ام الخیر دختر صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ قرشیہ تیمیہ،ان کا نام سلمیٰ تھا،اور وہ ابوبکر صدیق کی والدہ تھیں،بقول زبیر انہوں نے رسولِ کریم صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کی۔
قاسم بن محمد نے جناب عائشہ سے روایت کی،کہ جب حضرت ابوبکر نے اسلام قبول کیا،تو انہوں نے پہلا خطبہ دیا،اور لوگوں کو خداکی عبادت اور رسولِ اکرم کی اطاعت کی
طرف بُلایا،اس پر مشرکین مکہ نے ابوبکرپر حملہ کردیا،اور انہیں بُری طرح زدوکوب کیا،عتبہ بن ابوربیعہ حضرت ابوبکر کے قریب کھڑاتھا،وہ اپنے جوتوں سے جن میں نعل
لگے تھے،ان کے منہ پر ٹھوکریں مارتا رہا،تا آنکہ ان کی ناک چہرے کہ برابر ہوگئی،اس کےبعد وہ ان کے پیٹ کو مارتا رہا،اور وہ گوشت کا ایک لوتھڑا بن گئے۔
جب بنو تیم کو معلوم ہوا تو وہ آئے اور انہیں کپڑے میں ڈال کر لے گئے،اور انہیں ان کی موت کا یقین ہوگیا،حضرت ابوبکر کے والد اس ان کے اہلِ قبیلہ انہیں بُلانے
کی کوشش کرتے رہے،بہ مشکل تمام انہوں نے زبان کھولی،اور دریافت فرمایا،کہ رسولِ اکرم پر کیا گزری،لوگوں نے انہیں بُرا بھلا کہا،اور اہل قبیل انہیں چھوڑکر چلے
گئے،لیکن ابوبکر بار بار آپ کے متعلق دریافت کرتے ، آخر الامر لوگ انہیں اٹھا کر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے،حضورِ اکرم نے جھک کر
ابوبکرکوبوسہ دیا،اور آپ پر شدید رقت طاری ہوگئی۔
اس موقعہ پر حضرت ابوبکر نے درخواست کی،یا رسول اللہ ،یہ میری ماں ہے،اور آپ اللہ کے مقدس رسول ہیں آپ میری والدہ کو دعوتِ اسلام دیں،ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کے
وسیلے سے دوزخ کی آگ سے بچ جائے،حضورِ اکرم نے ام الخیر کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گئیں۔
ابونعیم کا قول ہے کہ جب حضرت ابوبکر فوت ہوئے تو ان کے والد ابو قحافہ اور والدہ ام الخیر ان کے وارث ہوئے۔
زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے،انہوں نے ابن عباس سے روایت کی،کہ حضرت ابوبکر کی والدہ نے اسلام قبول کیا،تو حضرت عثمان،طلحہ،زبیر ،عبدالرحمٰن بن عوف
اور عماربن یاسر کی مائیں بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئیں،اور ایک روایت میں ہے،کہ ام الخیر قدیم الاسلام ہیں اور انہوں نے حضرت ابوبکر کے ساتھ اسلام قبول
کیاتھا،اور ام الخیر،ابوقحافہ سے پہلے فوت ہوئیں، تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔