سیّدنا ولید رضی اللہ عنہ
سیّدنا ولید رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن ولید بن مغیرہ مخزومی: جو خالد بن ولید کے بھائی تھے۔ غزوۂ بدر میں لشکر کفار میں تھے انہیں عبد اللہ بن حجش نے گرفتار کرلیا، ایک اور روایت میں ہے، کہ انہیں سلیک مازنی نے قید کیا تھا۔ ان کے دونوں بھائی خالد اور ہشام ان کا زرفدیہ لے کر آئے ہشام ان کا سگا بھائی تھا۔ اور خالد سوتیلا عبد اللہ بن حجش نے چار ہزار درہم ان کا فدیہ طلب کیا۔ لیکن خالد اتنی رقم کے لیے آمادہ نہ تھے ہشام نے کہا چونکہ وہ تمہارا سوتیلا بھائی ہے اس لیے تم متامل ہو۔ بخدا اگر مجھے ایسی صورت سے واسطہ پڑتا، تو میں ہرگز ذریع نہ کرتا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن حجش سے فرمایا، کہ ولید کو رہا نہ کرنا۔ جب تک وہ اپنے والد کا ’’شکہ‘‘ بطور فدیہ نہ پیش کرے اور شکہ ایک کھلی زرہ رتلوار اور خود پر مشتمل تھا ہشام رضا مند ہوگیا مگر خالد راضی نہ ہوئے آخر کار شکہ کی قیمت سو دینار مقرر ہوئی، جو ادا کردی گئی، اور عبد اللہ بن حجش نے ولید کو آزاد کردیا اور انہوں نے فوراً اسلام قبول کرلیا لوگوں نے کہا تم نے ادائے فدیہ سے پہلے کیوں اسلام قبول نہیں کیا، انہوں نے کہا، اگر میں ایسا کرتا، تو لوگ کہتے کہ میں نے قید کے ڈر سے ایسا کیا ہے بعد از رہائی ان ہیں مکہ میں قید کردیا گیا یہ ان مجبور لوگوں میں شامل تھے، جن کی رہائی کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے۔ آخر کار وہاں سے بھاگ نکلے اور مدینے میں پہنچ گئے۔ چنانچہ شدہ عمر میں موجود تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ جب ولید اہل مکہ کی قید سے نکل بھاگے، تو وہ پیدل تھے۔ اہل مکّہ نے انہیں تلاش کیا، لیکن وہ نہ ملے، متواتر چلنے سے ان کے پاؤں کی انگلیاں جھڑ گئیں اور وہ مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر ابو عتبہ کے کنوئیں کے قریب پہنچ کر فوت ہوگئے۔
مصعب لکھتے ہیں کہ صحیح روایت یہ ہے کہ وہ عمرۂ قضیہ میں موجود تھے جب حضور اکرم نہیں اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کرنے تشریف لائے، تو خالد بن ولید مکہ چھوڑ کر چلے گئے تھے، کہ انہیں مکے میں مسلمانوں کا داخلہ ایک نظر نہیں بھاتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب ولید سے فرمایا۔ اگر خالد بن ولید مجھ سے ملنے آتا، تو میں اس سے حسن سلوک سے پیش آتا اور خالد ایسے آدمی کے دل میں اسلام اپنا اثر دکھائے بغیر نہ رہے گا۔ ولید نے خالد کو بذریعۂ خط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان جذبات سے آگاہ کردیا۔ چنانچہ اسلام نے اپنا اثر دکھایا، اور وہ ہجرت کرکے مدینے پہنچ گئے۔
جب ولید فوت ہوئے، تو ام سلمہ نے جوان کی عمزاد تھی۔ ان کی یاد میں مندرجۂ ذیل اشعار کہے:
یاعین فایکی للولید |
بن الولید بن المغیرہ |
ترجمہ: اے آنکھ تو ولید بن ولید بن مغیرہ کی یاد میں رو۔
قد کان غیثاً فی النین |
ورحمۃ فینا ومیرہ |
ترجمہ: وہ ایام قحط میں برستا بادل تھا، ہمارے لیے باعثِ رحمت تھا اور سردار تھا۔
ضخم الدسیعہّ ماجداً |
یسموالی طلب الوتیرہ |
ترجمہ: وہ کثیر العطا اور معزز آدمی تھا اور انتقام لینے کے لیے آگے بڑھتا تھا۔
مثل الولید بن الولید |
ابی الولید کفی العشیرہ |
ترجمہ: ولید بن ولید، ابو ولید جیسا آدمی خاندان بھر کے لیے بس کرتا ہے۔
عبد الوہاب بن ہبتہ اللہ نے باسنادہ عبد اللہ بن احمد سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے محمد بن جعفر سے، انہوں نے شعبہ سے، انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے، انہوں نے ولید بن ولید سے روایت کی، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میں اکثر خواب میں ڈر جاتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم بستر پر سونے کے لیے لیٹو، تو ذیل کی دعا پڑھ لیا کرو۔ اگر شباطین وہاں موجود بھی ہوئے، تو تجھے دکھ نہیں دے سکیں گے، اور شرارت کے لیے تیرے قریب نہیں آسکیں گے۔
’’بِسْم اللہِ، اَعْوذُ بِکلمَاتِ اللہِ مِنْ غَضَبہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِن ھمزات ِ الشیاطِیْنِ‘‘
اس سے ان کو تکلیف رفع ہوگئی۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔