بن بلال بن احیحہ بن جلاح جحجبا بن عوف بن کلفہ بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس انصاری اوسی: ان کی کنیت ابو لیلی تھی۔ ان کے نام کے متعلق اختلاف ہے۔ جو کنیتوں
کے تحت بیان ہوگا وہ عبد الرحمٰن بن ابو یعلی کے جو مشہور فقیہہ تھے۔ والد ہیں۔ جو لوگ انہیں صلبًا انصار میں شمار کرتے ہیں۔ وہ بھی ان کا نسب یہی بیان کرتے
ہیں۔ بعض انہیں عمرو بن عوف کا مولی کہتے ہیں۔ یہ معرکۂ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے قتل ہوئے تھے۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابو عمر نے انہیں
یسار بن بلال لکھا ہے، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ ابو نعیم اور ابن مندہ انہیں یسار ابو لیلی لکھتے ہیں اور وہ یہی ہیں۔
الحبشی: یہ صحابی عامر نامی یہودی کے غلام تھے۔ جو محاصرۂ خیبر کے موقعہ پر ایمان لائے۔ واقدی نے ان کا نام یسار اور ابن اسحاق نے اسلم تحریر کیا ہے۔ یہ ابو عمر
کا بیان ہے۔ ابو نعیم کہتے ہیں۔ ان کا نام یسار تھا۔ اور عامر یہودی کے غلام تھے۔ یونس، سلمہ اور بکائی جنہوں نے ابن اسحاق سے غزوات کے متعلق روایت کی ہے، کسی
نے بھی ان کا نام تحریر نہیں کیا۔ غالباً ان کے علاوہ جن لوگوں نے ابن اسحاق سے روایت کی۔ یہ ان کا کام ہے۔
عبید اللہ بن احمد نے باسنادہ یونس سے، انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی، کہ مجھ سے میرے والد اسحاق بن یسار نے بیان کیا، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں ایک حبشی گڈریا بکریوں سمیت اس وقت آیا۔ جب آپ نے خبیر کے قلعوں کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ عرض کیا، یا رسول اللہ مجھ پر اسلام پیش فرمائیے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس کی خواہش پر اسلام پر روشنی ڈالی۔ وہ مسلمان ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی مسلمان کو ذلیل نہیں سمجھتے تھے۔ وہ حبشی کہنے لگا۔ یا رسول
اللہ۔ اس یہودی کی بکریاں میرے پاس امانت ہیں۔ میں کیسے واپس کروں۔ فرمایا۔ ان کا رخ ادھر کردو۔ وہ خود بخود اپنے گھر چلی جائیں گی۔ حبشی اٹھا مٹھی بھر خاک زمین
سے اٹھائی۔ ان کے منہ پر دے ماری اور کہا، اپنے گھر چلی جاؤ، کہ میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گا۔ سب اکٹھی واپس ہوئیں۔ اور سیدھا قلعے میں داخل ہوگئیں۔
اس کے بعد وہ حبشی اسلامی لشکر میں داخل ہوگیا۔ اور ایک پتھر سے شہید ہوگیا۔ قبول اسلام کے بعد اس نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی تھی۔ اس کی میت کو حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رکھا گیا۔ اس کے جبے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی میت پر ڈال دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے ہی تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ے فوراً اپنا رخ بدل لیا۔ صحابہ نے وجہ دریافت کی، تو آپ نے فرمایا، کہ اس کے دائیں بائیں میں نے دو
بہشی حوروں کو دیکھا۔ ابو نعیم اور ابو عمر نے ان کا ذکر کیا ہے۔
لیکن ابو نعیم نے لکھا ہے، کہ یہ شخص عامر نامی ایک یہودی کا غلام تھا۔ اور خیبر میں ایمان لایا تھا اس کے بعد انہوں نے وہ حدیث بیان کی جسے ثابت البنانی نے ابو
ہریرہ سے روایت کیا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں تھے۔ کہ ایک بدنما سا حبشی جس کے سر پر ہرن پکڑنے کا جال تھا۔ اور جو مغیرہ بن شعبہ کا غلام
تھا۔ آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مرحبا کہا۔ اس کے بعد ابو نعیم نے اس کے ترجمے میں حدیث بیان کی۔ ہم بھی ان شاء اللہ اس کے ترجمے میں بیان کریں گے۔