کنز الایمان اور عقیدہ الوہیت و رسالت

کنزالایمان اور عقیدۂ الوہیت و رسالت

تحریر: پروفیسر سید اسد محمود کاظمی

 

قرآنِ عظیم کتابِ مبین ہے۔

[النمل، آیۃ1،پارہ19]

ہرشےکاواضح بیان ہے۔

[النحل،آیۃ89،پارہ14]

ہرخشک و ترکی جامع

[الانعام،آیۃ58،پارہ7]

اور ہر چھوٹی بڑی چیزکو سمیٹےہوئے ہے۔

[القمر،آیۃ52،پارہ27]

عالمین کے لیے نصیحت ہے۔

[القلم، آیۃ 52،پارہ 29]

مکمل کتاب ہے۔

[یوسف،آیۃ 111،پارہ 13]

ان خصوصیات کے ساتھ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ خالق و مالک کا بےمثل و مثیل کلام ہے۔ قرآنِ عظیم کے کتاب اللہ ہونے کی کیا دلیل ہے؟ ملاحظہ فرمائیےقرآن نے اتنے مشکل سوال کے جواب کیلیےنہ تو منطقیانہ وفلسفیانہ اصطلاحات کا استعمال کیا ہے اور نہ کوئی ادق اور پیچیدہ دلیل پیش کی جو عام انسان کی سوچ سےماوراہو۔بلکہ انتہائی سادہ مگروزنی دلیل پیش کی۔

وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلٰفًا کَثِیْرًا

[النساء،آیۃ 82،پارہ5]

اوراگروہ غیرخداکے پاس سے ہوتاتوضروراس میں بہت اختلاف پاتے۔

(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

خصوصیاتِ مترجمِ قرآن:

مذکورہ بالاصفاتِ قرآنیہ کوسامنے رکھتے ہوئےیہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ جو کتاب علومِ کاملہ کو اپنے سینے میں سمیٹے ہوئے ہو اس کی ترجمانی کیلیےکسی جامع العلوم ،مجمع المفہوم ہستی کی ضرورت ہے۔اس لیے کہ ترجمہ و تفسیرمرادِخداوندی پر آگاہی کا نام ہے۔

گویامرادِخداوندی نے قرآنی حروف، اشکال و نقوش کاجامہ پہناہواہے۔

[شرح العقائدالنسفی]

تو جب تک علومِ قرآنیہ پر دسترس نہ ہوگی تو مرادِخداوندی پر آگاہی کیسے ممکن ہے؟

نتیجۃ مترجمِ قرآن جگہ جگہ علمی ٹھوکریں کھائےگااور اس کی سیاہی کی بوندیں اہلِ اسلام کی گمراہی کا سبب بنیں گی۔

بقولِ حکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمۃ:

علمائے کرام اورفضلائےعظام کا طریقہ یہ تھاکہ قرآنِ کریم کے ترجمہ کے لیے اکیس 21 علوم میں محنت کرتے تھے۔مثلاً نحو، معانی، بیان، بدیع، ادب، لغت، منطق، فلسفہ، حساب، جیومیٹری،فقہ،تفسیر،حدِ اصول وغیرہ وغیرہ۔ ان علوم میں اپنی عمر کاکافی حصہ صر ف کرتے تھے۔ جب نہایت جانفشانی اور عرق ریزی سے ان علوم میں پوری مہارت حاصل کرلیتے تب قرآن شریف کے ترجمہ کی طرف توجہ کرتے۔

[علم القرآن لترجمۃ القرآن،ص4،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات]

اعلٰی حضرت بحیثیت مترجمِ قرآن:

زُلفِ یار اور ریشِ واعظ سے الجھناہمارامنصب نہیں۔بہرکیف یہ بات بغیر تعصب اور جانبداری کے کہی جاسکتی ہے کہ برصغیرپاک و ہند میں مترجمینِ قرآن کی صف میں جو مرتبہ علم،ندرت،فکر،علومِ جدیدہ و قدیمہ پر دسترس، وسعتِ مطالعہ،ذخیرۂ الفاظ، خدا خوفی، محبتِ رسالت، تقویٰ و پرہیزگاری جیسی صفات جس طرح قدرت نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کو ودیعت فرمائی تھیں وہ کسی اور مترجم کے حصہ میں نہیں آئیں۔

صاحبزادہ سیدوجاہت رسول قادری رقم طراز ہیں:

اس (کنزالایمان)کے غائر مطالعے سے یہ حقیقت ابھرکرسامنے آتی ہے کہ امام احمد رضا خان قادری نہ صرف یہ کہ واقعی ایک جامع العلوم شخصیت ہیں بلکہ عظمتِ الٰہی اور ناموسِ انبیاء ورسل کے ایک عظیم علمبردار بھی ہیں۔ترجمہ میں اردوزبان کے الفاظ، محاورات اور ٹکسالی اصطلاحات کے انتخاب سے ظاہرہوتاہے کہ ان کی فکرمحبتِ الٰہی جل جلالہ میں غرق اور ان کا قلب عشقِ رسولﷺ میں سرشاراوران کا قلم تحفظ ِعظمتِ الٰہی اور ناموسِ رسالت کےلیے برق رفتارتلوارہے۔

[پیش لفظ کنزالایمان اور معروف تراجمِ قرآنمطبوعہ ادارہ تحقیقاتِ امام احمدرضا کراچی]

اعلیٰ حضرت الشیخ امام احمدرضاخان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کو علومِ قرآنیہ پر کیسی دسترس تھی؟ آپ کے سیرت نگارملک العلماء ظفرالدین بہاری علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں۔۔۔۔ تاج الفحول، محبّ الرسول مولاناشاہ عبدالقادرصاحب علیہ الرحمۃ کے عرس شریف میں بدایوں تشریف لےگئے۔وہاں نوبجےسے تین بجےتک کامل چھ۶گھنٹے سورۃ والضحیٰ پر حضور کا بیان ہواپھرفرمایااسی سورۃ مبارکہ کی کچھ آیاتِ کریمہ کی تفسیر میں 80 جزرقم فرماکرچھوڑدیا اور فرمایاکہ اتناوقت کہاں سے لاؤں کہ پورے قرآنِ پاک کی تفسیرلکھ سکوں۔

[حیاتِ اعلیٰ حضرت، جلداوّل، ص357،مطبوعہ برکاتی پبلشرزکراچی]

اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رضی اللہ عنہ کی ان خدادادصلاحیتوں کو دیکھ کر ماہر رضویات، ترجمانِ افکاروتعلیماتِ اعلیٰ حضرت محترم پروفیسرڈاکٹر مسعوداحمد صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

وہ ایک باخبرہوشمنداور باادب مترجم تھے۔ترجمہ کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ امام احمدرضا نے آنکھیں بندکرکے ترجمہ نہیں کیابلکہ وہ جب کسی آیت کاترجمہ کرتے تھے تو پورا قرآن، مضامینِ قرآن اورمتعلقاتِ قرآن ان کے سامنے ہوتے تھے۔

[اظہارِمسعودکنزالایمان اورمعروف تراجمِ قرآنمطبوعہ ادارہ تحقیقاتِ امام احمدرضا کراچی]

دیگرتراجمِ قرآن:

ایک زبان کودوسری زبان میں منتقل کرناخاصا مشکل امرہے اور پھرمزید یہ کہ کلامِ الٰہی کی ترجمانی تواس سے بھی مشکل امرہے۔اسی لیے مترجمِ قرآن پر ضروری ہے کہ وہ عربی قواعد کو پیشِ نظر رکھنےکےساتھ ساتھ اسلامی اصول و قوانین کوبھی ملحوظ رکھے۔مبادا ترجمہ قرآن کرتے ہوئےشرعی قوانین واسلامی قواعد پرحرف آئے۔

مگرحیرت کےسمندرمیں ڈوب کرہم یہ لکھنےپرمجبورہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں مترجمینِ قرآن نےاپنے ذاتی عقائد ونظریات کو پیشِ نظر رکھ کر صرف ظاہری ترجمہ پر ہی اکتفاکیا اور دوسرا اہم پہلو ان کی نگاہ سے اوجھل رہا کہ ظاہری ترجمہ کرنے سے وہ لوگ مترجمین کی صف میں شامل تو ہو گئےمگرانہوں نے اسلام کے بنیادی عقائداور اصول و ضوابط کی مضبوط جڑوں پر کلہاڑاچلادیااور کہیں ترجمۂ قرآن سے جبریوں اور قدریوں کے موقف کی حمایت کردی۔

توحید کے علمبرداروں کے ترجمۂ قرآن سے نہ تو خداوندِ قدوس کی تقدیس محفوظ رہی اور نہ ہی رحمتِ کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عظمت۔ اگرکوئی نو مسلم ایسے مترجمینِ قرآن کے ترجمہ کو پڑھےگاتو وہ کیامحسوس کرے گاکہ یہ اسلام کیسادین ہے کہ جس میںخدابھی مکرکرتا ہے نعوذباللہ دغابھی دیتاہے، داؤبھی کرتاہے، بھول بھی جاتاہے، سب فریب اس کے ہاتھ میں ہےتوتصور فرمائیے!خداکے بارے میں اس کا کیانظریہ ہوگاجو حقانیتِ اسلام سے متاثر ہوکراپنے مذہب کو تو چھوڑچکاکیاخداکے بارےمیں یہ جان کر کہ مسلمانوں کا خدامکرکرتاہے، بھول بھی جاتاہے، داؤبھی کرتاہے وہ اسلام میں رہےگا؟

کیایہ مترجمین، قرآن پڑھنےوالوں کو دینِ اسلام کی تعلیمات پر مطمئن کررہے ہیں؟ یادین سے ہٹارہےہیں؟پھرایسے تراجم کی اشاعت تبلیغ ِ دین ہے یا تضیعِ دین؟انانیت و ہٹ دھرمی سے بڑھ کر کوئی چیزمضرنہیں۔جبانسان مستندہےمیرافرمایاہواکے نظریےپر عمل کرتے ہوئے خودکوعقلِ کل اور مخزنِ علم سمجھ کر دوسروں کے درست عمل کی بھی تغلیط کرے تو اس سے بڑھ کر جہالت کچھ نہیں۔اورجہالت مرضیت کہ دوائے ندارد۔

اس لیے اگر تمام تراجمِ قرآن کو ایک ایسے مقام پر اکٹھاکیاجائے جہاں عقیدت مندی کے بجائےترجمہ کے لفظ لفظ پر تنقیدی نگاہ ڈالی جائےتویہ ثابت ہوگاکہ قرآنِ مجید کو عربیت سے اردومیں جس طرح اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے ڈھالاہےوہ کسی دوسرے مترجم کو نصیب نہیں ہوا۔

مترجمینِ قرآن نے جب قرآنی آیات کے ترجمہ میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا جو توحیدورسالت کے منافی تھے، جن سے اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات کیے جاسکتے تواعلیٰ حضرت وہ اوّلین مترجم ہیں جنہوں نے 1330ہجری میں اہلِ اسلام کو قرآنِ عظیم کا صحیح ترین ترجمہ دیا۔ یادرہےکہ کنزالایمان شریف سےقبل مولوی عاشق الٰہی اور اشرف علی تھانوی کے تراجم مارکیٹ میں دستیاب تھے۔جبکہ محمودالحسن، عبدالمجاددریابادی اور مولوی احمدسعیددہلوی جو کہ سب کے سب دیوبندی مکتبہ فکرسے تعلق رکھتےتھےان کے تراجم کنزالایمان کے بعد احاطہ تحریر میں آئے۔مگراس کے باوجود مترجمین انتخابِ الفاظ میں مار کھاگئےاور غیر مناسب الفاظ، قرآن کے ترجمان بن گئے۔

فاضلِ شہیر،نابغۂ عصر،علمبردارِ فکرِ رضامفتی فیض احمدصاحب اویسی قبلہ زاداللہ شرفہ اس پس منظر میں رقمطرازہیں۔اعلیٰ حضرت، عظیم البرکت، امام العرب والعجم رضی اللہ عنہ نے اپنے قلم سے اسلام پر دشمنانِ اسلام کے تمام گھناؤنےداغ دھونے میں زندگی گزاردی۔ پھر وہ اب کس طرح کسی غبارآلود لفظ کومنہ لگاسکتاہے۔یہی وجہ ہے کہ کنزالایمان کی ترجمانی ہر آیت کی آواز ہے۔ اور اس کاہر مضمون اسلام کا صحیح ترجمان ہے۔چنانچہ بقولِ علامہ زرقانی مترجمین میں کچھ لوگ معاندینِ اسلام بھی ہیں جن کو ترجمہ کرنے سے غرض صرف اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنی ہیں اور بس۔ لیکن اعلیٰ حضرت قدس سرہ کیلئے یہ تصوربھی نہیں کیا جا سکتاکیونکہ ترجمہ میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے توحید و رسالت سے لے کرشریعت کے عام مسئلہ تک ہرایک کا پوراحق اداکیا۔

[کنزالایمان پر اعتراضات کے جوابات ص16،مطبوعہ عطاری پبلشرزکراچی]

تقابل تراجم:

قارئینِ کرام اب قرآنِ عظیم سے ایسی آیات کا انتخاب پیش کیاجاتاہےکہ جن آیات میں دیگرمترجمینِ قرآن نے منصبِ توحید و رسالت کا پاس نہ رکھااور من پسندترجمے کیےاور ساتھ ہی کنزالایمان شریف کا ترجمہ بھی پیش کیاجائےگا۔تاکہ علم ہوسکےکہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات کے ترجمہ پرواردہونےوالے اعتراضات کا جواب بین السطور اردوترجمہ میں ہی اداکردیا۔

توحید باری تعالی:

(۱)یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا

[البقرۃ،آیۃ9،پارہ1]

دغابازی کرتے ہیں اللہ سے اور ایمان والوں سے۔ (شاہ عبدالقادر)

فریب دیتے ہیں اللہ کو اور ان لوگوں کو کہ ایمان لائے۔ (شاہ رفیع الدین)

چالبازی کرتےہیں اللہ سے اور ان لوگوں سے جو ایمان لاچکے۔ (اشرف علی تھانوی)

وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں۔ (مودودی)

مذکورہ بالاتراجمِ قرآن کا بغورمطالعہ کرنےسےبہت سے سوالات سامنے آتے ہیں۔ مثلاً منافقین نے فی الواقع اللہ تعالیٰ سے دغابازی کرتے ہیں یا اللہ کو دھوکہ دےرہے ہیں۔ حالانکہ یہ درست نہیں۔اس لیے کہ جو ذات عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ہےاس سے دغا ممکن نہیں ہے۔ نیز منافقین کا جب یہ عقیدہ ہی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے تو انہیں اپنی منافقت میں اللہ تعالیٰ سے دغا،فریب کرناکیسے درست ہوسکتاہے؟ توپتہ چلا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سےدغا، فریب، چالبازی ممکن تونہیں مگرمنافقین ہیں کہ اپنے خیال میں دغابازی کرناچاہتے ہیں یہ نہیں کہ دغاکرتے ہیں۔

اب ذراکنزالایمان شریف کاترجمہ ملاحظہ فرمائیےکہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نےآیت پر وارد ہونےوالایہ اعتراض کس حسین انداز میں ترجمہ فرماکارفع کردیا ہے۔اور دیگرتراجم سے جو وہم پیداہوسکتاتھااس کا ازالہ کیسے فرمایا:

فریب دیاچاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو۔(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ)

 

(۲)اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ

[النساء، آیۃ 17، پارہ5]

توبہ قبول کرنی اللہ کو ضرور۔ (شاہ عبدالقادر)

توبہ جس کا قبول کرنااللہ کے ذمہ ہے۔ (اشرف علی تھانوی)

اللہ پرتوبہ کی قبولیت کا حق ہے۔ (مودودی)

توبہ قبول کرنی اللہ کوضرور۔ (محمودالحسن)

اسلامی بنیادی عقائدمیں عقیدۂ توحیدکے متعلق نظریہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ پر کوئی چیزواجب نہیں مگرمذکورہ آیۃ مبارکہ کے جو تراجم پیش کیے گئےان سے یہ تاثرقائم ہوتاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پرقبولیتِ توبہ لازم ہے۔ اس لیے کہ جب اس پرکچھ کرناواجب ہی نہیں توکسی عمل کاکرناضروری کیسےہوگیا؟جبکہ کسی چیزکاضروری کرنااس کے وجوب کے مترادف ہے۔

قرآنِ حکیم کی ایک دوسری آیۃ مقدسہ میں ہے:

وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًا

جس سے یہ ثابت ہواکہ اللہ تعالیٰ اپنے فرمان کو پورافرماتاہے۔اور یہ اس کا فضل ہے نہ کہ اس پر واجب ولازم۔ تو اب پہلی آیۃ مقدسہ کا مفہوم یہ ہواکہ توبہ کی قبولیت اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذمہ واجب تو نہیں مگراس نے اپنے فضل سے توبہ کی قبولیت کولازم فرمالیا ہے اور وہ اپنے وعدہ کا تخلف نہیں فرماتا۔

اس تشرٰح کی روشنی میں یہ ترجمہ بھی ملاحظہ فرمائیےجس میں سرےسےیہ اعتراض واردہی نہیں ہوتا۔

وہ توبہ جس کا قبول کرنااللہ نےاپنےفضل سے لازم کرلیا۔

(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ)

 

(۳)وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ

[البقرۃ آیۃ 143،پارہ 2]

اور وہ قبلہ جو ہم نے ٹھہرایاجس پرتوتھانہیں مگر اس واسطے کہ معلوم کریں۔(شاہ عبدالقادر)

اورجس سمت قبلہ پر آپ رہ چکے ہیں وہ تو محض اس کےلیے تھا کہ ہم کو معلوم ہوجاوے۔(اشرف علی تھانوی)

نہیں مقررکیاتھاہم نے وہ قبلہ جس پر توپہلے تھامگراس واسطے کے معلوم کریں۔(محمودالحسن)

بیت المقدس اہلِ اسلام کیلیے قبلہ اول تھاہجرتِ مدینہ کے تقریباڈیڑھ برس بعدتک بیت المقدس ہی مسلمانوں کے لیے قبلہ تھا اور پھرنبی کریمﷺ کی چاہت پر کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا۔ اس آیتِ مقدسہ میں یہی پس منظربیان ہواہے۔کہ تبدیلیٔ قبلہ کا مقصدیہی ہے کہ یہ امتیازہوجائے کہ کون رسول اللہﷺ کی فرمانبرداری کرتاہے اور کون انحراف کرتاہے؟

اس شانِ ورودکےپیشِ نظرتراجمِ بالاسے یہ مفہوم اخذہوتاہےکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قبلہ کو اس لیےتبدیل کیاکہ اسے اطاعت شعاروں اور انحراف کرنےوالوں کاعلم ہوجائےمعلوم کریںاورہم کو معلوم ہوجاوے کایہی مفاد ہے توسوال یہ پیداہوتاہےکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کوپہلےعلم نہ تھاجوآزمائش کے بعدہوا؟رسول اللہﷺ کے علم شرف کو پیمانوں میں ناپنےوالے علم الٰہی سے کتنےمخلص ہیں یہ دیکھناچاہتے ہیں تو مذکورہ تراجم پر ایک مرتبہ پھر نظر ڈالیے۔ممکن ہے ہمارے اس حرفِ اختلاف پر کوئی ہم سے یہ سوال کرے کہ کیا لِنَعْلَمَ کالفظی ترجمہہم کو معلوم ہوجاوےیامعلوم کریں لغوی اعتبارسے درست نہیں ؟ توجواباًگذارش ہےکہ اگرچہ لفظی ترجمہ اپنی جگہ درست ہے مگرمرادِخداوندی پر آگاہی کےلیے بعض اوقات لفظی ترجمہ کےبجائےترجمانی کا رنگ اختیارکرناپڑتاہے۔ قرآن ِ عظیم میں چند دیگر مقامات پربھی علم مختلف جہتوں سے استعمال ہواہے۔جیسے:

وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ

[آلِ عمران، آیۃ 142،پارہ4]

وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآءَؕ

[آلِ عمران،آیۃ140،پارہ4]

وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا

[آلِ عمران،آیۃ 167،پارہ4]

ان جیسی متعددآیات قرآنِ عظیم کی زینت ہیں جن میں دیگر مترجمین نے ایسے تراجم کیے ہیں جن سے معتزلہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ جن کاموقف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو وقوعِ فعل کے بعدعلم ہوتاہے۔جبکہ اہلِ سنت کا علمِ باری تعالیٰ کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی وقدیم ہےاسی طرح اس کا علم بھی ازلی اور قدیم ہے۔

جہاں تک مذکورہ آیات کا تعلق ہے تو ان میںعلمکبھی توابتلاء وآزمائش کیلیےمستعمل ہے۔ کہیں اظہار کے معنی میں، کہیں تمیزکے معنی میں، کہیں رویت کے معنی میں۔آیات ہم نے سورۃ اور پارہ کی قیدسے ذکرکردی ہیں قارئین مختلف تراجم لے کرموازنہ کرسکتے ہیں کہ قرآن ِ عظیم کے معنی و مفہوم کو کس نے صحیح اداکیاہےاورکون راہِ اعتزال کاراہی ہے۔

اب آیت ِمطلوبہ کاصحیح ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔:

اے محبوب تم پہلےجس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اس لیے مقررکیاتھاکہ دیکھیں

(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ)

 

۴۔ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ

[التوبۃ،آیۃ67،پارہ10]

بھول گئےخداکوپس بھول گیاان کو اللہ۔ (شاہ رفیع الدین)

بھول گئے اللہ کوسووہ بھول گیا ان کو۔ (محمودالحسن)

یہ اللہ کو بھول گئےتواللہ نے ان کو بھلادیا۔ (مودودی)

جس طرح اللہ کی ذات ہر قسم کے عیب سے پاک ہے ویسے ہی نسیان سے بھی پاک ہے۔ علامہ احمدابن محمدصاوی مالکی اپنے مشہور حاشیہ میں فرماتے ہیں:

ان النسیان مستحیل علی اللّٰہ تعالٰی

[الصاوی علی الجلالین، جلداوّل، صفحہ 58،مطبوعہ مکتبہ الغوثیہ کراچی]

مترجمینِ بالانے دونوں مقامات پر نسیان کامعنی بھولناکیاہے۔ حالانکہ اگرانسان بھول جائے تو اس پر مواخذہ نہیں اور بھولنے کی نسبت خداکی طرف کرنامحال ہے تو پھرمعنی کیا ہوگا؟

تفسیرِجلالین میں ہے:

نسواللّٰہ ترکوا طاعتہ فنسیھم ترکھم من لطفہ

کہ منافقین نے خداکی اطاعت کو ترک کیا توخداتعالیٰ نے انھیں اپنے لطف وکرم سے محروم کردیا۔امام صاوی علیہ الرحمتہ کی اس تشریح کے بعددل پرہاتھ رکھ کے بتائیےکہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف نسیان کی نسبت کررہے ہیں یہ اہلِ اسلام کو قرآن کی تفہیم بتارہے ہیں یا لفظی ترجمہ کرکے عقیدہ توحیدسے کھیل رہے ہیں۔

حیرت ہے جن لوگوں کی دسوں انگلیاں توہین کےجرمِ قبیح سے آلودہ ہیں وہ دوسروں کے شفاف دامن پر شرک و بدعت کے دھبے تلاش کررہے ہیں ؎

غیر کی آنکھوں کاتنکاتجھ کوآتاہے نظر

دیکھ غافل آنکھ کا اپنی ذراشہتیر بھی

آئیےاب تفسیری اور باادب ترجمہ ملاحظہ فرمائیےاور اگریادنہ رہاہو توجلالین پر بھی ایک نگاہ ڈال لیجیے۔

وہ اللہ کو چھوڑبیٹھےتواللہ نے انہیں چھوڑدیا ۔

(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ)

 

ناموس رسالت:

بخوفِ طوالتِ مقالہ صرف دوآیاتِ مقدسات کا تقابلی جائزہ پیش کیاجاتاہے۔

۱۔ فَاِنْ یَّشَاِ اللّٰہُ یَخْتِمْ عَلٰی قَلْبِكَ

[الشوریٰ،آیۃ 24،پارہ25]

اوراللہ چاہےتوتمہارےدل پر مہرکردے۔ (مودودی)

سواگراللہ چاہےمہرکردے تیرے دل پر۔ (محمودالحسن)

سوخدا اگرچاہے آپ کے دل پر بندلگادے۔ (اشرف علی تھانوی)

تراجمِ بالاکے تیور ملاحظہ فرمائیے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ یہ مترجمین اس آیت سے یہ ثابت کرناچاہتےہیں کہ

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ

[البقرۃ،آیۃ 7،پارہ1]

کے بعد مہر کی جگہ اگرباقی ہے تووہ قلبِ رسالت پناہ علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والسلام ہی ہے۔ ہمارے لیےتویہ تصورہی نہایت بھیانک اور ہولناک ہے۔

افسوس اس بات پر ہے کہ رحمتِ کائنات علیہ السلام کی حیاتِ ظاہری میں جس طرح دشمنانِ دین زرہیں، نیزے،تلواریں خرید کر آپ علیہ السلام کےقلبِ مبارک کو حزیں کرتے تھے۔ آج وہی کام چندسکوں کی نب خرید کراپنےگھرکی چاردیواری یا اپنے مدرسہ کے دار الحدیث میں بیٹھ کربآسانی سرانجام دیاجارہاہے۔ اگر اس آیتِ مبارکہ کے شانِ نزول پر نگاہ ڈالی جائے تو معاملہ واضح ہوجائےگاکہ یہ مہر کون سی ہے۔ کفارومشرکین نے جب رسول اللہﷺ پر یہ اعتراض کیا کہ آپ نے اعلانِ نبوت کرکے خداپرجھوٹ باندھا ہے تو آقائے دوجہاںﷺ کو ان کی باتوں سے اذیت ہوئی تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کوتسلی دینے کےلیےیہ آیتِ مبارکہ نازل فرمائی۔اب ادب ِ رسالت سے معموریہ ترجمہ بھی دیکھ لیجیے جو قرآن کا بہترین ترجمان اور عظمتِ رسالتﷺ کا محافظ ہے۔

اوراللہ چاہےتوتمہارے دل پر اپنی رحمت وحفاظت کی مہر فرمادے۔

(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی)

 

۲۔ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ

[الانعام،آیۃ 114،پارہ8]

تحقیق سومت ہو شک لانےوالا۔ (شاہ عبدالقادر)

سوآپ شبہ کرنےوالوں میں نہ ہوں۔ (اشرف علی تھانوی)

سوتومت ہوشک کرنےوالوں میں سے۔ (محمودالحسن)

لہٰذاتم شک کرنےوالوں میں نہ ہوں۔ (مودودی)

قرآنِ عظیم کے قاری کاعام تاثریہ ہے کہ قرآنِ عظیم کے ہرحکم کے مخاطب رسولِ رحمت ﷺ ہیں۔ جب یہ تاثرلےکرکوئی قاری تراجم ِ بالاکوپڑھےگاتواس کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہےکہ یہ خطاب بھی حضورﷺ کوہی ہے۔ حالانکہ تفاسیرکامطالعہ کرنےوالے بخوبی جانتے ہیں کہ قرآنِ عظیم میں بعض اوقات خطاب حضورﷺ کوکیاجارہاہوتاہے اور مراد امت ہوتی ہے۔ اسے اصطلاح میں تعریضکہتے ہیں۔ اب اگرمنتخب آیت مبارکہ کا مطالعہ تفاسیرِ معتبرہ کی روشنی میں کیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ اگرچہ خطاب بظاہر حضورﷺ کو ہےمگر یہاں مراد امت ہی ہے۔ تفسیرِ روح المعانی، تفسیرِجلالین، تفسیرِ کبیر، تفسیرِمدارک اور حاشیہ الصاوی میں جلیل القدر مفسرینِ کرام نے بھی آیتِ مبارکہ کی تفسیر یہی کی ہے کہ اگرچہ بظاہر خطاب حضورنبی کریمﷺ کوہے مگرمراد امت ہے۔ ہم نمونہ کے طورپرصرف علامہ احمدابن محمدالصاوی المالکی علیہ الرحمتہ کی وضاحت پیش کرتے ہیں۔

تفسیرجلالین میں تھا:

(فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ) الشاکین فیہ والمراد بذالك التقریر للکفار

کہ ممترین سے مرادشک کرنےوالے ہیں اور وہ کافرہیں۔اس کی تفسیرمیں صاحب حاشیہ الصاوی فرماتے ہیںیہ جوکہاجاتاہے کہ شک کی نسبت نبی کریمﷺ کی طرف کرنا محال ہے توپھرکس چیزکاکرنامحال ہےاس سے روکاہی کیوں گیاہے۔

اجیب ایضًا بانہ من باب التعریض للکفار بانھم ھم الممترون فالخطاب لہ والمراد غیرہٗ

[حاشیہ الصاوی علی الجلالین جلداول،جزثانی،ص212،مطبوعہ مکتبہ الغوثیہ کراچی]

جواباًکہتےہیں کہ یہ کفارکے لیے تعریضاًاستعمال ہوا۔ظاہری خطاب تو رسول اللہﷺ کوہے مگرحقیقتاً مرادِ امت ہے۔اس ساری بحث کاخلاصہ یہ ہواکہ خطاب میں مراد امت ہے۔ اور یہ چیزتفاسیرِمعتبرہ کی درک سے حاصل ہوئی جس کی طرف مترجمین ِمذکورہ نے کوئی اشارہ نہ کیااورقاری کو اس شبہ میں مبتلا کردیاکہ اس آیت کی مرادحضورﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے۔مگراعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے اس تفسیری نکتہ کے پیشِ نظر ترجمہ ہی ایساکیاکہ صرف ترجمہ سے ہی ساراتفسیری مفہوم واضح ہوجاتاہے۔

تواے سننےوالے!توہرگزشک والوں میں نہ ہو۔

(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ)

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے ترجمہ میں اےسننےوالےالفاظ کا اضافہ ہے جس سے یہ پتہ چلا کہ اس آیت کی مراد حضور نبی کریمﷺ نہیں بلکہ عام مخاطب ہے۔اس ترجمہ میں تفسیری مفہوم بھی ہے اور عظمتِ رسالت علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والسلام کادفاع بھی۔

آخرمیں محمدحنیف خان رضوی صدرالمدرسین جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف کی زبانی مخالفین کے ایک اہم فرد امیرجمعیتِ اہلِ حدیث پاکستان استادسعیدابن یوسف زئی کا اعتراف بھی ملاحظہ فرمائیں۔یہ ایک ایساترجمۂ قرآنِ مجیدہے کہ جس میں پہلی باراس بات کاخاص خیال رکھاگیاہے کہ جب ذات ِباری تعالیٰ کے لیے بیان کی جانے والی آیتوں کا ترجمہ کیاگیا تو بوقتِ ترجمہ اس کی جلالت و تقدیس اور عظمت وکبریائی کوبھی ملحوظِ خاطررکھاگیاہے۔ جبکہ دیگرتراجم خواہ وہ اہلِ حدیث سمیت کسی بھی مکتبِ فکرکے علماء ہوں ان میں یہ بات نظرنہیں آتی اسی طرح وہ آیتیں جن کاتعلق محبوبِ خداشفیعِ روزجزاء سیدالاولین والآخرین حضرتِ محمدِ مصطفیٰﷺ سے ہے یاجن میں آپ سے خطاب کیاگیاہے توبوقتِ ترجمہ مولانا احمد رضا نے اوروں کی طرح صرف لفظی اور لغوی ترجمہ سے کام نہیں چلایابلکہ آپ کے عالی مقام کوہرجگہ ملحوظِ خاطر رکھاہے۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ترجمہ میں وہ چیزیں پیش کی ہیں جن کی نظیرعلماء اہلِ حدیث کے یہاں بھی نہیں ملتی۔

[ماہ نامہ جہانِ رضا اکتوبرنومبر2008ء،ص23]

بےشک یہ ترجمہ ایمان کا خزانہ ہے۔


متعلقہ

تجویزوآراء