بن امیہ بن ابی عبیدہ بن ہمام بن حارث بن بکر بن زید بن مالک بن حنظلہ بن مالک بن زید مناہ بن تمیم التمیمی حنظلی ابو صفوان یا ابو خالد، ان کا عرف بن منیہ ہے
اور منیہ ان کی والدہ ہیں اور منیہ دختر غزوان، و ہمشیرۂ عتبہ بن غزوان ہیں، ایک روایت میں منیہ دختر حارث بن جابر آیا ہے۔ اس بنا پر وہ عتبہ بن غزوان بن حارث
کی پھوپھی ہیں۔ یہ مدائینی، مصعب اور ان کے بیٹے عبد اللہ کی رائے ہے۔ ایک اور روایت میں منیہ دختر جابر کو عتبہ بن غزوان کی پھوپھی کہا گیا ہے زبیر کہتے ہیں،
کہ وہ یعلی بن امیہ کی وادی ہیں۔ ابو عمر لکھتے ہیں۔ کہ زبیر غلطی پر ہیں۔ ابن ماکو لا لکھتے ہیں، کہ یہ خاتون عوام بن خویلد کی والدہ اور زبیر بن عوام کی دادی
تھیں۔ اور یعلی بن امیہ تمیمی (حلیف بن نوفل) کی دادی بھی تھیں اور وہ اسی نام سے معروف تھے۔ اور یہی دارِ قطنی کی رائے ہے، اور محدثین اور مورخین کی رائے یہ ہے
کہ منیہ دختر غزوان، عتبہ کی ہمشیرہ ہیں۔
یعلی بن منیہ، فتح مکہ کے موقعہ پر ایمان لائے، اور غزوۂ حنین، طائف اور تبوک میں شریک رہے ابن مندہ کے مطابق یہ صحابی غزوۂ بدر میں شامل تھے۔ لیکن یہ غلط ہے۔
نیز یہ بنو نوفل بن عبد مناف کے حلیف تھے۔ انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یمن کے ایک حصے کی حکومت دی تھی۔ بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں صنعا کا
والی مقرر کیا۔ ایک دفعہ وہ حضرت عثمان سے ملنے آئے۔ تو اتفاقاً حضرت علی کا گزر ادھر سے ہوا۔ وہاں ایک عمدہ سا خچر بندھا دیکھا۔ تو دریافت کیا۔ یہ کس کا ہے۔ جب
معلوم ہوا، کہ یعلی بن منیہ کا ہے تو تعجب سے فرمایا، بلا شبہ یعلی کو خلیفہ کا تقرب خاص حاصل ہے۔
مدائینی لکھتے ہیں کہ یعلی یمنی افواج کے کماندار تھے، کہ انہیں خلیفہ کی شہادت کی خبر ملی وہ ان کی امداد کے ارادے سے مدینے کو روانہ ہوئے۔ راہ میں اونٹ سے گر
پڑے اور ان کی ران ٹوٹ گئی بعد از ایام حج داردِ مکہ ہوئے، تو لوگ ان سے ملنے آئے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا انتقام لینے کے
لیے روانہ ہوگا۔ اس کے سازو سامان کی فراہمی ان کے ذمے ہوگی چنانچہ انہوں نے نے زبیر بن عوام کو ایک ہزار چار سو اونٹ، نیز قریش کے ستر آدمیوں کو اور ام
المومنین عائشہ کو وہ اونٹ فراہم کیا۔ جس پر وہ سوار تھیں۔ اس اونٹ کا نام عسکر تھا۔
یعلی بن منیہ بڑے کریم اور سخی تھے، جنگ جمل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے۔ بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حامیوں میں شامل ہوگئے۔ اور جنگ
صفین میں موجود تھے۔ ان سے ان کے بیٹے صفوان، عکرمہ اور مجاہد وغیرہ نے روایت کی ہے۔ کثیر راویوں نے باسناد ہم تا ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ سے روایت کی، کہ ہمیں
قتیبہ ن، انہوں نے سفیان بن عینیہ سے، انہوں نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے صفوان بن یعلی سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہ انہوں نے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر قرأت کرتے سنا، حاضرین نے یا مالک اونچی آواز سے کہا تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔