ام العلاء انصاریہ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی،عبدالوہاب بن ہبتہ اللہ نے باسنادہ عبداللہ سے،انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے ابوکامل
سے،انہوں نے ابراہیم بن سعد سے ،انہوں نے ابنِ شہاب اور(ح)یعقوب سے،انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے ابن شہاب سے،انہوں نے خارجہ بن یزید بن ثابت سے،انہوں نے
ام العلاء سے یہ خاتون ان کے قبیلے سے تھی،یعقوب کہتے ہیں کہ انہیں اس خاتون نے بتایا،کہ انہوں نے رسولِ کریم سے بیعت کی اور جس زمانے میں کہ مہاجرین کے لئے
انصار کے گھروں پر قرعہ ڈالا گیا،توعثمان بن مظعون ان کے گھروں میں در آیا تھا،ام العلاء کہتی ہیں کہ عثمان بن مظعون بیمار پڑگیا،ہم نے اس کی تیمارداری
کی،اور جب وہ فوت ہوگیا،تو ہم نے اسے اس کے ان کپڑوں ہی میں دفن کردیا،جو اس نے پہن رکھے تھے۔
اتنے میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لے آئے،میں نے کہا، اے ابوالسائب تجھ پر اللہ کی رحمت ہو،میں اس امر کی شہادت دیتی ہوں کہ خدانے
تجھ پر فضل وکرم کیا ہے،حضور ِاکرم نے دریافت فرمایا،تجھے اس پر اللہ کے فضل و کرم کا کیسے علم ہوا،میں نے عرض کیا، یارسول اللہ !اس کو تو مجھے علم نہیں آپ
نے فرمایا،اسے اس کا یقین خدا کی طرف سے مرحمت ہوا ہے،اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے نوازے گا،حقیقت یہ ہے کہ میں نبی ہوں لیکن کہہ نہیں سکتا،کہ وہاں
مجھے کیا پیش آئے گا،یعقوب نےکہا ام العلاء کہنے لگی میں نے ارادہ کرلیا،کہ آئندہ کسی آدمی کے بارے میں حسن ظن کا اظہا ر نہیں کروں گی،اس سے میں حد درجہ
افسردہ ہوئی اور سو گئی، خواب میں دیکھا کہ عثمان کے لئے پانی کا ایک چشمہ جاری ہے،میں حضور کے پاس آئی اور خواب بیان کیا آپ نے فرمایا یہ اس کے اعمال
ہیں۔
عمرو بن دینار نے آخرین میں زہری اور عبدالملک بن عمیر نے ام العلاء سے روایت کی کہ مرض مسلمانوں کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جس خاتون کو یہ واقعہ پیش آیا،وہ اس خاتون کے علاوہ کوئی اور خاتون تھیں ابن سکن کا قول ہے کہ جس ام العلاء نے خارجہ بن زید سے روایت
کی ،وہ اس ام العلاء سے مختلف ہے، جس نے عبدالملک بن عمیر سے روایت کی اور انہوں نے ایک تیسری ام العلاء کا ذکرکیا ہے،جو ان کے علاوہ ہے،ان کی حدیث کامخرج
اہل ِشام ہیں،جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کو تشریف لائے تھے اور ہم پیشتر ازیں بیان کر آئے ہیں،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔