(سیّدہ )اخت نعمان( رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ )اخت نعمان( رضی اللہ عنہا) (تذکرہ / سوانح)
اختِ نعمان بن بشیر،محمد بن اسحاق نے سعید بن مینا سےروایت کی ،کہ بشیر کی بیٹی کو اس کی ماں عمرہ دختر رواحہ نے بلایا اور کھجوروں کی ایک لپ کپڑے میں لپیٹ کر دی،کہ اسے اپنے والداور ماموں عبداللہ بن رواحہ کے پاس کھانے کیلئے لے جاؤ،میں والد اور ماموں کی تلاش میں حضورِ اکرم کے پاس سے گزری،دریافت فرمایا،یہ کیا ہے،عرض کیا یا رسول اللہ یہ کھجوریں ہیں،جو میں اپنے والد اور ماموں کے لئے لے جارہی ہوں،فرمایا،ادھر لاؤ،میں نے حضورِ اکرم کے دونوں ہاتھوں میں انڈیل دیں،پھر فرمایا،کپڑے کو زمین پر بچھادو،پھر آپ نے کھجوریں اس کپڑے پر ڈال دیں،اور انہیں بکھیر دیا پھر ایک آدمی کو کہا،کہ تمام اہلِ خندق کو کھانے کے لئے آواز دو،سب لوگ جن کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی،آگئے،وہ کھارہے تھے ،اور کھجوریں بڑھتی جارہی تھیں،تا آنکہ کپڑے کے کنارے سے باہر گرنے لگیں،ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
چند لڑکیوں کا ذکر ان کے والد کے حوالے سے۔
اوس بن ثابت کی دو لڑکیاں،ابوموسیٰ نے اجازۃً ابوالفتح اسماعیل بن فضل اور ابوالفضل جعفر بن عبدالواحد سے،انہوں نے ابوطاہربن عبدالرحیم سے،انہوں نے ابو الشیخ سے،انہوں نے ابویحییٰ رازی سے،انہوں نے سہل بن عثمان سے،انہوں نے عبداللہ بن اجلح کندی سے،انہوں نے ابوصالح سے،انہوں نے ابنِ عباس سےروایت کی،زمانہ جاہلیت کے لوگ لڑکیوں کو اور چھوٹی عمر کے لڑکوں کو بالغ ہونے تک وراثت سے کچھ نہیں دیتے تھے،انصار میں سے اوس بن ثابت فوت ہوگئے،اور ان کی دو لڑکیاں اور ایک نابالغ لڑکا رہ گئے،ان کے عمزاد جو ان کے اقار ب تھے،آئے اور سارا ترکہ اُٹھا کر لے گئے،قرآن کی درجِ ذیل دو آیتیں ان کا بتائی گئیں۔
" یَستَفتُونَک فِی النِّسَاءِاور یُوصِیکُمُ اللہُ فِی اَولَادِکُم "ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
ثابت بن قیس بن شماس کی لڑکی ابوموسیٰ نے ابوعلی سے،انہوں نے ابونعیم سے،انہوں نے عبداللہ بن محمد سے،انہوں نے ابوبکر بن ابوعاصم سے،انہوں نے ہشام بن عمار سے ،انہوں نے صدقہ بن خالد سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے،انہوں نے عطا خراسانی سے،انہوں نے ثابت بن قیس بن شماس سے کی لڑکی سے روایت کی کہ جب" یَااَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوالَاتَرفَعُو اَصوَاتَکُم فَوقَ صَوتِ النَّبِیِّ"نازل ہوئی،تو ثابت بن قیس بن شماس گھرآئے ،کمرے کا دروازہ بند کرلیا،اور روناشروع کردیا،جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں چند دن نہ گئے اور آپ کو دربندی کاعلم ہوا،توآپ نے جناب ثابت کو بلوا بھیجا،آپ نے غیر حاضری کی وجہ دریافت فرمائی،تو انہوں نے گزارش کی،یارسول اللہ ،میں فطری طور پر کچھ درشت آواز ہوں،مجھے خطرہ پیدا ہوگیا،مبادا سارے اعمال ضائع کر بیٹھوں،فرمایاتم ان میں سے نہیں ہو،تمہاری دنیا اور دین بخیر ہو، ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ذکرکیا ہے۔
حصین بن حارث بن مطلب کی لڑکی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اور انکی عمزاد بہن عبیدہ بن حارث کے لئے خیبر کی پیداوار سے ایک سو وسق کھجوریں عطافرمائی تھیں،یہ یونس کا قول ہے،ابنِ اسحاق سے ابوالحکم غفاری کی لڑکی،ابوموسیٰ کتابتہً ابوعلی سے،انہوں نے ابونعیم سے، انہوں نے سلیمان بن احمد سے،انہوں نے حجاج بن عمران اسدوی سے،انہوں نے یحییٰ بن خلف سے،انہوں نے عبدالاعلیٰ سے،انہوں نے محمد بن اسحاق سے،انہوں نے سلم بن سحیم سے،انہوں نے اپنی ماں دخترالحکم غفاری سےروایت کی کہ انہوں نے حضورِ اکرم کو فرماتے سُنا،کہ کبھی ایسا ہوتا ہے،کہ ایک آدمی جنت کے اتناقریب ہوجاتاہے،کہ ان میں صرف ہاتھ بھر کا فاصلہ رہ جاتاہے،پھر وہ کوئی ایسی بات کر بیٹھتا ہےاور اس میں اورجنت میں اتنافاصلہ حائل ہو جاتا ہے،جتنا کہ مدینے سے صنعا،ابونعیم اور ابو موسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
خباب بن ارت کی لڑکی،یحییٰ بن محمود نے اذناً باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے ابوبکر بن ابی شیبہ سے،انہوں نے وکیع سے،انہوں نے اعمش سے،انہوں نے ابواسحاق سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن زیدالفائشی سے،انہوں نے جناب کی لڑکی سےروایت کی،کہ میرے والد ایک سریے کے سلسلے میں مدینے سے باہر تھے،اور حضورِ اکرم ہماری نگرانی فرماتے،چنانچہ ہماری ایک بکری کا دودھ ایک برتن میں آپ ہی دوہتے،اور برتن بھرجاتا،جب میرے والد واپس آئے،اور انہوں نے دُودھ دوہنا شروع کیا،تو دودھ کی مقدار گھٹ کر اتنی رہ گئی،جتنی کہ پہلے ہوتی تھی،ابو نعیم اور ابو موسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
ابوسبرہ کی لڑکی،ام معاذ کے ترجمے میں ان کا ذکر ہو چکا ہے،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے انکا ذکرکیا ہے۔
سعد بن ربیع کی لڑکی،عبداللہ بن محمد بن عقیل نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی،کہ ایک عورت نے حضوراکرم کی خدمت میں عرض کی،یارسول اللہ! سعد بن ربیع کی،جو غزوۂ احد میں شہید ہوگیا ہے،دو لڑکیاں رہ گئی ہیں،اور ان کے عمزاد ان کا سارا ترکہ اٹھا لے گئے ہیں،آپ نے فرمایا جلد ہی اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ فرمادے گا،اس پر"یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ"نازل ہوئی، ان دو لڑکیوں کو دو ثلث اور ان کی والدہ کو آٹھواں حصِہ دے دو،اور جو باقی بچ جائے،وہ تم لے لو، ابوموسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے۔
صفوان بن امیہ بن خلف کی لڑکی،عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے صفوان بن امیہ کی لڑکی سے روایت کی کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوکے لئے دعاکی،ابواحمد عسکری نے ذکرکیا ہے۔
عبیدہ بن حاث بن مطلب کی لڑکیاں،ان کے والد بدر میں مارے گئے تھے،ابوجعفر نے باسنادہ یونس سے ،انہوں نے ابن اسحاق سے ان لوگوں کے سلسلے میں جنہیں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کی پیداوار سے حصہ عطافرمایاتھا،عبید ہ کی لڑکیوں اور حصین بن حارث کا ذکرکیا ہے،انہیں حضور اکرم نے ایک سو وسق کھجوریں عطاکی تھیں۔
عفیف کی لڑکی،یحییٰ نے اجازۃً باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے عفیف بن مکرم سے،انہوں نے محمد بن موسیٰ سے،انہوں نے عبدالمنعم بن صلت سے،انہوں نے ابویزیدمدنی سے ،انہوں نے اپنی ایک عورت سے جو عفیف کی لڑکی تھیں،روایت کی،کہ وہ حضوراکرم سے بیعت کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں،آپ نے ہم سے عہد لیا۔کہ سوائے محرم کےکسی اور مرد سےبات نہیں کریں گی،اور یہ کہ ہم اپنے مرجانے والوں پر سورۂ فاتحہ تلاوت کریں گے،ابن ابی عاصم نے انہیں دختر عفیف لکھا ہےاور ان کے سوا اور لوگوں نے ام عفیف۔
فہد کی لڑکی،بروایتے ان کا نام خولہ تھا،اور ان سے محمود بن لبید نے ذکر کیا ہے،کہ ایک دن حضورِ اکرم اپنے چچاحمزہ سےملنے گئے،اور دختر فہد،جناب حمزہ کی زوجہ تھیں،انہوں نے آپ کے لئے حلوہ پکایاجسے سب نے کھایا،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے،اور ان کا نسب نہیں بیان کیا،اور انکا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔
ولید بن مغیرہ کی لڑکی،ان کا نام عاتکہ تھا،اور یہ وہی خاتون ہیں جنہوں نے اپنے شوہر صفوان بن امیہ کے لئے حضور سے امان طلب کی تھی،ان کا ذکر پہلے گزرچکا ہے،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ہبیرہ کی لڑکی،ابوالقسم بن صدقہ الفقیہ نے باسنادہ ابوعبدالرحمٰن نسائی سے،انہوں نے سلیمان بن سلمہ بلخی سے،انہوں نے نضربن شمیل سے،انہوں نے ہشام سے،انہوں نے یحییٰ سے،انہوں نے ابوسلام سے ،انہوں نے ابواسماء رجبی سے،انہوں نے ثوبان سے روایت کی،کہ ہبیرہ کی لڑکی حضورِ اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئیں،اوران کے ہاتھ میں سونے کا چھلاّ تھا،بروایتے ان کا نام ہندتھا،ان کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
وہ دادیاں جو اپنے پوتوں سے متعارف ہوئیں۔
جدۂ انصاری،وکیع نے اسماعیل بن رافع سے،انہوں نے انصار کے ایک شیخ سے،انہوں نے اپنی دادی سے،جنہوں نے ہجرت کی تھی،روایت کی کہ میں خضاب لگارہی تھی کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے،فرمایا،خداتجھ پر رحم کرے،توایساکیوں نہیں کرتی،اور ہاتھ سے ایک نقش کی طرف اشارہ کیا ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
حشرج بن زیادکی دادی،یہ خاتون زیاد کی ماں تھیں،ابویاسر نے باسنادہ عبداللہ سے،انہوں نے اپنے والدسے،انہوں نے حسین بن موسیٰ سے،انہوں نے رافع بن سلمہ اشجعی سے،انہوں نے حشرج بن زیاد سے،انہوں نے اپنی دادی سے روایت کی کہ غزوۂ خیبر میں ہم چھ عورتوں نے لشکر کے ساتھ چلنے کا ارادہ کیا،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواس کا علم ہواتو ہمیں بلا بھیجاہم نے آپ کے چہرے پر نارضامندی کے آثار دیکھے،دریافت فرمایا،تم کیوں لشکر کا ساتھ دیناچاہتی ہو اور کس کی اجازت سے جاناچاہتی ہو،ہم نے کہا یارسول اللہ ،ہم تیر اندازوں کو تیر فراہم کریں گی،انہیں ستو پلائیں گی،زخمیوں کی مرہم پٹی کریں گی،رجز پڑھیں گی اور یوں اللہ کی راہ میں ان کی معاونت کریں گی،فرمایا،اٹھو اور جاؤ،جب خیبر فتح ہوا،تو حضور اکرم نے مالِ غنیمت سے ہمیں بھی حصّہ عطافرمایا، میں نےدادی سے دریافت کیا،آپ کو کیا ملا تھا،انہوں نے کہا کھجوریں،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
حفص بن سعیدقرشی کی دادی،ابومحمد بن سویدہ نے باسنادہ واحدی سے،انہوں نے ابوعبدالرحمٰن محمد بن احمد بن جعفر سے،انہوں نے ابوبکر بن حسن شعبانی سے،انہوں نے محمد بن عبدالرحمٰن دغولی سے، انہوں نےابوعبدالرحمٰن محمد بن یونس سے،انہوں نے فضل بن دکین سے،انہوں نے حفص بن سعید بن اعورقرشی سے،انہوں نے اپنی والدہ سے(جوحضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گزار تھیں)روایت کیا کہ ایک کتّے کا پلا حضورِاکرم کے گھر میں آپ کی چارپائی کے نیچے مرگیا، چاردن گزرگئے اور آپ کو کوئی وحی نازل نہ ہوئی،مجھ سے فرمایا،اے خولہ!ہمارے گھر میں کیا نئی بات ہوگئی،کہ چار دن سے جبریل نہیں آرہے،اس کے بعد حضورِاکرم گھرسے باہر چلے گئے،میں نے دل میں ہی کہا ،کیوں نہ گھر کی صفائی کردوں،میں نے جھاڑو دینا شروع کردیا،تو چارپائی کے نیچے مرا ہوا کتے کا پلا نظر آیا،جسے میں اٹھاکر مکان کے نیچے پھینک دیا،اتنے میں حضورِ اکرم تشریف لائے،تو آپ کے دانت بج رہے تھےاور جب وحی نازل ہوتی،آپ کو یہ صورت پیش آتی،آپ نے فرمایا،اے خولہ ! مجھے چادر اوڑھادو،اس موقع پر سورۂ والضحی تا فترضیٰ نازل ہوئی ابوموسیٰ نے ان کا ذکرکیا ہے۔
یہ روایت مشکوک ہے،کیونکہ یہ سورت ان سورتوں میں سے ہے،جو آغاز کا ر مکے میں نازل ہوئی تھیں اور اس بارے میں اصل واقع مشہور ہے اور وہی صحیح ہے۔
خارجہ بن زید کی دادی،عبداللہ بن محمدبن عقیل نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی،کہ ہم حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری خاتون کے گھرگئے،اور وہ خارجہ بن زید بن ثابت کی دادی تھیں،انہوں نے ہمارے لئے کھجور کے ایک پیڑ کے نیچے چھڑکاؤ کیا،ہم بیٹھ گئےاور کھان کھایا،پھر وہ خاتون اپنی دو لڑکیوں کوساتھ لائی اور کہنے لگی،یارسول اللہ !یہ دونوں لڑکیاں ثابت بن قیس کی ہیں،جو غزوۂ احد میں شہید ہو گئے تھے،اور ان کے چچاان کا سارا مال اٹھا لے گئے ہیں۔
ہم اوس بن ثابت کی لڑکیوں میں یہ واقعہ بیان کر آئے ہیں،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابن اثیر لکھتے ہیں،صحیح بات یہ ہے کہ دونوں لڑکیاں اوس بن ثابت کی بیٹیاں تھیں،کیونکہ غزوۂ اُحد میں شہید ہونے والے کا نام اوس بن ثابت تھا،نہ کہ ثابت بن قیس،واللہ اعلم۔
ابوالسائب کی دادی،یحییٰ نے اجازۃً باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے محمد بن ادریس سے،انہوں نے نعیم بن حماد سے،انہوں نے حسین بن زید بن علی سے،انہوں نے ابوالسائب سے،انہوں نے اپنی دادی سے،(یہ خاتون مہاجرات سے تھیں) روایت کی،کہ حضورِاکرم نےایک کنوأں وادی عقیق میں بطور جاگیر عطافرمایاتھا،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ذکر کیاہے۔
سلمیٰ کی دادی،علی بن حجرہ نے عیسیٰ بن یونس سے،انہوں نے بنوسلیم کے آدمی سے انہوں نے ان کی دادی سے روایت کی،کہ حضورِاکرم ان کے ہاں تشریف لائے،اور وہ مہندی لگارہی تھیں،آپ نے مخاطب ہو کرفرمایا،اے ام فلاں تو ہاتھ کی ہتھیلی پر نقش کیوں نہیں بناتی،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے اور انصاری کی دادی سے ایسی ہی روایت مروی ہے۔
الصلت بن زید کی دادی،دوچھوٹے چھوٹے لڑکوں کی ماں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور گزارش کی،یارسول اللہ!میرے دونوں بیٹوں کے گلے میں تکلیف ہے،اس کا کیا علاج کروں فرمایا کٹ کی کڑوی لکڑی،کالازیرہ اور زیتون کا تیل ان کی ناک میں ڈالو،اور خداپر توکل کرو،اس پر اس کا دل نہ مانا،اور ان دونوں کے گلے کو دبایا مگر تقدیر میں ان کی لکھی تھی،ان کو دفن کردیا،اس کے بعد وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئیں،کہنے لگیں،یارسول اللہ !خدا اور رسول کی نافرمانی کارنج اس مصیبت کے دکھ سے زیادہ تکلیف دہ ہے،فرمایا،کوئی حرج نہیں،تم ماں ہو،اس وقت کچھ خواتین موجود تھیں،فرمایا بچوں کے گلے نہ دبایاکرو،کہ یہ قتلِ سر ہے،ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
ضمرہ بن سعید کی دای،عبدالوہاب بن ہبتہ اللہ نے باسنادہ عبداللہ بن احمد سے،انہوں نےاپنے والد سے،انہوں نے یزید بن ہارون سے،انہوں نے محمد بن اسحاق سے،انہوں نے ضمر ہ بن سعیدکے بیٹے سے،انہوں نے اپنے اہل سے،انہوں نے اپنی دادی سے(اس خاتون کو دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنا نصیب ہوا)روایت کی،کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے ،فرمایا، تم خضاب لگایاکرو،میں نے گزارش کی یارسول اللہ !میں نے اس کا استعمال ترک نہیں کیا،ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
عمرو بن معاذ کی دادی،یحییٰ نے اجازۃً باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے یعقوب بن حمید سے، انہوں نےاسماعیل بن داؤد بن عبداللہ بن مخراق سے،انہوں نے ہشام بن سعید سے،انہوں نے زید بن اسلم سے،انہوں نے عمروبن معاذ انصاری سے روایت کی،کہ ان کے دروازے پر ایک سائل کھڑاتھا،ہماری دادی نے کہا اسے کھانے کو کچھ دو،ہم نے کہا،اس وقت گھرمیں کچھ بھی نہیں، انہوں نے کہا،اسے ستو ہی پلادو،حضور اکرم کا فرمان ہے،کہ سائل کو کچھ اورنہیں ،تو جلاہواکھر ہی دے دو،ان کانام حوّا تھا اور ان ذکر گزرچکا ہے۔
قرشی کی دادی،زکریا بن ابی زائدہ نے عبدالملک بن عمیر سے،انہوں نے فلاں قرشی سے،انہوں نے اپنی دادی سے روایت کی،کہ انہوں نے رسولِ کریم کو فرماتےسُنا،کہ اللہ پر ایمان،جہاد فی سبیل اللہ اور حج مبرور بہترین اعمال ہیں ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
یحییٰ بن حصین کی دادی،جو ام حصین کی ہمشیرہ تھیں،ابویاسر نے باسنادہ عبداللہ سے، انہوں نے عبداللہ سے،انہوں نےوالد سے،انہوں نے یحییٰ بن سعید سے ،انہوں نے شعبہ سے،انہوں نے یحییٰ بن حصین بن عروہ سے،انہوں نے اپنی دادی سے روایت کی،کہ انہوں نے رسول اکرم کو فرماتے سُنا،اگر تم پر ایک غلام حاکم ہوجائے اور کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اسے کے حکم کو مانو،ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
یوسف بن مسعود کی دادی،یہی خاتون ام مسعود بن حکم ہیں،یوسف بن مسعود بن حکم انصاری نے اپنی دادی سے حکایت کی،کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں،ان کا ذکر پیشتر ام مسعود کے ترجمے میں گزرچکاہے،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ان صحابیات کا ذکر جو اپنے راویوں کی خالائیں تھین۔
ابوامامہ بن سہل بن حنیف کی خالہ،یحییٰ بن محمود نے اذناً باسنادہ،ابن ابی عاصم سے،انہوں نے حسن بن علی سے،انہوں نے ابن ابی مریم اور ابوصالح سے،انہوں نے لیث بن سعد سے،انہوں نے خالد بن یزید سے،انہوں نے سعید بن ابوبلال سے،انہوں نےمروان بن عثمان سے،انہوں نے ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے،انہوں نے اپنی خالہ سے روایت کی کہ انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی آیت پڑھ کر سنائی،"الشیخ والشیخۃ اذ زنیا فارجموھما التبتہ بما قضیا من اللذۃ،ابونعیم اور ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
نوٹ،حیرت ہے کہ ہمارے محدثین نے اس جملے کو معمولی پڑھالکھا آدمی بھی دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتا ہے،قرآن حکیم کی غیر متلوآیت قراردیا ہے،اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے شر سے بچائے،ایسا معلوم ہوتا ہے،کہ اقبال نے ایسی ہی کوئی حدیث پڑھ کر ذیل کا شعر کہا ہوگا۔
یہ امت روایات میں کھو گئی حقیقت خرافات میں کھوگئی(مترجم)
جابر بن عبداللہ کی خالہ،یحییٰ نے اجازۃً باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے حسن بن علی سے،انہوں نے ابوعاصم سے،انہوں نے ابن جریج سے،انہوں نے ابوزبیر سے،انہوں نے جابر سے روایت کی کہ ان کی خالہ عدت گزار رہی تھیں،کہ انہیں ایک کھجور کے کاٹنے کا خیال آیا،ایک آدمی نے کہا،تو ایسانہیں کرسکتی،انہوں نے حضور اکرم سے دریافت کیا،آپ نے فرمایا،تو گھر سے نکل سکتی ہے اور اسے کاٹ سکتی ہے،کیونکہ ممکن ہے،تو صدقہ یا کوئی اچھا کام سر انجام دے سکے،ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
خالد بن عبداللہ بن حرملہ مدلجی کی خالہ،یحییٰ نے اجازۃً ابن ابی عاصم سے،انہوں نے ابوبکر بن ابو سیبہ سے،انہوں نے محمد بن بشر سے،انہوں نے خالد بن عبداللہ بن حرملہ سے،انہوں نے اپنی خالہ سے روایت کی کہ حضور اکرم نے ایک موقعہ پر خطاب فرمایا،اور چونکہ بچھو نے آپ کے ہاتھ کی انگلی پر ڈنگ ماراتھا،آپ نے پٹی باندھی ہو ئی تھی،آپ نے فرمایا،اے لوگو!تم کہتے ہو،کہ اب کوئی دشمن نہیں رہا،حالانکہ تم ساری عمر دشمنوں سے لڑتے رہوگے،تاآنکہ تمہارا مقابلہ یاجوج ماجوج سے بھی ہوگا،ان کے چہرے چوڑے آنکھیں چھوٹی اور ان کے بال بھورے ہوں گے اور ہر گھاٹی سے پھسلتے چلے آئیں گے اور ان کے چہرے تہ در تہ ڈھال کی طرح ہوں گے۔
اس حدیث کو کسی اور راوی نے محمد بن بشر سے انہوں نے محمد بن عمروسے،انہوں نے خالد سے روایت کیا،ابو نعیم اورابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
زینب دختر نبیط کی خالہ،محمد بن عمارہ بن عامر نے زینب دختر جابر سے،انہوں نے اپنی والدہ یاخالہ سےجو ابوامامہ اسعد بن زرارہ کی لڑکیا ں تھیں،روایت کی کہ ہمارے والد نے ہمیں حضورِ اکرم کے سپرد کردیا،ان کا ذکر پہلے گزرچکا ہے،ابو نعیم اور ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
سائب بن یزید کی خالہ ،یحییٰ نے اجازۃً باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے ہشام بن عمار سے،انہوں نے حاتم بن اسماعیل سے،انہوں نے جعید بن عبدالرحمٰن بن اوس سے،انہوں نے سائب بن یزید سے روایت کی کہ مجھے میری خالہ،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے کر گئی اور گزارش کی یارسول اللہ!میرے بھانجے کے سر میں درد ہے،آپ نے میرے سرپر ہاتھ پھیرا اور دعائے خیر فرمائی،پھر آپ نے وضو فرمایا،اور میں نے وضو کا پانی پیا،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
ام سلمہ اسماءدختر یزید کی خالہ،شہربن حوشب نے ام سلمہ انصاریہ سے روایت کی کہ وہ ان خواتین میں شامل تھیں،جن سے حضور اکرم نے بیعت کرتے وقت بعض باتوں کا عہد لیا تھا،اور ان کی خالہ بھی ان کا ساتھ تھیں،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
وہ خواتین جو اپنے شوہروں کی وجہ سے متعارف ہوئیں،
اوس بن ثابت کی زوجہ،جن کا ذکر دختر اوس کے ترجمے میں گزرچکا ہے۔
بلال کی زوجہ،ابوالورد القشیری نے بنوعامر کی ایک خاتون سے،انہوں نے بلال کی بیوی سےروایت کی،کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے،سلام کیا،اور بلال کے بارے میں دریافت کیا،ہم ام بلال کے ترجمے میں ان کا ذکر کر آئے ہیں،ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
ثابت بن قیس کی زوجہ،ان کی بیٹی کے ترجمے میں ہم ان کا ذکر کر آئے ہیں،ابوموسیٰ نے مختصراً ذکر کیا ہے۔
جابر بن عبداللہ کی زوجہ،خطیب احمد بن عبداللہ بن عبدالقاہر نے باسنادہ ابوداؤد طیالسی سے،انہوں نے حماد بن زید سے،انہوں نے عمروبن دینار سے روایت کی،کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ سے سُنا کہ انہوں نے حضورِ اکرم کے عہد میں ایک ثبیہ خاتون سے نکاح کیا،حضور نے فرمایا،تم نے کنواری لڑکی سے نکاح کیا ہوتا،وہ تم سے کھیلتی ،تم اس سے کھیلتے،ابوموسیٰ نے ذکر کیاہے۔
رافع بن خدیج کی زوجہ،جعفر نے ان کا ذکرکیا ہے،لیکن ان سے کو ئی حدیث روایت نہیں کی، ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
سعد بن ربیع کی زوجہ،ان کے بیٹی کے ترجمے میں ان کا ذکر گزرچکاہے،ابوموسیٰ نے ذکرکیا ہے۔
سلمہ بن ہشام کی زوجہ،عبیداللہ بن احمد نے باسنادہ یونس ے،انہوں نے ابن اسحاق سے،انہوں نے عبداللہ بن ابوبکر بن حزم سے،انہوں نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے روایت کی کہ ام سلمہ ازواج مطہرات سے تھیں،بیان کیا،کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ بن ہشام بن مغیرہ کی بیوی سے دریافت فرمایا،کہ کیاوجہ ہے،کہ کئی دنوں سے سلمہ مجھے نظر نہیں آیا،وہ میرے ساتھ اور عام مسلمانوں کی جماعت میں شریک نہیں ہوتا،یارسولِ خدا!مشکل یہ پڑگئی ہے کہ وہ گھر سے باہر نکل ہی نہیں سکتا،کیونکہ جب سے یہ لوگ غزوۂ موتہ سے واپس آئے ہیں خانہ نشین ہو گئے ہیں،جب بھی وہ گلیوں میں نکلتے ہیں لوگ انہیں بھگوڑا بھگوڑا کہہ کر ان کا منہ چڑاتے ہیں۔
عبداللہ بن رواحہ کی بیوی،اسماعیل بن عیاش نے ربیعہ بن صالح مدلجی سے،انہوں نے عکرمہ سےروایت کی کہ عبداللہ بن رواحہ اپنی بیوی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،کہ مکان کے ایک کنارے پر ان کی نظر ایک لونڈی پر پڑگئی،یہ اُٹھے اور اس لونڈی پر پڑگئے،چنانچہ اسی حالت میں ان کی بیوی نے انہیں دیکھ لیا،وہ چھڑی لینے کیلئے گئی لیکن جب یہ خاتون واپس آئی،تو عبداللہ فارغ ہوچکے تھے، بیوی نےپوچھا،تم اتنی دیر کہاں تھے،میں نے تمہیں دیکھانہیں ان کے جواب سے خاتون مطمئن نہ ہوئی،ان کے شوہر نے کہا ،رسولِ اکرم نے ہمیں بحالتِ جنابت قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے،اگر تو سچاہے ،توقرآ ن کی تلاوت کر،انہوں نے کہا،بہت اچھا،اور درج ذیل اشعار پڑھے۔
(۱)اتانارسول اللہ یتلوکتابہ کمالاح مشھورمن الصبح ساطع
(ترجمہ)رسولِ اکرم ہم میں یوں تشریف لائے،جس طرح کہ صبح کے وقت چمکتاسورج طلوع ہوتا ہے اور آپ نے ہمیں اللہ کی کتاب پڑھ کر سنائی۔
(۲)اتی بالھدی،بعدالعمی وقلوبنا بہ موقنات ان ماقال واقع
(ترجمہ)آپ ہدایت لے کر تشریف لائے ،اور ہمارے دل کفرکی جہالت کے بعد اس پر یقین رکھتے ہیں،کہ جو کچھ آپ نے فرمایا،وہ ضرور واقع ہوگا۔
(۳)یبیت یجافی جنبہ عن فراشہ اذاانتلقت بالمشرکین مضاجع
(ترجمہ)آپ اس طرح رات بسر کرتے ہیں،کہ آپ کے پہلو بستر سے دُور رہتے ہیں،حالانکہ مشرکین کا یہ حال ہوتا ہے،کہ ان کے بستر ان کے پہلوؤں سے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن رواحہ نے ان اشعار کے علاوہ کوئی اور اشعار پڑھے تھے،چنانچہ خاتون نے کہامیں خدا کے کلام کو (وہ ان اشعار کو قرآنی آیات سمجھیں)سچا اور اپنی آنکھوں کو جھوٹا قرار دیتی ہوں۔
دوسرے دن عبداللہ بن رواحہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،اور آپ کو سارا واقعہ سنایا،حضورِ اکرم اس خاتون کی سادگی اور شوہر کی چالاکی پر اتنا ہنسے ،کہ آپ کی ڈاڑھیں تک نمایاں ہوگئیں،ابوموسیٰ نے ذکرکیا ہے۔
معاذ کی زوجہ،ام عطیہ کی حدیث میں ان کا ذکر گزرچکا ہے،جعفر بن محمد صائع نے معاویہ بن عمرو سے،انہوں نے زائدہ سے،ابونعیم کے بقول انہیں ابو احمد عطریفی نے انہوں نے محمد بن بن محمدبن شیرویہ سے انہوں نے اسحاق بن راہویہ سے،انہوں نے نضر بن شمیل سے(ح)ابونعیم نے ابوعمرو بن حمدان سے،انہوں نے حسن بن سفیان سے،انہوں نے محمد بن قدامہ سے،انہوں نے نضر بن شمیل سے،انہوں نے ہشام بن حسان سے،انہوں نے حفصہ بن سیرین سے،انہوں نے ام عطیہ سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کے وقت ہم سے عہد لیا تھا،کہ مرنے والوں پر نوحہ و زاری نہیں کریں گی،چنانچہ پانچ خواتین کے سواجن میں زوجۂ معاذ شامل تھیں،باقی خواتین اپنا عہد نہ نبھاسکیں۔
ابوعمرو کی روایت کیں ہے کہ سوائے ام سلیم،ابوسبرہ کی بیٹی،معاذ کی زوجہ اور ایک اور عورت کے کوئی بھی اپنا عہد نہ نبھا سکی،یہ خاتون راوی اپنا نام نہیں لیتی تھیں،اور جب حرہ کا ابتلا پیش آیاتھا،اور یہ خواتین ان کے ساتھ تھیں،تاکہ یہ بھی آہ وزاری کے اٹھ کھڑی ہوئیں،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابوموسیٰ اشعری کی زوجہ،یحییٰ نے اذناً باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے ابوبکر بن شیبہ سے،انہوں نے ابو معاویہ سے،انہوں نے اعمش سے،انہوں نے ابراہیم سے،انہوں نے سہم بن منجاب سے،انہوں نے قرثع سے روایت کی،کہ جب ابوموسیٰ بہرے ہوگئے تو ان کی بیوی چیخنے لگیں،ابوموسیٰ نے کہا،کیا تمہیں علم نہیں،کہ حضورِ اکرم نے اس بارے میں کیا فرمایا تھا،انہوں نے کہا رسول ِاکرم نے فرمایا،اللہ تعالیٰ اس سے بیزار ہے جو کسی کی موت پر سر منڈائے یا کپڑے پھاڑے، یا کسی کو بُرا بھلاکہے۔
ان صحابیات کا ذکر جو اپنے بھتیجوں کی وجہ سے متعارف ہیں۔
عمتہ الحارث بن ابو قرظہ،بقول جعفر بخاری نے ان کا ذکر کیا ہے،یہ بنو خزاعہ کی ان خواتین میں شامل ہیں، جنہوں نے حضورِ اکرم سے روایت کی،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
عمتہ حسناء صریمیہ،اسحاق بن راہویہ نے اسحاق ارزق سے،انہوں نے عوف اعرابی سے،انہوں نے حسناء دخترمعاویہ سے،انہوں نے اپنی پھوپھی سے روایت کی،کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا،یارسول اللہ،جنت میں کون کون لوگ ہوں گے،آپ نے فرمایا،نبی ،شہید،بچے اور زندہ مدفون بچے جنت میں ہوں گے،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے،اکثر کتابوں میں ان کا نام خنسا آیا ہے، لیکن محققین نے حسناء لکھا ہے،واللہ اعلم۔
عمتہ حصین بن محصن خطمی،ابوموسیٰ نے اذناً ابومنصور محمد بن عبداللہ بن مندویہ،شروطی اور حسن بن احمد مقری سے،انہوں نے احمد بن عبداللہ سے،انہوں نے احمد بن یوسف بن خلاد سے،انہوں نے حارث بن ابواسامہ سے،انہوں نے یزید بن ہارون سے،انہوں نے یحییٰ بن سعید سے،انہوں نے بشیر بن بشار سے،انہوں نے حصین بن محصن سے روایت کی کہ ان کی پھوپھی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی کام کے لئے حاضر ہوئیں،آپ نے ان کی حاجت برآری کے بعد ان سے دریافت کیا،بی بی!کیا تم خاوند والی ہو؟انہوں نے جواب دیا ،ہاں یارسول اللہ!میر ا خاوند ہے، دریافت فرمایا،تمہارا اس سے کیاسلوک ہے،گزارش کی،یارسول اللہ ،میں اس کی خدمت میں کوتاہی نہیں کرتی،جب تک میں بے بس نہ ہو جاؤں،فرمایا،خیال رکھنا،کہ تم اس سے کیسی گزربسر کرتی ہو،کہ تمہاری جنت اور دوزخ وہی ہے،ابوموسیٰ اور ابو نعیم نے ان کا ذکر کیا ہے۔
عمتہ سنان بن عبداللہ جہنی،ابوموسیٰ نے اذناً ابوغالب کوشیدی سے،انہوں نے ابوبکر بن زیدہ سے، انہوں نے طبرانی سے،انہوں نے عمرو بن ابوالطاہر بن ابوالسرح سے،انہوں نے یوسف بن عدی سے(ح) طبرانی نے عبید بن غنام سے،انہوں نے ابوبکر بن شیبہ سے،انہوں نے عبدالرحیم بن سلیمان سے،انہوں نے محمد بن کریب سے،انہوں نے ابن عیاش سے،انہوں نے سنان بن عبداللہ سے روایت کی،کہ ان کی پھوپھی نے انہیں بتایا کہ میں نے رسولِ اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر گزارش کی یا رسول اللہ!میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس نے نذر مانی تھی کہ وہ چل کر کعبتہ اللہ کوجائے گی،آپ نے فرمایا،کیا تو اس کی طرف سے یہ نذر ادا کرسکتی ہے،میں نے کہا،میں کرسکتی ہوں،فرمایا،پھرادا کرو،میں نے دریافت کیا ،یارسول اللہ،کیا یہ عمل اس کی طرف سے قبول کرلیا جائے گا،فرمایا ،ہاں،اگر بالفرض اس پر کسی کا قرض واجب الادا ہوتاہے،اگر وہ قبول ہوجاتا ہے،تو یہ اللہ کا قرض ہے،جس کی قبولیت میں کیا شُبہ ہو سکتا ہے،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
عمتہ العاص طفاوی،ایک روایت کے مطابق یہ ام الغاویہ ہیں،عاص بن عمرو الطفاوی نے اپنی پھوپھی سے روایت کی کہ وہ کچھ آدمیوں کے ساتھ حضوراکرم کے خدمت میں حاضرہوئیں اور کسی مفید نصیحت کی درخواست کی،فرمایا،کسی کے کان میں بُری بات ڈالنے سے پرہیزکرو،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
عمتہ عبدربہ بن سعید انصاری،یحییٰ بن محمود نے کتابتہً باسنادہ ابنِ ابی عاصم سے انہوں نے یعقوب بن حمید سے،انہوں نے عبدالعزیز بن محمد سے،انہوں نے محمد بن ابوحمید سے،انہوں نے عبدربہ سے، انہوں نے اپنی پھوپھی سے روایت کی کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،کہ تپ انسان کے گناہوں کواس طرح جلادیتاہے،جس طرح آگ لوہے کے زنگ کو،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ان کاذکر کیا ہے۔
عمتہ معبدبن کعب،اس اسناد کی رُو سے جو پہلے گزرچکاہے،یعقوب بن حمید نے ابن عینیہ سے،انہوں نے محمّد بن اسحاق سے،انہوں نے معبد بن کعب سے،انہوں نے اپنی والدہ یا پھوپھی سے روایت کی، حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خستہ حالی ایمان کا حِصہ ہے،(کیونکہ ابتدائے اسلام میں اکثر مسلمان خستہ حال رہے،مترجم) ابونعیم اور ابو موسیٰ نے انکا ذکر کیا ہے۔
عمتہ ہند دختر سعید بن ابوسعید خدری،اور ایک روایت میں دختر ابوسعید مذکور ہے،اور ایک روایت میں ان کی کنیت ام عبدالرحمٰن آئی ہے،ابوموسیٰ کتابتہً حسن بن احمد سے،انہوں نے احمد بن عبداللہ اور عبدالرحمٰن بن ابوبکر سے،انہوں نے عبداللہ بن محمد بن محمد سے ،انہوں نے ابوبکر بن عاصم سے انہوں نے یعقوب بن حمید سے انہوں نے عبدالعزیز بن محمد سے،انہوں نے محمد بن ابوحمید سے، انہوں نے ہند دختر سعید سے،انہوں نے اپنی پھوپھی سے روایت کی،کہ حضورِ اکرم ان کے ہاں تشریف لائے،آپ نے بکری کے کندھے کا گوشت تناول فرمایااور پھرکلّی کئے بغیر نماز ادا فرمائی، ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
بعض صحابیات کا ذکر جن کے نام نہیں معلوم ہوسکے۔
ایک خاتون ازبنواسد،یحییٰ بن محمود نے اجازۃً تا احمد بن عمروبن محمد بن عوف سے،انہوں نے محمد بن اسماعیل سے،انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے ضمضم بن زرعہ سے،انہوں نے شریح بن عبید سے،انہوں نے حبیب بن عبید سے،انہوں نے ابن ابح سلجی سے روایت کی کہ وہ ایک دن ام المومنین زینب کے پاس بیٹھی تھیں اور وہ اپنے کپڑوں کو سُرخی مائل رنگ سے رنگ رہی تھیں،کہ اتنے میں رسولِ اکرم تشریف لے آئے،جب آپ کی نظر اس رنگ پر پڑی تو واپس چلے گئے ام المؤمنین سمجھ گئیں،کہ حضور اکرم نے رنگ کو ناپسند کیا ہے،چنانچہ انہوں نے اپنے کپڑوں کو اس طرح دھویا کہ رنگ اُتر گیا،تھوڑی دیر کےبعدآپ پھر تشریف لائے،اور جب رنگ کا کوئی نشان نظر نہ آیاتو اندر آگئے،ابونعیم نے ذکرکیا ہے۔
خاتون از بنو عبدالاشہل از انصار،ابواحمد بن سکینہ نے باسنادہ سجستانی سے،انہوں نے عبداللہ بن محمد نفیلی اور احمد بن یونس سے،انہوں نے زہیر سے،انہوں نے عبدبن عیسیٰ سے،انہوں نے موسیٰ بن عبداللہ بن یزیدسے،انہوں نے عبدالاشہل کی ایک خاتون سے روایت کی،یارسول اللہ!ہماری مسجد کا راستہ گندا اور بدبودار ہے،جب بارش ہوجائے ہم کیا کریں،دریافت فرمایا،کیا بارش کے بعد صورتِ حال بہتر نہیں ہو جاتی،خاتون نے جواب دیا،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ توہوتا ہی ہے،فرمایا،یہ ادلے کا بدلہ ہے،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
خاتون انصاری،ابوالفرح بن ابوالرجاء نے باسنادہ قاضی ابوبکر بن عمرو سے،انہوں نے عقبہ بن مکرم سے،انہوں نے ابن ابی عدی سے،انہوں نے حسین المعلم سے،انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن فروہ سے،انہوں نے عبداللہ بن محمد بن عبداللہ انصاری سے،انہوں نے انصارکی ایک خاتون سے روایت کی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے اور وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہی تھیں،کیونکہ میں ہرکام بائیں ہاتھ سے کرتی تھی،آپ نے میراہاتھ پرٹھوکر لگائی اور فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ،اس پر بائیں ہاتھ سے کھانے کی عادت چھوٹ گئی،اور پھر کبھی اس ہاتھ سے کھانا نہ کھایا،ابونعیم نے ذکرکیا ہے۔
خاتون انصاری،ابویاسر نے باسنادہ عبداللہ سے،انہوں نے والد سے،انہوں نے یزید سے،انہوں نے سوید بن عبداللہ سے ،انہوں نے جامع بن ابوشداد سے،انہوں نے منذر ثوری سے،انہوں نے حسن بن محمد بن علی سے،انہوں نے انصار کی ایک خاتون سے روایت کی کہ وہ ام المومنین ام سلمہ سے ملنے گئیں اتنے میں حضورِاکرم تشریف لے آئے اور میں نے خود کو قمیص کی آستین سے ڈھانپ لیا،آپ نے ام سلمہ سے ایسے طریقے سے بات کی،کہ میں کچھ بھی نہ سمجھ سکی،آپ اُٹھ کر چلےگئے،تو میں نے ام سلمہ سے پوچھا،میرا خیال ہے کہ حضوراکرم تشریف لائے تھے،اور آپ سے کچھ باتیں بھی کیں،انہوں نے کہا،ہاں تمہارا کہنا درست ہے،آپ آئے اور کچھ گفتگو بھی کی،اس خاتون نے پوچھا،آپ نے کیا فرمایا تھا،ام سلمہ نے کہا،حضور اکرم نے فرمایا،کہ جب دنیا میں برائی پھیل جائے اور اسے نہ روکا جائے،تو اللہ تعالیٰ اہلِ زمین پر عذاب بھیجتا ہے،اس پر اس خاتون نے کہا کہ دُنیاوالوں میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں،ہاں ہوتے ہیں،مگر انہیں بھی وہ عذاب بھگتنا پڑتا ہےاور بعداز وفات اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیتا ہے،ابونعیم نے ان کا ذکر کیا ہے۔
خاتونِ مبایعہ،عبدالوہاب بن علی بن سکینہ نے باسنادہ ابوداؤد سے،انہوں نے مسدد سے،انہوں نے حمید بن اسود سے ،انہوں نے حجاج عامل عمر بن عبدالعزیز سے،انہوں نے اسید بن ابواسید سے،انہوں نے ایک مبایعہ خاتون سےروایت کی کہ حضورِ اکرم نے بوقت بیعت ہم سے عہد لیا تھا کہ ہم نیک اعمال میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی اپنے چہرے نہیں نوچیں گی،بالوں کو پراگندہ نہیں کریں گی،گریبان نہیں پھاڑیں گی اور نوحہ نہیں کریں گی۔
خاتونِ مبایعہ،یحییٰ بن محمود ثقفی نے اذناً باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے ابوسعید عبدالرحمٰن بن ابراہیم سے،انہوں نے ابن ابی فدیک سے،انہوں نے ضحاک بن عثمان سے،انہوں نے اپنے چچا سے،انہوں نے عمرو بن عبداللہ بن کعب سے،انہوں نے ایک خاتون منایعہ سے روایت کی کہ ایک بار حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنوسلمہ کی بستی میں تشریف لائے ہم نے کھانا پیش کیا،آپ نے تناول فرمایا،آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت بھی تھی،پھرہم نے وضو کے لئے پانی پیش کیا، آپ نے بعد از وضو صحابہ کی طرف توجہ فرمائی،اور فرمایا،کیا میں تمہیں ایسی باتیں نہ بتاؤں جو گناہوں اور خطاؤں کا کفارہ بنتی ہیں،صحابہ نے گزارش کی،یارسول اللہ !ضرور ارشاد فرمائیے،فرمایا، مکان کو وضو کے پانی سے سیراب کرنا،اور مسجد کی طرف آمدورفت کی کثرت،اور بعد ازادائے نماز اگلی نماز کا انتظار،ابونعیم نے ذکر کیاہے۔
خاتون از بنو خثعم،کثیر راویوں نے باسنادہم ابوعیسیٰ سے،انہوں نے احمد بن منیع سے،انہوں نے روح بن عبادہ سے،انہوں نے ابنِ جریج سے،انہوں نے ابنِ شہاب سے،انہوں نے سلیمان بن یسار سے، انہوں نےعبداللہ بن عباس سے،انہوں نے فضل بن عباس سے،انہوں نے بنو خثعم کی ایک خاتون سے روایت کی،یارسول اللہ میراوالد بہت بوڑھا ہے،اور حج اس پر فرض ہے،کیاکیا جائے، فرمایا،تم اس کی طرف سے اداکرو۔
خاتون از دعبدالدار،یحییٰ نے اذناً باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے محمد بن علی بن میمون سے، انہوں نے سلیمان بن عبیداللہ سے،انہوں نے یونس سے،انہوں نے ابن ابی ذئب سے ،انہوں نے زہری سے،انہوں نے عبداللہ بن عتبہ سے،انہوں نے صفیہ دختر ابوعبید سے،انہوں نے داریہ سے، جوبنوعبدالدار کی ایک خاتون حضورِاکرم کے تحویل میں تھیں،آپ نے فرمایا،جو شخص مدینے میں مرنا چاہے،اس کے لئے یہ زرّیں موقعہ ہے میں اس کا گواہ اور شفیع ہوں گا،یہ ابنِ ابی عاصم کی روایٔت ہے۔
ابونعیم کے روایت میں ہے،کہ ایک یتیم عورت از بنوثقیف جو حضورِ اکرم کی تحویل میں تھی،انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عمرسے روایت کی،اورابن ابی عاصم نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، واللہ اعلم۔
خاتونِ حبشیہ،ابو احمد بن سکینہ نے باسنادہ ابوداؤد سے،انہوں نے سلیمان بن حرب اور مسدد سے، انہوں نے حماد بن زید سے،انہوں نے ثابت سے،انہوں نے ابورافع سے،انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی،کہ ایک حبشن یا حبشی مسجد میں مقیم تھا،چند دن حضورِاکرم نے اسے نہ دیکھا،تو دریافت فرمایا،صحابہ نے جواب دیا،وہ مرگیا ہے،فرمایا،تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا،مجھے اس کی قبر پر لے چلو، آپ نے اس کی قبر پر نمازجنازہ ادا کی۔
خاتون جس نے دونوں قبلوں کی طرف نماز ادا کی،ابویاسر نے باسنادہ عبداللہ بن احمد سے،انہوں نے والد سے،انہوں نے یزید بن ہارون سے،انہوں نے ابن اسحاق سے،انہوں نے ابنِ ضمرہ بن سعید سے ،انہوں نے اپنی دادی سے،انہوں نے ایک خاتون سے،جس نے دونوں قبلوں کی طرف نماز ادا کی تھی،روایت کی،کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے،اور فرمایا،کہ خواتین مہندی لگانا چھوڑ دیتی ہیں،اور ان کے ہاتھ مردوں کے ہاتھوں کی طرح ہوجاتے ہیں،خاتون نے جواب دیا،یارسول اللہ ! میں نے ابھی مہندی لگانا نہیں چھوڑی،یہ مہندی والی خاتون اسّی برس کی ہوچکی تھیں،ابونعیم نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابنِ اثیر لکھتے ہیں کہ مہندی کا ذکر ضمرہ بن سعید کی دادی کے ترجمے میں گزرچکاہے،اور اسی حدیث کو ابوموسیٰ نے باسنادہ ابن نمیرسے،انہوں نے ابن اسحاق سے،انہوں نے ابن ضمرہ سے،انہوں نے اپنی زوجہ سے،انہوں نے ضمرہ کی دادی سے روایت کیا،انہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازادا کی تھی،اور امام احمد نے اپنی مسند میں یزید سے،انہوں نے ابن اسحاق سے،ابوموسیٰ کی روایت کی طرح ضمرہ کی دادی سے روایت کی ہے،جنہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنانصیب ہوا،نیز امام احد نے یزید سے باسنادہ ابنِ اسحاق سے،انہوں نے ابنِ ضمرہ سے،انہوں نے اپنی دادی سے،انہوں نے ایک خاتون سے جس نے قبلتین کی طرف نماز ادا کی تھی،روایت کی،واللہ اعلم۔
خاتون،یحییٰ بن محمود اور ابویاسر نے باسنادہمامسلم سے،انہوں نے محمد بن مثنی سے،انہوں نے عثمان بن عمر سے،انہوں نے شعبہ سے،انہوں نے ثابت بنانی سے،انہوں نے مالک بن انس سے روایت کی،جو اپنے بیٹے کی موت پر رورہی تھی،آپ نے فرمایا،اللہ سے ڈراورصبر کر،اس عورت نے جواب دیا،آپ کومیری مصیبت سے کیا غرض،جب آپ چلے گئے تو لوگوں نے بتایا،کہ وہ رسول اکرم تھے،خاتون کی یہ حالت ہوگئی،گویااس پر موت طاری ہوگئی ہے،وہ حضورِ اکرم کے دروازے پر آئی، کوئی دربان نہ تھا،گزارش کی ،یارسول اللہ !میں آپ کو پہچان نہ سکی،آپ نے فرمایا،صدمے پر صبر کرنا چاہئیے۔
خاتون از بنوغفار،عبیداللہ بن احمد نے باسنادہ یونس سے،انہوں نے محمد بن اسحاق سے،انہوں نے سلیمان بن سحیم سے،انہوں نے آمنہ دختر ابوالصلت سے،انہوں نے بنوغفار کی ایک خاتون سے روایت کی،کہ ہم چند عورتیں حضور اکرم کی خدمت میں حاضرہوئیں اور گزارش کی،کہ ہمیں خیبر کی مہم میں اسلامی لشکر کے ساتھ کوچ کی اجازت عطافرمائی جائے،ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کریں گی، اورمختلف کاموں میں مسلمانوں کی اعانت کریں گی،فرمایا،اللہ تمہیں برکت دے۔
خاتون،ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سبت(ہفتے) کے روزے کے بارے میں دریافت کیا،ابو یاسر نے باسنادہ عبداللہ سے،انہوں نے والدسے،انہوں نے حسن بن موسیٰ سے، انہوں نے ابن لہیعہ سے،انہوں نے موسیٰ بن وردان سے،انہوں نے عبید بن حنین سے،جو خارجہ کے مولیٰ تھے،روایت کی کہ ایک عورت نے حضورِاکرم سے سبت کے روزے کے بارے میں دریافت کیا،فرمایا،نہ تجھے اس سے کوئی فائد ہ اور نہ کوئی نقصان،ابونعیم نے ذکر کیاہے۔
خاتون،ان سے عطا بن یسار نے انہوں نے ابویاسر سے باسنادہ عبداللہ سے،انہوں نے والد سے ، انہوں نے عبدالرزاق سے،انہوں نے معمر سے،انہوں نے زید بن اسلم سے،انہوں نے عطابن یسار سے،انہوں نے ایک خاتون سےروایت کی ،کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدارہوئے تو آپ مسکرارہے تھے اور آپ نے بحری جنگ کا ذکر کیا،اس کاذکر امِ حرام دخترملحان کے ترجمے میں گزرچکا ہے،ابونعیم نے ذکر کیا ہےابوالقاسم بن عساکر الدمشقی کاقول ہے کہ یہ خاتون ام حرام نہیں،کیونکہ انہوں نے منذر بن زبیر کے ساتھ جہاد کیا،اور امِ حرام نے عثمان بن عفان کے عہد میں جہاد کیاتھااوراس وقت یہ فوت ہوچکی تھی،اور منذر نے یزید بن معاویہ کے ساتھ قسطنطنیہ میں جہاد کیا،واللہ اعلم۔
خاتونِ مکی،ابویاسر نے باسنادہ عبداللہ سے،انہوں نے اپنے والد سے ،انہوں نے عبدالصمد سے، انہوں نے ویلم ابوغالب قطان سے،انہوں نے حکم بن حجل سے،انہوں نے ام الکرام سے روایت کی کہ انہوں نے حج کیا،اور مکے میں ایک خاتون سے ملاقات کی،وہ خاتون بڑی دولتمند تھی،مگر اس نے صرف چاندی کے زیور پہن رکھے تھے اس خاتون نے بیان کیا کہ وہ اپنے دادا کے ساتھ حضور کی خدمت میں موجود تھیں اور انہوں نے سونے کے جھمکے پہن رکھے تھے،حضور نے دیکھ کر فرمایا،یہ آگ کے دو آویزے ہیں،اور ہمارے اہلبیت صرف چاندی استعمال کرتے ہیں،ابونعیم نے ذکر کیا ہے۔
خادمہ حبشیہ،حضورِ اکرم کی خدمت گزار تھیں،ثمامہ بن حرن القشیری کہتے ہیں،کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے نبیذ نے بارے میں پوچھا،انہوں نے کہاوہ حبشیہ لونڈی حضورِ اکرم کی خدمت کرتی رہی ہے،اس سے دریافت کرو،اس لونڈی نے جواب دیا،میں آپ کے لئے نبیذ تیار کرتی تھی،کہ عشاءکوکسی مشکیزے میں کھجور ڈال کر لٹکا دیتی اور صبح کو پلادیتی،ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔
خادمہ از عبداللہ بن عمرخطاب،ابوجعفر نے باسنادہ یونس بن بکیر سے،انہوں نے ابنِ اسحاق سے روایت کی،کہ حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمر بن خطاب کو بنو ہوازن کی ایک لونڈی عطا کی،جوانہوں نے عبداللہ بن عمر کو دے دی،ابن اسحاق کا قول ہے کہ انہوں نے نافع سے ،انہوں نے ابن عمر سے روایت کی کہ میں نے اس لونڈی کو اپنے ننھیال بنو جمح میں بھیج دیا،کہ وہ اسے نہلا دُھلادیں اور میں اتنی دیر طواف کعبہ سے فارغ ہو آؤں،جب میں فارغ ہوکر مسجد سے باہر نکلا،تو دیکھا کہ بنوہوازن کوچ کی تیاری کررہے ہیں،میں نے جب صورت ِحال دریافت کی،تو انہوں نے کہا، کہ رسولِ اکرم نے ہماری عورتیں اور بیٹوں کو آزاد کردیا ہے،میں نے کہا،تمہاری لڑکی بنو جمح میں ہے،وہ گئے،اور اسے ساتھ لے لیا۔
خادمہ از بنومؤ مل،قدیم الاسلام تھیں،اور ان لوگوں میں شامل ہیں،جنہیں مکے میں کفارنے تکلیفیں دی تھیں انہیں حضرت ابوبکر صدیق نے خرید کر آزاد کردیاتھا،ان کے علاوہ بلال،عامر بن فہیرہ وغیرہ کوبھی خرید کر آزاد کردیاتھا،کیونکہ ان سب لوگوں کو تکالیف دی جاتی تھیں،لوگوں نے کہا،اگرتوایسے جوانوں کو خریدتا،جو تیری پشت وپناہ بنتے،کہا،میرا یہی مقصد ہے،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
دایہ محمد بن طلحہ،ابوموسیٰ نے کتابتہً ابوالعباس سے،انہوں نے ابوبکر ضبی سے،انہوں نے سلیمان بن احمد سے،انہوں نے عبید بن غنام سے،انہوں نے ابوبکر بن ابوشیبہ سے(ح) ابوموسیٰ نے ابوعلی سے،انہوں نے ابونعیم سے،انہوں نے ابوعمر ابن حمدان سے،انہوں نے محفوظ بن ابولومہ سے،انہوں نے یزید بن ہارون سے،انہوں نے ابراہیم بن عثمان سے،انہوں نے محمد بن عبدالرحمٰن مولیٰ آلِ طلحہ سے،انہوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے،انہوں نے محمد بن طلحہ کی دایہ سے روایت کی،کہ جب محمد بن طلحہ پیداہوئے تو حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے،ہم بچے کو آپ کے سامنے لائے،دریافت فرمایا،تم نے اس کا کیانام رکھا ہے،ہم نے کہا،محمد،فرمایا،یہ میرانام ہے اور اس کی کنیت ابوالقاسم ہوگی،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ذکرکیا ہے۔
ام ولد شیبہ بن عثمان،ہشام دستوانی نے بدیل بن میسرہ سے،انہوں نے صفیہ دختر شیبہ سے،انہوں نے ام ولد شیبہ سے روایت کی،کہ انہوں نے حضورِ اکرم کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے دیکھا،آپ مقام ابطح سے دوڑتے گزرتے،ابوموسیٰ نے ذکرکیا ہے۔
غامدیہ،جسے زناکی وجہ سے رجم کیا گیا،یہ وہ خاتون ہے جو حضورِ اکرم کے خدمت میں آئیں،اور درخواست کی،کہ انہیں پاک کیا جائے ،فرمایا،واپس چلی جاؤ،دوسرے دن وہ پھر آئیں اور ارتکاب زنا کا اعتراف کیا،اور کہا کہ وہ حاملہ ہیں،فرمایا،جاؤ ،اور وضع حمل کے بعد آنا،بعداز وضع حمل بچے کو اُٹھائے لائیں اور کہا کہ میں نے یہ بچہ جناہے،فرمایا،جاؤ،اوراس کی پرورش کرو،اور جب اس کا دودھ چھڑاؤ،تو آنا،پھر بچے کو ساتھ لئے آئیں،اور بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا،آپ نے بچے کو ایک آدمی کے حوالے کیا،اورحکم کیا کہ غامدیہ کو رجم کردو،چنانچہ سنگ باری شروع ہوئی،جب خالد نے پتھر مارا،تو ان کے چہرے پر خون کے چند قطرے پڑگئے،انہوں نے مرحومہ کو بُرابھلاکہا،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا تو فرمایا،تم اسے گالیاں دے رہے ہو،بخدا،اس نے گناہوں سے ایسی سچی توبہ کی ہے،کہ اگر چنگی وصول کرنے والابھی ایسی توبہ کرے تو معاف کردیا جائے،اس کے بعد آپ نے مرحومہ کی نماز جنازہ پڑھی،اور پھر اسے دفن کردیا گیا،ابوموسیٰ نے انکا ذکر کیا ہے،واللہ اعلم۔