ام سارہ اوربروایتےسارہ جو قریش کی ایک آزاد کنیز تھیں،ان کا ذکر انس کی حدیث میں آتاہے، قتادہ نے انس سے روایت کی کہ ام سارہ قریش کی ایک آزاد کردہ کنیز
تھیں،وہ حضور کی خدمت میں کسی ضرورت کے لئے آئیں،پھر آپ نے ام سارہ کو ایک رقعہ دے کر ایک آدمی کے ساتھ مکے روانہ کیا،تاکہ اس کے اہل وعیال کی حفاظت کی جائے
اس پر یہ آیت اتری، یَااَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُولَاتَتَّخِذُواعَدُوِّی وَعَدُوَّکُم اَولِیَاءَ ،ابن مندہ اور ابونعیم نے ذکر کیا ہے۔
ابو نعیم لکھتے ہیں کہ میں کسی آدمی کو نہیں جانتا،جس نے ام سارہ کو صحابیات میں شمار کیا ہو،یا سوائے ابن فحدس اس کے اسلام کا ذکر کیا ہے۔
ابن اثیر لکھتے ہیں،کہ اس قصّے کا تعلق حاطب بن ابی بلتعہ کے ساتھ ہے،جنہوں نے اہل مکہ کو بذریعہ خط حضورِ اکرم کے مکے پر حملے کے بارے میں اطلاع دی تھی،اور پھر
رسولِ اکرم نے حضرت علی اور زبیر کو اس عورت کے تعاقب میں روانہ کیا تھا،اور انہوں نے اسے روضۂ خاخ کے پاس پکڑلیا تھا۔