(سیّدہ ) امِ کلثوم( رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ ) امِ کلثوم( رضی اللہ عنہا) (تذکرہ / سوانح)
ام کلثوم دختر علی بن ابی طالب،جناب فاطمتہ الزہرا ان کی والدہ تھیں،حضورِ اکرم کی وفات سے پہلے پیدا ہوئیں،حضرت عمر نے حضر ت علی سے ان کا رشتہ مانگا،حضرت علی نے کہا ،امیرالمومنین،وہ تو ابھی کم عمر ہے،حضرت عمر نے کہا،اے ابوالحسن،آپ اسے بیاہ دیں،مجھے اس سے ایسی کرامت کی توقع ہے،جو اور کسی کو نہیں ہوسکتی،حضرت علی نے کہا،اچھا،میں اسے آپ کے پاس بھیج دیتا ہوں، اگرآپ نے اسے راضی کرلیا،تو مجھے کوئی عذر نہ ہوگا،چنانچہ حضرت علی نے انہیں حضرت عمر کے پاس یہ کہہ کر بھیجا،کہ یہ چادر لے جاؤ،اور انہیں دے آؤ،جناب ام کلثوم نے حضرت عمر کو کہا ،کہ میں یہ چادر آپ کے لئے لائی ہوں،خلیفہ نے کہا،مجھے یہ چادر پسند ہے،اللہ تجھ سے راضی ہو،اس کے بعد خلیفہ نے ان کے کندھے پر اپناہاتھ رکھا،تو صاحبزادی نے کہا،کہ اگرآپ امیرالمومنین نہ ہوتے ،تو میں آپ کی ناک توڑ دیتی،واپس آگئیں،تو حضرت علی سے کہا،آپ نے مجھے کیسے بر بوڑھے کے پاس بھیجا تھا،حضرت علی نے کہا،بیٹی وہ تو تمہارے شوہر ہیں،اس کے بعد حضرت عمر آئے اور روضے میں جہاں مہاجرین اولین بیٹھا کرتے تھے،بیٹھ گئے اور حاضرین سے کہا،کہ مجھے مبارک دو، انہوں نے پوچھا،امیرالمومنین!کس بات پر؟ حضرت عمر نے کہا،میں نے حضورِ اکرم سے سُنا،آپ نے فرمایا ،قیامت کے دن تمام تعلقات،نسب اور سسرال کے رشتے ختم ہو جائینگے،مگر میرا تعلق، نسب اورسسرال کا رشتہ علی حالہ باقی رہے گا،مجھے حضور اکرم سے تعلق اور نسب تو حاصل تھا، میری خواہش تھی کہ خاندان نبوّت سے سسرال کا رشتہ بھی قائم ہو جائے،چنانچہ میں نے ام کلثوم دختر علی المرتضٰی سےنکاح کر کے یہ کمی پوری کرلی ہے،حضرت عمر نے ان کا مہر چالیس ہزار درہم مقرر کیا تھا،ان کے بطن سے زید بن عمر اکبر اور رقیہ پیدا ہوئیں،اور پھر ام کلثوم اور ان کا صاحبزادہ ایک دن فوت ہوگئےجناب زید کی وفات کی وجہ یہ تھی کہ ایک دن بنو عدی کے ایک جھگڑے میں صلح کرانے کے لئے ان کے ہاں گئے،رات کے اندھیرے میں کسی شخص نے ان کے سر پر ضرب لگائی،جس سے ان کا سر پھٹ گیا اور وہ گر پڑے،اور کچھ دنوں کے بعد فوت ہوگئے اور ساتھ ہی ان کی والدہ بھی فوت ہوگئیں،دونوں کی نماز جنازہ عبداللہ بن عمر نے پڑھائی،جنہیں حسن بن علی نے آگے کردیا تھا،حضرت عمر کی شہادت کے بعد عون بن جعفر نے ان سے نکاح کرلیاعبدالوہاب بن علی بن علی الامیں نے،ابوالفضل محمد بن ناصر سے،انہوں نے خطیب ابوطاہر محمد بن احمد بن الصفر سے،انہوں نے ابوالبرکات احمد بن عبدالواحد بن فضل بن نظیف بن عبداللہ الفراء سے،انہوں نے ابو محمد حسن بن رشیق سے،انہوں نے ابوبشر محمد بن احمد بن حمادولابی سے،انہوں نے احمد بن عبدالجبار سے،انہوں نے ابو بن بکیرسے،انہوں نے ابنِ اسحاق سے،انہوں نے حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب سے روایت کی،کہ جب ام کلثوم بیوہ ہوگئیں تو ان کے بھائی حسن اور حسین ان کے پاس آئے اور کہا،اے ہماری بہن،تو خاندان نبوت میں اس ماں کی بیٹی ہے جسے حضورِاکرم نے خاتون جنت کا لقب دیا تھا،بخدا اگر اباجان کا بس چلا،تو وہ تجھے بوسیدہ رسی پر کسی کے ساتھ بیاہ دیں گے،لیکن اگر تیری خواہش ہو ،کہ تجھے کافی مال ملے ،تو ایسا ضرور ہوگا۔
ابھی یہ بھائی وہیں بیٹھے تھے کہ حضرت علی ایک عصا کے سہارے وہاں آگئے،بیٹھے اللہ کی حمدوثنا کی، اورفرمایا،کہ اے فاطمہ کے بیٹو!میں تمہاری قدرومنزلت سے پوری طرح واقف ہوں اور چونکہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم لوگوں سے محبت فرماتے تھے،اس لئے تمہیں اپنی باقی اولاد سے بہتر جانتا ہوں،صاحبزادوں نے سن کر کہا،آپ نے درست فرمایا،اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے،اس کے بعد حضرت علی کرم وجہہ نے صاحبزادی کی طرف رخ کرکے فرمایا،اے میری بیٹی، اللہ تعالیٰ نے تیرا اختیار تیرے ہاتھ میں دیا ہے،لیکن میں چاہتا ہوں کہ تو یہ اختیار میرے سپر د کردے،انہوں نے کہاابّا جان!میرا جی بھی انہیں چیزوں کو پسند کرتا ہے،جنہیں اور خواتین پسند کرتی ہیں،اور میں بھی مالِ دنیا سے وہ اشیا حاصل کرنا چاہتی ہوں،جو دوسری عورتیں حاصل کرنا چاہتی ہیں،اسلئے میں چاہتی ہوں کہ یہ اختیا ر میرے ہاتھ ہی میں رہے،حضرت علی نے فرمایا،بیٹی !یہ تیری رائے نہیں،بلکہ ان دو اشخاص کی رائے ہے،اگر تو میری بات نہیں مانے گی،تو میں ان دونوں سے کبھی نہیں بولوں گا،یہ کہا ،اور اٹھ کر چل دئیے،بیٹوں نے ان کے کپڑوں کو پکڑلیا اور گزارش کی،ہم آپ کی جدائی کیسے گوارا کرسکتے ہیں،پھر بہن سے کہا،کہ ابّا جان کی بات مان لو،بیٹی رضامند ہوگئی،تو حضرت علی نے عون بن جعفر سے نکاح کردیا،وہ ابھی لڑکے ہی تھے پھر بیٹی کو چار ہزار درہم بطور مہر بھجوادئیے اور صاحبزادی کو ان کے پاس بھیج دیا،ابوعمر نے ذکرکیا ہے۔