کنز الایمان اور صدر الشریعۃ
کنزالایمان اور صدرالشریعہ
تحریر:مولانا عبد المبین نعمانی
اعلیٰ حضرت مجددِ دین و ملت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہٗ العزیز کا ترجمۂ قرآنکنزالایمان فی ترجمۃ القرآن(۱۳۳۰ھ)مقبولیت کی جس بلند ترین منزل پر فائز ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں، ہندو پاک اور دیگر ممالک میں اس کی اشاعت جس پیمانے پر ہو رہی ہے اس کا مقابلہ دنیا کی دیگر زبانوں کے ترجمے تو کیا خود اردو کے تراجم میں بھی کوئی ترجمہ نہیں کر سکتا۔ ایک زمانہ تھا کہ اس کی اشاعت کی طرف سے غفلت برتی جا رہی تھی، اور دوسرے تراجم چور دروازے سے قرآن کے معنی و مطلب کے نام پر سنی گھروں میں پھیلائے جا رہے تھے عام خواندہ مسلمان فرقِ تراجم سے نا واقف ہونے کی وجہ سے نادست تراجمِ قرآن حاصل کرتے جا رہے تھے لیکن اب جب کہ ہر طرف ترجمۂ امام احمد رضا کی دھوم مچی ہوئی ہے دوسرے تراجمِ قرآن کی اشاعتیں متاثر ہونے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب کے بعض ممالک میں ہند و پاک کے وہابی مسلک کے متعصب افراد نے پابندی لگوانے کی پوری کوشش کی اور وہ سرکاری طور پر پابندی لگوانے میں کامیاب بھی ہو گئے، لیکن الحمد للہ اس پابندی کا اثر الٹا نکلا جسے رکوانے کی تدبیر کی جارہی تھی اس کی شہرت اور اشاعت آسمانوں کو چھونے لگی۔ سچ کہاہے کسی کہنے والے نے۔ ع۔ مہ فشاند، نور و سگ عو، عو، کند
اوربالکل ایسے ہی اس کی اشاعت بڑھتی جارہی ہے۔جیسے اسلام کہ
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتناہی یہ ابھرے گاجتناکہ دباؤگے
چونکہ کنزالایمان قرآن واسلام کا سچا ترجمان اور مسلک ِحق کا صحیح ترین پاسبان ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام ہی کی طرح ابھرنے اور بڑھنے کی فطرت سے نوازا ہے، اب گھٹانے والے لاکھ گھٹائیں، روکنے والے ہزار تدبیریں کرتے رہیں، لیکن کنزالایمان کا سورج تو چڑھتا ہے اور چڑھتا ہی جائے گا۔
الحمد للہ کنزالایمان کی خوبیاں ایسی نہیں کہ صرف امام احمد رضا کے معتقد و مریدین ہی مداح ہیں بلکہ جنہیں امام احمد رضا سے مسلکی ہم آہنگی بھی نہیں ارادت و تلمذ تو دور کی بات ہے وہ بھی جب حقیقت بیں نگاہوں سے غیر جانبدار ہوکر ترجمۂ امام احمد رضا کی زیارت کرتے ہیں اور اس کی تہ بہ تہ خوبیوں سے واقف ہوتے ہیں تو بے ساختہ مدح و ثناء میں زبان کھول کر حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے، ذیل میں ایسے دو تاثرات ہدیہ ناظرین ہیں چشم حیرت وا کیجئے اور پڑھیے۔
پاکستان کے سابق وزیرِ اطلاعات و نشریات، مولانا کوثر نیازی جو مشہور دیوبندی عالم مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے شاگرد تھے اور عرصہ تک جماعت مودودی معروف بہ جماعت اسلامی سے بھی منسلک رہ چکے تھے وہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی حقائق نگاری و ادب آموزی سے متاثر ہوکر تحریر کرتے ہیں،
ادب واحتیاط کی یہی روش امام احمد رضا کی تحریر و تقریر کے ایک ایک لفظ سے عیاں ہےیہی ان کا ادب ہے، جو ان کا حرزِ جاں ہے، ان کا طغرائے ایمان ہے، ان کی آہوں کا دھواں ہے، حاصلِ کون و مکاں ہے، برتر از این و آں ہے، باعثِ رشکِ قدسیاں ہے، راحتِ قلبِ عاشقاں ہے، سرمۂ چشمِ سالکاں ہے ترجمۂ کنزالایمان ہے۔
ووجد ک ضالافھد یکےترجمے کو دیکھ لو، قرآنِ پاک شہادت دیتاہے ماضل صاحبکم و ماغوی،رسولِ گرامی نہ گمراہ ہوئے نہ بھٹکے ضَلَّ ماضی کا صیغہ ہے مطلب یہ ہے کہ ماضی میں آپ کبھی گم گشتہ راہ نہیں ہوئے، عربی زبان ایک سمندر ہے اس کا ایک ایک لفظ کئی کئی مفہوم رکھتا ہے ترجمہ کرنے والے اپنے عقائد و افکار کے رنگ میں ان کا کوئی سا مفہوم اخذ کرلیتے ہیں ووجد ک ضالا کا ترجمہ ما ضل(گمراہ نہیں ہوئے)کی شہادتِ قرآن کو سامنے رکھ کر عظمتِ رسول کے عین مطابق کرنے کی ضرورت تھی مگر ترجمہ نگاروں سے پوچھیے، انہوں نے آیتِ قرآنی سے کیا انصاف کیاہے!
شیخ الہند مولانا محمود الحسن ترجمہ کرتے ہیں۔
اور پایا تجھ کو بھٹکتا، پھر راہ سجھائی،
کہا جاسکتا ہے مولانا محمود الحسن ادیب نہ تھے ان سے چوک ہوگئی آئیے ادیب شاعر، مصنف اور صحافی مولانا عبد الماجد دریا آبادی کی طرف رجوع کرتے ہیں، ان کا ترجمہ ہے۔
اور آپ کو بے خبر پایا سو رستہ بتایا۔
مولانا دریا آبادی پرانی وضع کے اہلِ زبان تھے، ان کے قلم سے صرف نظر کرلیجئے اس دور میں اردوئے معلیٰ میں لکھنے والے اہلِ قلم حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے دروازے پر دستک دیجئے ان کا ترجمہ یوں ہے،
اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔
پیغمبر کی گمراہی اور پھر ہدایت یابی میں جوجو وسوسے اور خدشے چھپے ہوئے ہیں انہیں نظر میں رکھئے اور پھر کنزالایمان میں امام احمد رضا خاں کے ترجمہ کو دیکھیے ؎
بیا ورید گر اینجا بود سخن دانے غریبِ شہر سخنہائے گفتنی دارد
امام نے کیا عشق افروز اور ادب آموز ترجمہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔ اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔ کیا ستم ہے فرقہ پرور لوگ، رشدیکی ہفوات پر تو زبان کھولنے سے اور عالمِ اسلام کے قدم بقدم کوئی کارروائی کرنے میں اس لیے تامل کریں کہ کہیں آقایانِ نعمت ناراض نہ ہوجائیں مگر امام احمد رضا نے اس ایمان پرور ترجمہ پر پابندی لگادیں جو عشق رسول کا خزینہ اور معارفِ اسلامی کا گنجینہ ہے۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
(امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت ،ص908،مطبوعہ ادارہ معارفِ نعمانیہ لاہور1411ھ)
اب آئیے امیرِ جمعیت اہلِ حدیث پاکستان جناب سعید بن عزیز یوسف زئی کے کنزالایمان کے بارے میں تاثرات ملاحظہ کریں۔
ہم چاہتے ہیں کہ اپنے اس مضمون میں اس بات کی وضاحت و صراحت کردیں کہ کنزالایمان اہلِ حدیث کی نظر میں کیا ہے؟ اور اس پر عائد کیے جانے والے الزامات پر ہمارا کیسا نقطۂ نظر ہے۔ اب آئیے اصل مضمون کی طرف جو کہ کنزالایمان کے بارے میں ہے کہ ہمارا اس کے بارے میں کیا نظریہ ہے۔ جہاں تک علمائے دیوبند کا تعلق ہے وہ تو نہایت شد و مد سے اس کی مخالفت بلکہ تکفیر تک کرتے ہیں مگر میں نہایت وضاحت کے ساتھ یہ کہوں گا کہ الم سے لےکر والناس تک ہم نے کنزالایمان میں نہ تو کوئی تحریف پائی ہے اور نہ ہی ترجمہ میں کسی قسم کی غلط بیانی، نہ ہی کسی بدعت یا شرک کے کرنے کا جواز پایا ہے بلکہ یہ ایک ایسا ترجمۂ قرآنِ مجید ہے کہ جس میں پہلی بار اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ جب ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے بیان کی جانے والی آیتوں کا ترجمہ کیا گیا ہے تو بوقتِ ترجمہ اس کی جلالت، علوِ تقدس و عظمت و کبریائی کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے جب کہ دیگر تراجم خواہ وہ اہلِ حدیث سمیت کسی بھی مکتبِ فکر کے علماء کے ہوں ان میں یہ بات نظرنہیں آتی ۔ اسی طرح وہ آیتیں جن کا تعلق محبوبِ خدا شفیعِ روزِ جزا، سید الاولین و الآخرین امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ؎
زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے
سے ہے جن میں آپ سے خطاب کیا گیا ہے تو بوقتِ ترجمہ جناب مولانا احمد رضا خاں صاحب نے یہاں پربھی اوروں کی طرح صرف لفظی اور معنوی ترجمہ سے کام نہیں چلایا ہے بلکہ صاحبِ ماینطق عن الھویٰاور ورفعنا لک ذ کرک کے مقامِ عالیشان کو ہر جگہ ملحوظ ِ خاطر رکھا ہے یہ ایک ایسی خوبی ہے کہ دیگرتراجم میں بالکل ہی ناپیدہے ؎
قرآنِ مجیدکے جتنے بھی تراجم آج تک اردوزبان میں ہوئے ہیں ان سب کو پڑھ ڈالیں سوائے کنزالایمان کے ہر ترجمہ میں یہ بات نظر آئے گی الفاظ گو کہ مختلف ہوں گے مگر مفہوم ایک ہی ہوگا کہ ووجد ک ضالا فھد ی اور تمہیں گمراہ پایا تو ہدایت دی۔
افسوس ان مترجمین پر بھی ہوتا ہے کہ بوقتِ ترجمہ اپنا ذہن اتنا سابھی استعمال نہ کرسکے کہ یہ ترجمہ ہم کس کے لیے کررہے ہیں؟ کیا وہ نعوذ باللہ گمراہ تھے، اگر گمراہ تھے تو پھر نبی کیوں کربنے۔۔۔۔۔کیا قرآن مجید ان کے بارے میں یہ اعلان نہیں کررہا ہے کہ ما ضل صاحبکم وما غویٰ، تمہارے ساتھی محمد مصطفیٰﷺ گمراہ نہیں ہیں۔۔۔۔۔
مگردیکھئےکہ یہاں بھی مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی ہی ہیں کہ ان کا ترجمہ ہی مقامِ مصطفیٰ کی روشنی میں کیا گیا ہے اور حاملِ مقام ِمحمود ﷺ کی عظمت و رفعت کے مطابق ہے کہ لکھتے ہیں۔اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔
(آئینۂ امام احمد رضاص۶۲تا۶۶ملحظاًمطبوعہ ادارہ افکارِ حق بائسی پورنیہ بہار)
یوں ہی فاضل مضمون نگارنے بسم اللہ شریف، واستغفر لذنبک اور آیت والنجم اذا ھویٰ، ووجد ک عائلا فاغنی، کے تراجم کی خوبیاں بیان کی ہیں اور کھل کر محاسنِ کنزالایمان کا اعتراف کیا ہے آخری پیراگراف میں فاضل موصوف لکھتے ہیں۔
چنانچہ باوجود ان کے حنفی ہونے کے ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ترجمے میں وہ چیز پیش کی ہے جس کی نظیر علمائے اہل حدیث کے ہاں بھی نہیں ملتی ہے۔ کنزالایمان واقعی ایک ایسا ترجمۂ قرآنِ مجید ہے جو کہ ہر ایک متبع رسول( ﷺ )کو پڑھنا چاہیے میں یہ بات بر ملا کہوں گا کہ کنزالایمان کا مطالعہ ہراس شخص کے حق میں مفید ہے جو کہ جنابِ رسالت مآبﷺ کا صحیح معنوں میں اطاعت گزار ہے۔(ایضاًص۶۸)
ترجمۂ اعلی حضرت کے محاسن و فضائل کا ذکر اِس وقت مقصود نہیں، اِس موضوع پر کثیر مقالات و کتب کی اشاعت عمل میں آچکی ہے خود ناچیز کا بھی ارادہ ہے محاسنِ کنزالایمان پر روشنی ڈالنے کا جس میں ان شاء اللہ کچھ جدید گوشوں کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے گی، سرِدست مذکورہ بالا دو فاضل کے تاثرات محض اس لیے سپرد قلم کر دیئے گئے ہیں تاکہ قرآنِ عظیم کے ترجمۂ صحیح کنزلایمان کی اہمیت پر بطورِ خاص توجہ دی جائے کہ یقیناً یہ ترجمۂ قرآن امام احمد رضا کا امت پر عظیم احسان ہے، جو بہت سی ضخیم تفاسیر پر بھی بھاری ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے یہ بات اظہر من الشمس ہوتی جاتی ہے کہ یقیناً دنیا کی جتنی زبانوں میں بھی قرآن کا ترجمہ ہوا ہے اور غالباً اردو میں سب سے زیادہ ہوا ہے، سب پر امام احمد رضا کا ترجمہ کنزالایمان فوقیت و فضیلت رکھتا ہے اس کے جہاں اپنے مداح ہیں غیر بھی اس کی خوبیوں کے معترف ہیں، اس کی اہمیت اس سے بھی ظاہر ہے کہ اس کو دنیا کی متعدد زبانوں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ جب کہ کسی دوسرے ترجمۂ قرآن کو شاید ہی یہ مقام حاصل ہوا ہو، اسے تین فاضل نے اپنے اپنے انداز سے انگریزی میں منتقل کیا ہے دو چھپ چکے ہیں تیسرا زیرِ طبع ہے، کئی ہندی دانوں نے اسے ہندی میں منتقل کیا ہے، بنگلہ ،گجراتی، سندھی، ڈچ زبانوں میں بھی اس کے تراجم ہوچکے ہیں اور کئی ایک زبانوں میں سلسلہ جاری ہے غالباً فارسی میں بھی کوئی فاضل ترجمے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، گویا کہ امام احمد رضا کا ترجمۂ قرآن کنزالایمان صرف اردو ہی میں قرآن کا ترجمہ نہیں بلکہ دوسری بہت سی زبانوں میں بھی قرآن کی ترجمانی کا بہترین ذریعہ ہے اب کسی بھی زبان میں قرآن کے معنی و مفہوم کو منتقل کرنے کے لیے براہِ راست کنزالایمان کو سامنے رکھا جارہا ہے اور اسی ترجمہ کو بنیاد بنایا جارہا ہے اب تک اس کے محاسن پر پچاس سے زائد مقالات و کتب لکھی جاچکی ہیں۔ پھر بھی اس کے محاسن کا احاطہ نہیں کیا جاسکا، جو بھی قلم اُٹھاتا ہے کچھ نہ کچھ نئی خوبیاں سامنے لاتا ہے، غرضیکہ ایک طرف قرآن تمام کتابوں پر فضیلت رکھتا ہے تو دوسری طرف کنزالایمان بھی تمام تراجمِ قرآن پر فوقیت رکھتا ہے، اور اس حسین ترین و صحیح ترین ترجمے کی خدمت سے ایک طرف سیدنا امام احمد رضا قدس سرہٗ عہدہ برآ ہوتے ہیں تو املاکی خدمت انجام دینے میں صدر الشریعہ مولانا شاہ محمد امجد علی اعظمی قدس سرہٗ اپنا ثانی نہیں رکھتے بلکہ یہ ترجمۂ قرآن سچ پوچھئے تو حضرت صدر الشریعہ ہی کی تحریک و تحریض کا نتیجہ ہے واقعے کی تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے۔
حضرت صدر الشریعہ مولانا شاہ محمد امجد علی اعظمی قدس سرہٗ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہٗ سے ترجمۂ قرآن کی گزارش کی اور قوم کو اس کی جس قدر ضرورت ہے، اس کو ظاہر کرتے ہوئےاس کے لیے اصرار کیا، اعلیٰ حضرت نے وعدہ تو کرلیا لیکن کثرتِ مشاغل کے باعث تاخیر ہوتی گئی، تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا۔ ترجمہ کے لیے مستقل وقت نکالنا مشکل ہے اس لیے آپ رات کو سونے کے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آجایا کریں تومیں املا کرا دوں، چنانچہ حضرت صدر الشریعہ ایک دن کاغذ قلم اور دوات لے کر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے اورعرض کیا،حضرت ترجمہ شروع ہوجائے، چنانچہ اسی وقت ترجمہ شروع کرادیا، ترجمہ کا طریقہ ابتداءً یہ تھا کہ ایک آیت کا ترجمہ ہوتا اس کے بعد اس کی تفاسیر سے مطابقت ہوتی اور لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ بغیر کسی کتاب کے مطالعہ و تیاری کے ایسا برجستہ اور مناسب ترجمہ تمام تفاسیر کے مطابق یا اکثر کے مطابق کیسے ہوجاتا ہے، یقیناً یہ اللہ کا بڑا فضل و احسان ہے اعلیٰ حضرت پر ۔اس کام میں جب دیر لگنے لگی تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا ایسا نہیں بلکہ ایک رکوع کا پورا ترجمہ کرتا ہوں اس کو بعد میں آپ لوگ تفاسیر سے ملالیا کریں، چنانچہ حضرت صدر الشریعہ اس کام میں لگ گئے پہلے ترجمہ لکھتے پھر تفاسیر سے ملاتے، جس کی وجہ سے اکثر بارہ بجے کبھی کبھی دو بجے رات گئے اپنی رہائش گاہ پر واپس ہوتے، غرض اس طرح حضرت صدر الشریعہ نے اعلیٰ حضرت سے قرآن پاک کا ترجمہ مکمل کرالیا۔ (ماہنامہ فیض الرسو ل مارچ ۱۹۶۶ء و سوانح اعلیٰ حضرت)
یہ عظیم الشان اور اہم کام دن یا رات کے قلیل عرصے میں سال ۱۳۳۰ھ و ۱۳۳۱ھ کے درمیانی چند ماہ میں پایۂ تکمیل کو پہنچا، کنزالایمان کاجو مخطوطہ (قلمی نسخہ)مولانا قاری احمد جمال اعظمی مصباحی شیخ التجوید جامعہ نعیمیہ مراد آباد کی معرفت نہایت خستہ حالت میں دستیاب ہوا ہے اس کے شروع اور درمیان سے بعض اوراق غائب ہیں، شروع صفحۂ سات سورہ بقرہ رکوع نمبر۱سے ہے اس کے پہلےکے صفحات دستیاب نہیں،یہ مخطوطہ خاص صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے ترجمے کے کل صفحات ۳۲۵ہیں اور سائز پیج تیس آٹھ انچ ہے جا بجا حاشیہ پر تاریخ بھی درج ہے، سورۂ بقرہ شریف کے اختتام پر تاریخ ہے۔
شبِ بست ونہم (۲۹) جمادی الآخرہ قبلِ عشاباختتام رسیدبفضلہٖ تعالیٰ
سن نہیں دیاہواہےغالباً۱۳۳۰ھ ہے کہ یہی تاریخی نام کنزالایمان سے نکلتا ہے جب کہ ترجمے کا اختتام ۱۳۳۱ھ میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ نام آغاز ِترجمہ کے حساب سے ہے۔
سورہ آل عمران کے اختتام پر ہے۔شبِ پنجم رجب۔
جس سے ظاہر ہوتاہے پوری سورۂ آل عمران کا ترجمہ جو ۱۵صفحا ت پر ہے پانچ دنوں یا اس سے کم میں اختتام کو پہنچا، اس سے ترجمے کی رفتار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یومیہ پانچ صفحات ہوتے، واضح رہے کہ مسودے پر صرف ترجمہ ہی مرقوم ہے اور سطریں مختلف ہیں کسی صفحے پر۱۶،کسی پر۱۷،کسی پر۲۱ہرسورہ کے شروع میں بسم اللہ شریف کا ترجمہ بھی لکھا ہے جو اس طرح ہے۔ اللہ کے نام سے شروع جوبہت مہربان رحم والا بعض مقامات پر ہے بڑا مہربان، سورۂ الحاقہ پارہ ۲۹ سے ترجمہ یوں ہے۔ جو نہایت مہربان رحم والا۔
سورۂ نسا کے اختتام پر یہ تاریخ ہے جب کہ اس کے کل ۱۷؍صفحات ہیں، شبِ دہم رجب قبل العشاء۱۳۳۰ ھ۔
گویا یہ بھی پانچ ایام میں مکمل ہوا۔
سورۂ انعام کے اختتام کی تاریخ ہے۱۶رجبگویامائدہ اور انعام دونوں سورتیں صرف ۶ یوم میں ترجمے سے گزرے جب کہ ان کے کل صفحات ۲۴ہیں۔
سورۂ اعراف کے اختتام پر۲۰رجبکی تاریخ درج ہے، سورۂ یونس کے اختتام پر۲۵ رجب کی تاریخ درج ہے سورۂ ابراہیم پارہ ۱۳کے اختتام پر۸شعباندرج ہے سورۂ حجر پارہ ۱۴کےاختتام پر۹شعبانہے۔سورۂ نحل پارہ۱۴پر۱۶شعبان ہے۔
اندازہ ہے کہ جمادی الآخرہ کی کسی تاریخ کو ترجمہ شروع ہوا اور ۱۶شعبان تک ڈھائی مہینے میں مکمل ۱۴پارے ہوگئے۔
سورۂ اسراء(یعنی بنی اسرائیل)پر۱۹شعباندرج ہے۔
سورۂ کہف کے اختتام پر کوئی تاریخ نہیں البتہ تین رکوع قبل ختم ہونے کے۲۱شعبان درج ہے، اس کے بعد سورۂ مریم مکمل نہیں ہے اور چالیس صفحات غائب ہیں۔
پھر سورۂ نحل پارہ ۲۰کےاختتام سے ایک رکوع قبلشبِ۲؍جمادی الاول۳۱ھ تک ۹ مہینے کام بند رہا کسی اہم ضرورت یا علالت کے پیش نظر،پھر۹ماہ بعد۲جمادی الآخرہکے قریب شروع ہوا، یا جمادی الاولیٰ کے اواخر میں۔
سورۂ سباپارہ۲۲کےاختتام پرشبِ۷جمادی الآخرہدرج ہے۔
سورہ ٔیٰسین شریف کے اختتام پر ۸؍جمادی الآخرہ کی تاریخ درج ہے گویا سورۂ فاطر و یٰسین کے ترجمے جو ساڑھے پانچ صفحات پر مشتمل ہیں ایک دن میں تحریر کئے گئے۔
سورۂ صافات پارہ۲۳کےاختتام پر ،شبِ ۹جمادی الآخرہدرج ہے۔
سورۂ حدید پارہ ۲۷کے آخرمیںشبِ ۲۰جمادی الآخرہدرج ہے۔
سورۂ حشر پارہ ۲۸کے آخرمیںشبِ ۲۱جمادی الآخرہدرج ہے۔
سورۂ تحریم پارہ۲۸کااختتامیہشبِ ۲۲جمادی الآخرہہے۔
سورۂ قلم پارہ ۲۹کاآخریوں ہے۔شبِ ۲۳جمادی الآخرہ۔
سورۂ جن پارہ ۲۹ کے آخر میں ہے۔شبِ ۲۴جمادی الآخرہ۔
سورۂ دہر پارہ ۲۹کےآخرمیں تاریخ ہے۔شبِ ۲۵جمادی الآخرہ،۴صفحات۔
سورۂ تطفیف پارہ ۳۰ کی تاریخِ اختتامشبِ ۲۶جمادی الآخرہ،۵صفحات۔
سورۂ والتین کے آخرمیں ہے۔شبِ ۲۷جمادی الآخرہ۴صفحات۔
مسودےکے صفحات ۳۲۵ہیں آخری صفحہ پر حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کا دستخط اس طرح ہے۔ شبِ۲۸؍جمادی الآخرہ۱۳۳۱ ھ
کاتب ،فقیربارگاہ رضوی،ابوالعلاامجدعلی اعظمی عفی عنہ
بہت سی سورتوں کےاختتام پر تاریخ درج نہیں، بلکہ بعض سورتوں کے درمیان میں تاریخیں درج ہیں۔
ابتدا اور انتہا کی تاریخوں سے اندازہ لگتاہے کہ ترجمۂ کنزالایمان کی تحریر کا آغاز جمادی الآخرہ ۱۳۳۰ھ میں ہوااوراختتام۲۸؍جمادی الآخرہ۱۳۳۱ھ میں ہوا،لیکن کام مسلسل نہیں ہوا ہے۔بعض صفحات مسودے کے درمیان سے غائب بھی ہیں جن کی تاریخیں معلوم کرنا مشکل ہے، البتہ اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ یہ نادر و نایاب اور مہتمم بالشان ترجمۂ قرآن موسوم بہ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن سال کے چند مہینوں میں مکمل ہوا، پورا ایک سال بھی صرف نہ ہوا، اور وہ بھی رات میں عشاء کے بعد سوائے چند اُن ایام کے جن کی صراحت ہے کہ ان میں قبل عشاء کام ہوا، اندازہ ہے کہ یہ کام چار پانچ مہینوں میں انجام کو پہنچا غالباً اتنی قلیل مدت میں قرآن کا ایسا عظیم الشان ترجمہ بھی اعلیٰ حضرت کی خصوصیات سے ہے۔
حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ مسودہ اصل وہی مسودہ معلوم ہوتا ہے جسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے املا کرایا، کیوں کہ متعدد مقامات پر خاص سطر ہی میں ایک ترجمہ لکھا ہوا ہے پھر اس کو قلم زد کرکے آگے دوسرا ترجمہ ہے، گویا ایک ترجمہ لکھوا کراس پر غور فرماتے پھر ضرورت محسوس ہوتی تو قلم زد کر کے دوسرا لکھواتے پھر آگے کی آیات کا ترجمہ ہوتا۔ ہاں بعض مقامات وہ بھی ہیں جن کو قلم زد کر کے دو سطروں کے درمیان کی جگہ یا حاشیہ پر(ص)کا نشان لگا کر دوسرا ترجمہ مرقوم ہے۔ لیکن ایسے مقامات نسبتًہ کم ہیں، غالباً یہ نظر ِثانی کے وقت ہوا ہوگا۔
بعض آیات کے ترجمے دو دو ہیں، میں نے ایسے مکرر تراجم کو رضوی کتاب گھر بیونڈی سے شائع ہونےوالےنسخۂ کنزالایمان کے حاشیہ پر مکرر لکھ کر حاشیہ میں شامل کردیا ہے۔ جب کہ سابقہ مطبوعہ نسخوں میں صرف ایک جگہ مکرر ترجمہ قوسین میں اصل ترجمہ کے ساتھ ہی درج ہے اور وہ آیت ہےالحق من ربک۔(بقرہ۱۴۷)
اس مسودےمیں درمیانِ سطور جگہ جگہ موٹے قلم سے صفحات لگے ہوئے ہیں، جیسے پہلے کے کاتب درمیانِ کتابت جب کتاب کا صفحہ پورا ہوتا ہے تو مسودے میں اس جگہ سطروں کے بیچ صفحہ ڈال دیا کرتے تھے اب یہ رواج کم ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اسی خاص نسخہ سے اولین مرتبہ کتابت و طباعت کا بھی کام لیا گیا ہے، کاتب نے سورۂ اخلاص پر۶۰۹ صفحہ لگایا ہے جب کہ تین سورتیں اس کے بعد ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ جو کنز الایمان کی اشاعت ہوئی ہے اس کے صفحات۶۱۰تھے،ایساکوئی مطبوعہ نسخہ اب تک میری نظر سے نہیں گزرا ہے، البتہ سنا ہے کہ پہلے پہل صرف ترجمہ قرآن بغیر تفسیر کے چھپا تھا، غالباً یہ اسی نسخہ کا صفحہ ہوگا، کیوں کہ ۶۱۰صفحات میں تفسیر کے ساتھ ترجمہ و متنِ قرآن کو سمونا مشکل ہے، خصوصاً اس وقت جب کہ تمام کام لیتھو سسٹم سے ہوتا تھا، قرآنِ حکیم کے اردو تراجم مصنفہ۔۔۔ کنزالایمان کا پہلا ایڈیشن مراد آباد۔۔۔۔۔کاغذ پر طبع تھا اور چار سو اٹھاسی۔۔۔۔۔کوئی نسخہ بھی اب تک میر ی نظر سے نہیں گزرا۔ قرآن صرف ترجمہ کی کوئی اولین اشاعت ہو۔
اب ذیل میں بعض وہ مقامات پیش کئے جاتے ہیں جہاں پہلے ترجمہ کچھ تھا بعد میں تبدیل کر کے دوسرا لکھا گیا تاکہ اس سے امام احمد رضا کے فکری ارتقاء کا اندازہ لگایا جا سکے۔
سورہ |
آیت |
ترجمۂ اول (غیرمطبوع وقلم زدہ) |
ترجمہ ثانی مطبوعہ |
آل عمران |
۴۳ |
اے میرے اپنے رب کے لیے سجدہ کر اور اس کے حضور کے ادب سے کھڑی ہو |
اے میرے اپنے رب کے(حضور ادب سے کھڑی ہو اور اس کے لیے سجدہ کر) |
آل عمران |
۴۴ |
جب وہ اپنی قلمیں ڈالتے تھے |
جب وہ اپنی (قلموں سے قرعہ ڈالتے تھے) |
نساء |
۷۴ |
تو اسے چاہیے کہ اللہ کی راہ میں ان سے لڑے جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی مول لیتے ہیں |
انہیں اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے جو دنیا کی زندگی بیچ کر آخرت لیتے ہیں |
نساء |
۸۳ |
جان لیتے یہ جو بات کھود کرنکال لیتے ہیں |
جان لیتےیہ جو بات (میں کاوش کرتے ہیں) |
نساء |
۱۵۵ |
تو یقین نہیں لاتے(رکھتے)مگر تھوڑا |
تو ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے |
مائدہ |
۳۱ |
اوراپنی کی طرف پلٹ نہ جاؤ کہ زیاں کی طرف پلٹوگے |
اور پیچھے نہ پلٹو کہ نقصان پر پلٹو گے |
انعام |
۱۴۶ |
یاوہ بے حکمی کا جانور، جوغیرِخداکا نام لے کر ذبح کیا گیا، |
یاوہ بے حکمی کا جانور(جس کے ذبح میں غیرِخدا کا نام پکارا گیا) |
انعام |
۲۷ |
اے ایمان والو! اللہ و رسول سے خیانت نہ کرو |
اے ایمان والو! اللہ ورسول سے دغا نہ کرو |
انعام |
۲۷ |
اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو جان کر |
اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت |
انعام |
۲۷ |
تو اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے |
تو اللہ ان کے (کام دیکھ رہا ہے) |
توبہ |
۱ |
بیزاری اللہ اور رسول کی |
بیزاری کا حکم سناتا ہے اللہ اور رسول کی طرف سے |
ابراہیم |
۱۲ |
اور ہم ضرور صبر کریں گے تمہاری ایذا پر |
اور تم جو ہمیں ستا رہے ہو ہم ضرور اس پر صبر کریں گے |
نمل |
۴۴ |
اس محل میں داخل ہو |
اس سے کہا گیا(صحن میں آ) |
صافات |
۴۸ |
ان کے پاس نیچی نگاہ والیاں بڑی آنکھ والیاں |
ان کے پاس ہیں(جو شوہروں کے سوا دوسری طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں گی بڑی آنکھ والیاں) |
سورۃ الشمس میں وقد خاب من دسھا کا ترجمہ صرف اس قدر ہےاورنقصان پایا آگے جگہ چھوٹی ہوئی ہے شاید بعد میں لکھنا تھا کسی وجہ سے نشست بدل گئی اور یہ ناقص رہ گیا۔ مراد آباد سے حضرت صدر الافاضل نے جو نسخہ مع تفسیر طبع کرایا ہے اس میں اس آیت کا ترجمہ اس طرح ہے۔ اور نا مراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا۔(سورۂ شمس پارہ 30 آیت10)
سورۂ مجادلہ پارہ ۲۸آیت نمبر۱۲۔ یاایھاالذ ین اٰمنوالخاے ایمان والو !جب تم کوئی بات رسول سے آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض کے پہلے کچھ صدقہ دے لو اس پر مسودے میں ایک مختصر حاشیہ ہے۔ یہ اس کی اصل ہے جو مزاراتِ اولیاء پر تصدق کے لیے شیرینی وغیرہ لے جاتے ہیں۔
اس حاشیہ کو حضرت مفسرِ قرآن مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر خزائن العرفان میں حضور اعلیٰ حضرت کے حوالے سے شامل فرمالیا ہے۔
سورۂ رحمٰن آیت۳۷،۳۵پربھی دو حاشیے ہیں، جو تفسیرِ خزائن العرفان میں شامل ہیں۔
سورۂ مائدہ آیت۵۴ ولایخافون لومۃ لائم کا مطبوعہ ترجمہ ہے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے اس کا مسودے میں حاشیہ پر دوسرا ترجمہ بھی مرقوم ہے اور کسی کے اولہنے سے نہ ڈریں گے یہ دوسرا ترجمہ پہلے کو قلم زد کئے بغیر نسخہ کی علامت ن کے ساتھ ہے۔ یہ دوسرا ترجمہ پہلے سے زیادہ مختصر اور ٹھیٹ محاورے میں ہے، میں نے تصحیح شدہ جدید ابطع نسخہ میں اس کو شامل کردیا ہے اور حاشیے پر علیٰحدہ رکھا ہے۔
سورۂ اعراف(پارہ۸)کی ابتدائی آیاتِ کتاب انزل الیکالخ کے ترجمہ اے محبوب ایک کتاب تمہاری طرف اتاری گئی تو تمہارا جی اس سے نہ رُکے پر ایک مختصر حاشیہ بھی بعینہٖ طبع ہونے سے رہ گیا ہے البتہ اس کا مفہوم خزائن العرفان میں موجود ہے۔
ایک ضروری وضاحت: ترجمۂ اعلیٰ حضرت کے مخطوطہ اور اس کے قدیم مطبوعہ نسخوں کو دیکھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ حضرت یا صدر الافاضل قدس سرہما نے مضامینِ قرآن کی کوئی فہرست نہیں بنائی تھی ،اور نہ قدیم نسخوں میں کوئی فہرستِ مضامین چھپی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے تقسیمِ ہند کے بعد سب سے پہلے ترجمۂ اعلیٰ حضرت کو کتب خانہ اشاعت الاسلام دہلی نے چھاپنا شروع کیا تو اس کے مطبوعہ نسخوں میں بھی فہرست نہیں ہوتی تھی، کچھ دنوں کے بعد کسی کے مشورے پر یا کسی مصلحت کی وجہ سے اس کتب خانے نے ایک فہرستِ مضامین شامل کردی اور جب دیگر اداروں نے ترجمۂ اعلیٰ حضرت شائع کرنا شروع کیا تو پھر سب نے اس کی تقلید کی اور وہی فہرست تقریباً دہلی کے تمام ناشرین نے اس کو شائع کر ڈالا، فہرست کی پیشانی پر یا اس کے آخر میں مرتب کی حیثیت سے کسی کا نام بھی نہیں ، اس لیے آج کل عام طور سے یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ یہ فہرست القرآن المجید، اعلیٰ حضرت کی ہے یا صدر الافاضل کی، حالانکہ دونوں بزرگوں کا اس فہرست کی ترتیب و اشاعت سے کوئی تعلق نہیں، اور چونکہ اس فہرست میں بعض عنوانات کے تحت جو آیات دی گئی ہیں ان کا بظاہر عنوان سے تعلق معلوم نہیں ہوتا اور نہ ہی تفسیر ی طور پران آیات کی عنوان سے مطابقت ہوپاتی ہے۔ اس لیے اس کوبہانہ بناکر بعض معاندین نے اعلیٰ حضرت پر اعتراض کرنا شروع کردیا ہے حتیٰ کہ بعض مخالفین نے اس کے خلاف مضامین بھی چھاپ ڈالے ہیں اس کی وضاحت ضروری تھی، اور میری تمام ناشرینِ قرآن سے گزارش ہے کہ ترجمہ اعلیٰ حضرت و تفسیر صدر الافاضل کے ساتھ اپنی طرف سے کوئی فہرستِ مضامین شامل نہ کریں کہ اعلیٰ حضرت یا صدر الافاضل موردِ الزام ٹھہریں اور اگر عوام کی افادیت کے پیش نظر کوئی فہرست شامل ہی کرنی ہے تو اسے مستندو معتند علمائے اہلسنّت، بالخصوص بریلی شریف آستانہ اعلیٰ حضرت جامعہ نعیمیہ مراد آباد یا الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ کے معتمد علماء کو دکھالیں اور مرتب کی صراحت بھی فہرست کی پیشانی پر یا آخر میں کردیں تب شائع کریں، تاکہ اضافی چیزوں میں تسامح کے واقع ہو جانے کی وجہ سے سرکار اعلیٰ حضرت یا حضور صدر الافاضل کے دامن پر دھبہ نہ آئے۔
غرض حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کا بڑا احسان ہے کہ سرکار اعلیٰ حضرت سے اصرار کر کے قومِ مسلم کی بھلائی کے لیے قرآنِ عظیم کا اردو میں ترجمہ کر ڈالا، ورنہ قرآن فہمی میں اردو داں طبقے کو کتنی دشواری ہوتی محتاج بیان نہیں خصوصاً جب کہ مارکیٹ میں متعدد غلط ترجمے رواج پا چکے تھے، یقیناً حضور صدر الشریعہ اور سرکار اعلیٰ حضرت کے اس عظیم احسان سے امتِ مسلمہ رہتی دنیا تک عہدہ برا ہوسکتی ہے۔
راقمِ حروف نے کنزالایمان کے مخطوطے اور قدیم مطبوعہ نسخوں کی مدد سے کنزالایمان کی حتی المقدور تصحیح کر ڈالی ہے کیوں کہ ناشرین کی بے توجہی اور تصحیح میں غفلت کی وجہ سے کنزالایمان میں کتابت کی بے شمار غلطیاں در آئی تھیں، الحمد للہ تصحیح شدہ نسخے فیاض الحسن بک سیلر نئی سڑک کان پور پر و رضوی کتاب گھر بھیونڈی دہلی سے شائع ہو رہے ہیں۔ و الحمد للہ اولاً و آخراً۔