ام المنذر دختر قیس انصاریہ،بقول ابوعمروہ عدویہ تھیں،بروایتے ان کا نام سلمی تھا،اہلِ مدینہ ان کی حدیث کے راوی ہیں،بقول ابونعیم وہ سلیط بن قیس (از بنومازن)
بن نجار کی ہمشیرہ تھیں،اور حضور اکرم کی خالہ تھیں،دونوں قبلوں کی طرف نماز ادا کی۔
ابواحمد عبدالوہاب نے باسنادہ سلیمان بن اشعث سے،انہوں نے ہارہن بن عبداللہ سے،انہوں نے ابوداؤد اور ابوعامر سے،انہوں نے فلیح بن سلیمان سے،انہوں نے ایوب بن
عبدالرحمٰن سے، انہوں نے عبداللہ بن ابوصعصعہ سے،انہوں نے یعقوب بن ابویعقوب سے،انہوں نے ام منذر دختر قیس انصاریہ سے روایت کی کہ ایک بار حضورِاکرم تشریف لائے
اور حضرت علی ان کے ساتھ اونٹنی پر سوارتھے،اور کھجور کے گچھے لٹکے ہوئے تھے،حضور اکرم اٹھے اور اس سے کھانے لگے، حضرت علی نے بھی کھانا چاہا،لیکن حضور نے انہیں
منع کردیا،چنانچہ حضرت علی رُک گئے،ام منذر جو اور سبزی پکا رہی تھیں،وہ لائیں،تو حضورِ اکرم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہا،تمہارے لئے یہ مناسب ہے،یہ کھالو۔
محمد بن اسحاق نے سلیط بن ایوب سے،انہوں نے اپنی سلمی دخترِ قیس ام منذر سے یہ حدیث بیا ن کی،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابنِ اثیر لکھتے ہیں،عدویہ اور انصاریہ میں کوئی فرق نہیں،کیونکہ عدی بن نجار کا تعلق انصار سے ہے،ابوعمر نے ام منذر کو عدویہ لکھاہے اور ابونعیم نے انہیں بنو
مازن بن نجار سے شمار کیا ہے،اور پھر انہیں حضورِ اکرم کی خالہ بتایاہے،اس سے ابوعمر کے قول کی تائید ہوتی ہے،کیونکہ بنوعدی بن نجار حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کے ننھیال تھے،واللہ اعلم۔