زائدہ یا زیدہ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آزاد کردہ کنیز تھیں،ابو موسیٰ نے اذناً ابوبکر محمد بن ابو نصراللہ سے،انہوں نے ابو حفص السمأ،انہوں نے ابوسعید نقاش
سے،انہوں نے ابویعلی حسین بن محمد زبیری سے،انہوں نے ابوبکر محمد بن حمدان بن خالد سے ،انہوں نے فضل بن یزیدسے انہوں نے بشر بن بکر سے،انہوں نے اوزاعی سے،انہوں
نے واصل سے،انہوں نے ام نجیح سے روایت کی،کہ حضرت عائشہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں،کہ حضرت عمر کی کنیز زائدہ حاضر ہوئیں،جو بڑی عبادت گزار
تھیں اور حضور اکرم اس وجہ سے انہیں اچھا جانتے تھے انہوں نے سلام کے بعد بیان کیا،کہ وہ گھر میں آٹا گوندھنے کے بعد لکڑیاں جمع کرنے شہر سے دُور نکل
گئیں،انہوں نے ایک آدمی کو صاف ستھرے لباس میں ایک ایسے گھوڑے پر سوار دیکھاجس کے پاؤں سفید تھے اور ماتھے پر بھی سفید نشان تھا،اس کا چہرہ چندے آفتاب چندے
ماہتاب،اس نے سلام کہہ کر مجھے یوں مخاطب کیا،اے زائدہ!کیا تو میرا ایک پیغام پہنچا سکے گی،میں نے کہا،انشأاللہ ضرور،اس نے کہا،محمد رسول اللہ سے کہنا کہ
تمہاری ملاقات خضر سے ہوئی تھی،اور اس نے آپ کو سلام کہا ہے،یہ حدیث حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی امت کی فضیلت کے بارے میں ہے،ابو موسیٰ نے
ان کا ذکرکیا ہے۔
نوٹ،یہ حدیث اس لیئے مخدوش ہے،کہ خضر ایک متنازعہ شخصیت ہیں،جن کا ذکر زیادہ تر شعرا کے دیوانوں میں ملتا ہے،اور شعرأ کا کیا اعتبار،اور اگر بالفرض خضر زندہ
ہیں،تو کیا وہ خود حاضر خدمت نہیں ہوسکتے تھے،مترجم۔