ام رومان دختر عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذینہ بن دھمان بن حارث بن غنیم بن مالک بن کنانہ کنانیہ جو ابوبکر صدیق کی زوجہ اور حضرت عائشہ اور
عبدالرحمٰن کی والدہ تھیں،زبیر نے ان کا سلسلۂ نسب اسی طرح بیان کیا ہے اور باقی لوگوں نے اس کی سخت ممانعت کی ہے اور لکھاہے کہ اس پر اجماع ہے کہ ان کا تعلق
بنو غنم بن مالک بن کنانہ سے ہے،ان کی وفات چھٹے سال ہجری کے ماہِ ذی الحج میں ہوئی،ایک روایت میں چوتھا اور ایک میں پانچواں سال ہجری مذکور ہے،لیکن یہ دونوں
روایات غلط ہیں،کیونکہ ام رومان واقعۂ افک کے وقت زندہ تھیں،جو چھٹے سال ہجری میں واقع ہواتھا، جب وہ فوت ہوئی تھیں تو حضور ان کی قبر میں اترے تھے اور دعائے
مغفرت فرمائی تھی۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مروی ہے کہ ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا تھا کہ جسے بہشت کی حُور عین دیکھنے کی خواہش ہو ،وہ ام رومان کو دیکھ لے۔
حضرت ابوبکر کے نکاح میں آنے سے پہلے ام رومان عبداللہ بن سخیرہ بن جرثومہ الخیر بن غادیہ بن مرۃ الازدی کی زوجیت میں تھیں،ان سے ان کا ایک بیٹاہوا،جس کا نام
طفیل تھا،ابوبکر سے ان کی دو اولاد یں ہوئیں،حضرت عائشہ اور عبدالرحمٰن۔
ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے،انہوں نے عائشہ سے روایت کی کہ جب حضور اکرم نے ہجرت کی تو نبیِ کریم کی صاحبزادیاں اور ہمارا خاندان مکے میں ہی رہ گیاتھا،جب آپ
مدینے میں ٹھہر گئے تو آپ نے زید بن حارثہ اور اپنے مولاابورافع کو دو اونٹ اور پانسو درہم دے کر (زادِسفراور سواری کی خرید کے لئے)روانہ فرمایا ،حضرت ابوبکر
نے اپنے اہلِ خاندان کے لانے کے لئے عبداللہ بن اریقط کو دویاتین اونٹ دے کر ان کے ساتھ کردیا،اور اپنے بیٹے عبداللہ کو لکھا کہ میر ی والدہ مجھے اور اسماء کو
روانہ کرادیں،ہم سب مل جل کر ایک ساتھ وہاں سے نکلے،طلحہ بھی ہجرت کرنا چاہتے تھے،وہ بھی ساتھ ہو لئے۔
زید بن حارثہ اور ابو رافع نے جناب فاطمہ،ام کلثوم ام ایمن اور ام المومنین سودہ کو ساتھ لیا اور مدینے پہنچ گئے،حضورِ اکرم تعمیر مسجد اور اپنے لئےحجرے بنوا
چکے تھے،اپنے خاندان کو وہاں ٹھہرایا، تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔