احمد بن محمد بن محمد بن حسن بن علی بن یحییٰ شمنی: رمضان ۸۰۱ھ میں شہر سکندریہ میں پیدا ہوئے اور قاہرہ میں نشو و نماپایا،پہلے مثل اپنے باپ دادا کے مالکی المذہب تھے پھر حنفی مذہب میں انتقالکیا۔علوم میں یکتائے زمانہ اور ادب و تفسیر و حدیث و فقہ ونحو و کلام واصول میں امامِ ائمہ تھے،تقی الدین لقب اور ابو العباس کنیت تھی،فقہ شیخ یحییٰ سیرامی سے اور حدیث ولی الدین عراقی سے حاصل کی یہاں تک کہ فنون و علوم میں سر آمد وفائق اقران ہوئے اور بے شمار خلقت نے آپ سے فائدہ کثیر اٹھایا۔حافظ سیوطی اور سخاوی نے آپ کی شاگردی کی اور عراقی و بلقینی نے آپ کو سند اجازت کی دی۔آپ مغنی اللبیب اور شفاء قاضی حیاض کا حاشیہ لکھا اور صدر الشریعہ کے نقایہ اور اپنے باپ کی نظم النحبہ کی شرح کی اور ارفق المسالک لناویۃ المناسک آپ نے تصنیف کی۔سکاوی نے ضوء لامع میں لکھا ہے کہ جب تقی الدین شمنی قاہرہ میں اپنے باپ کے ہمراہ آئے تو علی بن الکویک اور جمال ضبلی اور تقی الزبیری اور ولی العراقی سے حدیث کی سماعت کی اور بلقینی و بیشمی وغیرہ نے آپ کو سند اجازت دی اور میں نے ان سے مدت تک پڑھا اور ان کے درس میں حاضر ہوتا رہا۔
سیوطی نے بفیۃ الوعاۃ فی طبقات النھاۃ میں لکھا ہے کہ علم تفسیر میں آپ دریائے محیط اور کاشف دقائق تھے اور حدیث کی روایت و درایت اور حل مشکلات میں آپ ہی کی طرف رجوع اور اعتماد کیا جاتا ہے۔فقہ میں یہاں تک دستگاہ رکھتے تھے کہ اگر آپ کو نعمان یعنی امام ابو حنیفہ دیکھتے تو البتہ انعام دیتے اور علمِ کلام میں یہ لیاقت تھی کہ اگر آپ کو امام الشعری دیکھ پاتے تو آپ کو اپنے پاس بٹھاتے اور خوش ہوتے۔نحو میں ایسا ملکہ حاصل تھا کہ اگر آپ کو امام خلیل نھوی دیکھ لیتے تو البتہ اپنا خلیل پکڑتے۔معانی وغیرہ علوم میں تو چراغ تھے۔
اسکندر یہ میں پیدا ہوئے اور قاہرہ میں اپنے والد کے ہمراہ آئے۔نحو شمس الدین شطنوجی سے پڑھی اور فقہ شیخ یحییٰ سیرامی اور علاء بخاری سے حاصل کی اور حدیث کو شیخ ولی الدین سے سماعت کیااور قاضی شمس الدین بسطامی کی مصاحبت میں رہے اور انہیں سے علم معانی و بیان و میری اور مراغی وغیرہ محدثین نے آپ کو سندِ اجازت دی۔شیخ شمس الدین سخوی نے اپنی مشیخت میں آپ سے تخریج کی اور حدیث کو بیان کیا۔سیوطی کہتے ہیں کہ میں نے بھی ایک جزء حدیث کی مسلسل آپ سے تخریج کی اور حدیث کو روایت کیا اور کئی اجزاء احادیث کے آپ سے پڑھے اور ایک بڑا حصہ مطول اور توضیح ابن ہمشام کا سماعت کیا اور ایک جم غفیر خلقت نے آپ سے فائدہ اٹھایا اور میری کتاب شرح الفیہ اور جمع الجوامع پر آپ نے تقریظیں لکھیں۔وفات آپ کی ۸۷۲ھ میں ہوئی۔’’آرائش عصر‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)