بن اسعد بن زرارہ انصاری۔ ایک روایت میں یحییٰ بن ازہر بن زرارہ مذکور ہے۔ ان کی صحبت کے بارے میں اختلاف ہے۔ ابن ابی عاصم نے انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے۔ ان کے سوا باقی لوگ انہیں تابعی شمار کرتے ہیں۔
یحییٰ بن ابی الرجاء نے اجازۃً باسنادہ ابو بکر بن ابی عاصم سے، انہوں نے ابن ابی شیبہ سے انہوں نے غندر سے، انہوں نے شعبہ سے، انہوں نے محمد بن عبد الرحمٰن بن اسعد بن زرارہ سے، انہوں نے اپنے چچا یحییٰ سے (میں نے آج تک کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا، جو اس کی طرح لوگوں سے حدیث بیان کرتا ہو) روایت کی، کہ اسعد بن زرارہ (جو محمد کے نانا تھے) کے گلے میں سخت درد شروع ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے ابو امامہ کی شکایت سننا پڑے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داغ دیا اور وہ فوت ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردے کے بارے میں یہود کا رویہ کتنا غلط ہے، وہ کہتے ہیں۔ میں نے اپنی ساتھی کو کیوں نہیں بچایا۔ حالانکہ میرے اختیار میں نہ تو اپنے بارے میں کوئی شے ہے، اور نہ اس کے بارے میں۔
اسی اسناد کے رو سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو آدمی جمعے کی اذان سنے، اور مسجد کو نہ جائے۔ دوبارہ سنے اور نہ جائے، تو اللہ ایسے آدمی کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ ابن مندہ اور ابو نعیم دونوں نے اس کا ذکر کیا ہے، اور اس حدیث کو اسعد بن زرارہ کی طرف منسوب کیا ہے۔
امام بخاری نے اس کو اسناد کو یوں بیان کیا ہے۔ یحییٰ بن عبد اللہ بن عبد الرحمٰن بن سعد بن زرارہ، بعض راوی اسعد بن زرارہ کہتے ہیں اور یہ غلط ہے۔
ابن اثیر لکھتے ہیں کہ جو آدمی یحییٰ کو اسعد بن زرارہ کی اولاد سے شمار کرتا ہے، اسے لازماً اسعد کو صحابی تسلیم کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اسعد نے ان دونوں وفات پائی۔ جب مسجد نبوی کی تعمیر شروع تھی۔ اور اگر وہ ابن سعد ہوں۔ جب بھی ایسا ہی ہوگا۔ کیونکہ ابو نعیم لکھتے ہیں کہ ابن مندہ نے ان کا ترجمہ لکھ کر غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ ابو عمر لکھتے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ شاید وہ دولت اسلام سے محروم رہا۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسے صحبت نصیب ہونا چاہیے تھی۔