بن اسلت: اسلت کا نام عامر بن حبشم بن دائل بن زید بن قیس بن عامر بن مرہ بن مالک انصاری تھا۔ وحوح رضی اللہ عنہ ابو قیس شاعر کے بھائی تھے، جو مسلمان نہیں ہوا تھا زبیر نے اپنے چچا سے، انہوں نے عبد اللہ بن محمد بن عمارہ سے روایت کی کہ وحوح کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی وہ غزوۂ خندق اور بعد کے تمام غزوات میں شریک رہے۔ اور جب وہ ابو عامر راہب کے ساتھ مکہ کو روانہ ہوئے تو ابو قیس نے ان کے بارے میں مندرجہ ذیل اشعار کہے:
وحوما ادی ولی علی بودہ
|
|
وکان امروٌ من حضر موت غریب
|
ترجمہ: وحوح میری محبت کو رو کرکے چلا گیا۔ اور حالانکہ ابو عامر راہب، حضر موت کا ایک اجنبی تھا۔
کانی امروٌ ولی وُدَّبیننا
|
|
وانت حبیب فی الفوادِ قریب
|
ترجمہ: وحوح مجھ سے اس انداز سے علیحٰدہ ہوا۔ گویا ہم میں محبت تھی ہی نہیں حالانکہ تو میرے دل کے قریب ہے۔
وان نبی العلات قوم وائنی
|
|
اخوک فلا یکذبک عنک کذوب
|
ترجمہ: بلاشبہ قبیلے کے لوگ ہمارے بھائی بند ہیں لیکن میں تو تمہارا بھائی ہوں اور کوئی بھی اس کی تکدیب نہیں کرسکتا۔
اخوک اذا تاتیک یوماً عظمیۃ
|
|
تحملہا والسّائبات تبوب
|
ترجمہ: جب تجھے تکالیف پیش آئیں گی، تو تیرا بھائی ہی انہیں برداشت کرے گا۔ اور تکالیف آتی ہی رہتی ہیں۔
کہا جاتا ہے، کہ ابو قیس بن اسلت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے روانہ ہوا، کہ اسے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے کہا بخدا تونے بنو خزرج کی تلواروں کو رسوا کردیا ہے۔ یہ سن کر اس نے کہا واللہ میں اس سال اسلام قبول نہیں کروں گا۔ چنانچہ وہ اسی سال کے دوران میں مرگیا۔ ابو عمر نے وحوح کا ذکر کیا ہے۔