سیّدنا وحشی رضی اللہ عنہ
سیّدنا وحشی رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن حرب الحبشی ابو دسمہ: یہ مکہ کے حبشیوں میں سے تھے اور طعیمہ بن عدی اور یا جبر بن مطعم کے آزاد کردہ غلام تھے، انہوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو احد میں اور مسلیمہ کذاب کو جنگ یمامہ میں قتل کیا تھا اور کہا کرتے کہ میں نے بحالتِ کفر خیر الناس کو اور بحالتِ اسلام شر الناس کو قتل کیا ہے۔
عبد اللہ بن احمد نے باسنادہ یونس سے اس نے ابن اسحاق سے روایت کی کہ، عبد اللہ بن فضل نے سلیمان بن یسار سے، انہوں نے جعفر بن امتیہ القمری سے بیان کیا، کہ میں اور عبید اللہ بن عدی امیر معاویہ کے عہدِ امارت میں گھومنے پھرنے کو نکلے، جب ہم واپسی پر حمص میں، جہاں وحشی بن حرب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل سکونت پذیر تھے۔ وارد ہوئے تو میرے رفیق سفر نے کہا۔ قاتل حمزہ رضی اللہ عنہ وحشی یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ آؤ ان سے دریافت کریں کہ قتل حمزہ کس طرح وقوعہ پذیر ہوا ہم نے ایک آدمی سے وحشی کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ اکثر اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا رہتا ہے، اور شراب سے مخمور رہتا ہے اگر اس نے شراب پی رکھی ہو، تو اس سے متعرض نہ ہونا اور اگر ہوش میں ہوا، تو تم سے ایک خوش اخلاق اور با مروت عرب کے روپ میں جلوہ گر پاؤ گے جب ہم ان کے مکان پر پہنچے، تو وہ صحن میں بیٹھے تھے ہم نے سلام کہا تو انہوں نے سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا اور کہنے لگے کیا تم عدی بن خیار کے بیٹے ہو عبید اللہ نے کہا، ہاں آپ کا اندازہ درست ہے کہنے لگے میں نے جب بچپن میں تجھے تیری دودھ پلائی سعدیہ کے سپرد کیا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک پھر نہیں دیکھا تھا اس دن تجھے میں نے ہی اس کے حوالے کیا تھا اور جب تجھے وادی ذی طوی میں اس کے سُپرد کیا تھا تو تیرے پاؤں چمک رہے تھے۔ آج تم جونہی میرے سامنے آئے، میں نے تمہیں پہچان لیا۔
بعدہ ہم نے اسے کہا، کہ ہم تم سے یہ پوچھتے آئے ہیں، کہ تم نے حمزہ بن عبد المطلب کو غزوۂ احد میں کیسے قتل کیا اس نے جواب دیا کہ میں تم سے یہ واقعہ اسی طرح بیان کروں گا جیسا کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بان کیا تھا۔
میں جبیر بن مطعم کا غلام تھا اور اس کا چچا طعیمہ بن عدی، غزوۂ بدر میں مارا گیا تھا جب لشکر قریش احد کی طرف روانہ ہوا۔ تو جبیر نے مجھ سے کہا، کہ اگر تم حمزہ عمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے میں کامیاب ہوجاؤ، تو تم آزاد ہو۔ چنانچہ میں بھی اور لوگوں کے ساتھ ہولیا میں میدان جنگ میں اسے ڈھونڈھتا پھرتا تھا دیکھا کہ بدمست اونٹ کی طرح لوگوں کی صفوں کو تلوار سے چیرتا پھرتا تھا۔ اور کوئی اس کے سامنے نہیں ٹھہرتا تھا میں اس کی تاک میں تھا اور پتھروں اور درختوں کی اوٹ میں چھپتا پھرتا تھا کہ مجھے دیکھ نہ لے چنانچہ سباع بن عبد العزی نے مجھے حمزہ کے آمنے سامنے کردیا۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو ماں کی گالی دی۔ کیونکہ وہ فاحشہ عورت تھی پھر میں نے اپنے نیزے کو جنبش دی اور جونہی موقعہ ملا، میں نے نیزہ اس انداز سے پھینکا، کہ اس کی ناف پر لگا اور دونوں ٹانگوں کے درمیان سے باہر نکل گیا میں نے نیزے کو اسی حالت میں رہنے دیا تاآنکہ حمزہ کا انتقال ہوگیا پھر میں نے اپنا نیزہ نکالا اور چونکہ مجھے اور کسی سے کوئی پر خاش نہ تھی اس لیے اپنے لشکر میں واپس آگیا اور جب واپس مکے پہنچا، تو مجھے آزادی مل گئی۔
جب مکہ فتح ہوگیا تو میں بھاگ کر طائف چلا گیا جب چند دنوں کے بعد اہل طائف کا وفد قبولِ اسلام کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ ہوا تو زمین کی وسعتیں مجھ پر تنگ ہوگئیں اور ارادہ کیا، کہ شام، یمن یا اور کہیں چلا جاؤں اس پر ایک آدمی نے مجھے کہا، ارے احمق! کیا تمہیں اتنا بھی معلوم نہیں، کہ جو شخص اسلام قبول کرلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے معاف کردیتے ہیں وحشی نے مدینے کا رُخ کیا اور حضور کو اس وقت اس کی موجودگی کا علم ہوا جب وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر جا کھڑا ہوا، اور کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کرلیا مجھے دیکھ کر فرمایا وحشی ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں، یا رسول اللہ! فرمایا، بیٹھو، اور قتل حمزہ کا واقعہ بیان کرو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صورتِ حال بیان کی، تو فرمایا، تیرا بھلا نہ ہو، آئندہ مجھے اپنا منہ نہ دکھانا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپتا پھرا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب اسلامی لشکر مسیلہ کذاب کے خلاف روانہ ہوا تو میں نے بھی اپنے اسی نیزے کے ساتھ جس سے میں نے حمزہ کو قتل کیا تھا، لشکر میں شامل ہوگیا میدانِ جنگ میں میں نے مسیلمہ کذاب کو دیکھا، کہ ہاتھ میں تلوار لیے کھڑا تھا، چنانچہ میں اس پر حملہ آور ہونے کو تیار ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک انصاری بھی اس کی تاک میں تھا ادھر میں نے اپنے نیزے کو جنبش دے کر مسیلمہ پر پھینکا جو اس کے پیٹ میں لگا، ادھر انصاری نے تلوار سے اس پر وار کیا۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کی ضرب سے وہ مرا۔
سلیمان بن یسار حضرت عبد اللہ بن عمر سے راوی ہیں کہ انہوں نے اس روز ایک شخص کو کہتے سنا، کہ مسیلمہ کو ایک حبشی غلام نے قتل کیا ہے۔ موسی بن عقبہ سے مروی ہے کہ وحشی کی موت شراب سے ہوئی۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔