیف نے اسلام قبول کرلیا، تو ان کے بھائیوں سفیان اور وہب نے اپنی ہمشیرہ کو بتایا کہ جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ہماری والدہ کے بارے میں دریافت فرمایا ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! جس حالت میں آپ اُسے چھوڑ آئے تھے، اسی حالت میں مری ہے فرماا اگر صورتِ حال یہ ہے تو وہ اسلام لاکر مری۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔