ہدایتِ صراطِ مستقیم: معنی حقیقی کی تحقیق

ہدایتِ صراط مستقیم:معنی حقیقی کی تحقیق

تحریر:مولانایٰسین اختر مصباحی

قرآنِ حکیم علوم ومعارفِ کائنات کابیش بہامرقع اورلازوال خزانہ ہے۔بنی نوعِ انسان کی چشم ِبصیرت کے لیے نگارخانۂ قدرت اور صحیفۂ ھدایت ہے۔ سعیدوصالح اَرواح کے لیے چشمۂ شیریں اور آبِ حیات ہےجس سے قیامت تک ہرسلیم الفطرت انسان فیض یاب و سیراب وشاد کام ہوتارہےگا۔کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے اس کی مخلوق کے لیے نازل ہونے والی یہ آخری کتابِ ہدایت ہے۔

اسراروحقائقِ قرآنِ حکیم کے فہم وادراک سے اب تک عقلِ انسانی عاجزودرماندہ ہے۔اور اس کے کمالات وامتیازات وخصوصیات کی کما حقہ تفسیروتشریح سے زبان و قلم دونوں قاصر اور بے بس ہیں۔

صرف ترجمہ نہیں بلکہ ترجمانی بلکہ ضخیم ترین کتبِ تفاسیراور طویل ترین دفاترِ تشریح وتوضیح سے بھی یہ ممکن نہیں کہ قرآنِ حکیم کے مفاہیم اور معانی ومطالب کااحاطہ کیاجاسکے۔لیکن جہاں تک اور جس حدتک بھی ہمارے قدیم و جدیدمفسرین و مترجمینِ کرام سے ممکن ہوسکا ہے انہوں نےمسلسل کوشش کی ہے کہ صحت و وضاحت کے ساتھ تعلیمات وارشاداتِ قرآن کوعام سے عام تر کیاجاسکے۔قرآنی جواہر پارے مختلف زبانوں میں پیش کرتےرہنےکا سلسلہ عہدِصحابۂ کرام سے آج تک جاری ہےاور ان شاءاللہ قیامِ قیامت تک یہ سلسلۂ خیرو برکت یوں ہی جاری رہےگا۔

دنیاکی بیشترزبانوں میں قرآنِ حکیم کے ترجمے شائع ہوچکےہیں جن میں اردوزبان کے تراجمِ قرآن کی تعدادغالباًسب سے زیادہ ہے۔عربی زبان کے بعدتفسیرِ قرآن کے باب میں بھی اردو ہی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کے اندرمتعدد ضخیم تفاسیرموجود ہیں۔ان تراجم و تفاسیر کا معیاراوران پر کچھ نقدونظر، یہ ایک الگ مسئلہ ہےجس پر اظہارِخیال اور خامہ فرسائی کایہ موقع نہیں۔

اردوزبان کے درجنوں تراجمِ قرآنِ حکیم کے درمیان کنزالایمان فی ترجمۃ القرآنکی شہرت و مقبولیت کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ ترجمۂ قرآن قدیم و معتمد اور راجح تفاسیرِ قرآن کے عین مطابق ہےاوراس کے اندرتوحیدورسالت کی اس عظمت و منزلت کا خصوصی خیال و لحاظ رکھاگیاہےجو اسلام کو مطلوب اور اس کا مقصود ہے۔مطالب ومفاہیم ِقرآنِ حکیم کو جس صحت وجامعیت کے ساتھ اس ترجمۂ قرآن میں اجاگرکیاگیاہےاس کی مثال اردو زبان کے دوسرےتراجم میں خال خال نظرآتی ہے۔

فقیہِ اسلام امامِ اہلِ سنت حضرت مولاناالمفتی الشاہ محمداحمدرضاحنفی قادری برکاتی بریلوی قدس سرہ (وصال1340ھ/1921ء)کایہ ترجمۂ قرآن بلاشبہ ہدایت یافتہ اور انعام یافتہ ہے اپنے ربِ قادروقیوم کی جانب سے جس نے اس کے مترجم کو اپنی توفیقِ خاص سے شرحِ صدر اور وصول الی الحق کی نعمت سےسرفرازفرمایااور اہلِ حق کے قلوب اس کی جانب مائل کرکے اسےقبولِ عام کی بیش بہادولت عطافرمائی۔

کنزالایمان کے محاسن و خصوصیات کادائرہ اوراس کادامن بے حدوسیع ہے جس سے اہلِ علم اپنے ذوق وظرف کے مطابق خوشہ چینی کرتے رہتےہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ اس سلسلہ میں یہاں ہم صرف ایک آیتِ کریمہ کے اس ترجمہ کی نشان دہی کرناچاہتے ہیں جس سے اکثروبیشتراردومترجمینِ قرآن نے غفلت برتی ہے اور اس مفہومِ قرآن کو واضح نہیں کرسکےجس کا مقام نہایت اعلیٰ اور افضل ہے۔

سورۃ الفاتحہ کی ایک آیتِ کریمہ ہے۔

إِھْدِ نَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ

اکثر مترجمین نے(اِھدِ نَا) کاترجمہ کیاہے۔ہمیں دکھا۔یہ ترجمہ اگرچہ صحیح ہے مگراس سے بہتراورافضل و اعلیٰ ترجمہ ہے۔ہمیں چلا۔کسی کوراہ بتانایااسے راہ دکھانااور چیز ہے اوراس راہ پہ چلانااور چیز ہے۔ پہلی صورت کو اِرَاءۃ الطریق(راستہ دکھانا)اوردوسری صورت کو ایصال الی المطلوب (منزل مقصود تک پہنچانا)کہاجاتاہے۔ان دونوں طرح کی ہدایات کے درجات میں جو تفاوت ہےوہ اہلِ علم پر مخفی نہیں ہے۔

کنزالایمان کے اندر(اھدنا الصراط المستقیم) کاترجمہ اس طرح کیاگیاہے: ہم کو سیدھا راستہ چلا۔ الحمد للہ یہی ترجمہ قدیم تفاسیرمعتبرہ راجحہ کے عین مطابق ہے۔

صراطِ مستقیم(سیدھاراستہ)کیاہےاس کے بارے میں امام ابومحمدبن الحسین بن مسعود الفراء البغوی الشافعی(المتوفی516ھ) زیرِ آیت (اھدنا الصراط المستقیم) لکھتےہیں:

والصراط المستقیم:قال إبن عباس وجابر:ھوالإسلام وھو قول مقاتل۔ وقال إبن مسعود: ھو القرآن۔ ورُوی عن علیٍ مرفوعًا۔الصراط المستقیم کتاب اللّٰہ۔ وقال سعید بن جبیر:طریق الجنۃ۔ وقال سھل بن عبد اللّٰہ: طریق السنۃ و الجماعۃ۔وقال بکربن عبداللّٰہ المزنی: طریق رسول اللّٰہ ﷺ۔وقال ابوالعالیۃ والحسن: رسول اللّٰہ وآلہ وصاحباہ۔واصلہ فی اللغۃ،الطریق الواضح۔

(ص15۔تفسیر البغوی (معالم التنزیل)الجزء الاول، دارالکتاب العلمیہ، بیروت)

صراط ِمستقیم سے مراد اسلام بھی ہے،قرآن بھی ہے،سنّت بھی ہے ،مذہب ِسنت وجماعت بھی ہے اور راہ ِجنت بھی ہے۔

اہلِ ایمان کے درمیان اپنے علم وہدایت ومعرفت کے مختلف مراتب کے حامل خواص بھی ہوتے ہیں اور ایسے عوام بھی جو ان صفات سےبہرہ ور نہیں ہوتے۔ ایسے خواص و عوام کے لحاظ سے ہدایت ودرجاتِ ہدایت مختلف ہوتے ہیں۔چنانچہ (اھدنا الصراط المستقیم) کی تفسیر کرتے ہوئےابوالفضل شہاب الدین السید محمودالآلوسی البغدادی(المتوفی 1270ھ)لکھتےہیں:

فمتیٰ قال العامی إِھدِ نَاالصِّراطَ المُستَقِیمَ أراد أرشِدنا إلی الإستقامۃ علٰی امتثالِ أوامرك واجتنابِ نواھیك۔ ومتیٰ قال ذالك احدالخواص أراد ثّبِّتناعلیٰ مامنحتنا بہٖ۔ وھو المروی عن یعسوب المؤمنین کرم اللّٰہ تعالیٰ وجھہ وأبی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ۔

(ص95،روح المعانی،المجلد الاول۔دارالکتب العلمیہ، بیروت)

پھرہدایت یافتہ مومن کی طرف سے دعائے ہدایت کا مطلب بتاتے ہوئے اور ہدایت کے متعدد معانی کاذکرکرتے ہوئے تحریرکرتےہیں:

وللمحققین فی معنیٰ إِھدِنَا وجوہ۔دفعوابھا مایوشك أن یسأل عنہ من أن المؤمن مھتدٍ فالدعاء طلب لتحصیل الحاصل۔

احد ھا:ان معناہ ثبتناعلی الدین کیلاتزلزلناالشبہ۔

وفی القرآن:

رَبَّنَا لَاتُزِغ قُلَوبَنَابَعدَ اِذ ھَدَیتَنَا(آل عمران:8)

وفی الحد یث:

اللّٰھم یامقلّب القلوب ثَبِّت قلوبَناعلیٰ دینِك

وثانیھا:اعطِنازیادۃَالھدٰی کماقال تعالیٰ:

وَ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی (محمد:17)

وثالثھا:ان الھدایۃ الثواب کقولہ تعالیٰ:

یَہْدِیْہِمْ رَبُّہُمْ بِاِیْمٰنِہِمْ (یونس:9)

فالمعنی اھد نا طریق الجنۃ ثواباًلنا،وَأیَّدَ بقولہٖ تعالیٰ :

الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰىنَا لِہٰذَا (الاعراف:43)

ورابعھا:ان المراد دلّنا علیٰ الحق فی مستقبلِ عمرِنا کمادللتناعلیہ فی ماضیہ۔

(ص96:روح المعانی:المجلد الاول)

ہدایاتِ ربانی کے مختلف وجوہ ومعانی بتاتے ہوئے الامام الشیخ اسماعیل حقی بن مصطفیٰ الحنفی الخلوتی (المتوفی1127ھ/1715م) (اھدنا الصراط المستقیم) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

ثم فی قولہ:إِھدِ نَاالصِّرَاط المُستَقِیم،مع أنہ مھتدٍ وجوہ۔

الأول:أن لابد بعد معرفۃ اللّٰہ تعالٰی والإھتداء بھا من معرفۃ الخطِ المتوسط بین الإفراط والتفریط فی الأعمال الشھویۃ و الغضبیۃ وإنفاقِ المال۔والمطلوب أن یھد یہ إلی الوسط۔

والثانی:۔أنہ وأن عرف اللّٰہ بد لیل فھناك أد لۃ أخریٰ۔فمعنی إھد ناعرفنا ما فی کل شئی من کیفیۃِ دلالتہٖ علیٰ ذاتِك وصفاتك وأفعالِك۔

والثالث:أن معناہ بموجب قولہ تعالیٰ:وأَنَّ ھٰذَ ا صِراطِیْ مُسْتَقِیْمًا۔(الأنعام:153)طلب الإعراض عما سوی اللّٰہ وإن کان لنفسہ۔والإقبال بالکلیۃ علیہ۔

(ص24،روح البیان۔المجلد الاول،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

مزیدوضاحت مگراختصار کے ساتھ الشیخ الامام ابوالحسین بن مسعود الفراء البغوی الشافعی (المتوفی 561ھ)اپنی تفسیر میں لکھتےہیں:

قولہ: إِھدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ۔ إِھدِنَا: أَرشِدنا:وقال علی وأبی بن کعب: ثَبتنَا کمایقال:قُم حتی أعود إلیك۔ أی:دُم علیٰ ما أنت علیہ۔واھدناالدعاء من المؤمنین مع والھدایات من اللّٰہ تعالیٰ لاتتناھی علٰی مذھب أھل السنۃ ۔

(ص14۔تفسیرالبغوی(معالم التنزیل)الجزء الاول۔دارالکتب العلمیہ۔ بیروت)

اِھدِ نَاکامعنی ہے:ہماری رہبری فرما۔حضرت علی وحضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ اس کامعنی ہے ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ۔جیسے کہاجاتاہے کہ ٹھرے رہو جب تک میں تمہارے پاس واپس نہ آجاؤں۔ہدایت پر رہتےہوئے بھی اہل ایمان کی اس دعاکامعنی ہے کہ اس پرہمیں ثبات قدمی عطافرمااورہمیں مزیدہدایت کی توفیق مرحمت فرما۔کیوں کہ اللہ کی ہدایت والطاف غیرمتناہی ہیں جیساکہ اہل سُنّت کامذہب ہے۔

ابوجعفرمحمد بن جریرالطبری (المتوفی 310ھ)اپنی تفسیرمیں لکھتےہیں:

والذی ھو أولٰی بتاویل ھذ ہ الایۃ عندی،إعنی إِھدِ نَا الصِّرَاطَ المُستَقِیم۔ أن یکون معنیابہ:وَفِّقنا للثبات علیٰ ما ارتضیتہ ووفّقت لہ من أنعمت علیہ من عباد ك من قول وعمل۔ وذ لك ھوالصراط المستقیم۔لأن من وُفِّق لماوُفِّق مَن اَنعم اللّٰہ علیہ من النبین والصدیقین والشھدآءِ فقد وُفِّق للإسلام،وتصدیق الرسل، والتمسك بالکتاب۔ والعمل بما أمراللّٰہ بہ،والإنزجارعما زجرہ عنہ،واتباع منھج النبی ﷺ، ومنھاج ابی بکروعمر و عثمان وعلی،وکل عبدٍ للّٰہ صالحٍ۔ وکل ذ لك من الصراط المستقیم۔

(ص104،تفسیرالطبری(جامع البیان فی تاویل القرآن)المجلد الاول،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

میرے نزدیک اس آیت کی اصح اور اولیٰ تفسیراس کا یہ معنی و مفہوم ہے۔ اپنی پسندیدہ بات اور جن بندوں پر اپنے انعام کے ذریعہ ان کے لیے اچھےقول و عمل کی راہ کی تونے توفیق دی اس پر ہمیں بھی استقامت کی توفیق دے۔سبھی انعام یافتہ انبیاوصدیقین وشہداکوجوبھی توفیق ملی وہ توفیق یہی ہے کہ اسلام پر ثابت قدرم رہیں۔رسولوں کی تصدیق کریں۔کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہیں۔اللہ کے حکم پر عمل کریں۔اس کی منع کردہ چیزوں سے دور رہیں۔

اوراہلِ ایمان کویہی توفیق ملی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے طریقے کی اتباع کریں،ابوبکروعمرو عثمان وعلی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلیں، اللہ کے ہرنیک بندے کا طریقہ اپنائیں۔ یہی چیزیں صراطِ مستقیم ہیں اور انہیں ہی صراطِ مستقیم کہاجاتا ہے۔

اس سےپہلےہدایت کی مختلف تفاسیر پر بحث کرتے ہوئے امام ابوجعفرمحمدبن جریر طبری (المتوفی310ھ)فیصلہ کن اندازمیں لکھ چکے ہیں کہ:

فکذ لك قولہ إِھْدِنَا انما ھومسألۃ الثبات علٰی الھدیٰ فیما بقی من عمرہٖ

(ص103،تفسیرالطبری،المجلدالاول)

اس (اِھدِ نَا)کےاندر اس بات کی دعاہے کہ اے اللہ! ہماری آئندہ زندگی اور باقی ماندہ عمر میں ہمیں ہدایت ہی پر ثبات واستقامت عطافرما۔

کنزالایمان کے اس ایک ترجمہ اور نمونہ سے ہی یہ بات واضح اور ثابت ہوجاتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے اپنی توفیق خاص سے نوازاہےاور ہر قدم پر اس کی ایسی ہدایت فرمائی ہے جو اسےمنزل مقصود سے ہم کنارکردے۔

وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ

(سورۃ البقرۃ:213)

اور اللہ جسے چاہے ہدایت عطافرمائے۔

 

ذٰ لِكَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ

(سورۃ المائدہ:54)

یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے۔


متعلقہ

تجویزوآراء