فتاوی رضویہ کی روشنی میں ترجمہ قرآن کی شرائط

فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں

ترجمۂ قرآن کی شرائط

تحریر:اشرف جہانگیر

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت عاشقِ ماہِ رسالت الشاہ امام احمدرضاخان بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علوم و فنون کے بحرِذخارتھے۔آپ نے ہرعلم اور فن پر کتب و رسائل تحریر فرمائےجن کو پڑھ کرعقل چکرانے لگتی ہے کہ اس خشک اور تنگ موضوع پرآپ علیہ الرحمۃ نے اتنا کیسے لکھ لیا۔اورپھراس کے ساتھ ہی ذہن میں دوسراسوال یہ اُٹھتاہے کہ اگرہم بھی ایسا لکھناچاہیں توکیسے لکھیں۔تویہ بھی حیرت فزابات ہے کہ اس دوسرے سوال کاجواب بھی ہمیں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی کتب سے مل جاتاہے۔ یہ بات اعلیٰ حضرت پرکام کرنے والوں پر بخوبی عیاں ہے۔اور راقم کےنزدیک یہ بات اعلیٰ حضرت کی کرامات سے ہے کہ سوال بھی خوددیتے ہیں اور اُس کا جواب بھی خود ، شوق بھی خوددلاتے ہیں اور منزلِ شوق پر بھی خود پہنچاتے ہیں۔ہم زیادہ دور نہیں جانتے صرف آپ علیہ الرحمۃ کے ترجمۂ قرآن کنزالایمان ہی کو لے لیتے ہیں،اُس میں آپ علیہ الرحمۃ اپنے تمام علوم و فنون جو بارگاہ مصطفوی ﷺ سے آپ کو عطاہوئے بروئے کار لائے ہیں،مگرجن کے پاس وہ علم مصطفوی نہیں ہیں اور ترجمۂ قرآن کرنے کا شوق رکھتے ہیں اُن کے لیے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے یہ چند فتاویٰ پیش ہیں:

ترجمہ کرتے وقت شاہ عبدالقادر کاترجمہ پیش نظر رہے مگر:

یہ بات سب پرآشکاراہے کہ امامِ اہلسنت نے جب ترجمۂ قرآن کنزالایمان املا فرمایا اُس وقت تک اُردو اور فارسی کے کچھ تراجمِ قرآن بازارمیں آچکے تھے۔اور وہ سب تراجم امامِ اہلسنت کے پیشِ نظر تھےمگرمشہورتراجم شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے بزبانِ فارسی اور ڈپٹی نذیراحمد،شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادرصاحب کے بزبانِ اُردو شامل تھے ۔مگرآپ علیہ الرحمۃ نے اِن تمام تراجم میں سے شیخ سعدی کا ترجمہ پسندفرمایا۔اورتراجم میں اگرکسی ترجمےکوآپ علیہ الرحمۃ نے فوقیت دی تو وہ شاہ عبدالقادر کا ترجمۂ قرآن موضح القرآن ہے۔آپ کے فتاویٰ اورچندرسائل مثلاًالکوکبتہ الشہابیہ اور قوارع القہار وغیرہ میں آپ نے مخالفین کے منہ میں پتھر رکھنے کے لیے موضح القرآن ہی کا ترجمہ پیش کیاہے۔مگرشاہ عبدالقادرصاحب کے ترجمے کے متعلق اعلیٰ حضرت کا ایک فتویٰ فتاویٰ رضویہ جلد۲۶،ص۴۵۷میں ہے:

سوال مذکورنہیں ہے مگر مستفتی مولوی حکیم غلام محی الدین صاحب لاہوری ہیں۔ امامِ اہلسنت جواب میں ارشادفرماتے ہیں:

ٍ’’فقیر کی رائے قاصریہ ہے کہ مولاناشاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ پیشِ نظر رکھاجائے اور اس میں چار۴تبدیلیاں محفوظ رہیں:

[۱]وہ الفاظ کہ متروک یا نامانوس ہوگئے،فصیح و سلیس رائج الفاظ سے بدل دیے جائیں۔

[۲]مطلب اصح جس کے مطالعے کوجلالین کہ اصح الاقوال پر اقتصار کا جن کا التزام ہے سردست بس ہے،ہاتھ سے نہ جائے۔

[۳]اصل معنی لفظ او رمحاورات عرفیہ دونوں کے لحاظ سے ہر مقام پر اس کے کمال پاس رہے۔ مثلاً غیرالمغضوب علیھمکایہ ترجمہ کہ جن پر غصہ ہو ا یاتونے غصہ کیا،فقیر کو سخت ناگوارہے۔غصہ کے اصل معنی اُچّھو کے ہیں یعنی کھانے کا گلے میں پھنسنا، جیسے طعامًا ذا غصۃ فرمایا۔ اس سے استعارہ کرکے ایسے غضب پر اس کا اطلاق ہوتاہے جسے آدمی کسی خوف یا لحاظ سے ظاہر نہ کرسکے،گویادل کاجوش گلے میں پھنس کر رہ گیا۔عوام کہ دقائق کلام سے آگاہ نہیں،فرق نہ کریں،مگراصل حقیقت یہی ہے کہ علما پر اس کا لحاظ لازم ہے۔ ترجمہ یوں ہوا:

’’نہ اُن کی جن پرتونے غضب فرمایا،جن پرتیراغضب ہے،یاجن پر غضب ہوا، یا جو غضب میں ہیں‘‘۔

خیال کرنے سے ان کے ترجمے میں اس کی بہت سی نظائر معلوم ہوسکتی ہیں۔

[۴]سب سے اہم و اعظم و اقدم والزم مراعات ومتشابہات کہ ان میں ہمارے ائمہ کرام سے دو۲ مذہب ہیں:

اول: ہم نصوص پرایمان لائے،نہ تاویل کریں نہ اپنی رائے کودخل دیں، امنّابہ کل من عند ربنا،معنی ہمیں معلوم ہی نہیں،ان سے اگرقولہ تعالیٰ ثم استوی الی السماء کا ترجمہ کرائیے تو وہ فرمائیں گے:’’پھراستوافرمایاآسمان کی طرف‘‘اگرپوچھیے استویٰ کے کیا معنی ، تو لَانَد رِی سےجواب ملے گا۔

دوم: تاویل کہ متاخرین نے تفہیمِ جہال کے لیے اختیارکیاکہ کسی خوبصورت معنی کی طرف پھیر دیں جس کا ظاہر شانِ عزت پر محال نہ ہو،اور طرف تجویزوتجارب میں لفظ ِکریم سے قرب بھی رکھتاہو۔ ان سے اگر آیۂ کریمہ مذکورہ کا ترجمہ کرائیے تو وہ کہیں گے:’’پھرآسمان کی طرف قصدفرمایا‘‘ مگر یہ کہ تفویض چھوڑیں اور تاویل بھی نہ کریں بلکہ معنی محال و ظاہر کاصریح اداکرنے والے لفظ قائم کردیں جیسے کریمۂ مذکورہ کا ترجمہ’’پھر چڑھ گیا آسمان کو‘‘ کہ چڑھنااوراُترناشانِ عزت پر محالِ قطعی اور جہال کےلیے معاذاللہ موہم بلکہ مصرح بہ جسمانیت ہے۔یہ ہمارے ائمۂ متقدمین کا دین نہ متاخرین کا مسلک، اس سے احتراز فرضِ قطعی ہے۔فقیر نے جہاں تک دیکھاترجمہ منسوبہ بحضرت قدسی منزلت سیدنامصلح الدین سعدی قدس سرہ العزیزاس عیب مشابہ سےپاک ومنزہ ہے ان میں اس سے مدد لی جائے، وباللہ التوفیق۔واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم‘‘۔

ترجمۂ قرآن کرنے والے حضرات کے لیے اعلیٰ حضرت کا یہ فتویٰ مشعل راہ ہے اس میں سب کچھ ہے۔جوں جوں وقت گزرتاہے لوگوں کی زبان اور رکھ رکھاؤ میں بھی فرق پڑتا جاتاہے۔اعلیٰ حضرت کے ترجمےکے متعلق لوگوں کا کہنا ہے کہ اس میں متروک ونامانوس الفاظ کی بھرمارہے، تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ اعلیٰ حضرت نے ترجمۂ قرآن املا کراتے وقت متروک ونامانوس الفاظ جان بوجھ کر استعمال کیے۔بلکہ وہ تمام الفاظ جنہیں متروک کہاجارہا ہےوہ اعلیٰ حضرت کے دور میں رائج تھے۔اس کی دلیل امامِ اہلسنت کے عہدکے دیگر مصنفین کی کتب سے بآسانی مل سکتی ہے۔ہم زیادہ نہیں تو اردو شعروادب کی چند پرانی کتابوں کی طرف توجہ کر کے دیکھتے ہیں کہ مختلف ادوارمیں اردوزبان میں کتنا فرق آتارہا۔

۱)مثنوی نوسرہارمیں ہے،جس کا سن تصنیف ۹۰۹ھ ہے۔

کیا اب کہوں مرتے بار

لوگن کیرے عیب اظہار

کیاجوکچھ حکم اس کا

ہواجوان چیتاتھا

بارے یوں مج مانڈیا حال

توں مج پیچھے سب سنبھال

 

۲)مثنوی لولوے ازغیب ۱۱۰۲ھ کی اردو دیکھیے:

دکن میں پنج شنبہ کا وطن ہے

پسند اس کو سنہری پیرہن ہے

طرف اوتراوس کا رخ ہے اے یار

اور اس کے سامنے رہتاہے اتبار

درخت اوس پر ہیں بہت سے

کٹائی اور دھتورہ کے نسب سے

 

اسی طرح مثنوی عاقبت بخیرجو۱۲۳۲ھ کی تصنیف ہے،میں قدیم اردو کا نمونہ کچھ یوں ملتاہے:

زمانہ کا کیاکوئی شکوہ کرے

زمانہ جو پیچھےکسی کے پڑے

کرےخواراس طرح اس کے تئیں

اوکہاڑے جڑاوس کے زمیں سے وہیں

یہاں تک کرے خواراوس کے تئیں

کہ دردرپھرےوہ بروئے زمیں

ایسی اور بہت سی مثنویاں ہیں کی زبان وقت کے ساتھ صاف اورآسان ہوتی گئیں یہ تو چند پرانی اردومثنویوں کی زبان تھی، اردو نثر کی اولین کتابوں میں ہم صرف دوکی زبان دیکھتے ہیں:

میرانشاء اللہ خان انشا،اپنی کتاب ’’کہانی رانی کیتکی اور کنوراودھےبھان کی‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’کسی دیس میں کسی راجہ کے گھرایک بیٹاتھا،اوسےاوس کے ماباپ اورسب گھرکے لوگ کنور اودھےبھان کرکے پکارتے تھے،سچ مچ اوس کے جوبن کی جوت میں سورج کی ایک سوت آملی تھی،اوس کا اچھا پن اور بھلا لگنا کچھ ایسا نہ تھا، جو کسی کے لکھنے اور کہنے میں آسکے، پندرہ برس بھر کے اونےسوھوےمیں پاؤں رکھاتھا، کچھ یوں ہیں سی اوس کی مسیں بھیکتی چلی تھیں، اکڑ تکڑ اوس میں بہت سی سمارہی تھی کسی کو کچھ نہ سمجھتاتھا،پرکسی بات کی لوچ کاگھرگھاٹ پایانہ تھااورچاہ کی ندی کا پاٹ اونےدیکھانہ تھا‘‘۔

یہ خالص اردوزبان کانمونہ ہے،اس کہانی کے متعلق دعویٰ ہے کہ اس میں کہیں عربی فارسی اور ترکی الفاظ استعمال میں نہیں لائے گئے مگریہ خالص اردوچل نہ سکی اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی،ترکی اوردیگرزبانوں نے جگہ پائی اوراسے چارچاند لگادیے۔

ڈاکٹرسیدعبداللہ نے،شاہ عالم ثانی کی کتاب عجائب القصص کے مقدمہ میں عجائب القصص کی اہمیت کی تین وجہیں لکھیں ہیں۔تیسری وجہ میں لکھتےہیں:

’’کہ یہ شمالی ہندوستا ن میں اردونثرکی چنداولین کتابوں میں سے ایک ہے،شمالی ہندوستان کی قدیم اردونثری کتابوں کی ترتیب قائم کی جائے تو کم وبیش یوں ہوگی۔

[۱] فضلی کی وہ مجلس (کربل کتھا)(۱۷۳۲ء/۱۱۴۵ھ)۔

[۲]نوطرزمرصع ۱۷۸۱ء/۱۱۹۵ھ سے پہلے۔

[۳]سودا(متوفی۱۱۹۵ھ)دیباچہ دیوان مراثی اردو۔(سودانےمیرتقی میر کی مثنوی کااردو نثر میں ترجمہ کیاتھامگراب وہ دست یاب نہیں)۱۷۸۱ء)۔

[۴]ترجمۂ قرآنِ مجید ازشاہ رفیع الدین صاحب(۱۲۰۰ھ/۱۷۸۶ء)۔

[۵] ترجمۂ قرآن ِمجیداز شاہ عبدالقادر(۱۲۰۵ھ/۹۱۔۱۷۹۰ء)۔

[۶]عجائب القصص( ۱۲۰۷ھ/۹۳۔۱۷۹۲ء)۔

اِن کے علاوہ اردونثر پر اوربہت سی کتابیں ہیں۔اور نثری قصوں کی اگر فہرست کی جائے تو وہ الگ ہے‘‘۔

جیساکہ راقم نےعرض کیاکہ وقت گزرنےکےساتھ ساتھ زبان میں بھی فرق پڑتارہتا ہے۔ تو ہر بعدمیں آنےوالاعہداوراس کے علما،ادباوشعرااپنےسے پہلےکی زبان کو آسان اور عام فہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شاہ عالم ثانی،عجائب القصص کے سببِ تصنیف و تالیف میں لکھواتے ہیں کہ:

’’اوراکثر بزرگ حق شناس اور بادشاہ قدسی اساس مشغول اورمصروف اس طرف رہے ہیں۔ ہرچند ہر ایک علم اپنااپنارکھتاہے،لیکن نشہ شعرکابھی خالی کیفیت سے نہیں،اور جب سب علموں سے ماہرہو،تب اس علم سے واقف ہو۔جب چنددیوان بہ زبانِ فارسی اور بہ زبانِ ریختہ ارشادحضوروالامرتے ہوئےاور کبت دوھرے حدسے گزرے،یکایک یہ مزاج اقدس ارفع اعلیٰ میں آیا کہ قصہ زبان ہندی میں بہ عبارت نثرکہیےاور کوئی لفظ اس میں غیرمانوس اورخلاف روزمرہ اوربےمحاورہ نہ ہو اور عام فہم اور خاص پسند ہووے کہ جس کے استماع سے فرحتِ تازہ اورمسرت ِبے اندازہ مستمع کو حاصل ہو۔اور آدابِ سلطنت اور طریقِ عرض و معروض دریافت ہوں اور اگرجاہل پڑے تو اس کے فیض سے عالموں سے بہترگفتگواوربول چال بہم پہنچائے‘‘۔

تواعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے بھی یہی فرمایا:

’’وہ الفاظ کہ متروک یا نامانوس ہوگئے،فصیح وسلیس رائج الفاظ سے بدل دیےجائیں‘‘۔

تویہ کہناکہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے متروک و نامانوس الفاظ استعمال کیے ہیں تو یہ اعتراض بیجاہے:بلکہ کسی بھی اردولغت میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے استعمال کیے ہوئے الفاظ کو متروک نہیں لکھاگیامثلاً’’ٹوٹے،اوسر،کوتک،نیگ،رینی،بچھیت،بھوڑ،کِرا،ٹینٹ، سادھا، کونچا،پورا،اوترا،چرتر،پھک،کینڈا،گابھ،گابھنی،کنڈے،چٹی پڑی،دوب، چومیخا، پھٹک وغیرہ۔

بلکہ ہمارے عہد کے بہت سے بوڑھے ہنوزیہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔توزبان کو وقت کے لحاظ سے آسان فہم کرنااچھی بات ہے۔اوریہی اعلیٰ حضرت نے شاہ عبدالقادرصاحب کے ترجمہ کے متعلق فرمائی،اورایسے الفاظ کنزالایمان میں زیادہ نہیں صرف تیس ۳۰ کے لگ بھگ ہوں گے۔اور اتنے لفظوں پر یہ کہہ دینا کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نامانوس و متروک الفاظ سے اپنے ترجمۂ قرآن کو بھردیاہے۔کس قدر ستم ظریفی ہے۔اور وہ بھی کہ ماہرینِ لغت کے نزدیک متروک نہیں۔

مگراِس بحث میں ایک نقطہ ہے جو نظروں سے اوجھل نہیں ہوناچاہیےوہ یہ کہ متروک و نامانوس الفاظ کو فصیح وسلیس رائج سے بدلتے وقت اُس کے معنی و مفہوم کا ضرورخیال رہے یہ نہ ہو کہ نعم البدل کے طورپرجولفظ رکھاگیاہے وہ کچھ اور ہی معنی ومفہوم دے رہا ہو۔ تو اعلیٰ حضرت کے ترجمۂ قرآن میں یہی ایک نقطہ مضمر ہے، جس کا خیال نہیں کیا جاتا۔ اعلیٰ حضرت کے ترجمہ میں جتنے بھی الفاظ متروک و نامانوس محسوس ہوتے ہیں۔وہ اردو میں اپنا نعم البدل نہیں رکھتے، جن کا پتا اردو لغات کی ورق گردانی سے لگ سکتاہے، یہ تو تھاترجمہ کرنے کا مسئلہ جو اعلیٰ حضرت نے حل فرمادیا۔اب دوسرامسئلہ یہ ہے کہ ترجمہ کہا ں لکھاجائے:

بین السطور میں صرف ترجمہ ھو:

فتاویٰ رضویہ جلد۲۳ص۶۷۸ میں مستفتی نے سوال کیاکہ:

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قرآن شریف کا ترجمہ اس طرح پُر کرنا کہ نیچے ترجمہ میں محذوفات اور مطالب وغیرہ خطوط ہلالی بناکرلکھ دیے جائیں جائزہے یا ناجائز؟

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ا س سوال کا جواب ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’الحمدللہ قرآن عظیم بحفظ الٰہی عزوجل ابدالآباد تک محفوظ ہے تحریفِ محرفین و انتِحال منتحلین کو اس کے سرا پردۂ عزت کے گردبار ممکن نہیں۔

لَایَأتِیہِ البَاطِلُ مِن م بَینِ یَدَیہِ وَلَامِن خَلفِہٖ۔

حمد اس کے وجہ کریم کو جس نے قرآن اتارا اور اس کاحفظ اپنے ذمۂ قدرت پر رکھا

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ

توریت وانجیل کچھ تو ملعون احباروں نے اپنے اغراض ملعونہ سے روپے لے کر اپنے مذہب ناپاک کے تعصب سے قصداًبدلیں اور کچھ ایسے ہی ترجمہ کرنے والوں نے اس خلط وخبط کی بنیادیں ڈالیں مرورزماں کے بعدوہ اصل و زیادت مل ملاکرسب ایک ہوگئیں،کلام الٰہی وکلامِ بشر مختلط ہوکرتمیز نہ رہی۔الحمدللہ نفسِ قرآن میں اگرچہ یہ امر محال ہے تمام جہاں اگراکھٹاہوکراُس کا ایک نقطہ کم وبیش کرنا چاہے ہرگزقدرت نہ پائے مگرترجمہ سے مقصود اُن عوام کومعانیِ قرآن سمجھاناہے جو فہمِ عربی سے عاجزہیں خطوطِ ہلالی نقول ودرنقول خصوصاً مطابع مطابع میں ضرور مخلوط نامضبوط ہوکرنتیجہ یہ ہوگاکہ دیکھنے والے عوام اصل ارشادِ قرآن کو اس مترجم کی زیادت سمجھیں گے اورمترجم کی زیادات کو رب العزت کا ارشاد یہ باعثِ ضلال ہوگااور جو امرمنجربہ ضلال ہو اس کی اجازت نہیں ہوسکتی اسی لیے علما مترجمین نے ترجمے کا یہی دستوررکھا کہ بین السطور میں صرف ترجمہ اور جو فائدہ زائدہ ایضاحِ مطلب کے لیے ہوا وہ حاشیہ پر لکھاانھیں کی چال چلنی چاہیے۔ وباللہ التوفیق، واللہ تعالیٰ اعلم۔

تواعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے اس کلام سے پتہ چلاکہ آیات کے نیچےصرف ترجمہ ہو اور اگر ترجمےکوزیادہ کھول کرسمجھاناہوتووہ سطریں اصل ترجمے کے ساتھ نہ ہوں اور نہ ہی جدا سے خطوطِ ہلالی کے بیچ میں،کہ کبھی کبھی کاتب سے خطوط ِہلالی چھوٹ بھی جاتے ہیں اور ساری عبارت مل کر ایک ہوجاتی ہے اور یوں کلام الٰہی نہ سمجھیں بلکہ مترجم کی طرف سمجھیں۔ مگراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ وہ مطالب جو خطوطِ ہلالی میں رکھنے ہوں وہ حاشیے پرلکھےجائیں تاکہ کلامِ الٰہی کے ترجمے کے ساتھ وہ مل کر ایک نہ ہوجائیں۔اب آخر میں چندوہ فتوے جواعلیٰ حضرت نے دیگرمترجمینِ قرآن کے متعلق دیے:

ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمۂ قرآن:

فتاویٰ رضویہ جلد۲۳ص۷۰۸میں استفتاہے کہ نذیراحمدبی،اے،ایل،ایم کا ترجمہ صحیح ہے یاغلط؟اور لڑکوں کو مدرسہ میں اس کاترجمہ پڑھاناجائزہے یا ناجائز؟

اعلیٰ حضرت جواب میں ارشادفرماتے ہیں:’’نذیراحمد کا نہ ترجمہ صحیح ہے نہ ایمان، وہ شخص منکِر خداتھا۔جیسے اُس نے اور کتابیں نصرانیت ونیچریت آمیز لکھیں جن سے مال کمان مقصود تھاویسے ہی یہ ترجمہ بھی کردیاگیااس سے بھی داموں ہی کی غرض تھی، ورنہ جو شخص اللہ ہی کو نہ مانتاہووہ قرآن کے ترجمے کو کیاجانےگا۔

اس کاترجمہ ہرگزنہ پڑھاجائے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ڈپٹی نذیراحمدکے متعلق جو کہاوہ سب سچ ہے۔یہ نہیں کہ آپ علیہ الرحمۃ نے سنی سنائی بات پر فتویٰ دے دیا:ڈپٹی نذیراحمدکاخاکہ لکھاہے اور وہ خاکہ اردوخاکہ نگاری میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتاہے۔وہ مرزافرحت اللہ بیگ اردو کے مشہور و معروف صاحبِِ طرزِ ادیب گزرے ہیں ان کے لکھے ہوئے خاکے اور مضامین کی اُردو ادب میں بڑی اہمیت ہے اپنے خاکہ’’ڈاکٹرنذیراحمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی‘‘میں اُن کے ترجمۂ قرآن کے متعلق لکھتے ہیں:

’’دہلوی صاحب کواپنے ترجمے پر ناز تھا اور اکثراس کاذکرفخریہ لہجےمیں کیاکرتےتھے۔ اردو ادب میں اُن کی جتنی تصنیفات نے دھوم مچادی ہے وہ ان کے نزدیک بہت معمولی چیزیں تھیں،وہ کہا کرتے تھے کہ میری تمام عمر کااصلی سرمایہ قرآنِ مجید کا ترجمہ ہےاس میں مجھے جتنی محنت اٹھانی پڑی ہےاس کا اندازہ کچھ میں ہی کرسکتاہوں۔ایک ایک لفظ کے ترجمے میں ساراسارادن صرف ہوگیاہے،میاں سچ کہنا!کیسامحاورے کی جگہ محاورہ بٹھایاہے‘‘ہم نے کہا’’مولوی صاحب !بٹھایانہیں ٹھونساہے‘‘،جہاں یہ فقرہ کہااور مولوی صاحب اچھل پڑے ،بڑے خفاہوتے اور کہتے:

’’کل کے لونڈو!میرے محاوروں کو غلط بتاتے ہو، میاں ! میری اردو کا سکہ تمام ہندوستان پربیٹھاہواہے خود لکھوگے توچیں بول جاؤ گے!محاوروں کی بھرمارکے متعلق اکثر مجھ سے ان کا جھگڑاہواکرتاتھامیں ہمیشہ کہاکرتا تھا، مولوی صاحب! آپ نے محاوروں کی کوئی فہرست تیارکرلی ہے اور کسی نہ کسی محاورے کو آپ کسی نہ کسی جگہ پھنسادیناچاہتےہیں۔خواہ اس کی گنجائش وہاں ہو یانہ ہو‘‘۔

تونذیراحمدکے ترجمۂ قرآن کے متعلق مرزا فرحت اللہ بیگ کا مندرجہ بالاتبصرہ ہی بس ہے اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کا یہ لکھناکہ’’اس نے اور کتابیں نصرانیت ونیچریت آمیز لکھیں جن سے مال کمانامقصود تھاویسے ہی یہ ترجمہ (ترجمۂ قرآن) بھی کردیاگیا‘‘۔بالکل سچ ہے۔ مرزافرحت اللہ بیگ لکھتےہیں کہ مولوی نذیراحمدنے انہیں بتایاکہ:

’’کوئی سات بجے ہوں گے کہ صاحب کا چپڑاسی آیااورکہاکہ ’’صاحب سلام بولتے ہیں، وہاں کیا دیکھتاہوں کہ صاحب بیٹھے مرأۃ العروس پڑھ رہے ہیں۔سلام کر کے کرسی پر بیٹھ گیا، صاحب نے کہا:

’’مولوی صاحب!آپ نے ایسی مفید اور دلچسپ کتابیں لکھیں اور طبع نہ کرائیں اگرکل آپ کا لڑکامجھ کونہ ملتاتوشایدکوئی بھی ان کتابوں کو نہ دیکھتااور چندہی روزمیں یہ کتابیں بچوں کے ہاتھوں پھٹ پھٹاکربرابرہوجاتیں اگرآپ اجازت دیں تومیں’’مرأۃ العروس‘‘ کو سرکار میں پیش کردوں آج کل گورنمنٹ ایسی کتابوں کی تلاش میں ہے جو لڑکیوں کے نصابِ تعلیم میں داخل ہوسکیں۔میں نے کہ:’’آپ کو اختیارہے‘‘۔یہ کہہ کر میں چلاآیاصاحب نے وہ کتاب گورنمنٹ میں پیش کردی وہاں سے انعام ملا، یہاں شیر کے منہ کو خون لگ گیا اوپر تلے کئی کتابیں گھسیٹ ڈالیں جو کتاب لکھی ، اس پر انعام ملا ، جولکھاگیاپسندکیاگیا،غرض میں مصنف بن گیا اور ساتھ ہی ڈپٹی کلکٹربھی‘‘۔

اورسنیےکہ مرزافرحت اللہ بیگ لکھتےہیں کہ مولوی نذیراحمد نے اُنہیں بتایاکہ:

’’میاں شرف نے۔کہ وہ ایڈمبرامیں پڑھتےتھے،مجھےلکھاکہ اپنی(نذیراحمد کی) تمام تصنیفات و تالیفات کی نہایت عمدہ جلدیں بنواکربھجوادیجیےسر ولیم میوردیکھناچاہتے ہیں۔سر ولیم میور پہلے ممالک مغربی و شمالی کے لیفٹننٹ گورنر تھے،مجھ پر بھی بہت مہربان تھے۔میں شرف کے لکھےکو سچ جانا،کتابوں کی جلدیں بنواکرایڈمبراروانہ کریں۔ ان کتابوں میرا قرآن مجیدکاترجمہ بھی تھا۔ وہ بہت پسند کیاگیا۔سرولیم میور نے یہ کتابیں ایڈمبرایونیورسٹی میں پیش کردیں اور ہمیں گھر بیٹھے ایل ایل ڈی کی ڈگری مل گئی‘‘۔

اور لیجیے،مرزا فرحت اللہ بیگ لکھتے ہیں:

’’سود لینا وہ(ڈپٹی نذیراحمد)جائزسمجھتےتھے،اگرکوئی حجت کرتاتومارے تاویلوں کے اس کا ناطقہ بند کردیتےایک تو حافظ، دوسرے عالم،تیسرے لسّان،بھلاان سے کون ورآسکتاتھا اور تو اور خود مجھ سے (مرزافرحت اللہ بیگ سے)سودلینےکوتیارہوگئے،واقعہ یہ ہے کہ ہم پر متفرق قرضے تھے خیال آیا ایک جگہ سے قرض لے کر سب کواداکردیاجائے،قرضہ کس سے لیاجائے یہ ذراٹیڑھاسوال تھا،ہرپھرکرمولوی صاحب پر نظرجاتی تھی،آخر ایک دن جی کڑاکرکے میں نے مولوی صاحب سے سوال کرہی دیاکہنےلگے،کتناروپیہ چاہیے؟ میں نے کہا ’’بارہ ہزار‘‘بولے’’ ضمانت‘‘؟میں نے کہاچوڑی والوں کا مکان، پوچھا کتنی مالیت کا ہے ’’میں نے کہا کوئی ساٹھ سترہزار روپے کا فرمایہ کل قبالہ لیتے آنا میں نے دل میں سوچاچلو چھٹی ہوئی،بڑی جلدی معاملہ نپٹ گیا،دوسرے دن قبالہ لے کر پہنچا،پڑھ کر کہاٹھیک ہے،مگر بیٹا سود کیا دو گے؟ میں نے کہا’’مولوی صاحب آپ اور سود؟ کہنے لگے کیوں اس میں کیا حرج ہے؟ میں نہ دوں گا تو کسی ساہوکارسے لوگے،اس کو بخوشی سوددوگے۔

ارےمیاں!مجھےکچھ فائدہ پہنچاؤگے تو دین و دنیامیں بھلاہوگا،آخرمیں تمہارااُستادہوں یانہیں میرابھی کچھ حق تم پر ہے یانہیں جاؤ شاباش بیٹااپنے چچاسے تصفیہ کرآؤ!کل چیک بنگال بنک کے نام لکھےدیتاہوں میں نےکہامولوی صاحب!لوگ کیا کہیں گے مولوی ہوکر سود دیتے ہیں اور لیتے ہیں کس سے اپنے شاگردوں سے! کہنے لگے اس کی پروانہ کرو جب مجھ پر کفر کا فتویٰ لگ چکاہے تو اب مجھے ڈر ہی کیا رہا جاؤ تمہارے ساتھ یہ رعایت کرتاہوں اوروں سے روپیہ سیکڑہ لیتاہوں تم سے چودہ آنے لے لوں گا۔میں نےآکر گھر میں ذکرکیا ہم کو دوسری جگہ سے آٹھ آنے سیکڑے پر روپیہ مل گیااس لیے معاملہ یوں ہی رہ گیا‘‘۔

توڈپٹی نذیراحمدکایہ تھادین وایمان اوریہ تھا کردارجومختلف دیے گئے اقتباسات میں آپ نے پڑھااعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کا فتویٰ کہ اس کاترجمہ ہرگزنہ پڑھاجائے۔بالکل درست ہے کہ جو شخص اپنی زندگی میں کسی چیز کی پروانہیں کرتااور حرام حلال کی تمیز نہیں رکھتااُس نے ترجمۂ قرآن میں کیا کچھ نہ کیاہوگا ؎

کہاں کا حلال اور کہاں کا حرام

جو صاحب کھلائے وہ چٹ کیجیے

؏بے حیاباش ہرچہ خواہی کن

سر سید احمد خان کا ترجمۂ قرآن:

سرسیداحمدخان کے متعلق بھی سن لیجیے کہ اس نے بھی قرآن کاترجمہ کیاہے:

ملفوظات اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ص۲۹۳میں ہے:اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں عرض کیاگیا:بعض علیگڑھی کوسیدصاحب کہتے ہیں:

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے ارشادفرمایا:

وہ توایک خبیث مرتد تھا۔حدیث ارشادفرمایا:

لاتقولو للمنافق سیدا فانہ ان یکن سیدکم فقد استخطتم ربکم۔

منافق کو سیدنہ کہوکہ اگروہ تمہاراسیدہواتویقیناًتم نے اپنے رب کو غضب دلایا۔

سرسیدکے ایمان کے متعلق بہت کچھ لکھاگیاہے۔مسلمان کاجن چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے وہ ان میں سے کئی ایک کاانکاری تھا،اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کی فلاح وبہبود و استحکام انگریزکی حکومت کے نیچے سمجھتاتھا۔بابائے اردو مولوی عبدالحق اپنی کتاب چندہم عصر،صفحہ ۲۳۱میں لکھتےہیں:

’’اس میں شک نہیں کہ وہ انگریزی حکومت کو ہندوستان اور خاص کر مسلمانوں کے حق میں موجب برکت سمجھتےتھے، چنانچہ انھوں نے اس خیال کا اظہار صاف صاف ان الفاظ میں کیا ہے۔’’میں ہندوستان میں انگلش گورنمنٹ کااستحکام کچھ انگریزوں کی محبت اور ان کی ہوا خواہی کی نظرسے نہیں چاہتابلکہ صرف اس لیے چاہتاہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی خیر اس کے استحکام میں سمجھتاہوں اور میرے نزدیک اگر وہ اپنی حالت سے نکل سکتے ہیں تو انگلش گورنمنٹ کی بدولت نکل سکتےہیں‘‘۔

شیخ سعدی کا ترجمۂ قرآن:

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فتاویٰ رضویہ جلد۲۳ص۳۸۲میں ارشادفرماتے ہیں:

’’قرآن عظیم کے مطالب سمجھنا بلاشبہ مطلوبِ اعظم ہےمگربے علمِ کثیروکافی کے ترجمہ دیکھ کر سمجھ لینا ممکن نہیں بلکہ اس کے نفع سے اس کا ضرر بہت زیادہ ہے،جب تک کسی عالمِ ماہر کامل سنّی دین دارسے نہ پڑھے خصوصاً اس حالت میں کہ ترجمۂ شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سواآج تک اُردوفارسی جتنے ترجمے چھپےہیں کوئی صحیح نہیں بلکہ اُن باتوں پر مشتمل ہیں کہ بے علم بلکہ کم علم کو بھی گمراہ کردیں واللہ یقول الحق وھو یھد ی السبیل حسبنا اللہ ونعم الوکیل‘‘۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کے ترجمہ کے علاوہ دوسرے تمام تراجم ِقرآن کو(جو چاہے اُردومیں ہوں یا فارسی میں)صحیح نہیں فرمایااس سے پتہ چلا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے اپنے وقت تک ہونے والے اُردوفارسی کے تمام ترجمہ شدہ قرآنِ عظیم ملاحظہ فرمائے تھےتبھی یہ بات کہی ، اور اب شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کاترجمہ فارسی میں اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کاترجمۂ کنزالایمان اُردومیں سب تراجم قرآن سے اچھے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں دونوں تراجمِ قرآن سے زیادہ سے زیادہ فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔

 

 

ماخذ و مراجع

[۱] فتاویٰ رضویہ جلد۲۳،امام احمدرضاخان بریلوی رضافاؤنڈیشن،لاہور۔

[۲] فتاویٰ رضویہ جلد۲۴،امام احمدرضاخان بریلوی رضافاؤنڈیشن،لاہور۔

[۳] مثنوی نوسرہار۔از:شاہ شرف الدین اشرف بیابانی۔انجمن ترقی اُردو پاکستان ۱۹۸۲ء۔

[۴] مثنوی لولوئےازغیب از:شیرلال، انجمن ترقی اُردو پاکستان ۱۹۸۳ء۔

[۵] مثنوی عاقبت بخیراز:سیدساجد علی فنائی، انجمن ترقی اُردو پاکستان ۱۹۸۳ ء۔

[۶] کہانی رانی کیتکی اورکنوراودھےبھان کی،از:میرانشاءاللہ خان انشاء۔ انجمن ترقی اُردو پاکستان ۲۰۰۳ ء۔

[۷] مقدمہ عجائب القصص از:ڈاکٹرسیدعبداللہ۔

[۸] عجائب القصص از:شاہ عالم ثانی۔

[۹] مضامین فرحت از:مرزافرحت اللہ بیگ۔

[۱۰] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت از:مفتیٔ اعظم ہندرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔

[۱۱] چندہم عصر از:بابائے اُردومولوی عبدالحق۔


متعلقہ

تجویزوآراء