یحییٰ بن اکثم بن محمد بن فطن بن سمعان مروزی : بڑے علامہ فقیہ محدث صدوق عارف مذہب بصیر احکام تھے، ابو محمد کنیت تھی ۔ آپ نے حدیث کو امام محمد و ابن مبارک و سفیان بن عینیہ وغیرہ سے سنا اور روایت کیا اور آپ سے بخاری نے غیر جامع میں اور ترمذی نے روایت کی ۔خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ آپ بدعت سے بالکل سلیم اور بڑے مضبوط اہل سنت و جماعت تھے ۔ طلحہٰ بن محمد نے کہا ہے کہ آپ دنیا کے اعلام میں سے تھے ،امر آپ کا مشہو اور نیکی معروف تھی۔ آپ کا فضل و علم دریاست و سیاست کسی پر پوشیدہ نہ تھا۔ بیس سال کی عمر میں بعد وفات اسمٰعیل بن حماد بن امام ابو حنیفہ کے بصرہ کے قاضی ہوئے ۔کہتے ہیں کہ اہل بصرہ نے آپ کو بسبب صغر سنی کے صغیر سمجھا ۔آپ نے یہ حال معلوم کر کے فرمایا کہ میں عتاب بن اسید سے عمر میں بڑا ہوں جن کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ کا قاضی بنایا تھا اور نیز معاذ بن جبل سے بڑا ہوں جن کو آنحضرت نے یمن کا قاضی ہنا کر بھیجا تھا۔
خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل سے کہا گیا کہ لوگ یحییٰ بن اکثم پر تہمت لگاتے ہیں کہ ، آپ نے فرمایا کہ خدا کو پاکی ہے کون ایسا کہتا ہے؟ پھر اس تہمت سے سخت انکار کیا۔آپ نے فقہ میں ایک بہت بڑی کتاب لکھی تھی مگر لوگوں نے بسبب طوالت کے اس کو ترک کیا اور ایک کتاب اصول فقہ میں اور ایک تنبیہ نام عراقیوں کے لیے تصنیف فرمائی اور تراسی سال کی عمر میں سعید کہتے ہیں کہ میں اور آپ باہم بڑ ے دوست تھے۔ جب آپ فوت ہوئے تو میں نے چاہا کہ کسی طرح آپ کو خواب میں دیکھ کر پوچھوں کہ تمہارا کیا حال گزرا؟ پس ایسا ہی ہوا کہ ایک رات میں نے آپ کو خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ خدا نےآپ سے کیا سلوک کیا؟ آپ نے کہا کہ بخش دیا مگر زجر کر کے فرمایا کہ اے یحییٰ ! دنیا کو تونے اپنے اوپر خلط کیا۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے آنحضرت کی اس حدیث پر تکیہ کیا تھا کہ خدا نے فرمایاکہ میرے پیغمبر نے سچ کہا ہے لیکن تونے دنیا میں اپنی جان پر تخلیط کی تھی،پس میں نے تجھ کو بخش دیا۔ اکثم مرد عظیم البطن کو کہتے ہیں اوریہی معنیٰ اکتم کےہیں ۔’’ امین عالم ‘‘ تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)