(سیّدہ )زینب ( رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ )زینب ( رضی اللہ عنہا) (تذکرہ / سوانح)
زینب دختر حجش زوجۂ رسول ِکریم جو عبداللہ بن حجش کی ہمشیرہ تھیں وہ اسدیہ ہیں اور بنو اسد سے ان کا تعلق ہے، اور ان کی والدہ امیمہ دختر عبدالمطلب تھیں،جو حضورِ اکرم کی پھوپھی تھیں،جناب زینب کی کنیت ام الحکم تھی،قدیم الاسلام تھیں اور مہاجرات سے،زید بن حارثہ سے ان کی شادی کی گئی تھی،تاکہ میاں بیوی کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے متعارف کرائے،اس کے بعد اللہ نے آسمانوں پر ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا، چنانچہ اٹھائیسویں پارے میں اس کا ذکر موجود ہے،آپ نے ہجرت کے تیسرے سال جناب زینب سے نکاح کیا،یہ ابو عبیدہ کا قول ہے،قتادہ کے مطابق یہ نکاح ہجرت کے پانچویں سال میں ہوا،ابن اسحاق کے مطابق یہ نکاح ام سلمہ سے نکاح کے بعد ہوا۔
عبدالوہاب ابن ہبتہ اللہ نے ابو غالب بن بناء سے ،انہوں نے ابومحمد جوہری سے،انہوں نے ابو بکر قطیعی سے ،انہوں نے محمد بن یونس سے انہوں نے ابن حبان بن ہلال سے،انہوں نے سلیماب بن مغیرہ سے،انہوں نے ثابت سے، انہوں نےانس سے روایت کی،کہ جب زینب دختر حجش کی عدت گزر گئی تو آپ نے زید بن حارثہ کو فرمایا،جاؤ اور زینب کو میری طرف سے پیغام پہنچاؤ،حارثہ کا قول ہے،کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ مشن میرے سپرد کیاتو زینب میری نگاہوں میں محترم ہوگئیں،چنانچہ میں اپنی پیٹھ اس کے گھر کی طرف کر کے کہا،اے زینب! حضورِاکرم نے تجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے،اس نے کہا،میں کسی سے کوئی بات اس وقت تک نہیں کروں گی،جب تک مجھے جناب باری سے اشارہ نہیں ملتا،اس کے بعد وہ نماز کے لئے کھڑی ہو ئیں،توحضور ِاکرم پر ذیل کی آیٔت نازل ہوئی۔
فَلَمَّاقَضٰی زَیدٌ مِنھَا وَطَراًزَوَّجنَاکَھَا، چنا نچہ حضورِاکرم ان کے یہاں بغیر اجازت چلے جایا کرتے تھے، ابو محمد عبداللہ بن علی سویدہ نے باسنادہ علی بن احمد سے، انہوں نے ابو عبدالرحمٰن محمد بن عبدالعزیز الفقیہ سے،انہوں نے محمد بن فضل محمدسلمی،انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے ابو احمد محمد بن عبدالوہاب سے،انہوں نے حسین بن ولید سے،انہوں نے عیسٰی بن طہمان سے،انہوں نے انس بن مالک سے روایت کی کہ زینب بعد از نکاح ازواض، رسول پر اپنا فخر جتایاکرتی تھیں،کہ تمہارے نکاح تو تمہارے متولیوں نے پڑھائےہیں،لیکن میرانکاح خود خدائے ذوالجلال نے عرشِ مجید پر سر انجام دیا ہے،اور حضور نبیِ کریم نے میر ے ولیمے پر روٹی اور گوشت کھلایا تھا۔
جناب زینب بڑی عبادت گزار اورکریم النفس تھیں،چونکہ انہیں کسی صنعت میں بھی درخور حاصل تھا،اس لئے جو کچھ کماتی تھیں اللہ کی راہ میں صرف کردیتی تھیں،حضور نبیِ کریم کے نکاح میں آنے سے پہلے ان کا نام برہ تھا،آپ نے زینب بنادیا،اس نکاح پر کفارِ مکہ نے بڑی حاشیہ آرائی کی کہ محمد نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرکے حرام کو حلال کرلیا ہے،لیکن قرآن نے،"مَاکَانَ مُحَمَّدٌاَبَااَحَدٌ مِّن رِّجَالِکُم" کہہ کر دشمنوں کے منہ پر ایک چپت رسید کردی،اور صاف صاف فرمادیا،"اُدعُوھُم لِاٰبَاءِھِم ھُوَاَقسَطُ عِندَ اللہِ" اس کے بعد زید بن محمد ،زید بن حارثہ ہو گئے۔
جناب زینب نے ایک دفعہ صفیہ دختر حّی کو یہودیہ کہہ کر ان کا منہ چڑایا تھا،اس پر حضور نے ان سے قطع تعلق فرمالیاتھا،چنانچہ ذوالحجہ ،محرم اور ماہِ صفر کے کچھ دن اس برہمی کی نذر ہو گئے تھے،اس کے بعد آپ نے درگزر فرمایاتھا،ایک روایت میں یہ واقعہ جناب حفصہ سے منسوب ہے،حضرت عائشہ سے مروی ہے،کہ ازواجِ مطہرات میں اور کوئی خاتون بھی حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی توجہ اور حسن ِمنزلت زینب کے سوا میرا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی،اور وہ اکثر اس کا ذکر فخریہ انداز میں کیا کرتی تھیں،کہ ان کے نکاح کی محرک خود ذات باری تھی،اوراس کےآنے پر آیت حجاب نازل ہوئی۔
ابوالفضل بن ابوالحسن فقیہہ نے باسنادہ تا ابویعلیٰ ،ہارون بن عبداللہ سے ،انہوں نے ابن ابو فدیک سے،انہوں نے ابن ابو ذنب سے،انہوں نے صالح مولی التواٌمہ سے،انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی کہ حضورِ اکرم نے حجتہ الوداع کے سال،ازواج مطہرات کو حجاب کا حکم دیا،اور پھر بہ سلسلۂ استثنا فرمایا،کہ سودہ اور زینب کے بغیر تم سب حجاب کی پابندی کرو،کیونکہ یہ دونوں خواتین کہا کرتی تھیں،کہ جب سے ہم نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سُنا ہے،ہمیں کوئی چیز اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتی۔
یحییٰ اور ابو یاسر نے باسناد ہما مسلم سے ،انہوں نے محمود بن غیلان سے ،انہوں نے فضل بن موسٰی شیبانی سے،انہوں نے طلحہ بن یحییٰ طلحہ سے ،انہوں نے عائشہ دختر طلحہ سے،انہوں نے عائشہ ام المونین سے روایت کی کہ حضورِاکرم نے فرمایا ،کہ میری وفات کے بعد تم میں سے سب سے پہلے وہ خاتون مجھ سے آملے گی جس کے ہاتھ دوسروں سے دراز ترہوں گے،اس لئے ہم باہم ہاتھوں کی لمبائی کا مقابلہ کیا کرتے،لیکن چونکہ زینب بکثرت انفاق فی سبیل اللہ کیا کرتی اس لئے ہاتھ اسی کے لمبے تھے،اور میں نے کوئی خاتون اتنی کریم النفس،متقی اور راستگو زندگی بھر نہیں دیکھی۔
اور شہر بن حوشب نے عبداللہ بن شداد سے روایت کی ،کہ رسول ِ کریم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا،کہ زینب سے بڑھ کر میں نے کوئی آدمی خضوع خشوع کرنے والا نہیں دیکھا،اور جناب زینب نے ہی حضورِ اکرم کے وصال کے بعد بیشتر ازہمہ وفات پائی،ان کی وفات بیس۲۰ہجری میں ہوئی،اور اس وقت ہم حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاد کا مطلب سمجھ سکے۔
ان کی وفات سے پہلے حضرت عمر نے بارہ ہزار درہم جو انہوں نے ازواجِ مطہرات کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کررکھا تھا،انہیں ارسال کیا،جسے انہوں نے اعزہ اور اقربأ میں بانٹ دیا،اور دعا کی ، بار الہٰ !مجھے عمر کے وظیفہ کا اس کے بعد زیر بار نہ ہونے دینا،فوت ہوئیں،تو خلیفہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی،اور اسامہ بن زید،محمد بن عبداللہ بن حجش اور عبداللہ بن ابو احمد بن حجش نے انہیں قبر میں اتارا یہ پہلی خاتون ہیں،جن کے لئے تابوت تیار کیا گیا،اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں،تینوں نے ذکر کیا ہے۔