ام اسحاق غنویہ،ان سے ام حکیم دختر دینار نے روایت کی،مہاجرہ تھیں،ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بشارت بن عبدالملک سے،انہوں نے ام حکیم دختر دینار سے،جو ام اسحاق کی
آزاد کردہ کنیز تھیں روایت کی،کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ آنحضرت کی ملاقات کے لیئے روانہ ہوئیں،ابھی تھوڑا فاصلہ ہی طے کیا تھا،کہ ان کے بھائی نے کہا،کہ وہ
اپنازادِراہ مکے میں ہی بھول آیا ہے،بہن کو کہا،کہ وہ یہاں بیٹھ کر انتظار کریں،تاکہ وہ اپنا زادِسفر لے آئے،بہن نے کہا مجھے ڈر ہے کہ میرافاسق خاوند تمہیں
آنے نہیں دے گا،اس نے مجھے تسلی دی،اور خود زادِسفر لینے چلاگیا،مجھے وہاں بیٹھے کئی دن گزر گئے، لیکن میرا بھائی نہ آیا،اتفاقا ایک دن وہاں سے ایک آدمی جسے
میں جانتی تھی،گزرا،اس نے وہاں بیٹھنے کی وجہ پوچھی،اور میں نے بتائی،تو اس نے مجھے بتایا ،کہ میرے بھائی کو میرے خاوند نے قتل کردیا ہے،میں جب حضور کی خدمت میں
پہنچی،توآپ وضو فرمارہے تھے،میں روئے جارہی تھی،اور حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے دیکھ رہے تھے،آپ نے چلو بھر پانی لیا،اور میرے منہ پر چھینٹا
مارا،اس کے بعد میر ی یہ حالت ہوگئی تھی کہ بڑی بڑی مصیبتوں میں میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں،مگر کبھی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکا۔
ابویاسر نے باسنادہ عبداللہ سے،انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے عبدالصمد سے،انہوں نے بشار بن عبدالملک سے،انہوں نے ام حکیم سے، انہوں نے دینار سے ،انہوں نے اپنی
آزاد کردہ کنیز ام اسحاق سے روایت کی کہ وہ رسولِ کریم کے پاس بیٹھی تھیں،کہ آپ کے سامنے ثرید کا بڑاسا پیالہ پیش کیاگیا،میں نے اور ذوالیدین نے بھی جو اس وقت
وہاں موجود تھا،ثرید کھایا،اس کے بعد حضورِ اکرم نے گوشت کا ایک ٹکڑااٹھایا اور مجھے بھی فرمایا،کہ کھاؤ،مجھے یاد آگیا کہ میں اس دن روزے سے تھی،چنانچہ میر ا
ہاتھ رُک گیا،نہ آگے جاتا تھا نہ پیچھے ہٹتاتھا،حضورِ اکرم نے وجہ دریافت فرمائی، تو میں نے گزارش کی،کہ میں تو روزے سے تھی،ذوالیدین نے کہا،جب پیٹ بھر کر
کھاچکی ہو،تو اب تمہیں یاد آیا ہے،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،یہ اللہ کا رزق تھا،کہ جس تک تجھے خدا لے گیا۔