چند معارضات اور ان کے جوابات
چند معارضات اور اُن کے جوابات
تحریر: مفتی محمد شمشاد حسین رضوی
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ کا ترجمہ قرآن جو کنز الایمان کے نام سے منسوب ہے جو ایک عظیم شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے، اربابِ فکر و تنقید نے اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس کا ادبی و لسانی جائزہ بھی لیا۔ اس میں جو انفرادیت، خصوصیت پائی جاتی ہے، اس کا برملا اظہار بھی کیا۔ انہیں خصوصیات میں ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ کا ترجمہ بھی ہے۔ اردو کے تمام مترجمین نے بسم اللہ شریف کے ترجمے کا آغاز ’’شروع‘‘ سے شروع کیا، مگر کنز الایمان کی یہ انفرادیت ہے کہ اس ترجمہ کا آغاز شروع سے نہیں بلکہ اسم جلالت ’’اللہ‘‘ سے کیا گیا ہے۔ اس انفرادیت کا اعتراف جماعتِ اہلِ سنّت کے تمام افراد و رجال نے کیا اور برسوں سے کرتے آئے ہیں، مگر یہ اعتراف جناب ڈاکٹر فضل الرحمٰن شرؔر مصباحی کو پسند نہ آیا اور انہوں نے اس پر چند معارضات پیش کر دیے۔ جامِ نور دہلی نے بھی ان معارضات کو بے چون و چراں شائع کر کے اہلِ سنّت کے دلوں میں کرب و اضطراب پیدا کر دیے۔ میں انہیں شبہات و معارضات کے تعلق سے اس مقالے میں گفتگو کروں گا اور حتی المقدور ان کے ازالے کی کوشش کروں گا۔ پہلے شررؔ صاحب کے معارضات ملاحظہ فرمائیں۔
شؔرر صاحب کے معارضات:
شرر صاحب نے کل سات معارضات قائم کیے ہیں جو اس طرح ہیں……….
۱۔ فارسی کے سارے معتمد اور مستند ترجمہ نگاروں نے بسم اللہ کا ترجمہ ’’بنامِ ایز د‘‘یا ’’بنامِ خدا‘‘ سے کیا ہے۔
۲۔ شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین علیہ الرحمۃ کا زمانہ اردو کا عہدِ طفلی سہی، لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ لفظِ ’’اللہ‘‘ کو لفظِ ’’شروع‘‘ پر مقدم نہیں کر سکتے تھے۔
۳۔ اعلیٰ حضرت کے بعد حضرت محدثِ اعظمِ ہند نے معارف القرآن کے نام سے قرآن حکیم کا ترجمہ کیا مگر انہوں نے بھی کنز الایمان کی تاسی نہیں کی۔
۴۔ کیا لفظِ ’’شروع‘‘ سے ترجمے کا آغاز ترجمے کی خامی ہے۔
۵۔ کنز الایمان میں بسم اللہ شریف کا جو ترجمہ کیا گیا ہے اس کو دوسرے تراجم پر فوقیت دینا، وہابی مترجمینِ قرآن کی ضد میں اپنے اسلاف کی پگڑی اچھالنی ہوئی، جس کی مذمّت کی جانی چاہیے۔
۶۔ باری تعالیٰ کا کلامِ مقدّس خود ’’اللہ‘‘ کے بجائے ’’بسم اللہ‘‘ سے شروع ہوا ہے، اس لئے ترجمے میں لفظِ ’’اللہ‘‘ کو مقدّم نہ کرنا اور ’’شروع ‘‘ کو مقدّم کرنا ترجمے کی خامی کیوں کر ہوئی۔
(ماہ نامہ جامِ نوری دہلی، بابت ستمبر ۲۰۰۶ء، ص ۴۶)
۷۔ معلوم ہوا ہے کہ خود کنز الایمان میں بھی ایک سے زائد مقامات پر بسم اللہ کا ترجمہ اللہ کے بجائے ’’شروع‘‘ سے شروع ہوا ہے۔
(ماہ نامہ جامِ نور دہلی، بابت نومبر ۲۰۰۶ء ، ص ۴۵، کالم۲)
یہ بظاہر معارضات ضرور نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے، بلکہ شرر مصباحی صاحب غلط فہمی کے شکار ہو گئے اور جوشِ جنون میں کچھ ایسا لکھ گئے حالاں کہ میں انہیں نہایت ہی سنجیدہ اور متین و ذہین تصوّر کرتا تھا، مگر انھوں نے جس طرح سے معارضات قائم کیے، اس سے میرے علم و خیال کو سخت دھچکا پہنچا۔ بہر صورت ان تمام معارضات پر میں ترتیب وار گفتگو کر رہا ہوں۔ مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے، میں اپنے آپ کو نہ مفکر کہتا ہوں اور نہ ہی دانشور، مگر کچھ سچ باتیں ہیں جو زیبِ قرطاس کر رہا ہوں، شاید دل کی گہرائی میں اتر جائے۔ اس دوران اگر کوئی تلخ لفظ استعمال ہو جائے تو اسے دامنِ عفو میں جگہ دے کر معاف فرمائیں۔
اب ترتیب وار جوابات ملاحظہ فرمائیں:
معارضۂ اوّل: یہ ہے کہ فارسی کے سارے معتمد و مستند ترجمہ نگاروں نے بسم اللہ کا ترجمہ بنامِ ایزد یا بنامِ خدا سے کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی بھی صورت میں معارضہ نہیں اور نہ ہی اس سے کنزالایمان کے ترجمہ بسم اللہ پر کوئی فرق پڑتا ہے۔ امام احمد رضا نے بسم اللہ شریف کے ترجمہ میں جس انفرادیت کو قائم فرمایا اس میں مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے اور اس کا دائرہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اب تک یہ انفرادیت صرف اردو مترجمینِ قرآن تک محدود تھی، مگر اب فارسی مترجمینِ قرآن تک یہ انفرادیت پہنچ چکی ہے اور خود شرؔر مصباحی صاحب اسے وسعت دینے میں سرِ فہرست ہیں؛ حالاں کہ میں سمجھتا ہوں کہ آں جناب نے کسی عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا اظہار نہ کیا ہو گا، مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے حقیقت کا اظہار ہو ہی جاتا ہے اور اظہار کرنے والوں کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ شرؔر مصباحی صاحب سے خطا ہوئی کہ انہوں نے فارسی ترجمہ نگاروں کا ذکر کر دیا۔ کاش اگر وہ ہوش مندی اور دقّتِ نظر سے کام لیتے توفارسی مترجمین کا کبھی بھی ذکر نہ کرتے۔ جوشِ جنوں میں انھوں نے مذکورہ ترجمہ نگاروں کا ذکر کر کے اپنی دانشوری کے رخِ زیبا کو داغ دار کر دیا، کیوں کہ فارسی طریقۂ اظہار اس خوبی و انفرادیت کا متحمل ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفرادیت ترکیبِ اضافی میں مضاف الیہ کی تقدیم سے پیدا ہوتی ہے۔ فارسی یا عربی زبان و ادب میں کسی بھی اضافی ترکیب میں مضاف کا تقدّم طبعی ہے اور اردو زبان میں اس کے بر عکس یعنی مضاف الیہ کو مقدّم کیا جاتا ہے اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اردو اسلوب اس انفرادیت کا متحمل ہے، فارسی یا عربی طریقۂ اظہار اس کا متحمل نہیں؛ لہٰذا، شرؔر مصباحی صاحب نے فارسی ترجمہ نگاروں کی بات کر کے نہایت ہی رکیک بات کہی ہے۔ اس میں فکر و دانش کا ذرا بھی شائبہ نہیں، بین الاقوامی حیثیت رکھنے والی کوئی شخصیت اگر اس قسم کی بات کرے تو یہ بے حد حیرت کی بات اور اس بات پر افسوس بھی ہوتا ہے۔
معارضۂ دوم: یہ بھی کچھ زیادہ پائیدار نہیں۔ شرؔر صاحب کو خود اعتراف ہے کہ مولانا شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر صاحب کا زمانہ اردو کا عہدِ طفلی تھا، اسی لئے اس وقت اردو میں نہ زیادہ سلاست تھی اور نہ اندازِ بیاں رواں دواں تھا۔ یہی سب ہے کہ کسی بھی فنکار کو مفاہیم کے بیان کرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ خود شاہ رفیع الدین علیہ الرحمۃ کے ترجمہ قرآن میں ناکام ترسیل پائی جاتی ہے اور بعض مواقع پر معانی پورے طور پر لفظوں سے ادا بھی نہیں ہو پائے۔ شاہ عبد القادر کے دور میں تھوڑی سی اصلاح ضرور ہوئی کہ اردو میں سلاست و روانی تو آگئی، مگر یہ سلاست ایسی بھی نہ تھی کہ اس میں کنز الایمان جیسی انفرادیت پیدا کی جائے کہ یہ انفرادیت تو سبک اسلوب سے پیدا ہوتی ہے، جو امام احمد رضا کے دور میں پایا جاتا تھا۔ ہاں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر علیہما الرحمۃ لفظِ اللہ کو لفظِ شروع پر مقدّم کر سکتے تھے اس کا پورا پورا، امکان موجود تھا، لیکن یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ ہر قسم کی انفرادیت ہر ایک شخص اور فردِ انساں کو مل ہی جائے اور اگر اس کو ضروری ہی قرار دے دیا جائے، تو پھر انفرادیت اور خصویت کا مفہوم ہی سرے سے ختم ہو جائے گا؛ لہٰذا، یہ معارضہ بھی ختم ہوا اور امام احمد رضا کے ترجمہ بسم اللہ کی انفرادیت تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ پھر نمودار ہوئی۔
معارضۂ سوم: اس معارضہ کا تعلّق محدثِ اعظم کے ترجمہ قرآن معارف القرآن سے ہے۔ اگر چہ انہوں نے کنزالایمان کی اقتدا و پیروی نہیں کی۔ اس سے کنز الایمان کی انفرادیت پر کیا فرق پڑا، اسے بتانے کی زحمت گوارہ کریں، اگر کوئی پیروی نہ کرے تو کیا وہاں انفرادیت انفرادیت نہ رہے گی اور کیا اس پر خصویت کا اطلاق نہ ہوگا۔ اگر آپ کی یہ الٹی منطق تسلیم کر لی جائے تو تمام تفردات و امتیازات کا وجود عدمِ اعتراف پر موقوف ہو جائے گا اور اس کی نفس الامری حیثیات معدوم ہوجائیں گی۔ اگر محدثِ اعظم نے معارف القرآن میں کنز الایمان کی تاسی نہیں کی، تو اس کا بھی کوئی نہ کوئی سبب ہی ہو گا کہ انہوں نے ھضما لنفسہٖ کے تحت ہی ایسا کیا ہو۔
معارضۂ چہارم: یہ سراسر خطا اور غلط فہمی پر مبنی ہے کہ بسم اللہ کے ترجمہ کا آغاز لفظِ اللہ سے کرنا، یہ اس ترجمہ کی انفرادیت ہے اور لفظِ شروع سے شروع کرنے میں یہ انفرادیت نہیں، تو یہ عدمِ انفرادیت ہو مگر حضورِ والا نے اسے خامی تصوّر کر لیا اور چراغ پا ہو گئے اور معارضہ میں سوالیہ نشان لگا کر اپنی خطا کی تائید حاصل کرنے میں جٹ گئے۔ بات اگر صرف اسی حد تک محدود ہوتی تو کوئی بات نہ تھی، لیکن آپ کنز الایمان میں بھی اپنی مفروضی خامی تلاش کر بیٹھے اور یہ لکھ دیا کہ“ خود کنز الایمان میں ایک سے زائد مقامات پر بسم اللہ کا ترجمہ “اللہ”کے بجائے”شروع” سے شروع ہوا ہے اور معارضۂ ہفتم قرار دے دیا۔ آپ خود ہی ہی سوچیے اگر یہ خامی ہوتی تو کنز الایمان میں ایسا ترجمہ نہ کیا جاتا۔ زیادہ سے زیادہ اتنا ہو سکتا ہے کہ ان ترجموں میں پہلی جیسی انفرادیت نہ رہی اور یہ بھی خیال رہے کہ پہلی جیسی انفرادیت کا کسی مقام پر باقی نہ رہنا، مترجم کی کمزور یاد داشت پر مبنی ہے۔ جب کہ تاریخ و سیر سے ثابت ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی کی یاد داشت کمزور نہ تھی، لہٰذا، اسے سہوِ کاتب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ معارضۂ ہفتم کا بھی اس سے ازالہ ہو گیا اور چہارم معارضہ کا بھی۔
معارضۂ پنجم: تمام معارضوں میں سب سے زیادہ خطر ناک معارضۂ پنجم ہے۔ اگر کسی ترجمہ و کلام کی انفرادیت کو ثابت کرنا اور اس دور کے تمام ترجموں پر اسے فوقیت دینا ضد اور انانیت ہے، تو اسے صرف بسم اللہ کے ترجمہ تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ ہر قسم کے کلام و تحقیق کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو پھر اس سے نقد و تبصرہ کا بھی سدِّ باب ہو رہا ہے اور اس کی حیثیت بھی مجروح ہو رہی ہے اور اگر اس معارضہ میں صرف ترجمہ بسم اللہ کو ہی شامل کیا جا رہا ہے اور دوسرے قسم کے کلام کو شامل نہیں کیا جا رہا ہے تو بتائیے وجہ ِشمول کیا ہے؟ اور عدمِ شمول کے وجوہات کیا ہو سکتے ہیں؟ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ آپ نے مذمّت کر کے جماعتِ اہلِ سنّت کے تمام افراد کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ لوگ اپنی جماعت کے بزرگوں کا تذکرہ کرتے ہیں، ان کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی انفرادی شان و شوکت کو اجاگر کرتے ہیں، کوئی بھی اس عمل کو ضد اور انانیت قرار نہیں دیتا، مگر آپ کیسے دانشور اور مفکر ہیں کہ اسے ضد اور انانیت قرار دے کر مذمّت کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اعلیٰ حضرت کا تذکرہ نہ کریں، ان کی تصنیفات اور فتاوٰی کا ذکر نہ کریں، کنز الایمان کی خصوصیات پر قلم نہ اٹھائیں کہ یہ ضد اور انانیت ہے، تو پھر کیا کریں؟ آپ خود ہی بتا دیں۔ کیا آپ یہ کہہ کر جمود و تعطل کے عمیق گڑھوں میں جماعتِ اہلِ سنّت کو دھکیلنا نہیں چاہتے ہیں؟ حضورِ والا آپ سے سوال ہے ذرا خوب سوچ سمجھ کر جواب دیجیے گا کہ آپ کا یہ جذبہ تعمیری ہے یا تخریبی؟ میں نے کبھی یہ تصوّر بھی نہ کیا تھا کہ آپ کی نوکِ قلم سے اس قدر خطرناک جملہ بھی نکلتا سکتا ہے؟ لیکن مجھے بہت زیادہ افسوس ہے کہ آپ کے اس جملے نے حسنِ اعتقاد کے تمام تارو پود بکھیر کر رکھ دیے، اس لئے میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
معارضۂ ششم: میری گفتگو اور تحریر کے اعتبار سے یہ آخری معارضہ ہے کہ معارضۂ ہفتم کا جواب معارضۂ چہارم کے جواب میں ضم ہے۔ اس معارضہ سے بھی شرؔر صاحب کے مبلغِ علم اور ان کی دانشوری کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا ہیں؟ بات ترجمے اور اُس کی انفرادیت کی چل رہی تھی، اصل کلام کی نہیں تو پھر اصل کلام سے معارضہ قائم کرنا کوئی دانشمندی نہیں بلکہ یہ تو کوتاہیِ فکر و نظر کی واضح علامت ہے۔ خیر شرؔر صاحب نے اپنی نادانی کے سبب اسے پیش کر ہی دیا، تو اس کا جواب بھی سنتے جائیے………… کنز الایمان کے ترجمہ بسم اللہ میں جو انفرادیت پائی جاتی ہے، جو خصوصیت نظرآتی ہے، آخر اس کا جذبۂ محرک کیا ہے؟ اس بات کی نشاندہی ضروری ہے، جب اس اعتبار سے غور کرتے ہیں تو اس کا جذبۂ محرک صرف اور صرف ترجمے کے آغاز میں برکتوں کا حصول ہے، باری تعالیٰ کے لئے ایسا تصوّر قطعی محال ہے۔ اس لئے اسمِ جلالت سے پہلے اس کو لا یا گیا، لہٰذا کلامِ الٰہی کو لے کر ترجمہ بسم اللہ پرمعارضہ قائم کرنا خالص نادانی اور تعمق ِفکر سے عاری ہونے کی بیّن علامت ہے۔
یہ چند باتیں تھیں جو معارضات کےازالہ کے سلسلے میں، میں نے پیش کر دیں۔ آں جناب اس سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں، یہ الگ بات ہے۔ اس بابت کچھ عرض کرنا نہایت ہی فضول و بکواس ہو گا، آنےوالا وقت بتائے گا کہ مذکورہ معارضات کی کیا حیثیت ہے اور ان کے جوابات کی کیا نوعیت ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ کنز الایمان کے تعلّق سے اب تک جو باتیں معرضِ تحریر میں آئیں اور جس قدر مقالے، مضامین تحریر کئے گئے ان سب پر شرؔر صاحب کے معارضات و ایرادات نے پانی پھیر دیا۔ انہوں نے ایسا کر کے کوئی تیر نہیں مارا بلکہ اپنی کج فہمی اور خطافی الفکر کا اظہار کیا، مگر یہ افسوس ناک پہلو ضرور ہے کہ مصباحی صاحب نے تنقیدی روایات میں منفی رویوں اور غیر اصولی جذبات کی شروعات کر دی جو کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔ میری تحریر اگر شرؔر صاحب کے دل و دماغ میں اتر کر اچھے اور مثبت اثرات مرتّب کریں تو یہ صداقت اور واقعی حیثیت کی کامیابی ہوگی، خدا کرے ایسا ہی ہو!