ام عبداللہ،نعیم بن نحام کی زوجہ تھیں،عروہ بن زبیر نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی کہ وہ اپنے والد حضرت عمر کے پاس گئے اور کہا ،کہ میں نے نعیم بن نحام کی بیٹی
کو نکاح کا پیغام بھیجا ہے،میں چاہتا ہوں،کہ آپ میرے ساتھ چلیں اور اس سے میرےنکاح کے بارے میں گفتگوکریں،حضرت عمرنے کہا،میں نعیم کو تم سے بہتر جانتاہوں،اس کا
ایک یتیم بھتیجا ہےاور میں باور نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا گوشت(رشتہ)چھوڑدے گا،اگر یہ کام کرنا چاہتے ہو تو اپنے چچا زید بن خطاب کو لے جاؤ، ہم وہاں گئے اور میرے
چچا نے ان سے بات کی،مجھے ایسا معلوم ہوا کہ نعیم نے حضرت عمر کی بات سُن لی تھی،انہوں نے ہمیں بہ طیب خاطر خوش آمدید کہا اور حضرت عمر کے مقام اور شرف کا ذکر
کیا،اس کے بعد نعیم نے کہا،کہ میرا ایک یتیم بھتیجا ہے،یہ تو نہیں ہوسکتا،کہ میں غیروں کے گوشت کو اپنے ساتھ ملالوں اور اپنے گوشت کو چھوڑدُوں،اس موقعہ پر اس کی
ماں گھر کے ایک کونے سے بول پڑی،بخدا یہ معالمہ اس وقت تک طے نہیں ہوسکتا،جب تک کہ رسولِ کریم اس بات میں اپنا فیصلہ نہ دیں،کیا تم بنوعدی کی ایک بیوہ کو اپنے
فاطرالعقل بھتیجے کے لئے روک رکھوگے(یا راوی نے ضعیف کا لفظ استعمال کیا تھا)اس کے بعد وہ خاتون حضورِ اکر م کی خدمت میں حاضر ہوئی،اور واقعہ بیان کیا،اس کے بعد
آپ نے نعیم کو بُلایا،اور انہوں نے وہی بات کہی،جو عبداللہ بن عمر سے کہہ چکے تھے،اس کے بعد حضورِ اکرم نے فرمایا،تم اپنوں سے صلہ رحمی کرو،اور اپنی بیوہ کی
رضامندی بھی حاصل کرو،کیونکہ ان دونوں رشتوں کا اس معاملہ میں حِصہ ہے،ابن ِ مندہ اور ابونعیم نے ذکر کیا ہے۔