ام ورقہ دختر عبداللہ بن حارث بن عمری انصاریہ،ایک روایت میں ام ورقہ دختر نوفل ہے اور وہ اپنی کنیت کی وجہ سے مشہور ہیں،ان کے نسب کا اختلاف ہے۔
عبدالوہاب بن علی الصوفی نے باسنادہ ابوداؤد سے،انہوں نے عثمان بن ابی شیبہ سے،انہوں نے وکیع سے،انہوں نے ولید بن عبداللہ بن جمیع سے،انہوں نے اپنی دادی
اورعبدالرحمٰن بن خلاد انصاری سے،انہوں نے ام ورقہ بن نوفل سے روایت کی کہ جب حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہِ بدر کے لئے کوچ فرمایا،تو ورقہ نے حضورکے
ساتھ چلنے کی اجازت طلب کی،تاکہ مریضوں کی تیمارداری کریں،شاید انہیں بھی شہادت نصیب ہوجائے،فرمایا،تم اپنے گھر میں مقیم رہو،تمہیں یہیں شہادت مل جائے گی،چنانچہ
لوگ انہیں شہید کہتے تھے،انہوں نے قرآن حکیم پڑھاتھا،اور آپ نے انہیں گھر میں موذن رکھنے کی اجازت دی ہو ئی تھی۔
انہوں نے اپنے غلام اور لونڈی سے مکاتبت کی تھی،ایک روات وہ دونوں اُٹھے اور ایک کپڑا مالکہ کےگلے میں ڈال کر اسے قتل کردیا،اور بھاگ گئے،صبح کو جب حضرت عمر
بیدارہوئے،تو لوگوں سے کہا،کہ تم میں سے جس شخص نے ان ڈاکوؤں کو دیکھاہویاعلم ہو،وہ انہیں پکڑ لائے،چنانچہ انہیں مدینے میں پھانسی دی گئی۔
ابوداؤد کہتے ہیں،کہ مجھے حسن بن حماد حضرمی نے،محمد بن فضیل سے،انہوں نے ولیدبن جمیع سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن خلاد سے،انہوں نے ام ورقہ سے یہ حدیث روایت
کی،لیکن اول الذکر اسناد زیادہ مکمل ہے تینوں نے انکا ذکر کیا ہےمروی ہے کہ جب حضرت عمرکوعِلم ہوا کہ فلاں خاتون قتل ہوگئی ہے،تو انہوں نے کہا،حضورِ اکرم سچ ہی
فرمایاکرتے تھے،آؤ فلاں شہیدہ سے ملنے چلیں۔