عمر بن عبد العزیزبن عمر بن مازہ المعروف بہ صدر الشہید: ابو محمد کنیت اور حسام الدین لقب تھا،۴۸۳ھ میں پیدا ہوئے،اپنے زمانہ کے ائمہ کبار میں سے فقیہ محدث اصول و فروع میں امام اور منقول و معقول کے بڑے عالم تھے۔خلاف و مذہب میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا،مناظرہ میں مخالف کے مسکت کرنے میں یگانۂ زمانہ تھے،فقہ وغیرہ علوم اپنے باپ برہان الدین کبیر عبد العزیز سے پڑھے اور اس قدر تحصیل علوم میں کوشش کی کہ خراسان کے علماء وفضلاء پر علم و فضل وحسن کلام میں فوقیت لے گئے اور آپ کی فضیلت کا موافق و مخالف نے اقرار کیا۔ماوراء النہر میں یہاں تک آپ کا رعب داب ہوا کہ بادشاہ و امراء وغیرہ آپ کی بڑی تعظیم کرتے اور آپ کے اشارات کو بہ دل و جاں قبول کرتے تھے چنانچہ اس عزت و توقیر سے مدت تک آپ تدریس و تصنیف میں مشغول رہے صاحب محیط اور صاحب ہدایہ اور عمر بن محمد عقیلی نے آپ سے فقہ پڑھی۔صاحب ہدایہ نے اپنی معجم شیوخ میں لکھا ہے کہ میں نے آپ سے علم نظرو فقہ کو پڑھا اور آپ میری بڑی عزت کیا کرتے تھے اور مجھ کو اپنے خاص تلامذہ میں رکھا ہوا تھا لیکن افسوس مجھ کو آپ سے روایت کی اجازت حاصل کرنے کا اتفاق نہ ہوا اور اب مجھ کو بذریعہ ایک شیخ کے آپ سے روایت حاصل ہے۔کتاب فتاویٰ کبریٰ وصغری،شرح ادب القضاء خصاف،شرح جامع صغیر،کتاب واقعات،کتاب منتقی وغیرہ آپ کی اشہر تصنیفات سے یادگار ہیں۔
ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ آپ نے جامع صغیر کی تین شرحیں،ایک مطول،دوم متوسط سوم مختصر تصنیف کیں،سمر قند میں بعد واقعۂ قطوان کے ماہ صفر ۵۳۶ھ میں ایک کافر کے ہاتھ سے شہادت پائی اور نعش آپ کی بخارا میں لے جاکر دفن کی گئی۔تاریخ وفات آپ کی ’’علامۂ بلند قدر‘‘ سے نکلتی ہے۔
(حدائق الحنفیہ)