سیّدنا ولید رضی اللہ عنہ
سیّدنا ولید رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عقبہ بن ابو معیط ان کا نام ابان بن ابو عمرو تھا۔ اور ابو عمرو کا نام ذکوان بن امیہ بن عبد شمس اموی تھا ایک روایت کے رو سے ذکوان بنو امیہ کا غلام تھا۔ ولید کی والدہ کا نام اروی تھا، جو کہ یزد بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس کی لڑکی تھی۔ اور عثمان بن عفان کی والدہ تھی۔ اس بنا پر ولید عثمان کے اخیانمی بھائی تھے ولید اور ان کے بھائی فتح مکہ کے دن ایمان لائے تھے۔ ولید کی کنیت ابو وہب تھی ابو عمر کہتے ہیں جب ولید مسلمان ہوئے تو وہ بالغ ہوچکے تھے ابن ماکولا کے مطابق ولید نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ ابھی بچے تھے۔
ابو احمد بن علی نے باسنادہ، ابو داؤد بحتانی سے، انہوں نے ایوب بن محمد رقی سے، انہوں نے عمر بن ایوب سے، انہوں نے جعفر بن برقان سے، انہوں نے ثابت بن حجاج سے، انہوں نے ابو موسیٰ ہمدانی سے روایت کی اور ابو موسیٰ مجہول الحالی آدمی ہے، اور اسی بنا پر حدیث بھی مخدوش ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ جس شخص کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق کے پاس تصدیقِ حالات کے لیے بھیجا ہو۔ وہ فتح مکہ کے موقعہ پر بچہ ہو۔ اور اہل علم میں باہم اس امر پر کوئی اختلاف نہیں کہ قرآنِ حکیم کی اس آیت میں اِنْ جَاْءَکم فَاسق بِنَبَاِء فَتَبَیْنوا سے مراد ولید بن عقبہ ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دریافت حال کے لیے بنو مصطلق کے پاس بھیجا تھا۔ انہوں نے واپسی پر رپورٹ کی کہ قبیلۂ مذکور مرتد ہوگیا ہے اور ادائے زکات سے انکار کردیا ہے حالانکہ وہ لوگ ان کے استقبال کے نکلے تھے، ولید نے دیکھا تو ڈر گئے اور بھاگ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق حال کے لیے خالد بن ولید کو بھیجا انہوں نے واپس آکر حضور کو بتایا تو یہ آیت نازل ہوئی۔
علمائے نسب اور سیرت سے مذکور ہے، کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر، جب ولید اور عمارہ کی بہن ام کلثوم ہدنہ کو ہجرت کرچلی تھی، تو یہ دونوں بھائی اپنی ہمشیرہ کو واپس لانے کے لیے اس کے تعاقب میں گئے تھے اگر فتح مکہ کے موقعہ پر جنابِ ولید بچے تھے۔ تو معاہدہ حدیبیہ کے موقعہ پر انہیں ایسے اہم کام پر کیسے بھیجا جاسکتا تھا۔ واللہ اعلم۔
حضرت عثمان کے عہد خلافت میں جب سعد بن ابی وقاص کو ولایت کوفہ سے معزول کیا گیا، تو ولید بن عقبہ کو ان کی جگہ مقرر کیا گیا جب وہ سعد بن ابی وقاص کے پاس پہنچے تو کہنے لگے میں سمجھ نہیں سکا کہ ہمارے بعد تم بہت عقل مند ہوگئے ہو یا ہم تمہارے بعد احمق ہوگئے ہیں انہوں نے جواب میں کہا ابو اسحاق! پریشان مت ہو۔ یہ ملک ہے صبح کو اسے ایک آدمی کھاتا ہے اور شام کو دوسرا سعد کہنے لگے میرا خیال ہے کہ تم اسے جلد ہی سلطنت بنادو گے۔
ولید قریش میں کریم النفس ظریف الطبع، حلیم، بہادر اور ادیب تھے، اور پسندیدہ شعراء میں شمار ہوتے تھے۔ اصعی، ابو عبیدہ اور کلبی وغیرہ کی رائے ہے، کہ ولید کو شراب کی لت تھی اور وہ اچھے شاعر تھے، چنانچہ عمر بن شعبہ نے ہارون بن معروف سے، انہوں نے ضمرہ بن ربیعہ سے انہوں نے ابن شودب سے روایت کی کہ ولید نے اہلِ کوفہ کو صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی، اور کہنے لگے، کیا اس پر اضافہ کروں۔ عبد اللہ بن مسعود کہنے لگے۔ تم ہمارے ساتھ آج تک یہی سلوک کرتے ہو۔
ابو عمر کہتے ہیں، بحالت نشہ نماز پڑھانا اور پھر پوچھنا، کہ کیا میں اس پر اضافہ کروں ایسی خبر ہے، کہ تمام ثقہ لوگ اس کی تصدیق کرتے ہیں جب ان کے خلاف، حضرت عثان کے سامنے شہادت گزاری گئی، تو خلیفہ نے حکم دیا کہ انہیں چالیس درے مارے جائیں۔ حد جاری کی گئی، انہیں معزول کردیا گیا اور سعید بن عاص کو والی مقرر کردیا گیا۔
ابو القاسم یعیش بن علی الفقیہ نے ابو محمد یحییٰ بن محل بن محمد بن طراح سے، انہوں نے شریف ابو الحسین محمد بن مہتدی سے انہوں نے علی بن عمر دار قطنی سے، انہوں نے عبد اللہ بن محمد بغوی سے، انہوں نے محمد بن عبد الملک بن ابی الثوارب سے، انہوں نے عبد العزیز بن مختار سے، انہوں نے عبد اللہ بن فیروز الداناج سے، انہوں نے حصین بن منذر الرقاشی سے روایت کی کہ وہ حضرت عثمان کے پاس موجود تھے، کہ ولید کو لایا گیا، اور کے خلاف حمراں اور ایک اور آدمی نے گواہی دی۔ ایک نے کہا کہ میرے سامنے ولید نے شراب پی، دوسرے نے کہا، کہ میں نے انہیں قے کرتے دیکھا، خلیفہ نے کہا، قے جب ہی ہوئی، کہ پہلے اس نے شراب پی تھی۔ اس پر خلیفہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اجرائے حد کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو فرمایا، کہ وہ ولید کو درے لگائیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس کے شر کو اس شخص کے حوالے کیجیے جو اس کی خیر کی کفیل رہا ہو۔ چنانچہ عبد اللہ بن جعفر نے حد لگائی۔
امام طبری کی رائے کے مطابق، یہ اہل کوفہ کی شرارت اور سازش کا نتیجہ تھا۔ خلیفہ نے اس موقعہ پر ولید کو مخا طب ہوکر کہا اے میرے بھائی تم صبر کرو، خدا تمہیں اس کا اجر دے گا، اور ان سازشیوں کو غرق کرے گا۔ ابو عمر لکھتے ہیں کہ محدثین کی رائے میں صحیح واقعہ یہ ہے کہ ولید نے شراب پی، قے کی، اور نماز صبح میں چار رکعتیں ادا کیں۔
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، تو ولید نے علیٰحدگی اختیار کرلی۔ ایک روایت میں ہے کہ جنگ صفیں میں امیر معاویہ کے لشکر میں شامل تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جنگ میں تو شریک نہ ہوئے لیکن خط و کتابت اور اشعار کے ذریعے امیر معاویہ کو اکساتے رہتے ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ بعد میں ولید نے رقہ میں سکونت اختیار کرلی تھی، وہیں وفات پائی، اور یہ مقام تلیح دفن ہوئے۔