حضور تاج الشریعہ بحیثیت استاذ کامل
استاذ العلماء، قاضی القضاۃ فی الہند جانشین حضور مفتی اعظم اہند، نادر روز گار عبقری شخصیتوں میں سے ایک ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیاں اور محاسنؔ و کمالات سے نوازا، اعلیٰ حسب و نسب، خاندانی رعب و دبدبہ، دین حق پر استقامت، فیوض و برکات و کرامات، پاکیزہ سیرت و اخلاق، درس و تدریس، بحث و تحقیق کی اعلیٰ بصیرت، لا جواب علمی استحضار و خدا داد فنی صلاحیت، فصاحت بیان و بلاغت لسان پر زبردست قدرت، فقہ افتاء میں بے مثال مہارت و حذاقت جیسے اوصاف حمیدہ سے آراستہ فرمایا۔
حضور تاج الشریعہ کے فیض و بخشش فضل و کمال اور حسن و جمال کا ایک عالم معترف ہے۔ آپ کے رخ انور کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دنیا بے چین اور بے قرار رہتی تھی۔ جس بستی سے گزر جاتے انسانوں کا ہجوم سیلاب کی طرح امنڈ پڑتا اور لوگ یہ نعرہ لگانے لگتے۔ بستی بستی قریہ قریہ تاج الشریعہ تاج الشریعہ، علم کا دریا بخشش کا ذریعہ تاج الشریعہ تاج الشریعہ، جس جلسہ و کانفرس میں آپ تشریف لے جاتے حاضرین عام و خاص کی توجہ کا مرکز بن جاتے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حضور تاج الشریعہ کے کمالات علمیہ، اوصاف حمیدہ اور خصائل جمیلہ کے اپنے تو اپنے بیگانے بھی قائل و معترف ہیں۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے درس و تدریس کو اپنا محبوب مشغلہ بنایا تھا کہ جامعہ میں درس حدیث دیتے تھے اور اپنے دولت خانے پر بھی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گوہر لٹاتے تھے۔ اچھے اچھے عالم، فاضل، مفتی حضرات درس حدیث میں شریک ہوتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ حضور تاج الشریعہ ایسے مشق و مخلص و مہربان استاذ تھے کہ دور دراز سے آئے ہوئے تشنگان علوم نبویہ کو اپنے فیضان علمی، روحانی، حقانی سے سیراب کرتے تھے۔ آپ کا افہام و تفہیم اتنا عمدہ اور لا جواب تھا کہ طلبہ کو اچھی طرح تشفی ہوجاتی تھی۔ حضور تاج الشریعہ ایسے نوادرات، علمی نکات، فقہی معلومات کو بیان فرماتے تھے کہ سننے والے باغ باغ ہوجاتے۔
درس و تدریس:۔
مرکز اہل سنت یادگار اعلیٰ حضرت جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف میں جب آپ صدر المدرسین کے عہدے پر فائز تھے راقم الحروف نے بھی آپ کی بارگاہ عالیہ میں زانوئے ادب تہ کیا تھا۔ پورے تین سال تک درس حاصل کیا اور علمی پیاس بجھائی۔ آپ ہی کے دورِ صدارت ۱۹۷۸ء میں جامعہ رضویہ منظر اسلام سے راقم الحروف کو دستار فضیلت و سند فراغت حاصل ہوئی۔ بلا مبالغہ آپ کے پڑھانے اور سمجھانے کا انداز ہی نرالہ تھا۔ جب مسند تدریس پر بیٹھ کر حدیث شریف کا درس دیتے تو امام بخاری کی یاد تازہ ہوجاتی۔ معقولات کے اسباق پڑھاتے تو امام رازی کی یاد آنے لگتی اور عربی ادب کی کتابیں پڑھاتے تو معلوم ہوتا کہ عربی ادب کا کوئی ماہر فن ادیب ہے اور جب دار الافتاء میں رونق افروز ہوکر مسائل شرعیہ کی تحقیق فرماتے تو حضرت امام اعظم کا عکس جمیل نظر آتا اور جب فقہ حنفی پر محققانہ کلام فرماتے تو آپ کی تحریرات میں فقہاء کرام کی نورانیت نظر آتی۔ اکثر و بیشتر بارگاہ رسالت مآب کے گستاخوں کا رد بلیغ فرماتے تو امام احمد رضا اور حضور مفتی اعظم کی جانشینی کا حق ادا فرما دیتے۔
شعر و شاعری:۔
استاذ الاساتذہ مخدوم گرامی استاذی حضور تاج الشریعہ علماء فضلاء، فقہاء ادباء نقبا میں مقبول اور محبوب اہل اسلام اور مداح خیر الانام تھے۔ شعر و سخن کا شوق آپ کو زمانۂ طالب علمی سے ہی تھا۔ آستانۂ رضویہ پر منعقد ہونے والے مشاعرے میں بھر پور حصہ لیتے اور اعلیٰ کامیابی حاصل ہوتی۔ آپ کو شعر و شاعری خاندانی وراثت میں ملی تھی۔ آپ کا کلام بلاغت نظام حاصل مشاعرہ ہوتا تھا۔ آپ کی شاعری میں رنگ تغزل نمایاں طور پر پایا جاتا تھا۔
حضور مفتی اعظم کے معتمد:۔
مرشد برحق تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم ہند کے آپ چہیتے تھے۔ آپ کی بات کو حضور مفتی اعظم مانتے اور پسند فرماتے تھے۔ سرکار مفتی اعظم ہند نے تاج الشریعہ کو اپنا ایسا معتمد علیہ بنایا تھا کہ حضور مفتی اعظم ہند نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ ان کا قول میرا قول ہے، ان کی تحریر میری تحریر ہے۔
قادر الکلامی:۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کے دولت خانہ پر محفل میلاد منعقد تھی۔ اس میں مولانا عبد الحمید رضوی افریقی حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز کی لکھی ہوئی مشہور نعت پاک ؎
تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ
تو ماہ نبوت ہے اے جلوۂ جاناناں
پڑھ رہے تھے۔ جب مقطع پڑھا ؎
آباد اسے فرما ویراں ہے دلِ نوریؔ
جلوے ترے بس جائیں آباد ہو ویرانہ
تو حضور مفتی اعظم ہند نے فرمایا کہ بحمدہ تعالیٰ فقیر کا دل تو روشن ہے اب اس کو یوں پڑھو ؎
آباد اسے فرما ویراں ہے دل نجدی
جلوے ترے بس جائیں آباد ہو ویرانہ
اس وقت جانشین مفتی اعظم ہند حضور تاج الشریعہ محفل میں رونق افروز تھے۔ فوراً برجستہ حضور مفتی اعظم ہندکے سامنے عرض کیا: حضور مقطع کو اس طرح پڑھ لیا جائے ؎
سرکار کے جلووں سے روشن ہے دل نوری
تاحشر رہے روشن نوریؔ کا یہ کاشانہ
حضور مفتی اعظم ہند نے یہ مقطع بہت پسند فرمایا اور دعاؤں سے نوازا۔
منظر اسلام سے محبت:۔
حضور تاج الشریعہ کے دار العلوم جامعہ رضویہ منظر اسلام میں مسند تدریس کو سنبھالتے ہی تعلیم و تعلم کا ماحول خوشگوار ہوگیا تھا۔اسی نتیجہ میں آپ کو آپ کے برادر اکبر قائد اہل سنت مفکر اسلام حضور ریحان ملت علیہ الرحمہ نے جلد ہی صدر المدرسین کے عہدے پر مقرر کر دیا۔ تقریباً ۳؍ سال تک اس اہم عہدے پر فائز ہوکر اکناف عالم سے آنے والے طلبہ کی ایک لمبی کھیپ تیار کردی۔ اس طویل فہرست میں میرا بھی نام شامل ہے۔ میں نے حضرت کو گھر سے لے کر درسگاہ تک خوب دیکھا ہے۔ سفر و حضر میں بھی دیکھا۔ ہر جگہ علمی مشغلہ، تعلیم و تعلم سے وابستگی، تصنیف و تالیف سے شغف، فتویٰ نویسی میں انہماک اور رشد و ہدایت میں مشغول پایا۔ بسا اوقات ایام درسگاہ کا مجھ سے تذکرہ بھی کرتے تھے اس پر مجھے تعجب اور حیرت بھی ہوتی کہ کب کی بات ہے اور حضرت کو آج بھی یاد ہے۔ اللہ اللہ کیسے وہ شفیق استاذ تھے۔ حضور تاج الشریعہ نے مرکز اہل سنت جامعہ رضویہ منظر اسلام کے لیے بھی جامع اشعار پر انوار ارشاد فرمائے ہیں جن میں سے راقم الحروف کو بروقت ایک شعر یاد ہے ؎
منظر دین حق یادگار رضا
مرکز اہل سنت پہ لاکھوں سلام
اہل حق سے محبت اہل باطل سے نفرت:۔
حضور تاج الشریعہ ایسے پیکر رشد و ہدایت اور مقبول عوام و خواص تھے کہ آپ کے دست حق پرست پر سیکڑوں غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا اور آپ ہی سے مرید ہوکر سلسلہ قادریہ رضویہ میں داخل ہوگئے۔ حضور تاج الشریعہ سے سیکڑوں علماء فضلا اور مفتیان کرام نے خلافت و جازت حاصل کی ہیں۔ حضور تاج الشریعہ سے بہت سی کرامتیں بھی صادر ہوئیں۔ آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ تھی کہ آپ میں تصلب فی الدین غالب تھا۔ اہل حق سے محبت کرنا اور اہل باطل سے نفرت کرنا آپ کا شیوہ تھا۔
آپ مقبول الدعا، تھے:۔
حضور تاج الشریعہ کی دعاؤں میں بڑی تاثیر تھی۔ راقم الحروف محمد انور علی کو دوران درس ’’انوار‘‘ فرماتے تھے۔ تو میں کہتا تھا حضور میں ’’انور‘‘ ہوں تو تاج الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے اللہ تعالیٰ تم کو انوار کردے۔ جب راقم الحروف فارغ التحصیل ہوا تو کاٹھ گودام ضلع نینی تال سے پڑھانے کی جگہ آئی۔ تاج الشریعہ سے میں نے عرض کیا حضور خطہ پہاڑ سے ایک جگہ پڑھانے کی ایسی آئی ہوئی ہے کہ وہاں کوئی ٹکتا نہیں ہے۔ حضرت تاج الشریعہ نے فرمایا کہ تم وہاں ضرور جاؤ۔ جنگل میں منگل بناؤ۔ اللہ تعالیٰ تم کو وہاں ٹکادے اور بیش از بیش دین کی خدمت لے۔ لہٰذا راقم الحروف کاٹھ گودام چلا گیا۔ وہاں پر تین سال رہا۔ بحمدہ تعالیٰ دین پاک کی خوب خدمت انجام دی۔ مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت کی۔ احقاق حق اور ابطال باطل کیا۔ مولیٰ تعالیٰ اس خدمت دین متین کو قبول فرمائے۔ آمین بفضلہ تعالیٰ وبکرم حبیبہ الاعلیٰ۔راقم الحروف کو وہاں یعنی اطراف پہاڑ میں ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ آج تک مسجد و مدرسے کے لوگ برابر یاد کرتے اور بلاتے ہیں۔
تاج الشریعہ کی چند اہم خصوصیات:۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو علم فقہ پر عبور حاصل تھا۔ متأخرین علمائے اہل سنت میں اکابر علمائے حق میں شمار کیے جاتے تھے اور اپنے معاصرین علماء میں بھی بڑی قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ اہلِ علم اور ارباب فکر و دانش کے نزدیک ایک رفیع المرتبت مفتی و محدث، محقق و مصنف کی شہرۂ آفاق حیثیت سے معروف ہیں۔ یہ بات صداقت پر مبنی ہے کہ حضور تاج الشریعہ بیک وقت محدث بھی تھے اور عظیم محقق و مرشد برحق بھی اور ایک انتہائی بے دار مغز، قادر الکلام، حاضر جواب مناظر بھی۔ صاحب فکر و فہم مصنف بھی۔ وہ علم و فن کے متبحر عالم دین تھے اور بہترین نعت گو شاعر اہل سنت بھی تھے۔ بلا شک و شبہ یہ تمام خوبیاں کسی ایک ذات میں بیک وقت جمع ہونا محض کسبی نہیں بلکہ خاص فضل الٰہی و عنایات خدا وندی کی روشن دلیل ہے ؎
این سعادت بزور بازو نیست
تا ننجشد خدائے بخشذہ
الغرض حضور تاج الشریعہ انتہائی مشفق و مہربان استاذ کامل تھے۔ مولیٰ تعالیٰ ان کا کوئی مثل عطا فرمائے۔ آمین۔ حضور تاج الشریعہ کی پیاری باتیں بھی بہت ہیں اور ان کی یادیں بھی بہت ہیں ہر ذرہ ان کو یاد کرتا ہے۔ راقم الحروف بھی ان کو بہت یاد کرتا ہے۔ مولیٰ تعالیٰ ان کے مزار پُر انوار پر صبح و شام رحمت و نور کی بارش فرمائے۔ آمین۔ ؎
ارباب چمن ان کو بہت یاد کریں گے
ہر شاخ پہ وہ اپنا نشان چھوڑ گئے ہیں