کوئی مہینہ منحوس نہیں ہوتا
حدیث:
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ الشُّوْمُ فِیْ الدَّارِ وَالْمَرْ أَۃِ وَالْفَرَسِ.[1]
(ترجمہ) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ’’نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے، گھر، عورت اور گھوڑے میں۔‘‘
حدیث شریف:
عَنْ اِبْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنْ یَّکُنْ مِّنَ الشُّوْمِ شَیْءٌ حَقٌّ فَفِی الْفَرَسِ وَالْمَرْأَۃِ وَ الدَّارِ.[2]
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’اگر بدشگونی کسی چیز میں ہو تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوگی۔‘‘
حدیث:
عَنْ جَابِرِ عَنْ رَّسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنْ کَانَ فِیْ شَیْئٍ فَفِیْ الرُّبْعِ وَالْخَادِمِ وَ الفَرَوسِ[3]
(ترجمہ)حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’اگر کچھ نحوست ہو تو زمین اور غلام اور گھوڑے میں ہوگی۔‘‘
تشریح احادیث:
امام نووی نے کہا کہ ان احادیث میں امام مالک نے کہا کہ کبھی گھر کو اللہ تعالیٰ ہلاکت کاسبب بنا دیتا ہے یا اسی طرح کسی عورت یا گھوڑے یا غلام کو اورمطلب یہ ہے کہ کبھی نحوست ان چیزوں سے ہوجاتی ہے۔ اور امام خطابی و دیگر بہت سے علما نے کہا کہ یہ بطور استثناء کے ہے یعنی شگون لینا منع ہے مگر جب کوئی گھر میں رہنا پسند نہ کرے یا عورت سے صحبت کو مکروہ جانے یا گھوڑے یا خادم کو بُرا سمجھے تو ان کو نکال ڈالے بیع اور طلاق سے۔[4]
نوٹ: گھوڑے سے مراد ’’سواری‘‘ (کار /بس وغیرہ) ہے اور غلام سے مراد نوکر چاکر ہیں۔
حدیث رسولﷺ کا مفہوم:
حافظ الحدیث حضرت امام محی الدین نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:
لَاعَدْوٰی کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جو شخص بیمار کیساتھ بیٹھتا ہے یا اس کے ساتھ کھاتا پیتا ہے تو اس کی بیماری اس کو بھی لگ جاتی ہے۔
وَلَا ھَامَّۃَ۔ ہامہ سے مرادایک جانور کا نام ہے۔ اہلِ عرب میں یہ باطل نظریہ تھا کہ یہ جانور میت کی ہڈیوں سے پیدا ہوتا ہے جو اُڑتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ مقتول کے سر سے ایک جانور باہر نکلتا ہے۔ اس کا نام ہامہ ہے وہ ہمیشہ فریاد کرتا ہے کہ مجھ کو پانی دو یہاں تک کہ اس کا مارنے والا مارا جاتا ہے۔امام نووی نے تفسیر ’’مالک بن انس‘‘کے حوالہ سے لکھا ہے کہ وہ (اہلِ عرب)اعتقاد رکھتے تھے کہ مقتول کی روح جانورمیں منتقل ہو جاتی ہے۔سرکار نامدارعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس عقیدہ کو باطل فرمایا۔
نوء کی جمع انواء ہے جس کا معنیٰ قمر کی منزلیں ہیں۔ وہ اٹھائیس منزلیں ہیں یعنی وہ راتیں کہ جن میں چاند کے مکمل ہونے کے ارتقائی مراحل اور پھر بتدریج تنزل کے مراحل۔حتیٰ کہ چاند اٹھائیسویں شب میں مکمل غروب ہوجاتا ہے اہل عرب کا خیال تھا کہ چاند کی بڑھتی اور گھٹتی عمر کی منزلیں بارش آنے کا سبب ہیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ردّ فرمایا کہ نزولِ باراں بتقدیر الٰہی ہے۔
وَلَا صَفَرَ۔ یعنی صفر نہیں۔ اس میں بہت تاویلات ہیں بعض کے نزدیک ’’ صفر ‘‘سے مراد یہی مہینہ ہے جو محرم شریف کے بعد آتا ہے۔امام مالک اور ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ بعض کے نزدیک ’’صفر‘‘ پیٹ میں پایا جانے والا ایک سانپ ہے اور وہ بھوک کے وقت کاٹتا ہے اور ایذاء دیتا ہے اور ایک آدمی سے دوسرے میں سرایت کرجاتا ہے...... پس حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ یہ سب باطل اور خرافات ہیں۔[5]
ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا، ’’بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں‘‘[6]
عرب کی یہ عادت بھی تھی کہ شگون لیتے تھے۔ وہ اس طرح کہ جب کسی کام کا قصد کرتے یا کسی جگہ جاتے تو پرندہ یا جانور کو ہنکارتے تو اگر یہ دائیں طرف بھاگتا تو اسے مبارک جانتے اور نیک فال لیتے اور اگر بائیں طرف بھاگتا تو اسے نحس اور نا امید جانتے۔ شارع علیہ السلام نے اس عقیدہ کوبھی باطل قرار دیا۔ متذکرہ دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ تقدیر الٰہی، اہلِ دنیا کی حرکات و سکنات کی پابند نہیں بلکہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی مشیّت کی پابند ہے جبکہ بد فالی (بدشگونی) رسمِ کفار ہے، بہر حال مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔
[1]۔ مسلم جلد دوم صفحہ ۲۳۲۔
[2]۔ مسلم جلد دوم، صفحہ ۲۳۲۔
[3]۔ مسلم جلد دوم صفحہ ۲۳۲۔
[4]۔ شرح صحیح مسلم النووی۔
[5]۔ شرح صحیح مسلم جلد دوم صفحہ ۴۳۰۔۴۳۱۔
[6]۔ مسلم شریف۔