امِ قیس دخترمحصن بن حرثان اسدیہ ،جوعکاشہ بن محصن کی ہمشیرہ تھیں،مکے میں اسلام قبول کیا، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلّم سے بیعت کی اور پھر مدینے کو ہجرت کی۔
روات کی ایک جماعت نے ابوعیسیٰ سے،انہوں نے قتیبہ اور احمد بن منیع سے،انہوں نے سفیان سے، انہوں نے زہری سے ،انہوں نےعبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے،انہوں نے ام
قیس سےروایت کی کہ وہ اپنے بیٹے کو جو ابھی روٹی نہیں کھاتا تھا،ساتھ لے کر حضورِ اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اسے نے آپ پر پیشاب کردیا،آپ نے پانی طلب
فرمایا اور کپڑے پر پانی چھڑکا۔
ابوعمر کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے وابصہ بن معبد ،عبیداللہ اور رافع مولیٰ حمنہ دختر شجاع نے ان سے روایت کی،اور وہ حدیث جو ابنِ لہیعہ نے ابوالاسود سے،انہوں نے
درہ دختر معاذ سے روایت کی، بقول عقیلی انہوں نے وہ حدیث ام قیس سے روایت کی،انہوں نے حضور اکرم سے دریافت کیا، یارسول اللہ!کیا ہم مرنے کے بعد ایک دوسرےسے
ملاقات کریں گے؟آپ نےفرمایا،کہ روحیں پرندوں کی طرح جسم میں معلق رہیں گی،اور جب قیامت آئے گی،تمام روحیں اپنے جسموں میں داخل ہو جائیں گی۔
عقیلی کہتے ہیں،کہ ام قیس جو انصار سے ہیں،یہ محصن کی بیٹی نہیں ہیں،ابوعمر کا قول ہے،کہ ایک روایت کی رو سے اس حدیث کی راویہ ام ہانی انصاریہ ہیں،ابن ابی حثمہ
وغیرہ نے ان کا ذکر کیا ہے،ہم پھر ان کا ذکر کریں گے،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے،ابوعمرام قیس انصاریہ پر ایک علیحدہ ترجمہ لکھنا چاہتے تھے،ایساتو نہ کرسکے لیکن
ان کی حدیث کو ام قیس دختر محصن اسدیہ کے ترجمے میں بیان کردیا۔
محمد بن محمد بن سرایا نے باسنادہ محمد بن اسماعیل سے،انہوں نے ابوالیمان سے،انہوں نے شعیہ سے، انہوں نےزہری سے،انہوں نے عبیداللہ بن احمد سے روایت کی کہ امِ
قیس دخترمحصن اسدیہ بنو اسد خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں اور وُہ قدیم الاسلام مہاجرات سے تھیں جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی اور وہ عکاشہ
کی بہن تھیں وہ حضور اکرم کی خدمت میں اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہوئیں،انہوں نے اپنے بیٹے کے گلے میں گندگی باندھی تھی،حضورِ اکرم نے،فرمایا، اپنے بیٹوں کے گلے
میں غلاظت سے کیوں انہیں ذلیل کرتے ہو،تمہیں چاہئیے کہ عود ہندی استعمال کرو، کہ اس میں سات بیماریوں سے شفا ہے،جن میں ایک نمونیہ ہے۔