خود کشی پر وعید

خود کشی پر وعید

آگ میں عذاب

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:

جوشَخص جس چیز کے ساتھ خود کُشی کریگا وہ جہنّم کی آگ میں اُسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔(صحیح البخاری ج ۴ص ۲۸۹ حدیث ۶۶۵۲ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اُسی ہتھیار سے عذاب

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:

جس نے لوہے کے ہتھیار سے خودکُشی کی تو اسے جہنَّم کی آگ میں اُسی ہتھیار سے عذاب دیا جائیگا ۔(صحیح البخاری ج۱ص ۴۵۹حدیث ۱۳۶۳ د ا ر ا لکتب العلمیۃ بیروت)

گلاگھونٹنے کا عذاب

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:

جس نے اپنا گلا گھونٹا تو وہ جہنَّم کی آگ میں اپنا گلا گُھونٹتا رہے گا اور جس نے خود کونَیزہ مارا وہ جہنّم کی آگ میں خود کو نَیزہ مارتا رہے گا۔(صحیح البخاری حدیث ۱۳۶۵ج۱ص۴۶۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت )

زَخم و زَہر کے ذَرِیعے عذاب

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:

جو پہاڑ سے گِر کر خودکشی کریگا وہ نارِ دوزخ میں ہمیشہ گرِ تا رہے گااور جو شخص زَہر کھاکر خودکُشی کریگا وہ نارِ دوزخ میں ہمیشہ زَہر کھاتا رہے گا۔جس نے لوہے کے ہتھیار سے خود کُشی کی تو دوزخ کی آگ میں وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ اس سے اپنے آپ کو ہمیشہ زخمی کرتا رہے گا ۔(صحیح البخاری حدیث ۵۷۷۸ ج ۴ ص ۴۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت )

خودکُشی کو جائز سمجھنا کُفر ہے

اِس حدیثِ مبارَک میں خود کُشی کرنے والے کے بارے میں یہ بیا ن ہے کہ ""ہمیشہ عذاب پاتا رہے گا۔"" اِس کی شَرح کرتے ہوئے شارِحِ صحیح مسلم حضرتِ سیِّدُنا مُحیُ الدّین یَحْیٰی بن شَرَف نَوَوِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے کچھ اقوال ذِکر فر مائے ہیں :(۱ )جس شخص نے خودکُشی کافِعل حلال سمجھ کر کیا حا لانکہ اس کو خود کُشی کے حرام ہونے کا علم تھا تو وہ کافر ہوجائے گا اورہمیشہ ہمیشہ کیلئے عذاب پاتا رہے گا(کیونکہ قاعِدہ ہے کہ جس نے کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام مان لیا تو وہ کافِر ہو جائے گا ، یہ اِس صورت میں ہے کہ وہ حرام لِذاتِہٖ ہو اور اس کی حرمت دلیلِ قَطعی سے ثابِت ہواور وہ ضَروریات دین کی حد تک ہو ۔(فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ ص ۱۴۷) مَثَلاً شراب (خمر)پینا حرامِ قَطعی ہے تو اب اس کو علم ہے کہ شَراب حرام ہے مگر پھر بھی اس کو حلال سمجھ کر پیئے گا تو کافِر ہو جائے گا اِسی طرح زِنا حرامِ قَطعی ہے اگر اس کو کوئی حلال سمجھ کر کریگا تو کافِر ہوجا ئے گا ) (۲) ہمیشہ عذاب میں رَہنے کے دوسرے معنیٰ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ طویل مدّت تک رہے گا(لہٰذا اگر کسی مسلمان کے بارے میں یہ وارِد ہوکہ وہ ہمیشہ عذاب میں رہے گا۔تو یہاں یہ معنیٰ لئے جائیں گے کہ طویل مدّت تک عذاب میں رہے گا ۔ جیسا کہ مُحَاوَرَۃً کہا جاتا ہے، "" ایک بار یہ چیز خرید لیجئے ہمیشہ کا آرام ہو جا ئے گا۔""حالانکہ ہمیشہ کا آرام ممکن نہیں تویہاں ہمیشہ کے آرام سے مُراد طویل مدّت کا آرام ہے)اسی طرح بطورِ دعا کہا جاتا ہے خَلَّدَاللہُ مُلْکَ السُّلْطَانِ (اللہ عزوجل بادشاہ کا ملک ہمیشہ سلامت رکھے)یہاں مُراد یہی ہے کہ تادَیر قائم رکھے ۔اِسی طرح ہمارے یہاں بُزُرگوں کیلئے یہ دعائیہ الفاظ مُرُوَّج ہیں : اللہ عزوجل آپ کا سایہ ہم گنہگاروں پر قائم و دائم رکھے۔""دائم"" کے لفظی معنیٰ اگر چِہ "" ہمیشہ "" ہے مگر یہاں مُراد "" تادیر"" یا "" طویل مدّت"" ہے۔ بعض عوام اِس جملہ میں "" تادیر قائم و دائم "" کے الفاظ بھی بولتے ہیں مگر یہ غلط العوام ہے یہاں "" دائم "" کے ہوتے ہوئے لفظ""تادیر "" بولنا غلطی ہے (۳) تیسرا قول یہ ہے کہ خودکُشی کی سزا تو یِہی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مؤ منین پر کرم فر مایا اور خبر دے دی کہ جو ایمان پر مرے گا وہ دوزخ میں ہمیشہ نہ رہے گا (یعنی معاذاللہ عزوجل اگر کوئی گنہگار مسلمان دوزخ میں گیا بھی تو کچھ عر صہ سزا پانے کے بعد بِالآخِر دوزخ سے نکال کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے داخلِ جنَّت کردیا جائے گا)(شرح مسلم لِلنَّوَ وِی ج ۱ ص ۱۲۵ )


متعلقہ

تجویزوآراء