ام فروہ دختر ابوقحافہ تیمیہ،ہم ان کا نسب ان کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں،یہ خاتون حضرت ابوبکر صدیق کی ہمشیرہ تھیں،ان کی والدہ کا نام ہند دختر بجیر بن عبد
بن قصی تھا،جنہیں ان کے بھائی ابوبکر اشعث بن قیس کندی کے ساتھ بیاہا تھا،اور پھر ان سے محمد،اسحاق ،قریبہ اور حبابہ چاراولادیں ہوئی تھیں،ام فروہ نے حضورِ اکرم
سے بیعت کی تھی اور آپ سے بقول ابن عمر یہ
حدیث روایت کی،کہ سب اعمال میں بہترین عمل اول وقت میں نماز اداکرنا ہے،ابنِ مندہ اور ابونعیم نے اسے مختصر کردیا ہے،کہ ام فروہ ابو قحافہ کی بیٹی اور ابوبکر کی
ہمشیرہ تھیں،ان کا ذکر فتحِ مکہ کی حدیث میں آیاہے،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابنِ اثیر لکھتے ہیں،کہ ابوعمر نے یہ حدیث اس ترجمے میں بیان کی ہے اور آگے چل کر لکھتے ہیں کہ بعض لوگ اس خاتو ن (ام فروہ) کو انصاریہ گردانتے ہیں،حالانکہ یہ
غلط ہے،لیکن یہ روایت موجود ہےکیونکہ قاسم بن غثام انصاری اس حدیث کو کبھی تو اپنی قریبی دادی سے کبھی دور کی دادی سے اور کبھی اپنی دادیوں ،نانیوں سے اور پھر
اپنی پھوپھی سے روایت کرتے ہیں لیکن صحیح بات وہ ہے جو ہم لِکھی ہے لیکن ابن مندہ اور ابونعیم نے اس حدیث کو ام فروہ انصاریہ سے روایت کیا ہے،جیسا کہ ہم اس سے
پہلے ترجمے میں لکھ آئے ہیں،طبرانی نے ام فروہ کو ابوبکر کی ہمشیرہ لکھا ہے،مگر بعض اور لوگ اس کے خلاف ہیں،واللہ اعلم،حالانکہ قاسم بن غثام انصاری اس حدیث کو
کبھی اپنی دادی سے اور کبھی اور اپنے رشتہ داروں سے روایت کرتے ہیں،حیرت ہے کہ اس حدیث میں ان کے پاس پہنچ کر اختلاف کیوں پیدا ہوگیا،ام فروہ انصاریہ ہیں،اور
ابوبکر کی ہمشیرہ یہا ں کیسے آگئیں واللہ اعلم۔