ام شریک ،دوسیہ،مہاجرات سے ہیں،ابن مندہ نے ان کا ذکر کیا ہے،ابونعیم نے ان کاذکرکیا ہے اور انہیں ام شریک عامریہ سے مخلف قرار دیا ہے،حالانکہ میرے نزدیک دونوں
ایک ہیں،اور ان کا ذکر آگے آئے گا،اورایک روایت میں انہیں دختر جابر لکھا گیا ہے۔
ابوجعفر بن سمین نے باسنادہ یونس بن بکیر سے،انہوں نے عبدالاعلی بن ابو الماور قریشی سے،انہوں نے محمد بن عمرو بن عطاء سے ،انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی،کہ
بنودوس کی ایک خاتون نے جن کا نام ام شریک تھا،ماہِ رمضان میں اسلام قبول کیا،اب انہیں کسی ایسے شخص کی تلاش تھی،جو انہیں حضورِ اکرم کے پاس لے چلے،اتفاقاً ان
کی ایک یہودی سےملاقات ہو گئی،اس نے پوچھا،اے ام شریک تم فکر مند کیو ں ہو،انہوں نے کہا،مجھے کسی آدمی کی تلاش ہے،جو مجھے دربارِ رسالت میں لے چلے،یہودی نے
کہا،واہ یہ بھی کوئی مشکل کام ہے،آؤ میں تمہیں لے چلتا ہوں،راوی نے سار ی حدیث بیان کی۔
ابن مندہ نے اس حدیث کو بیان کیا ہے،ابونعیم نے بھی اسے بیان کیا ہے،اور پھر اس کے ساتھ وہ حدیث بھی بیا ن کی ہے،جسے کلبی نے ابو صالح سے ،انہوں نے ابنِ عباس سے
روایت کی کہ ام شریک کے دل میں اسلام قبول کرنے کا خیال پیدا ہوا،ان کا تعلق قریش کے قبیلے بنو عامر بن لوئی سے تھا،اور ابوالتکردوسی کی زوجہ تھیں،چنانچہ وہ
اسلام لے آئیں،اس کے بعد ان کا معمول تھا،کہ چپکے چپکے قریش کے گھروں میں جا کر انہیں اسلام می طرف مائل کرتیں،جب قریش کو اس کا علم ہوا،تو انہوںے نے انہیں پکڑ
کر اپنے قبیلے میں بھیج دیا،راوی نے یہ حدیث مکمل طور پر بیان کی ہے، اور اس سے اس امر پر استدلال کیاہے،کہ اس خاتون کا تعلق بنو عامر سے تھا۔
ابنِ اسحاق نے بھی اس حدیث کو ابنِ مندہ کی طرف بیان کا ہے،اور اس کا عنوان رکھا ہے،"ام شریک کااسلام"،واللہ اعلم،ابوعمر نے ان کا ذکر نہیں کیا،شاید وہ انہیں ام
شریک عامریہ سمجھے ہیں۔