سیّدنا واقد رضی اللہ عنہ
سیّدنا واقد رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عبد اللہ بن عبد مناف بن عرین بن ثعلبہ بن یریوع بن حنظلہ بن مالک بن زید مناہ بن تمیم الیتیمی حظلی یریوعی، حلیفِ بنو عدی بن کعب یہ ابو عمر کا قول ہے ابن مندہ نے انہیں واقد بن عبد اللہ الحنظلی لکھا ہے ابو نعیم نے بھی انہیں حنظلی لکھا ہے ایک روایت میں یر بوعی مذکور ہے۔
یہ وہی صاحب ہیں جنہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن حجش کے سرپے میں روانہ فرمایا تھا۔ انہوں نے اسلام، اس وقت قبول کیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دارِ ارقم میں منتقل نہیں ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں ان کے بشر گبن براء بن معرور کے درمیان دشتۂ مواخات قائم کیا تھا۔
ابو جعفر بن سمین نے باسنادہ، یونس بن بکیر سے انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی، کہ انہیں یزید بن رومان نے اور انہوں نے عروہ بن زبیر سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن حجش کو نخلہ کی طرف روانہ فرمایا۔ اور حکم دیا کہ تم وہاں ٹھہرنا اور قریش کی نقل و حرکت کے بارے میں ہمیں اطلاع دینا مگر آپ نے لڑائی کا حکم نہیں دیا تھا اور یہ واقعہ شہر حرام میں پیش آیا تھا۔ اس کے بعد راوی نے حدیث بیان کی۔
تعمیل ارشاد میں یہ لوگ نخلہ کوچل دیئے۔ وہاں پہنچے تو عمرو بن حضرمی، حکم بن کیسان اور عثمان اور مغیرہ فرزندانِ عبد اللہ وہاں سے گزرے جب مسلمانوں نے ان لوگوں کو دیکھا تو واقد بن عبد اللہ پر جنہوں نے اپنا سر منڈایا ہوا تھا ان لوگوں کی نظر پڑی تو عمار نے ان سے کہا کہ ان لوگوں سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں کیونکہ سر کا منڈانا یا تو زیارتِ کعبہ سے پہلے، معمول تھا، یا بعد از زیارت اور ایسی حالت میں لڑنا بالخصوص ماہِ حرام میں سخت نا پسندیدہ امر تھا۔
رجب کی آخری تاریخ کو مسلمان دستہ فوج نے ان کے بارے میں مشورہ کیا چنانچہ طے پایا کہ ابن حضرمی اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ واقد بن عبد اللہ کے تیر سے عمرو بن حضرمی مارا گیا بعدہ انہوں نے عثمان اور حکم کو پکڑلیا اور مغیرہ بھاگ گیا اور اونٹوں کو ہانک کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی جب قریش نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ماہِ حرام کی بے حرمتی کا الزام لگایا۔ تو قرآن کی درج ذیل آیت نازل ہوئی۔ یسئلونک عن الشہر الحرام قتال فیہ۔ قل قتال فیہ کبیر الخ۔
جناب واقد پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے ایک کافر کو قتل کیا اور عمرو بن حضرمی پہلا مشرک ہے جو ایک مسلمان کے ہاتھوں مارا گیا۔ واقد غزوۂ بدر میں موجود تھے۔ ابو جعفر نے ابن اسحاق سے بہ سلسلۂ شرکائے غزوۂ بدراز بنی عدی، جناب واقد کا جوان کے حلیف تھے ذکر کیا ہے۔ یہ لاولد تھے وہ احد کے علاوہ باقی تمام غزوات میں شریک رہے تھے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں فوت ہوئے واقد اور بن حضرمی کے بارے میں ایک شاعر نے کہا ہے۔
سقینا من ابن الحضرمی رما حنا |
بنخلۃ لما اوقد الحرب واقد |
ترجمہ: ہم نے ابن حجرمی کے قتل سے اپنے نیزوں کو اس وقت سیراب کیا جب نخلہ کے مقام پر واقعہ نے لڑائی کی آگ بھڑکائی۔
ابن مندہ نے واقد بن عبد اللہ کو حنظلی قرار دے کر اس قصّے کو اس طرح بیان کیا ہے جس طرح کہ ہم لکھ آئے ہیں تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابن اثیر لکھتے ہیں کہ ابو نعیم کا واقد کو حنظلی کہنا اور پھر ایک اور روایت کے رو سے انہیں یربوعی کہنا مبنی برظن ہے اور اس میں تناقض ہے لیکن صورتِ حال یوں نہیں ہے کیونکہ بنو یربوع بنو حنظلہ سے ہیں اور بنو حنظلہ بنو تمیم سے جب کسی کو ہیربوعی کہا جائے گا تو وہ حنظلی بھی ہوگا، اور تمیمی بھی، اب نعیم کو یہ غلطی اس لیے لگی، کہ ابن مندہ نے واقد کا ذکر حنظلی کی ذیل میں بھی کیا ہے اور یربوعی کے تحت بھی جس سے ابو نعیم یہ سمجھے کہ دونوں ایک ہیں ہم اس پر اگلے ترجمے میں بھی گفتگو کریں گے۔