آپ سیّد حسن محمد بن سید خان ملک ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ کے دوسر ے بیٹے تھے۔خرقہ خلافت واجازت شیخ گوہرشاہ بن شیخ ماہی شاہ سلیمانی رنملوی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کیا۔
علم وفضل
آپ صاحب علم و حلم ۔فاضل جیّد،علامہ وقت تھے۔علاقہ راجوری ۔ ریاست جمّوں میں سکونت رکھتے تھے۔اس دیارمیں آپ کا فتوےٰ مقبول تھا۔فن طبابت میں بھی کامل تھے۔آپ کے ہاتھ سے اکثر مریض شفاپاتے تھے۔قصیدہ غوثیہ کے عامل تھے۔
سادات و مشائخ پر احسان
منقول ہے کہ سیّد حسن شاہ بن سیّد محمد شاہ ساکن چک سادہ کوراجوری ریاست جمّوں میں پانسوبیگہہ زمین جاگیر ملی ہوئی تھی ۔جب ان کا انتقال ہو۔توساداتِ کھنکھڑی نےاُن کے بیٹے سیّد قلندرشاہ رحمتہ اللہ علیہ کو جاگیر سے جواب دے دیا۔وہ آپ کے آگے التماس لائے۔آپ نے اُن سے مختارنامہ لکھوالیااورمقدمہ چلادیا۔جب تاریخ پر میاں ہاٹھواہلکارکے پیش ہوئے اس روز تحصیل راجوری کے تمام سادات ومشائخ وہاں حاضرتھے۔اُ س نے سب کی جاگیریں ضبط کرلیں اورکہاکہ اس علاقہ میں اب کوئی فقیر نہیں رہا۔اگرہے تو بولے۔سب درویش خاموش ہوگئے۔آپ نے جوش میں آکر فرمایا۔جس دن کوئی فقیر نہ رہا۔اُس دن توبھی نہ رہے گا۔یہ کہہ کرآپ چلے آئے اوردھوبیوں کے گھرڈیرہ کیا۔رات کو کئی دفعہ میاں ہاٹھوچارپائی سے نیچےگرا۔صبح بمعہ نوکروں کے آکر قدمبوس ہوا اورپانچ روپیہ نذرانہ دیا۔سیّد قلندر شاہ رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے سب مشائخ کی جاگیریں آپ نے واپس کروائیں اور اس کو فرمایا۔میاں ہاٹھو۔اگرآج کے بعد پھرکبھی تواس سرزمین میں آئے گا۔توقلعہ ڈوڈہ میں قید کیاجائےگااوراگر نہ آئےگاتو محفوظ رہے گا۔چنانچہ مدّت دراز کے بعدایک باروہ آیا۔اس کا گھوڑا ٹھیکریاں کی حدمیں پاؤں نہ رکھتا۔اس نے چابک مار کر آگے لنگھایا۔بعدازاں اُس پرایساالزام ثابت ہو اکہ وہ تادمِ آخریں ڈوڈہ کے قلعہ میں محبوس رہا۔
کرامت
باغ کاناکارہ ہونا
منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ موضع ڈھنڈکوٹ علاقہ دھراں گگاں سے گذر رہے تھے۔وہاں مغلوں کی جاگیرتھی۔ان کے باغات کافی تھے۔آپ نے ان کی طرف اپنادرویش بھیجاکہ ہم کو شربت پکانے کے لیے۔کچھ عنابوں کی ضرورت ہے۔انہوں نے دینے سے انکارکیا۔ آپ نے فرمایا۔اچھاتم نے ہم کوعناب نہیں دئیے۔یہ درخت تم کو پَھل نہ دیں گے۔چنانچہ وہ درخت پَھلنےپھولنے سے بند ہوگئے۔
مُعرِّف کمال
حاجی غلام محمد درویش ساکن جَھلیاں ضلع امرتسرجو سیّاح ممالک عرب و شام اورزائرِ مزاراتِ انبیائے کرام علیہم السلام تھے۔فرمایاکرتےتھےکہ میں نے سید اللہ جوایارحمتہ اللہ علیہ کو دیکھاہے اور ان کی مجلس کی ہے۔آپ اپنے وقت میں کامل واکمل تھے۔
اولاد
آپ کے دو بیٹے تھے۔
۱۔سیّد غوث محمد رحمتہ اللہ علیہ ۳۰ذیقعد۱۳۵۶ھ ۔ان کے ایک فرزندسیّد نواب الدین رحمتہ اللہ علیہ تھے۔
۲۔سیّد گلاب دین رحمتہ اللہ علیہ ۔ان کاذکر آٹھویں باب میں آئےگا۔
یاران طریقت
آپ کے مریدوں سے سیّد قلندرشاہ اورمنشی ناصرالدین رحمتہ اللہ علیہ قابل ذکر ہیں۔
تاریخ وفات
سیّد اللہ جوایاکی تاریخ وفات ۱۳۰۹ھ میں ہوئی اورقبرموضع ٹھیکریاں ۔ علاقہ رَاجَوری۔ضلع ریاسی،ریاست جمّوں میں ہے۔
مادۂ تاریخ "مکان بہشت یافت"۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)