کنز الایمان اور افکار شاہ ولی اللہ دہلوی
کنز الایمان اور افکارِ شاہ ولی اللہ دہلوی
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔اس ملک میں ہزاروں رنگ و نسل کے لوگ بستے ہیں۔ سب کے مذاہب جداگانہ ہیں، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی،جین،بودھ دھرم کے پرستار ہندوستان میں موجود ہیں۔ ہرمذہب کے پرستاروں میں مختلف افکارونظریات کے حامل لوگ پائے جاتے ہیں۔اس روئے زمین پر شایدہی ایساکوئی مذہب ہو جس کے اصولوں پرتمام رنگ ونسل کے لوگ یکساں اتفاق رکھتےہوں یہ امرواقعہ ہےاس دنیامیں جتنےمذاہب پائے جاتے ہیں سبھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگرحقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے مذاہب کے پرستار اپنے آپ کو سب سےاعلیٰ وارفع سمجھتےہیں تمام مذاہب میں باہمی اتحاد توغیرممکن ہے ہی ایک مذہب کے ماننے والے بھی نظریاتی طورپرباہم متحدنہیں ہندودھرم ہی کو لیجئےاولاً تو اس مذہب کاکوئی بانی نہیں جتنے متضادنظریات اس مذہب میں پائے جاتے ہیں شاید ہی کسی اور مذہب میں پائے جاتےہوں۔ جو پتھروں کی پوجاکرتےہیں وہ بھی اپنے آپ کوہندو کہتے ہیں جو پتھروں کی پوجاپریقین نہیں رکھتےانہیں بھی ہندو کہاجاتاہے، رام کی مالاجپنے والے بھی ہندوہیں اورراون کواپنامذہبی رہنماتسلیم کرنے والے بھی ہندوہیں اس مذہب کے تین اہم فرقےویشنو،شیو اور شاکیت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ہندومذہب میں جتنے نظریات و خیالات پائے جاتے ہیں اس کی مثال اور دوسرے کسی مذہب میں مشکل سے ہی ملے گی۔راجندر نارائن لال بنارسی بنارس ہندویونیورسٹی لکھتے ہیں:
انتہائی آستک شنکرآچاریہ کے پیروکاربھی ہندوہیں اور ناستک جینی اور بائیں بازو والے کمیونسٹ بھی ہندو،پیازلہسن تک نہ کھانے والے بھی ہندوہیں اور انتہائی ناپسندیدہ چیزیں کھانے والےاوگھڑبھی ہندوہیں،پیتامبرپیلے کپڑےہیببت والے سادھوبھی ہندوہیں اور مادر زاد ننگے رہنے والے سادھوبھی ہندوہیں ویشنومیں گوشت خوری منع ہے شاکتوں میں گوشت خوری جائزہے۔ہندواصولی طور پر توحید پرست ہیں اور عمل سے بہت سے معبودوں کوماننے والے(بہودیووادی یامشرک)ہیں، اصولی طور پر ہندوؤں کاایشورکاتیارکردہ دھرم گرنتھ وید ہےلیکن شمالی بھارت میں واقعی طورپر رام چرت مانس ہے جنوب میں ہندوؤں کے تصورات بالکل مختلف ہیں۔
(اسلام اورغلط فہمیاں سہ روزہ دعوت ص76جولائی 2022ء)
سطورِبالامیں بطورِمثال صرف ہندودھرم کا ذکرکیاگیاہےیہی حال دوسرے مذاہب کا بھی ہے۔مذہبِ اسلام آسمانی مذاہب میں سے ہےاور یہ مذہب پوری دنیاکے انسانوں کے لئے ہے اس مذہب میں جس خداکی عبادت کا حکم دیاگیاہےوہ رب العالمین ہےاور جس پیغمبر کی اتباع اور پیروی کاحکم دیاگیاہےوہ رحمتہ اللعالمین ہیں۔یہی مذہب دینِ فطرت ہے اور تمام اللہ کے بندوں کے لئے ہے۔پنڈت وید پرکاش اپادھیائےنے کالکی اوتار(ہادی عالم) کے نام سے ایک مقالہ لکھاجس میں انہوں نے واضح لفظوں میں ہندوؤں کو اس مذہب کو قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔
ہندومذہب کے ماننے والے جس کالکی اوتارکاانتظارکررہے ہیں وہ درحقیقت محمدﷺ کی ذاتِ اقدس ہے جس کا ظہورآج سے چودہ سوسال قبل ہوچکاہےلہٰذا ہندوؤں کو اب کسی کالکی اوتارکے انتظار میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور فوراً اسلام قبول کرلینا چاہئے۔
(روزنامہ نوائے وقت ملتان شمارہ19،دسمبر1997ء)
مذہبِ اسلام ہی خداکاوہ واحد مذہب ہے جو تا قیامِ قیامت رہےگااب نہ کسی نئے مذہب کے آنے کی توقع ہے اور نہ ہی کسی پیغمبرکے آنے کا امکان اس مذہب کی تکمیل( الیوم اکملت لکم دینکم) کے ذریعہ رب العزت نے پیغمبرِآخرالزماں احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفیٰ ﷺ پر فرمادی۔ اس مذہب کے جتنے پیروکارہیں سب کو اتحاد و اتفاق کے ساتھ مذہبِ اسلام کی اتباع کرلینی چاہئے اور جس طرح صحابہ کرام اور تابعینِ عظام اخلاصِ دل کے ساتھ اسلام کی پیروی کرکے خیرالناس اور ان کادورخیرالقرون کہلانے کا مستحق ہوا، اسی طرح بعدکے ادوار میں پیروانِ اسلام کو بھی کرناچاہئےمگرایسانہ ہوسکامرورِایام کے ساتھ پیروانِ اسلام کے ذہن وفکرمیں تبدیلیاں ہوتی گئیں اور وہ تمام چیزیں جسے صحابہ و تابعین نے جزء ایمان سمجھاوہ بعدکے مسلمانوں نے غیر ضروری سمجھ کر اسے ترک کردیا۔کتاب وسنت کی ایسی تشریحیں کی گئیں جس سے مختلف نظریات ابھرکرسامنے آگئے اور یہ سلسلہ صدیوں تک چلتارہادورِ آخرمیں ملتِ اسلامیہ کی اس نظریاتی کشمکش کو فروغ دینے میں انگریزوں نے اہم کردار اداکیا اور ملتِ اسلامیہ کا رہا سہاشیرازہ منتشرکرنے کی انہوں نے ہر ممکن جدوجہد کرڈالی اپنی اسی سازش کا سربزم پردہ چاک کرتے ہوئے انگریزی مصنف سرجان میلکم لکھتاہے:
ہماری حکومت کی حفاظت اسی پرمنحصر ہے کہ جو بڑی جماعتیں ہیں ان کو تقسیم کرکے ہر جماعت کو مختلف طبقوں اور فرقوں میں ٹکڑے ٹکڑے کردیاجائے تاکہ وہ جدا رہیں اور ہماری حکومت کو متزلزل نہ کرسکیں۔
(ماہنامہ البلاغ کراچی فروری 1969ء)
انگریزاپنی اس سازش میں پوری طرح کامیاب رہےاورمسلمان باہمی اختلاف وانتشار کا جس طرح شکارہوئےاس سے ہندوستان کا ہر باشندہ واقف ہے۔اسلام کی تاریخ میں اسلامی اجتماعیت کوپارہ پارہ کرنے کے لئے ہندوستان میں شیعیت کا فتنہ رونماہواشیخ احمدسرہندی نے اور شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی نے اپنی تحریروں سے رسالہ ردِّروافض اور تحفہ اثنا عشریہ لکھ کر اس فتنہ کو سردکیاحضرت شیخ سرہندی نے اپنے مکتوبات میں باضابطہ اپنے متبعین و پیروکاروں کومذہبِ اہل سنت پر عمل پیراہونے کی درج ذیل الفاظ میں تاکید فرمائی:
اہل سنت کے معتقدات پرمداراعتقاد رکھیں اور زیدوعمرکی باتوں پر توجہ نہ دیں اور مذہبوں کے خودساختہ خیالات و توھمات پر مدار کار رکھنا خودکوضائع کرنا ہےفرقہ ناجیہ کی اتباع ضروری ہے تاکہ امیدنجات پیداہو۔
(مکتوبات امام ربانی دفتراول مکتوب نمبر251)
فتنوں کے ظہورکایہ سلسلہ بندنہیں ہواآئے دن نئےنئے فتنے جنم لیتےرہےاسلام کی اجتماعیت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے جو رہی سہی کسر تھی اسے انگریزوں نے پورا کردیا، انگریزوں کے ہندوستان میں قدم جماتے ہی مزیدکئی نئے فتنوں نے جنم لیایہ فتنہ اٹھارویں صدی کے آغاز میں ہندوستان میں فتنۂ وہابیت نمودارہوا یہ فتنہ ابن تیمیہ حرانی اور شیخ محمدبن عبدالوہاب نجدی کے عقائد ونظریات پر مشتمل تھاجس کی اشاعت ہندوستان میں شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمدرائے بریلوی نے کی اور اس فکر کی اشاعت کے لئے تقویتہ الایمان جو دراصل کتاب التوحیدمصنفہ محمد بن عبدالوہاب نجدی کاچربہ ہے اردومیں شائع کیا۔اور یہ کام ۱۸۳۸ء میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ نے انگریزوں کی سرپرستی میں انجام دیا، ہزاروں کی تعداد میں یہ کتاب مفت تقسیم ہوئی اس کتاب کے مباحث کی تردید میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں جن میں خود مصنف کے خاندان کے لوگ شامل تھے۔مولوی مخصوص اللہ جو مولوی رفیع اللہ کے صاحبزادےاور حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے تھےانہوں نے بھی معیدالایمان کے نام سے تقویۃ الایمان کارد لکھاان کی تردیدی تحریر منظر عام پر آتے ہی پھر جو یہ سلسلہ دراز ہواتوہوتاچلاگیااور کسی نہ کسی شکل میں اس کتاب کے مندرجات کی تردید صدیاں گزرجانے کے بعدہنوز علمائے حق کی زبان وقلم سے جاری ہے۔ شاہ اسماعیل دہلوی ولی اللٰہی خاندان کے ایک فرد ضرور تھےمگرفکرولی اللٰہی جسے اس دور میں حق کامعیار سمجھا جاتا ہےاورجس پر علمائے حق عمل پیراہیں اس سے وہ کوسوں دور تھے۔
الغرض یہ اسلام مختلف نشیب وفرازسے گذرتاہواہم تک پہنچاکبھی یزیدی فتنہ نے اس کی شکل کو مسخ کیاتوکبھی سبائیوں نے اس کا چوکھارنگ دھندلاکیا،کبھی قادیانیت نے اس کے نقش ونگار کو پھیکاکیاتوکبھی وہابیت اور غیرمقلدیت نے اس کے مسلمہ اصولوں کےساتھ کھلواڑ کیا ایک زمانہ تو وہ آگیا کہ نبی کوصرف مردہ ماننانہیں بلکہ مٹی میں مل جانا،نبی کو مجبور محض ماننا،نبی کے علم کو شیطان کے علم سے کمترجانناضروریات دین سے سمجھاگیااور پیروکاروں کویہ بتایاگیااگر بالفرض بعدِزمانہ نبوی ﷺبھی کوئی نبی پیداہوتوپھربھی خاتمیتِ محمدیﷺمیں کوئی فرق نہیں آئے گااور یہ بھی اسلامی عقیدہ بتایاگیاکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کےلئےعلم غیب بالواسطہ کل ہوگایا بعض کل توعقلاًمحال ہےاور اگربعض ہے تو ایسا علم ہرصبی (بچے)مجنوں(پاگل)حیوانات بہائم (چوپایوں)کوبھی حاصل ہے اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کی کیاتخصیص ہے؟نبی رحمت کی رحمت اللعالمینی پر بھی قینچی چلائی گئی اور یہ کہاگیاوہ عالمین کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف مسلمانوں اور مسلمانوں میں وہ لوگ جومکلّف بہ اسلام ہیں صرف ان کے لئے رحمت ہیں الغرض ان باطل نظریات نے انیسویں صدی میں اسلام کا چہرہ بری طرح مسخ کرکے رکھ دیاتھااوراس صراطِ مستقیم پر بدعقیدگی کی ایسی دبیزچادرڈال دی گئی کہ اصل اسلام کاراستہ کیاہے لوگ تقریباًبھول گئے۔انیسویں صدی میں جن فتنوں نے جنم لیااس کے عقائدونظریات یہ تھے۔ایک غلط فہمی علمائے دیوبند میں یہ باقی ہے کہ وہ دیوبندیت کو عصرِحاضر میں فکرولی الٰلہی کاترجمان سمجھتے ہیں جب کہ یہ سراسر حقائق کے خلاف ہےکیوں کہ خودمسلکِ دیوبندکے اکابرعلماء اس سے انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ:
میرے نزدیک (دیوبندیت)خالص ولی الٰلہی فکربھی نہیں اور نہ کسی خاص خانوادہ کی لگی بندھی فکرودولتِ متاع،میرایقین ہے کہ دیوبندیت جن کی ابتدامیرے خیال میں سیدنا الامام مولاناقاسم صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اور فقیہ اکبرمولانارشید احمدگنگوہی سے ہے۔۔۔ اس لئے اس دیوبندیت کی ابتداحضرت شاہ ولی رحمتہ اللہ علیہ سے کرنے کے بجائے مذکورہ بالا دوعظیم انسانوں مولاناقاسم صاحب نانوتوی اور مولانارشیداحمدگنگوہی سے کرتاہوں کیوں کہ دیوبندیت کے تو صرف یہی دوامام وقت ہیں۔
(البلاغ کراچی شمارہ نمبر22ص48دارلعلوم کراچی1949ء)
اب یہ بات سطورِبالاکی تحریروں سے واضح ہوگئی فکرِولی الٰلہی نہ توشیعیت کی علمبردارہے اور نہ ہی فکرِنجدیت و دیوبندیت کی غماز اورنہ ہی قادیانیت کی رہنما۔فکرِولی الٰلہی اپنے اصول ونظریات کے اعتبارسے زیادہ تر فکرِرضاسے ہم آہنگ ہےجسے اس زمانہ میں اہلِ سنت و جماعت (بریلویت)سے تعبیرکیاجاتاہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی کی ولادت 4 شوال 1114ھ کوچہارشنبہ کے دن طلوع ِآفتاب کے وقت ہوئی ان کی ذاتِ ستودہ صفات کے باعث ہی خاندان تاریخی شہرت واہمیت کا حامل بنا۔ والدِ ماجد شیخ عبدالرحیم دولت منداورصاحبِ اقتدارنہ تھےمتوسط درجے کے انسان تھے۔توکل پر گذربسرہوتاتھا،ہروقت خداپرنظررہتی،اس کا نتیجہ تھاکہ ہمیشہ خوش حال رہتے،آپ نے اپنے فرزندکی اس طرح اعلی سطح پرتعلیم وتربیت فرمائی کہ وہ اپنے زمانے کے سربرآوردہ علماء میں شامل ہوگئے،ہندوستان میں جس طرح آپ نے اکابرِعلم و فن سے اخذفیض کیاوہ تو مسلم ہے ہی اس کے علاوہ آپ بقول شاہ ابوالحسن زیدفاروقی:
شاہ ولی اللہ علمِ ظاہروعلمِ باطن میں کمال حاصل کرنے کے بعدحرمین شریفین1143ھ میں تشریف لے گئے،وہاں علمِ ظاہرعلمائے اعلام سے خاص کر علامہ ابوطاہر جمال الدین محمدبن برہان الدین ابراہیم مدنی کردی کورانی شافعی سے درجہ اکمال و تکمیل کو پہنچایااور باطن کا تصفیہ تزکیہ صیقل اورجلابیت اللہ المبارک،آثارِمتبرکہ،مشاہدمقدسہ اورروضہ مطہرہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی خاک روبی اور ان امکنہ مقدسہ میں جبہ سائی نے اس سلسلے میں آپ کی مبارک تالیف فیوض الحرمین اور المشاہدالمبارکہ شایانِ مطالعہ ہیں۔
(ابوالحسن زید فاروقی،اسماعیل دہلوی اور تقویتہ الایمان ص45-46)
مسلکِ وہابیت سے وابستہ جو لوگ اپنے کو فکرِولی الٰلہی کاسچاترجمان مانتےہیں ان کے عقائدو نظریات کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کس طرح ان لوگوں نے انہیں اپنارہنماتسلیم کرکےان کے عقائد پر ضربِ کاری لگائی ہے۔
وہابیت کی رہنماکتاب تقویتہ الایمان میں جوکہےاللہ ورسول نے غنی کردیاوہ مشرک ہے۔
حالانکہ قرآن عظیم فرماتاہے:
اَغْنٰہُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ
(التوبۃ:74)
اللہ ورسول نے انہیں دولت مند کردیااپنے فضل سے۔
تقویۃ الایمان میں لکھاہے کہ احمدبخش اور محمدبخش نام رکھناشرک ہے۔
حالانکہ قرآن حکیم فرماتاہےکہ جبرئیل علیہ السلام جب حضرت سیدتنامریم کے پاس آئے تو فرمایا:
اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ۖ لِاَھَبَ لَكِ غُلٰمًا زَکِیًّا
(مریم:19)
میں رب کا رسول ہوں اس لئے کہ میں ستھرابیٹادوں۔
اس طرح کی عبارتوں سے پوری کتاب بھری ہے تقویتہ الایمان کی عبارتوں کا مطالعہ کرنے کے بعدامام اہل سنت مولانااحمدرضافرماتے ہیں:
وہابیہ کے شرک سے نہ ائمہ محفوظ نہ صحابہ نہ انبیاء نہ جبرئیل امین نہ خود رب العالمین۔
(احمدرضاخاں قادری،فتاویٰ رضویہ جلد12ص60)
وہابیوں کے سرغنہ شاہ اسماعیل دہلوی کی دوسری تصنیف صراط مستقیم ہے۔اس کتاب میں یہ عبارت بھی پائی جاتی ہے:
از وسوسہ زناخیال مجامعت زوجہ خودبہتراست و صرف ہمت بسوئے شیخ و امثال آں از معظمین گوجناب رسالت مآب باشدبچندیں مرتبہ بدترازاستغراق درصورت گاووخر خود است۔
(اسماعیل دہلوی،صراط مستقیم ص82المکتبۃ السلفیۃ۔شیش محل روڈ لاہور)
(نماز میں زنا کے وسوسہ سے بیوی کے ساتھ مجامعت کے خیال کو بہتراورحضور علیہ السلام کی طرف توجہ لگانےکوگدھےاوربیل کے خیال میں مستغرق ہوجانے کے مقابلے میں بدتر قرار دیاگیاہے)۔
فکرِولی الٰلہی کے نام سے اکابرِعلمائے دیوبندنےجوگلفشانیاں کی ہیں اس پرایک طائرانہ نظر ڈالتے چلیں۔ مولانامحمدقاسم نانوتوی اپنی تصنیف تخذیرالناس میں لکھتےہیں:
عوام کے خیال میں تو رسول اللہﷺکاخاتم ہونابایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائےسابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگراہلِ فہم پر روشن ہوگاکہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔
(محمدقاسم نانوتوی،تخذیرالناس ص۳کتب خانہ امدادیہ دیوبند)
مولانااشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
آپﷺ کی ذاتِ مقدسہ پر علمِ غیب کا حکم کیاجانااگربقولِ زیدصحیح ہوتو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب اگربعض علومِ غیبیہ مرادہیں تواس میں حضورہی کی کیاتحصیص ہے ایساغیب توزیدوعمربلکہ ہر صبی مجنوں بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے۔
(اشرف علی تھانوی،حفظ الایمان مع بسط البنانص8کتب خانہ عزیزیہ دیوبند)
مولاناخلیل احمدانبیٹھوی لکھتےہیں:
الحاصل غورکرناچاہیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال علم محیط زمین کا فخرعالم کو خلاف ِنصوصِ قطعیہ کے بلادلیل محض قیاسِ فاسدہ سے ثابت کرناشرک نہیں توکون ساایمان کا حصہ ہے؟ شیطان وملک الموت کی یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخرِعالم کی وسعتِ علم کی کون سی نص قطعی ہے۔
(خلیل احمد انبیٹھوی، براہینِ قاطعہ ص55کتب خانہ امدادیہ دیوبند)
یہ واضح رہے کہ اس عبارت کو مصنف کے استاذمولوی رشیداحمدگنگوہی کی تائید بھی حاصل ہے کیوں کہ یہ کتاب انہی کے حکم سے تصنیف ہوئی ہے اور انہوں نے لفظاًلفظاًپڑھ کر اس کی تصدیق فرمائی ہے۔
کیافکرولی الٰلہی یہی ہے جس کاذکرسطورِبالامیں ہوایااس سے ہٹ کرکوئی اور چیزہے؟ اگر یہ شاہ ولی اللہ کی فکرنہیں تووہابیت اور دیوبندیت کے اکابرواصاغرعلماانہیں اپنےرہنماکے طور پر کیوں پیش کرتےہیں؟ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکارونظریات ماضی میں حضرت سیدناشیخ عبدالحق محدث دہلوی سے ہم آہنگ تھےبعدکے ادوار میں ان نظریات کی ترجمانی کافی حد تک امامِ اہلسنت مولانااحمدرضاخاں قادری نے کی جس کی تشہیر دورِحاضر میں بریلویت اور بالفاظ ِدیگر مسلکِ اعلیٰ حضرت سے ہوئی۔ امامِ اہلِ سنت نے اپنی تمام ترتصانیف میں انہیں افکارونظریات کی ترجمانی کی جن پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کاعمل تھااور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی وہ تمام تصانیف جو غیرِمحرف ہیں ان سے بھی تقریباًوہی سب کچھ ثابت ہے جس کا ذکر امامِ اہلِ سنت نے اپنی تصانیف میں کیاہےاگران کا تفصیل سے جائزہ لیاجائےتویہ مقالہ ضخیم کتاب کا متقاضی ہوگا۔یہاں کنزالایمان جو امامِ اہلِ سنت فاضل بریلوی کا ترجمہ قرآن ہے بغیر کسی توضیح وتشریح کے اس کے ترجمے کے ذریعہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کےافکارونظریات کی ہم آہنگی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کیوں کہ قرآنِ حکیم ایک ایسی کتاب ہے جس سے ہی تمام مسالک کے لوگ اپنے افکار ونظریات کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں بعض مخلص نہ ہونے کے باعث گمراہ ہوجاتے ہیں اور بعض کوہدایت مل جاتی ہے جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہےیضل بہٖ کثیرا ویھدی بہٖ کثیرااس لئے ضروری ہواکہ بتایاجائے کہ کنزالایمان کے ترجمہ میں کس قدرفکرِ ولی الٰلہی سے ہم آہنگی پائی جاتی ہےاور کتاب اللہ سے اپنے افکارونظریات کو مربوط کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ شاہ صاحب کی وصیت تھی کہ اعتقادوعمل میں کتاب وسنت کو ہی رہنما تسلیم کیاجائے جیساکہ مولوی ابوالحسن علی ندوی تاریخ ِدعوت و عزیمت میں رقم طراز ہیں:
اس فقیر کی پہلی وصیت یہ ہے کہ اعتقاد وعمل میں کتاب وسنت کومضبوط ہاتھوں سے تھاما جائے اور ہمیشہ ان پر عمل کیاجائے عقائد میں متقدمینِ اہل سنت کے مذہب کو اختیارکیاجائے اور (صفات وآیاتِ متشابہات) کے سلسلے میں سلف نے جہاں تفتیش اور تفصیل سے کام نہیں لیاہے ان سے اعراض کیاجائےاور معقولیان کے کام کی تشکیکات کی طرف التفات نہ کیاجائے۔
(ابوالحسن علی الندوی،تاریخ دعوت و عزیمت جلد5ص662)
اس وضاحت کے بعدآئیے دیکھیں کہ اہل سنت وجماعت سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکارونظریات کس درجہ ہم آہنگ تھے؟
شفاعت:
شفاعت کے تعلق سے فکر ِولی الٰلہی کااپنے آپ کو اصل ترجمان سمجھنے والے وہابی علما کا عقیدہ ہے کہ کوئی نبی وولی کسی کی شفاعت نہیں کرسکتااور جو اس طرح کا اعتقاد رکھےوہ ابوجہل ہی کی طرح مشرک ہےشاہ اسماعیل دہلوی فرماتےہیں:
جوکسی نبی و ولی سے یہ معاملہ کرے اور اس کواپنا وکیل و سفارشی جانے تو وہ ابوجہل کے برابر مشرک ہے اور اس پر شرک ثابت ہوجاتاہے۔
(اسماعیل دہلوی،تقویۃ الایمان ص8)
علمائے اہلِ سنت کے نزدیک شفاعت حق اور ثابت ہے اور اس بات پر صدفی صد ایمان ہے کہ روزِقیامت خداکے حکم سے اللہ کے نبیﷺ ہم جیسے گنہگاروں کی شفاعت فرمائیں گے اس تعلق سے قرآنِ حکیم کی بیشترآیات ہیں جن سے اس مسئلہ کی تائید ہوتی ہے:
۱۔ یَوْمَئِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفٰعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہٗ قَوْلًا
(طٰہٰ:109)
(اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی مگراس کی جسے رحمان نے اذن دے دیاہے اور اس کی بات پسندفرمائی)
۲۔ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ
(محمد:19)
(اوراے محبوب اپنے خاصوں اور مسلمان مردوں کے گناہوں کی معافی مانگو)
۳۔مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِہٖؕ
(یونس:3)
(کوئی سفارشی نہیں مگراس کی اجازت کے بعد)
۴۔لَا تَنْفَعُ الشَّفٰعَۃُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ
(السبا:23)
(اوراس کے پاس شفاعت کام نہیں دیتی مگرجس کے لئے وہ اذن فرمائے)
کنزالایمان کے یہ وہ مومنانہ تراجم ہیں جس پر مومنانہ عقیدہ ونظریہ کی مکمل چھاپ ہےاور ساتھ ہی منشائے الٰہی کے عین مطابق ہےاس طرح اور بھی آیات ہیں جن سے اس موقف کی تائیدہوتی ہے۔کنزالایمان میں واضح لفظوں میں فرمایاگیاہے کہ ہمارے نبیﷺشفیع المذنبین ہیں احادیثِ کریمہ اور اقوالِ صحابہ وائمہ میں اس کی متعددمثالیں ملتی ہیں تمام اکابر علمائے اہل سنت کابھی یہی نظریہ تھااورہے اوراب دیکھئے اس تعلق سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کیافرماتےہیں:
ملفوظات کے مرتب شیخ محمدعاشق پھلتی لکھتےہیں:
آپ نے تحریرفرمایاکہ میں نے آنحضرتﷺ کاعلمائے حدیث کے حق میں شفاعت کا اور موت کے وقت توسل اورعلمِ حدیث سے توسل کامشاہدہ کیااور اس کی حفاظت عروۃ الوثقی اور حبل ممدودہےجومنقطع ہوتی ہی نہیں ہے پس ہر مومن پر لازم ہے کہ وہ یا محدث ہو یا ان کاطفیلی ہوجائے۔
(ولی اللہ دہلوی،القول الجلی ص78خانقاہ کاظمیہ قلندریہ کاکوری لکھنؤ 1997ء)
توسل:
موجودہ دورکے وہ علماء جو فکرِولی الٰلہی پر عمل پیراہونے کاڈھنڈوراپیٹتےہیں ان کا عقیدہ انبیاء و مرسلین اور اولیاء وبزرگانِ دین سے توسل کا ہے توسل یہ ہے کہ اگر ان کو کوئی وسیلہ اور سفارشی سمجھےتووہ ابوجہل کے برابرمشرک ہے تفصیل کے لئے تقویتہ الایمان کامطالعہ کرناچاہئے اس کتاب میں کئی ایک ایسی عبارتیں ہیں جن سے درج بالاوہابی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ شاہ اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں:
سوجوکوئی کسی سے یہ معاملہ کرے گوکہ اس کو اللہ کابندہ و مخلوق ہی سمجھےسوابوجہل اور وہ شرک میں برابرہے۔
(اسماعیل دہلوی ،تقویتہ الایمان ص8)
اس تعلق سے علمائے اہل سنت کا موقف بالکل واضح ہے ان کا مانناہے کہ حضرات انبیائے کرام اوراولیائےعظام بارگاہِ رب العزت میں وسیلہ ہیں ان کے توسل سے گنہ گاربندوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔وہ اپنےموقف کی تائید میں درج ذیل آیاتِ قرآنی سے استشہاد کرتے ہیں۔
۱۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْۤا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ
(المآئدۃ:35)
اے ایمان والواللہ سے ڈرواوراس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو
۲۔ وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَہُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
(النسآء:54)
اوراگرجب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تواے محبوب تمہارے حضور حاضرہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضروراللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
کنزالایمان کے اس ترجمہ سے بالکل واضح طورپریہ معلوم ہوتاہے کہ بارگاہِ الٰہی میں رسولِ مقبولﷺ کاوسیلہ اور آپ کی شفاعت برآری کاذریعہ ہے۔اس آیت کی مزیدوضاحت کرتےہوئےخزائن العرفان کے مصنف صدرالافاضل مولاناسیدمحمدنعیم الدین مرادآبادی فرماتے ہیں:
سیدعالمﷺ کی وفات شریف کے بعدایک اعرابی روضہ اقدس پر حاضرہوااورروضہ شریف کی خاک پاک اپنے سرپرڈالی اور عرض کرنےلگایارسول اللہ جو آپ نے فرمایاہم نے سنا اور جوآپ پرنازل ہوااس میں یہ آیت بھی ہے۔
وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَہُمْ الخ
میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیااور میں آپ کے حضور میں اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضرہواتومیرے رب سے میرے گناہ کی بخشش کرائیےاس پر قبرشریف سے نداآئی کی تیری بخشش کی گئی۔
یہ حدیث بیان کرنے کے بعد صاحبِ خزائن العرفان چندمسائل کا استنباط کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض حاجت کے لئے اس کے مقبولوں کو وسیلہ بناناذریعہ کامیابی ہے۔
۲۔ قبرپرحاجت کے لئے جانابھی جاؤک میں داخل ہے اور یہ خیرالقرون کا معمول ہے۔
۳۔ مقبولانِ حق مددفرماتے ہیں اور ان کی دعاسے حاجت روائی ہوتی ہے۔
(نعیم الدین مرادآبادی،خزائن العرفان برحاشیہ کنزالایمان ص141،رضااکیڈمی ممبئی)
مولانااحمدرضاچونکہ اپنے دورمیں اہلِ سنت وجماعت کے مقتدابھی تھےاس لئے انہوں نے کنزالایمان کے ترجمہ میں واضح لفظوں میں وہی ترجمہ کیاہے جومنشائے الٰہی کے عین مطابق تھا۔ انبیاءومرسلین،اولیاء وبزرگان دین جتنے بھی بارگاہِ رب العزت میں مقربین ہیں وہ گنہ گار بندوں کے لئے گناہوں کی معافی کے لئے وسیلہ ہیں۔
اب آئیے دیکھیں کہ اس سلسلےمیں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا موقف کیاتھا:
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی وَابْتَغُوْۤا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وسیلہ سے مرادمشائخ اور بزرگانِ دین سے بیعت وارادت مرادلیتےتھےاس آیت کی وہ تشریح جو ایک موقع سےامیر عصمت اللہ سہارنپوری نے کی اسے معتبرنہیں مانتے تھے وہ فرماتے ہیں:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْۤا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجٰہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ
اس آیت میں ابتغاءوسیلہ سے مرادکیاہے؟امیرعصمت اللہ سہارنپوری نے جو کچھ بعض مفسرین کے حوالے سے اعمال صالحہ وغیرہ کا ذکرکیاہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فرمایا یہ معنی مراد نہیں ہوسکتے۔ایمان تواس لئے مرادنہیں ہوسکتاکیوں کہ خطاب مومنین سے ہے (یعنی ایمان والوں سے یہ کہناکہ ایمان لاؤایک مہمل سی بات ہوگی)اور اعمال صالحہ تقویٰ میں داخل ہیں اور تقویٰ سے مراد امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنا ہے (یہ بھیوَابْتَغُوْۤا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ میں داخل نہیں)اور یہ بھی مراد نہیں ہوسکتاکیوں کہ قاعدۂ عطف مغائرت چاہتاہے یعنی اتَّقُوا اللّٰہَ اور وَابْتَغُوْۤا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ کےمعنی میں مغائرت ہے کیوں کہ معطوف اور معطوف الیہ ہم معنی نہیں ہوتےاورذکرمیں ترتیب اس کی مقتضی ہے کہ وہ ایک ایسی چیزہے جو تقویٰ کے بعدپیداہوتی ہے اور وہ چیزارادت اورمرشدسے بیعت ہےاس کےبعدمجاہدہ و ریاضت ہے تاکہ فلاح حاصل ہو جس سے مطلب ذاتِ حق کا حصول ہے۔
(ولی اللہ دہلوی،القول الجلی ص532)
عرس:
اکابرعلمائے اہلِ سنت وجماعت کا یہ دستوررہاہے کہ وہ اپنے مشائخِ کرام وبزرگانِ دین کاعرس بڑے اہتمام سے منایاکرتے تھےجس میں قرآن خوانی، محفلِ حمدونعت و منقبت، مجالسِ اصلاح المسلمین،اطعامِ غرباومساکین کے علاوہ وعظ وتبلیغ کی مجلسیں ہوتی تھیں اور آج بھی علمائے اہلِ سنت کے نزدیک یہ معمول ہے جو لوگ عرس کو ناجائزوحرام لکھتے اور کہتے ہیں ان کا بھی اس پر عمل ہے فرق صرف اتنا ہے کہ علمائے اہلِ سنت کے معمولات سے ہٹ کروہ ان تاریخوں میں سیمیناروکانفرنس اور مذاکروں کااہتمام کرکے ان کی یادتازہ کرتے ہیں۔ جب کہ بانی مسلکِ دیوبندمولوی رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں:
عرس کاطریقہ سنت کے خلاف ہے لہٰذا بدعت ہے ۔
(رشید احمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ جلد1ص8)
کسی عرس و مولود میں شریک ہونادرست نہیں اور کوئی عرس و مولود درست نہیں۔
(رشید احمد گنگوہی،فتاویٰ رشیدیہ جلد3ص112)
یہ ان حضرات کاعقیدہ ہے جو اپنے کو فکرِولی الٰلہی کاترجمان سمجھتے ہیں اب آئیے اہلِ سنت کا نظریہ ملاحظہ فرمائیے۔ ان کا ماننا ہے کہ اولیائے کرام و بزرگانِ دین کا عرس مناناجائزو مباح ہے اوراحیاءِاموات کے لئے فائدہ مندہےامام اہل سنت مولانااحمدرضا کا اس پر عمل تھا وہ اپنے مشائخ کاعرس بڑے اہتمام سے منایاکرتے تھے۔عرس کی اصل قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:
وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا
(مریم:33)
(وہی سلامتی مجھ پرجس دن میں پیداہوااورجس دن میں مروں گااورجس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا)۔
وَسَلٰمٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا
(مریم:15)
(اورسلامتی ہے اس پر جس دن پیداہوااورجس دن مرےگااور جس دن زندہ اٹھایاجائےگا)۔
یہ دونوں آیاتِ کریمہ پیغمبرانِ اسلام کے حق میں نازل ہوئی ہیں ان مقربینِ بارگاہِ الٰہی کے یومِ ولادت ووفات اورزندہ اٹھائے جانے والے دن پر سلامتی کاوعدہ کیاگیاہے۔ولادت و موت کے دنوں میں چونکہ خداکی سلامتی نازل ہوتی ہےاس لئے یادگارکےطورپر بنامِ عرس اسے منایاجاتاہے اور اسی نقطہ نظر کے تحت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نہ صرف نیاز مندانہ انداز میں اعراس میں شرکت فرماتے تھےبلکہ اپنے چچاشیخ ابوالرضاکاعرس بھی بڑے اہتمام سے کیاکرتےتھے، آپ کے ملفوظات میں ہے:
ایک بار شیخ ابوالرضامحمدقدس سرہ(آپ کے چچا)کے عرس کے موقع پر رات کے وقت جب کہ ان کے مقبرہ میں ہنگامہ وسرودجاری تھااورحاضرین پر (سماع و سرودسے)ذوق و وجد طاری تھامیں بعدالعشاءاپنی مسجد میں بیٹھاہواتھاکہ نور کا ایک ٹکڑاسامنے لایاگیااور یہ کہاگیا جو کچھ اس محفل میں ذوق و شوق اور روح مبارک کی توجہ کی برکات ہیں سب نے مرکب ہو کر یہ صورت اختیار کی ہے جوعطائے الٰہی ہے اور اسی وقت تمام عالم میں نفسِ ناطقہ کا سریان ظاہر ہوا اوریہ واضح ہواکہ وہ نور اسی منبع کاتابع ہےاگرچہ اسی جگہ سے بھیجاگیاہے۔
(ولی اللہ دہلوی،القول الجلی ص129)
اس تعلق سے ایک دوسراواقعہ بھی آپ کی ملفوظات کے مرتب لکھتے ہیں:
حضرت قبلہ ایک بارمخدوم جمال الدین قدس سرہ کے عرس کے موقع پر ان کی قبر شریف کی زیارت کو موضع بھلاوہ تشریف لےگئےوہاں لوگوں کا ایک انبوہ عظیم تھااور ایک کثیر ہجوم ان کی قبرکوبوسہ دے رہاتھاحضرت قبلہ وہاں تھوڑی دیرکھڑے رہے اور اس کے بعد مقبرہ کے اندرسے باہر آکربیٹھ گئےاور فرمایاکہ آدمی جب تک قیدِحیات میں رہتاہےاور اس میں ہرچندیادِحق کرتاہےاور ترقیات کرتاہے لیکن بہ سبب تعلقِ جسمانی اس کو بشریت ناسوتیت سے کلی طور پر نجات میسرنہیں ہےاور جب اس عالم سے انتقال کرگیاتو اس وقت بشریت سے مکمل طور پرنجات حاصل ہوکرصفتِ لا ہوتیت غالب ہوجاتی ہے لہٰذا وہ مسجودِ خلائق ہوجاتاہے۔
(ولی اللہ دہلوی، القول الجلی ص494)
ایک تیسراواقعہ بھی لگے ہاتھوں پڑھتےچلئےملفوظات کے مرتب محمدعاشق پھلتی لکھتے ہیں:
ایک بار عرس کی مجلس تھی اور ہم شیخ ابوالفتح اور شیخ ابوالفضل کے روضے کی دیوار کے نیچے بیٹھےتھےناگاہ میں نے دیکھاکہ ایک نورمثلِ برق دونوں قبروں سے نکلااور بہ شدتِ تمام مجھ میں سرایت کرگیاایساکہ میں سخت مضطرب ہوااور قریب تھاکہ اچھل کررقص کرنے لگوں اور نعرے ماروں کہ یکایک(اسی وقت)حضرت قبلہ گاہی مرشدِ برحق کی صورت نمودارہوئی اور مجھ کوتسکین بخشی اگرچہ اس وقت بظاہر نہ میری کوئی چیخ نکلی اور نہ اضطراب ظاہرہوا لیکن میں نے دیکھا کہ میری حقیقت رقص کررہی ہے اور اس سے ایک اضطراب عظیم برپا ہے اور یہ حال تقریباًایک ساعت مجھ پررہا۔
(ولی اللہ دہلوی،القول الجلی ص520)
ان تینوں واقعات کی روشنی میں بصدوثوق یہ کہاجاسکتاہےکہ فکرِولی الٰلہی وہ نہیں جس پر ارباب ِمسلکِ دیوبند کاعمل ہے بلکہ فکرِولی الٰلہی کے اصل ترجمان اس دورمیں علمائے اہل سنت وجماعت ہیں جنہیں اس دورمیں بریلویت سے تعبیرکیاجاتاہے۔
میلادِ مصطفٰےﷺ:
میلادشریف کے تعلق سے مسلک دیوبندکے بانی مولوی رشیداحمدگنگوہی فرماتے ہیں:
عقدمولوداگرچہ اس میں کوئی امرِغیرمشروع نہ ہو مگراہتمام وتداعی اس میں بھی موجود ہے لہٰذااس زمانہ میں درست نہیں۔
(رشیداحمدگنگوہی،فتاویٰ رشیدیہ جلداول ص92)
علمائے اہلِ سنت کے نزدیک یہ فعل نہ فقط جائزومباح ہے بلکہ مستحب و مستحسن، موجبِ اجرو ثواب اور باعثِ خیروبرکت ہے۔اسلاف کا اس پرعمل رہاہےاس موضوع پرعلمائے اہلِ سنت کے نوک قلم سے متعدد تحریریں منظرعام پر آچکی ہیں ہمیں ان کا مطالعہ کرنا چاہیے ارباب ِ مسلکِ حق نے متعدد آیاتِ کریمہ سے اس پردلیلیں قائم کی ہیں۔ کنزالایمان میں اس کا ذکراس طرح ملتاہے:
ارشادباری تعالیٰ ہے:
۱۔ لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۔
(التوبۃ:128)
بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارامشقت میں پڑنا گراں ہے،تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان۔
۲۔ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا۔
(آل عمران:164)
بےشک اللہ کابڑااحسان ہوامسلمانوں پرکہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔
۳۔ ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ۔
(الجمعۃ:2)
وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجاکہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں۔
اس طرح کی متعددآیات ہیں جن میں سرکارِدوعالمﷺ کے فضائل ومناقب کے ساتھ آپ کی بعثت کاذکرہےعلمائے حق میلاد کی محافل میں عقیدت واحترام کے ساتھ سرکارکی بعثت، عرب کے حالات اور آپ کی آمد سے جو عرب سماج میں تبدیلیاں ہوئیں اس کا ذکر ملتاہے قرآنی آیات اور کتبِ سماوی میں انہیں کا ذکرہےاور یہ سب کچھ امرِمستحسن ہے۔ امامِ اہلِ سنت مولانااحمدرضاخاں قادری کانظریہ بھی کچھ اسی طرح کاتھاجس کا اظہارکنزالایمان کے حوالہ سے سطورِبالامیں ہوا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی سرکارِدوعالمﷺ کی ولادت کے تعلق سے اسی طرح کاعقیدہ رکھتےتھےوہ اس قسم کی محافل میں نہ صرف شریک ہوتے تھے بلکہ آپ کی بعض تصانیف کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ خود ایسی محافل کا انعقاد بھی فرمایاکرتےتھے۔
مکہ معظمہ میں روزِولادت سرورِکائنات(محفلِ میلادشریف)مولدشریف میں لوگوں کا ایک جم غفیر تھااور وہ آنحضرت پر صلوٰۃ وسلام اور آپ کے معجزات بیان کرنے میں مشغول تھےناگاہ میں نے اس بقعہ کریمہ سے تجلیاں چمکتی ہوئی دیکھیں مجھے ان کے ادراک کی فکر ہوئی کہ کیاوہ نگاہِ ظاہرسے ہیں یانگاہ ِباطن سے پھرجب میں نےغورکیاتودیکھاکہ اُن ملائکہ کے انوارہیں جو اس متبرک مقام پر مامور ہیں۔
(القول الجلی ص72)
ندائے یارسول اللّٰہﷺ:
ندائے غیراللہ صحیح و جائزہے اور اسی پر اکابرعلمائے اہلِ سنت کا عمل ہے۔لیکن بانی مسلکِ دیوبندمولوی رشیداحمدگنگوہی اسے ناجائزوکفرسمجھتے ہیں وہ ایک سائل کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
یارسول اللہ کہنابھی ناجائزہوگااوراگریہ عقیدہ کرکے کہے کہ وہ دورسے سنتے ہیں سبب علم غیب کے توخودکفرہے۔
(رشیداحمدگنگوہی،فتاویٰ رشیدیہ جلد3ص7)
ہندوستان میں مسلکِ وہابیت کے علم بردارمولوی اسماعیل دہلوی کا بھی یہی خیال ہے وہ اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں فرماتے ہیں:
کسی انبیاء واولیاء کی،پیروشہیدکی، بھوت وپری کی یہ شان نہیں جو کوئی کسی کو ایساتصرف ثابت کرے اور اس سے مرادیں مانگے اور اس توقع پر نذرونیازکرے اور اس کی منتیں مانے اور اس کو مصیبت کے وقت پکارے سو وہ مشرک ہوجاتاہے۔
(اسماعیل دہلوی،تقویۃ الایمان ص11)
علمائے اہل سنت کے نزدیک اللہ تبارک وتعالیٰ نے جاندارچیزوں کو ہی صرف نہیں بلکہ بے جان چیزوں کو بھی حرفِ نداسے خطاب کیا ہے جس کی صراحت کنزالایمان میں مولانااحمد رضانے فرمادی ہے۔
یٰۤاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّۃَ
(البقرۃ:35)
اےآدم تواورتیری بی بی اس جنت میں رہو۔
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاھِدًا
(الأحزاب:45)
اےغیب بتانے والے (نبی)بےشک ہم نے بھیجاتمہیں حاضروناظر۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ
(البقرۃ:153)
اےایمان والو صبراورنمازسے مددچاہو۔
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ ۚ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ
(الحج:1)
اے لوگواپنے رب سے ڈروبےشک قیامت کا زلزلہ بڑی سخت چیزہے۔
یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰھِیْمَ
(الأنبیآء:69)
اے آگ ہوجاٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر۔
یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ
(ھود:44)
اے زمین اپناپانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک کردیاگیا۔
یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ
(سبا:10)
اے پہاڑواس کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرواور اے پرندو۔
ان آیاتِ کریمہ سے واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف انبیاء ومرسلین ہی کو حرف ِنداسے خطاب نہیں کیا ہے بلکہ عامۃ الناس اور عام مخلوقات کو بھی جیسے زمین،آسمان اور پہاڑوں کو بھی مخاطب کیاہےاسی روشنی میں کنزالایمان میں اس کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔
اب اعتراض یہ پیداہوتاہے کہ جب تک رسول بقیدِحیات تھے انہیں حرفِ ندا سےخطاب کرناجائزتھالیکن اب جب کہ وہ نگاہوں کے سامنے نہیں پھرانہیں کیوں کرحرفِ نداسے خطاب کیاجائے یہ اعتراض ان کی طرف سے ہے جونبی کومردہ مانتے ہیں۔اگراسی نظریہ سے انہیں خطاب کرناناجائزسمجھاجارہاہےتو ان پر یہ واضح ہوجاناچاہئے کہ انبیاء مرتےنہیں وہ اپنی قبروں میں زندہ نمازیں اداکرتے ہیں جیساکہ حضرت انس بن مالک (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سے ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون(انبیااپنی قبروں میں زندہ ہیں نمازیں پڑھتے ہیں) اس کی روایت میں جتنےلوگ ہیں سب ثقہ ہیں ائمہ اسلام نے اس حدیث کوصحیح قراردیاہے علامہ مناوی،حافظ ابنِ حجر،امام ہیثمی، علامہ علی بن احمدعزیزی،علامہ شوکانی،علامہ نورالسہمودی، امام سخاوی،امام جلال الدین سیوطی اور علامہ علی القاری المکی سب نے ہی اس حدیث کوصحیح لکھاہےاور موخرالذکر نے اس روایت کی ان الفاظ میں تائیدکی ہے۔
صح خبرالأنبیاءأحیاءفی قبورھم۔
(ملاعلی القاری،المرقاۃ،جلد3ص241،بحوالہ حیاۃ الانبیاء،احمدحمزہ مطبوعہ دارالعلوم قادریہ لیڈی اسمتھ1424ء)
الأنبیاء أحیاء فی قبورھم کی روایت صحیح ہے۔
اس روایت کی ایک دوسری حدیث سے بھی تائید ہوتی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں ان کا حال بالکل ملائکہ کی طرح ہے جس طرح وہ موجود ہیں مگرہم انہیں نہیں دیکھتے ٹھیک اسی طرح انبیاء بھی زندہ ہیں موجود ہیں مگرہم انہیں نہیں دیکھتےلہٰذاحدیث کا یہ جملہ،
إن الأرض لا تأ کل أجساد الأنبیاء
بالکل درست ہےاور شاید یہی وجہ ہے کہ شبِ معراج بیت المقدس میں تمام انبیاء اپنی حیاتِ جسمانی کے ساتھ جمع ہوئے اور آسمانوں میں بعض انبیاء سے ملاقاتیں ہوئیں اور گفتگوبھی ہوئی، اگر موت عدمِ محض کا نام ہوتا تو ان کے اجتماع کا کیا معنی؟ اسی وجہ سے یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے نبی مرتے نہیں بلکہ ایک گھرسے دوسرے گھر منتقل ہوجاتے ہیں ارشادِ نبوی ہے۔
أنبیاء اللّٰہ لایموتون ولکن ینقلون من دارالیٰ دار۔
(فخرالرزی تفسیرکبیرجلد21ص 41بحوالہ حیاۃ الانبیاء،احمدحمزہ مطبوعہ دارالعلوم قادریہ لیڈی اسمتھ1424ء)
اللہ کے نبی مرتے نہیں بلکہ ایک گھرسے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کا بھی یہی نظریہ تھاوہ اطیب النغم فی مدح سیدالعرب والعجم میں سرکاردوعالمﷺ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
وصلی علیك اللّٰہ یاخیرخلقہٖ
ویاخیرمامول ویاخیر واھب
ویاخیرمن یرجیٰ لکشف رزیۃ
ومن جودہٖ قد فاق جود السحائب
وانت مجیری من ھجوم ملمۃ
اذا انشبت فی القلوب شر المخاطب
(ولی اللّٰہ دھلوی،اطیب النغم فی مدح سیدالعرب والعجم ص28-27،مرادآباد1887ء)
۱۔اےمخلوق ِخدامیں سب سے بہترتم پر درود سلام ہو۔
۲۔اوراے مصیبتوں کے دورکرنے والے اور اے بارش کی طرح سخاوت کرنے والے۔
۳۔اور مصائب میں اور اس وقت جب دل میں کوئی چنگل والاچنگل مارےتوہی مجھے پناہ دینے والاہے ۔
انبیاءومرسلین کے علاوہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بانیٔ سلسلۂ قادریہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان کو بھی حرفِ نداسے خطاب کیا ہے۔وہ اپنی کتاب الإنتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ میں ایک وظیفے کا طریقہ بتاتےہوئے لکھتے ہیں:
اول دو رکعت نفل بعدازاں یکصد و یازدہ بار درود بعد ازان یکصد ویازدہ بار کلمہ تمجید و یک صد و یازدہ بار شیئًا للہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی گوید۔
(ولی اللہ دہلوی،الأنتباہ فی سلاسل اولیاءاللہ بحوالہ فتاویٰ رضویہ جلد12 ص109، رضا اکیڈمی ممبئی)
(پہلے دورکعت نماز پڑھےپھراس کے بعدایک سو گیارہ مرتبہ درودشریف پڑھے پھر اس کے بعد ایک سو گیارہ مرتبہ کلمہ تمجیدپڑھےپھراس کے بعدایک سو گیارہ بارشیئًا للہ یاشیخ عبدالقادر جیلانی کا وظیفہ پڑھے)۔
یہی نظریہ بانیٔ مسلکِ دیوبندمولوی رشیداحمد گنگوہی کے پیرومرشد سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی تھا وہ اس تعلق سے فرماتے ہیں:
جو ندا نص میں وارد ہے مثلاً
یاعباداللّٰہ أعینونی
وہ بالاتفاق جائزہےاور یہ تفصیل حقِ عوام میں ہے اور جو اہلِ خصوصیت ہیں ان کا حال جداہےاورحکم بھی جداکہ ان کے حق میں یہ فعل عبادت ہوجاتاہے۔جوخواص میں ہوگاخودسمجھ لے گابیان کی حاجت نہیں۔ یہاں سے معلوم ہوگیاہے حکم وظیفہ یا شیخ عبدالقادر شیئًا للہ کا ، لیکن اگر شیخ متصرف حقیقی سمجھے تو منجرالی الشرک ہےہاں اگر وسیلہ و ذریعہ جانے یا ان الفاظ کو بابرکت سمجھ کرخالی الذہن ہو کرپڑھے کچھ حرج نہیں یہی تحقیق ہے اس مسئلہ میں۔
(حاجی امداداللہ مہاجرمکی،فیصلہ ہفت مسئلہ(توضیحات و تشریحات)ص240 کتبہ رحیمیہ کانپور1404ھ)
تصرف:
اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو مجبورمحض بناکر پیدا نہیں کیاہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اشرف المخلوقات بناکربھیجاہےکائنات کی بیشتر چیزوں کو اپنے برگزیدہ بندوں کے تابع کیا ہے مگرہمارے بعض نام نہاد مسلمان اس کی تردیدکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تصرف کا حق صرف اللہ تعالیٰ کوہے کسی نبی اور کسی ولی کو تصرف کی طاقت حاصل نہیں اور اگرکوئی ایساعقیدہ رکھتا ہے تووہ مشرک ہوجاتاہے۔مسلکِ وہابیت ودیوبندیت کے علم بردارشاہ اسماعیل دہلوی اپنی مشہورِزمانہ تصنیف تقویۃ الایمان میں لکھتے ہیں۔
اللہ صاحب نے کسی کو عالم میں تصرف کرنے کی قدرت نہیں دی۔
(شاہ اسماعیل دہلوی ،تقویۃ الایمان ص8)
اور وہ ایک ایک میں آپ ہی تصرف کرتاہے کسی کو کسی کے قابومیں نہیں دیتا۔
(شاہ اسماعیل دہلوی،تقویۃ الایمان ص48کمال ہند پریس دہلی1362ھ)
جوکوئی کسی مخلوق کا عالم میں تصرف ثابت کرے اور اپناوکیل سمجھ کر اس کومانے سو اب اس پر شرک ثابت ہوجاتاہے۔
(شاہ اسماعیل دہلوی،تقویۃ الایمان ص32)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کاعقیدہ اس کے بالکل برعکس تھااگروہ وہابیت کے علم بردارہوتے تو ان کابھی یہی عقیدہ ہوتاجس کا ذکرسطورِبالامیں ہوامگرحاشاوکلاایساہرگزنہیں۔وہ تو سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ تھےاور سلسلہ قادریہ کے شیخ حضرت سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان سے انہیں گہری عقیدت تھی اور وہ ان کی روحانی عظمتوں کا دل سے اعتراف کرتے تھے۔تصرف کے تعلق سے اپنے عقیدہ کا اظہارکرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
حضرت علی کےبعد اولیائے کرام اور اصحابِ طرق کا سلسلہ چلتاہے اور ان میں سب سے زیادہ قوی الاثربزرگ جنہوں نے راہ ِجذب کو باحسن وجوہ طے کرکے نسبتِ اویسی کی اصل کی طرف رجوع کیا اور نہایت کامیابی کے ساتھ قدم رکھاوہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی ذاتِ گرامی ہے اسی بناپر آپ کے متعلق کہاگیاہے کہ موصوف اپنی قبروں میں زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں۔
(ولی اللہ دہلوی،ہمعات ص27لاہور1946ء)
اب آئیے کنزالایمان جو مولانااحمدرضاخاں کاترجمۂ قرآن ہے انہوں نے اس تعلق سے آیاتِ قرآنی کا کس طرح مومنانہ ترجمہ کیا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
۱۔ اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الْاَرْضِ وَاٰتَیْنٰہُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ سَبَبًا
(الکھف:84)
بیشک ہم نے زمین میں ذوالقرنین کوقابودیااور ہر چیزکاایک سامان عطافرمایا۔
۲۔ وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَ
(الأنبیآء:89)
اورداؤدکے ساتھ پہاڑ مسخر فرمادیئےکہ تسبیح کرتے اور پرندے۔
۳۔ وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖۤ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَا ؕ وَکُنَّا بِکُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَ
(الأنبیآء:81)
اورسلیمان کے لئے تیزہوامسخرکردی کہ اس کے حکم سے چلتی اس زمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھی او رہم کوہرچیزمعلوم ہے۔
قیام:
علمائے دیوبندجواس زمانے میں اپنے کوفکرِ ولی الٰلہی کاعلمبردارعوام الناس سے منوانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے نزدیک قیام مکروہ ناجائزبدعت بلکہ بعض کے نزدیک کفروشرک بھی ہے۔مسلک ِدیوبند کے بانی مولوی رشید احمدگنگوہی ایک استفتاکے جواب میں فرماتے ہیں۔
قیامِ مروج جوامورِمحدثہ ممنوعہ کومشتمل ہے ناجائزوبدعت ہے۔
(فتاویٰ دیوبندیہ جلد1ص38بحوالہ فیصلہ حق وباطل122سنبھل مرادآباد1960ء)
جب کہ ان کے پیرومرشدمجلسِ مولود میں قیام کے وقت لذت محسوس کرتے تھےانہوں نے اپنی تصنیف میں لکھاہےکہ:
اورمشرب فقیر کا یہ ہے کہ محفلِ مولود میں شریک ہوتاہوں بلکہ ذریعۂ برکات سمجھ کر ہر سال منعقدکرتاہوں اور قیام میں لطف و لذت پاتاہوں۔
(حاجی امداداللہ،فیصلہ ہفت مسئلہ ص11)
سیدالطائفہ مہاجر مکی کا یہ بھی عقیدہ تھا۔
مجلسِ مولود میں حضورپُرنورﷺ رونق افروز ہوتے ہیں اس اعتقاد کوکفروشرک کہناحد سے بڑھناہے،کیوں کہ یہ امر ممکن ہے عقلاً و نقلاً۔ بلکہ بعض مقامات پر اس کا وقوع بھی ہوتا ہے رہایہ شبہ کہ آپ کوکیسے علم ہوایاکئی جگہ کیسے ایک وقت میں تشریف فرماہوئےیہ ضعیف شبہ ہے،آپ کے علم و روحانیت کی وسعت جودلائلِ نقلیہ و کشفیہ سے ثابت ہوئے اس کے آگے ایک ادنیٰ سی بات ہے۔
(حاجی امداداللہ،فیصلہ ہفت مسئلہ ص92)
علمائے اہل سنت کے نزدیک قیامِ میلاد جائزمستحب و مستحسن ہےبوقتِ ذکر ِولادتِ سرکارِ دو عالمﷺ مسرّت ومحّبت کے طور پرلوگ قیام کریں تو اس میں کوئی شرعی قباحت لازم نہیں آتی امتِ مسلمہ نے اس قیام کو قیامِ عظمت قراردیاہےاسی لئے قیامِ تعظیمی بھی کہاجاتاہے۔ شعائراللہ اور نبی کی تعظیم وتوقیرکے لئے قرآن ِحکیم میں کہاگیاہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:
۱۔ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ
(الحج: 32)
اورجواللہ کے نشانوں کی تعظیم کرےتویہی دلوں کی پرہیزگاری ہے۔
۲۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ۙ﴿۸﴾ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُ
(الفتح:7 /8)
بیشک ہم نے تمہیں بھیجاحاضروناظراور خوشی اورڈرسناتاکہ اے لوگوتم اللہ اور اس کے رسول پرایمان لاؤاوررسول کی تعظیم وتوقیرکرو۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے ان آیات ِکریمہ کی روشنی میں ہی بارگاہِ نبوی میں کھڑےہوکر اپنی عقیدت ومحبت کانذرانہ پیش کیاہےآپ کے ملفوظات القول الجلی کے مرتب لکھتےہیں:
آپ نے تحریرفرمایاایک روز میں حضرت کے مواجہہ شریف میں کھڑاہواآپ پر صلوٰۃ و سلام بھیج رہاتھااور تضرع وزاری کررہاتھاکہ ناگاہ آپ کی جانب سے ایک سرمثلِ برق ظاہر ہوااور میری روح نے ایک لمحہ میں پوری شدت سے اسے پکڑلی ایساکہ مجھےاس کی سرعت پر تعجب ہوااورآنِ واحدمیں اس کے اصل وفرع کا احاطہ کرلیا۔
(شاہ ولی اللہ دہلوی،القول الجلی ص71)
ان آیات کی جس طرح مومنانہ تشریح کنزالایمان میں امام اہل سنت مولاناشاہ احمدرضا خاں قادری نے کی ہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ نبیﷺ کی تعظیم و توقیرہر زمانے میں اکابر علماء ہی کا صرف نہیں بلکہ عوامِ اہل ِسنت کابھی معمول رہاہے اس موضوع پر علمائے حق کے نوک ِقلم سے متعددکتابیں منظرِعام پر آچکی ہیں عصرِحاضر میں حضرت مولانامفتی جلال الدین احمد امجدی کارسالہ تعظیمِ نبی بھی اچھی کوشش ہےاس رسالہ میں وہی سب کچھ ہے جس کی ترجمانی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور امام اہل سنت مولاناشاہ احمدرضاقادری نے اپنی اپنی تحریروں میں فرمائی ہےاس سے ان دونوں اکابرعلمائے کرام کے عقائدونظریات میں یکسانیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔