عمرہ دختر رواحہ،ہمشیرہ عبداللہ بن رواحہ،ان کا نسب ان کے بھائی کے ترجمے میں ذکر ہو چکا ہے، یہ خاتون نعمان بن بشیر کی والدہ تھیں،یہ وہ خاتون ہیں،جنہوں
نےاپنے خاوند بشیرسے کہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے نعمان کو کوئی چیز بطورہبہ دے،لیکن اس کے دوسرے بھائیوں کو نہ دے،انہوں نے بیوی کی بات مان لی،بیوی نے کہا،اب
اس بات کی حضورسے اجازت لے لو،حضور نبیِ کریم نے دریافت فرمایا،کیا تم نے اپنے سب بیٹوں کے ساتھ یکساں سلوک کیاہے،انہوں نے کہا،نہیں ،فرمایا،میں اس بے
انصافی کا گواہ نہیں بن سکتا،یہ وہی عمرہ ہیں جن کا ذکر قیس بن خطیم نے اشعار ذیل میں کیا ہے۔
(۱)جَدَّ بعمرۃ غنیابھادارھا فنھجرام شائناشانھا
(ترجمہ)کیاعمرہ کی بے نیازی سچ مچ کی ہے،اور وہ ہم سے جُدا ہورہی،یاہماری اور اس کی حالت ایک ہی ہے۔
(۲)فَان تمس شطت بھادارھا وناح لک الیوم ھجرانھا
(ترجمہ)اگرتقدیر میں اس سے جدائی لکھی ہے،اور اس کی جدائی آج تجھ پر آہ وزاری کررہی ہے(تومجبوری ہے)۔
(۳)وَعَمَرَۃُ مِن سَرَوَاتِ النِّساء سَنفَخُ بِالمِسکِ اردانھا
(ترجمہ)عمرہ عورتوں کی سردار ہے،جس کی زلفوں سے کستوری کی خوشبُوآتی ہے۔
یہ قصیدہ کافی طویل ہے۔
عبداللہ بن ابونصر خطیب نے باسنادہ ابوداود طیاسی سے،انہوں نے شعبہ سے ،انہوں نے محمد بن نعمان سے،انہوں نے طلحہ یامی سے ،انہوں نے بنوعبدالقیس کی ایک عورت
سے،انہوں نے عبداللہ بن رواحہ کی ہمشیرہ سےروایت کی کہ ہر شریف عورت پر خروج واجب ہے۔
اسی روایت کو عبداللہ بن احمدنے اپنے والد سے،انہوں نے محمد بن جعفر سے،انہوں نے محمد بن طلحہ سے،انہوں نے بنوعبدالقیس کی ایک عورت سے انہوں نے عبداللہ بن رواحہ
کی ہمشیرہ سے بیان کیا، تینوں نے ذکر کیا ہے۔