ام حکیم دخترِ حارث بن ہشام قرشیہ مخزومیہ ،ان کی والدہ کانام فاطمہ تھا،جو ولید کی دختر اور خلد کی ہمشیرہ تھیں،وہ غزوۂ احد میں بحالتِ کفر شریک تھیں،اور فتح
مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا،وہ اپنے عمزاد عکرمہ بن ابوجہل کی بیوی تھیں،جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو عکرمہ بھاگ کر یمن چلا گیاتھا،ام حکیم نے حاضر ہو
کر گزارش کی ،یارسول اللہ !اگر آپ اجازت دیں تو میں عکرمہ کو واپس لے آؤں،آپ نے اجازت دے دی،اور بیوی شوہر کو ڈھونڈھ لائی،اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
بعد میں جب عکرمہ شہید ہو گئے تو خالد بن سعید (جب اسلامی لشکر نے مرج الصفرکے مقام پر دمشق کے قریب کیمپ کیا)ان سے نکاح کی خواہش کی،ام حکیم نے کہا ،اگر تم
کفار کے لشکر کی شکست کا انتظار کر سکو ،خالد نے کہا میری چھٹی حس مجھےبتا رہی ہے،کہ میں اس معرکے میں مارا جاؤں گا، چنانچہ مرج الصفر کے پل کے پاس ان کی رسم
عروسی ادا کی گئی،اور خالد نے احباب کو ولیمہ کھلایا،اس پُل کا نا م ان کے نام جرام الحکیم،دعوت ولیمہ بمشکل ختم ہوئی ہوگی،کہ رومیوں نے اسلامی لشکر پر یلغار
کردی،اور خالد بن سعید شہید ہوگئے،شیر دل بیوی نے اس خیمے کا جس میں خالد نے شبِ عروسی گزاری تھی،ایک ستون نکال لیا،اور سات کافروں کو موت کے گھاٹ اتار
دیا،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔