کنز الایمان جمالیاتی ادب کا شاہکار
کنز الایمان جمالیاتی ادب کا شاہکار
تحریر: علامہ ارشد القادری
آج ہم اردوترجمۂ قرآن کنز الایمان کے محاسن کاتین رخ سے جائزہ لینا چاہتے ہیں تاکہ یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے کہ فکر، تعبیر اور زبان کے رخ سے دوسرے اردو تراجم کے درمیان کنز الایمان کا مقام امتیاز و اعتبار کیا ہے۔
پہلارخ۔۔۔۔۔ ترجمے میں قرآن کے نصوص و مضمرات کی رعایت
دوسرارخ۔۔۔۔ ترجمے میں اختصار اور جامعیت
تیسرارخ۔۔۔۔ شگفتہ زبان
اس مختصرتمہیدکےبعداب آئیےترجمےمیں قرآن کےنصوص ومضمرات کی رعایت کے رُخ سے ہم کنز الایمان کا ایک علمی اور فکری جائزہ لیں۔ اس عنوان پر نمونے کے طور پر ہم کنز الایمان سے صرف پانچ مقامات کی نشاندہی کریں گے۔ اسی کے ساتھ کنز الایمان کا دوسرے تراجم کے ساتھ ایک تقابلی خاکہ بھی پیش کریں گے تاکہ کنز الایمان کے فاضل مترجم کی فکری بصیرت، فنِ تفسیر میں رسوخ، ذہنی استحضار اور قرآن کے نصوص و مضمرات اوراسلوبِ بیان پر گہرا مطالعہ اچھی طرح واضح ہوجائے۔
پھلا رخ:
ترجمےمیں قرآن کےنصوص ومضمرات کی رعایت
پہلا مقام:
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر۶ملاحظہ فرمائیں۔مولیٰ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآ ءٌ عَلَیْہِمْ ءَاَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
اس آیت کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی نے یوں کیا ہے:
بے شک جو کافر ہوچکے ہوں برابر ہے ان کے حق میں خواہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لاویں گے۔
مولانا محمود الحسن صاحب نے ترجمہ یوں کیا ہے:
بے شک جو لوگ کافر ہوچکے ہیں، برابر ہے ان کو ڈرائیےیا نہ ڈرائیے۔وہ ایمان نہ لائیں گے۔
مولانا فتح محمد جالندھری نے ترجمہ اس طرح کیا ہے:
جو لوگ کافر ہیں ، انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لانے کے۔
ان سارے ترجموں کاحاصل یہ ہے کہ کافروں تک کلمۂ حق کی دعوت پہنچائی جائے یا نہ پہنچائی جائے وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ان ترجموں پر کوئی بھی اسلام کامعاند دو طرح کا اعتراض کرسکتا ہے۔
پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ جب کافروں کے لئے نصیحت و انذار بے نتیجہ ہے تو پھر اسلام میں ایک تبلیغی نظام کے قیام کا کیامقصد ہے؟ اور جب وہ حسبِ فرمانِ خداوندی ایمان ہی نہیں لائیں گے تو کافروں میں تبلیغ و دعوت کی اب ضرورت کیا ہے؟
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں لاکھوں کافروں کو دعوت و انذار اور معجزات و کرامات کے ذریعہ جو ایمان لاتے دیکھا گیا ہے، تو ان واقعات کا تعلق لَا یُؤْمِنُوْنَ کے ساتھ کیونکر جوڑا جا سکتا ہے۔ کیا معاذ اللہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کافروں نے ایمان لاکر آیت کی تکذیب کردی۔
معزز حضرات! یہ دونوں اعتراض یہاں صرف اس لئے وارد ہوئے کہ مترجمین نے قرآنِ حکیم کے مضمرات کو نظر انداز کردیا۔ اگر انہوں نےایمان نہ لانےوالےکافروں کےگروہ کوکسی لفظ سےممیّزکردیاہوتاتوآیت کی مرادبالکل واضح ہوجاتی۔یہ ذمہ داری بہرحال انہی حضرات کی تھی کہ قرآن کےاسلوبِ بیان اوراصولِ مضمرات کی روشنی میں یہ جاننےکی کوشش کرتےکہ لَا یُؤْمِنُوْنَ کا تعلق کس طرح کےکافروں کےگروہ سےہے۔
اتنی تفصیل کےبعداب آئیے امام احمد رضا بریلوی کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے اور دیکھئے کہ انہوں نے ترجمے میں قرآن کے نصوص ومضمرات کو کس طرح ملحوظ رکھا ہے۔ موصوف کا ترجمہ یہ ہے۔
بےشک وہ جن کی قسمت میں کفرہےانہیں برابرہےچاہےتم انہیں ڈراؤیا نہ ڈراؤ،وہ ایمان لانےکےنہیں۔
انصاف کیجئے!صرف ایک لفظ نے قرآن کی مراد کو اس طرح واضح کردیا کہ اب کسی بھی معاند کے لئے اعتراض کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ اسلام کاتبلیغی نظام بھی اپنی جگہ برقرار اور با مقصد رہا، دعوت وتبلیغ کا دروازہ بھی بند نہ ہوا اور جو کافر ایمان لےآئے۔ انہیں لَایُؤمِنُونَ کی تکذیب کے لئے پیش کئے جانے کے امکانات کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔ کیونکہ ایمان لانے کے بعد ان کے حق میں یہ بات متحقق ہوگئی کہ ان کی قسمت میں کفر نہیں تھا اور دعوت وتبلیغ کا دروازہ یوں کھلا رہا کہ داعی کو کسی بھی کافر کی قسمت کا حال معلوم نہیں، اس لئے ہر کافر تک کلمۂ حق کی دعوت اس نے اس امید پر پہنچائی کہ شاید یہ ایمان قبول کرلے، کیونکہ داعی کے ذمہ صرف دعوت و ابلاغ ہے وہ نتیجے کا ذمہ دار نہیں۔
اب اس مقام پرآپ ہم سےایک سوال کرسکتےہیں کہ کنز الایمان کےمصنف نےقسمت کالفظ کہاں سے نکالا ہے، جب کہ آیت میں کوئی لفظ اس مفہوم پر دلالت نہیں کرتا۔ میں عرض کروں گا کہ اگرچہ لفظاً کوئی دلالت نہیں ہے لیکن اس کے سیاق میں یہ مفہوم ضرور چھپا ہواہے۔کیونکہ اس آیت کےبعد ہی خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ کی آیت آرہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی ہے۔ یہاںمہر کرنےکا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ان سے سمجھنے اور سننے کی قوت سلب کرلی ہے، بلکہ یہ ان کی اس حالت کی ایک تعبیر ہے کہ کفر ان کے دلوں میں اس طرح راسخ ہوگیاہے کہ اب ان کے اندر حق سننے اور حق کے سمجھنے کی استعداد ہی نہیں رہی اور دعوتِ حق کے انکار میں ان کے دل اتنے سخت ہو گئے ہیں کہ ہدایت کے تمام راستے انہوں نے اپنے اوپر بند کرلئے۔ اس طرح اب کفر ان کا مقدر بن گیا۔ اسی مفہوم کو کنز الایمان کے مصنف نے اس فقرے میں ادا کیا کہجن کی قسمت میں کفر ہے، وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔
دوسرا مقام:
تحویلِ قبلہ کےسلسلےمیں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر143ملاحظہ فرمائیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ
اس آیت کاترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی نے یہ کیا ہے :
اورجس (سمت)قبلہ پرآپ رہ چکےہیں(یعنی بیت المقدس)وہ تومحض اس لئےتھاکہ ہم کو معلوم ہوجائےکہ کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااتباع کرتاہےاورکون پیچھےہٹ جاتا ہے۔
اورمولانامحمودالحسن کاترجمہ یہ ہے:
اور نہیں مقرر کیا تھاہم نے وہ قبلہ جس پر تو پہلے تھا مگر اس واسطے کہ معلوم کریں کہ کون تابع رہے گا رسول کا اور کون پھرجائےگا الٹے پاؤں
مندرجہ بالا دونوں ترجموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کو معاذ اللہ مستقبل کا علم نہیں ہے، کیونکہ ان ترجموں سےنہایت صراحت کے ساتھ یہ مفہوم نکلتا ہےکہ بیت المقدس کو قبلہ بنانے سے پہلےخدا کوعلم نہیں تھا کہ قبلہ بنائےجانےکےبعدکون رسول کی پیروی کرےگااور کون منحرف ہوجائےگا۔حالانکہ یہ سب کاعقیدہ ہےکہ عالم الغیب ہونےکی حیثیت سےخدا کو ہراس بات کاعلم ہےجواب تک واقع نہیں ہوئی اوراسی کا نام علمِ غیب ہے۔
حضرات !ان ترجموں پر یہ اعتراض اس لئے وارد ہوا کہ مترجمین نے لِنَعْلَمَ کا ترجمہ کرتے ہوئے اس نکتے کی طرف دھیان نہیں دیا کہ خداکےلئےکسی واقعہ کاعلم اس کےواقع ہونے پر موقوف نہیں ہے۔ پیروی کرنے والوں اور منحرف ہونے والوں کا علم اس وقت بھی تھا جب کہ بیت المقدس قبلہ نہیں بنا تھا۔
اتنی تفصیل کے بعد اب آپ امام احمد رضا فاضل بریلوی کا ایمان افروز ترجمہ ملاحظہ فرمایئے اور غور فرمائیے کہ خدا کے عالمِ غیب ہونےکی صفت کو انہوں نے کس طرح ملحوظ رکھا ہے۔ موصوف کا ترجمہ یہ ہے:
اے محبوب! تم پہلےجس قبلہ پر تھے،وہ اسی لئے ہم نےمقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھرتا ہے۔
انصاف فرمایئے! صرف ایک لفظ نے ترجمے کو کتنا مؤدب اور باشرع بنادیا ہے۔ اس ترجمے کا حاصل یہ ہے کہ علم تو خدا کو پہلے ہی سے تھے کہ قبلہ بن جانے کے بعد کون رسول کی پیروی کرے گا اور کون الٹے پاؤں پھر جائے گا،لیکن قبلہ بن جانے کے بعد وہ دیکھنا بھی چاہتا ہے کہ کون تابعداری کرتاہے اور کون منحرف ہوتا ہے۔ یوں بھی کسی واقعہ کو دیکھنے کا مفہوم، واقعہ کے واقع ہونے پر ہی صادق آتا ہے، لیکن کسی واقعہ کے ساتھ علم کا تعلق اس کے واقع ہونے سے پہلے بھی ہوسکتا ہے۔
یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ سارے مترجمین میں مولانا مودودی وہ تنہا مترجم ہیں، جنہوں نےاس آیت کاترجمہ کرتےہوئےامام احمد رضا فاضل بریلوی کی متابعت یا موافقت کی ہے۔ واضح رہے کہ کنز الایمان کی تصنیف و اشاعت کی تاریخ تفہیم القرآن سے سالہا سال پہلے کی ہے۔ مولانا مودودی کا ترجمہ یہ ہے:
پہلےجس طرف تم رُخ کرتےتھے،اس کوتوہم نےصرف یہ دیکھنےکےلئےقبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔
تیسرا مقام:
سورۂ یوسف کی آیت نمبر110ملاحظہ فرمائیں:
حَتّٰۤی اِذَا اسْتَایْــَٔسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْۤا اَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآءَھُمْ نَصْرُنَا
اس آیت کا ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری نے یہ کیا ہے:
یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ (اپنی)مدد کے بارے میں جو بات انہوں نےکہی تھی، اس میں وہ سچے نہ نکلے تو ان کے پاس ہماری مدد آئی۔
مولانا تھانوی کا ترجمہ یہ ہے:
یہاں تک کہ جب پیغمبر اس بات سے مایوس ہوگئے اور ان پیغمبروں کو گمان غالب ہوگیا کہ ہمارے فہم نے غلطی کی تو ان کو ہماری مدد پہنچی۔
اورمولانامحمودالحسن صاحب نےاس کاترجمہ یوں کیاہے:
یہاں تک کہ جب مایوس ہونے لگے رسول اور خیال کرنے لگےکہ ان سےجھوٹ کہا گیا تھا تو پہنچی ان کو ہماری مدد۔
یہ سارے ترجمے جس بھیانک اعتراض کی زد پر ہیں، وہ یہ ہے کہ پیغمبروں نے خدا کی مدد اترنے کے سلسلے میں اپنی قوم سے جو وعدہ کیا تھا وہ وحیِ الٰہی پر مبنی تھا، اس لئے ان کے متعلق یہ کہناکہ انہیں اپنے بارے میں گمان ہونے لگا کہ وہ سچے نہیں ہیں، یا یہ کہنا کہ ان کے فہم نے وحیِ الٰہی کے سمجھنے میں غلطی کی،یا یہ کہنا کہ وہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا ۔۔ یہ ساری باتیں رسولوں کی جناب میں سخت تنقیصِ شان کا موجب ہیں۔ انبیاءاگر اپنے آپ کو سچا نہ سمجھیں تو اپنی قوم سے وہ کیونکر مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ انہیں سچا سمجھیں۔
اور انبیاء سے اگر وحیِ الٰہی کے سمجھنے میں غلطی واقع ہونے لگے تو پھر تو منصب ِنبوت کا سارا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا اور یہ ترجمہ تو وحیِ الٰہی کے مقصد کی بنیاد ہی کومنہدم کردیتا ہے کہ رسول خیال کرنے لگے تھے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا۔ معاذ اللہ انبیائے کرام وحیِ خداوندی کے بارے میں کبھی یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ جھوٹ ہے۔ یہ انبیاء و مرسلین کی تنقیصِ شان ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے ان کی تکذیب بھی ہے۔
اب ان وحشتناک ترجموں کے بعد آپ امام احمد رضا فاضل بریلوی کا ایمان افروز ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت موصوف کا ترجمہ یہ ہے:
یہاں تک کہ جب پیغمبروں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھنے لگے کہ رسولوں نے ان سے غلط کہا تھا تو اس وقت ہماری مدد آئی۔
سبحان اللہ! کتنا شائستہ، کتنا مؤدب اور کتنا باحرمت ترجمہ ہے۔۔۔اس ترجمے میں اس بات کی پوری صراحت ہے کہ رسولوں کو اگر مایوسی بھی ہوئی تو خدا کی طرف سے نہیں بلکہ ظاہری اسباب کی طرف سے اور یہ قطعًا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔ اس ایمان افروز ترجمے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ غلط سمجھنے کی نسبت قوم کی طرف ہے، انبیاء و مرسلین کی طرف نہیں ہے، جب کہ پچھلے سارے ترجموں میں غلط سمجھنے کی نسبت خود انبیاء و مرسلین کی طرف کی گئی تھی۔ جس سے ان کی عصمت پر حرف آرہا تھا۔ اس ترجمے سے اگر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قوم نے رسولوں کو جھٹلایا تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بدبخت قوموں کا یہ شیوہ ہی رہا ہے کہ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا ہے۔ اس سے منصبِ رسالت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ البتہ قوموں کی بدبختی ظاہر ہوتی ہے۔
ان سارے مترجمین میں مولانا مودودی وہ تنہا مترجم ہیں جنہوں نے اس آیت کے ترجمے میں امام احمد رضا کی متابعت یا موافقت کی ہے۔ موصوف کا ترجمہ یہ ہے۔
یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔
غور فرمائیے! اس ترجمے میں بھی جھوٹ یا غلط سمجھنے کی نسبت انبیاء کی طرف نہیں ہے بلکہ قوم کی طرف ہے، جبکہ پچھلے ترجموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاذ اللہ انبیاء ہی سمجھنے لگے تھے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا ہے۔
چوتھا مقام:
سورۂ توبہ کی آیت نمبر 67ملاحظہ فرمائیے:
نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ
اس آیت کا ترجمہ شاہ عبد القادر شاہ رفیع الدین، مولانا محمود الحسن، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا فتح محمد جالندھری اور ڈپٹی نذیر احمد نے یہ کیا ہے:
لوگ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں بھلادیا۔
ان سارےترجموں پریہ اعتراض واردہوتاہےکہ جس طرح اللہ کی ذات نینداوراونگھ سے پاک ہے، اسی طرح نسیان سےبھی پاک ہے۔کیونکہ نسیان کا شمار محاسن و کمالات میں نہیں ہوتا، بلکہ نقائص اور عیوب میں ہوتا ہے اور یہ عقیدہ ضروریاتِ دین سےہےکہ اللہ کی ذات ہر طرح کے عیب و نقص سے پا ک ہے۔
ان ترجموں پر یہ اعتراض اس لئے وارد ہوا کہ ان مترجمین حضرات نے فَنَسِیَہُمْ کا ترجمہ کرتے وقت یہ قطعًا محسوس نہیں کیا کہ اللہ کی طرف اس لفظ کی نسبت اپنے حقیقی معنی پر نہیں ہے، بلکہ نسیان کے لفظ سے اس کے لازمی معنی مرادہیں اوروہ ہے تعلق توڑلینا۔ اس معنی میں بھولنے کا لفظ اردو زبان کے محاورے میں بھی مستعمل ہے۔ انہوں نے اپنی ہی زبان کا محاورہ یاد رکھا ہوتا تو ایسا ترجمہ ہرگز نہیں کرتے جو ذاتِ سبوح و قدوس کے ہرگز شایانِ شان نہیں ہے۔
اتنی تفصیل کے بعد اب امام احمد رضا کا ایمان افروز ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔ موصوف نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:
وہ اللہ کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے بھی انہیں چھوڑ دیا۔
اللہ کوچھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی اطاعت و بندگی سے منہ موڑ لیا اور اللہ نے بھی انہیں چھوڑ دیا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان سے اپنی رضا اورخوشنودی کا تعلق توڑلیا۔
انصاف فرمائیے! اس ترجمےمیں تنزیہہ وتقدیس کا تقاضا جس حسن ِادب کے ساتھ پورا کیا گیا ہے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔
پانچواں مقام:
سورۂ یونس کی آیت نمبر21ملاحظہ فرمائیے:
قُلِ اللّٰہُ اَسْرَعُ مَکْرًا
اس آیت کا ترجمہ شاہ عبد القادر صاحب یہ کیا ہے:
کہہ دواللہ سب سے جلد بناسکتا ہے حیلہ۔
مولانا محمود الحسن، مولانا فتح محمد جالندھری اور مولانا عاشق الٰہی میرٹھی کا ترجمہ یہ ہے:
کہہ دو اللہ بہت جلد کرنے والا ہے مکر۔
شاہ رفیع الدین اور مولانا اشرف علی تھانوی نے یوں ترجمہ کیا ہے:
کہہ دوکہ اللہ چالوں میں ان سےبھی بڑھا ہوا ہے۔
مولانا عبد الماجد دریا بادی کا ترجمہ یہ ہے:
کہہ دےاللہ کی چال بہت تیز ہے۔
نہایت قلق کی بات یہ ہے کہ لفظِ مکر کا ترجمہ کرتے ہوئے ان سارے مترجمین نے نہ لغت کی طرف مراجعت فرمائی اور نہ سلف کی تفسیروں ہی سے استفادہ کیا ہے۔ بس آنکھ بند کرکے مکر کا اسی معنی میں ترجمہ کردیا ہے جن معنوں میں یہ لفظ اردو زبان میں مستعمل ہے۔ ان حضرات نے لغت کی طرف رجوع کیا ہوتا تو انہیں پتہ چلتا کہ لفظِ مکر کی نسبت جب آدمی کی طرف ہوگی تو اس کے معنی دھوکہ ، فریب اور چالبازی کےہوں گے۔ جیسے: مَکَرَ اللّٰہُ یا أَمْکَرَہٗ اللّٰہُ کا ترجمہ ہوگا اللہ نے اسے مکر کی سزا دی حوالہ کے لئے دیکھئے مصباح اللغات، ص832،اور المنجد،ص971میں المکرۃ کے معنی تدبیر کرنے کے بھی ہیں۔ حوالہ کے لئے دیکھئے المنجد،ص971۔
لغت کے بعد اب آئیے تفسیروں کی طرف رجوع کریں۔ اس آیت میں مَکْرًا کی تفسیر صاحب ِجلالین نےمجازاہکے لفظ سے کی ہے یعنی اللہ بدلہ دینے میں جلدی کرتاہے۔ استاذ محمد حسن حمصی نے اپنی تفسیر میں جو دمشق اور بیروت سے شائع ہوئی ہے مَکْرًا کی تفسیر عقوبۃ وجزاءسے کی ہے، یعنی اللہ سزادینے یا بدلہ دینے میں بہت جلدی کرتا ہے۔ حوالہ کے لئے دیکھئے تفسیر البیان، ص211۔
ان تفسیری اور لغوی تحقیقات کی روشنی میں اب آئیے ان تراجم کا جائزہ لیں۔ مولانا محمود الحسن،مولانا فتح محمد جالندھری،مولانا عاشق الٰہی نےمکرکا ترجمہ مکر ہی کیا ہے اور شاہ عبد القادر نے مکرکا ترجمہ حیلہ کیا ہے۔ہر اردو داں اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ ہماری زبان میں حیلہ، مکر اور چال، دھوکہ اورفریب کے معنی میں مستعمل ہے۔ اگر ان حضرات نے مکر کا ترجمہ کرتے وقت لغت اور تفسیر کو سامنے رکھا ہوتا تو اس لفظ کا ترجمہ یوں ہوتا کہ اللہ مکر کی سزا دینے، بدلہ دینے یا تدبیر کرنے میں جلدی کرتا ہے۔ کیونکہ یہاں لفظ مکر کی نسبت آدمی کی طرف نہیں بلکہ خدا کی طرف ہے۔ اب لغات وتفاسیر کی روشنی میں ان تمام مترجمین کو یہ الزام بہرحال قبول کرنا ہوگا کہ انہوں نے خدا کی طرف چال، مکر اور حیلہ جیسے مکر وہ الفاظ کی نسبت کرکے خدا کی جناب میں تنقیصِ شان کا ارتکاب کیا ہے۔ اتنی تفصیل کے بعد اب آیئے امام احمد رضا کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔ موصوف نے آیت کا ترجمہ یوں کیے ہے:
تم فرمادو کہ اللہ کی ہر تدبیر جلد ہوتی ہے۔
سبحان اللہ ! کتنا شائستہ اور با ادب ترجمہ ہے۔ زبان کے رُخ سے بھی اور ایمان کے رُخ سے بھی۔
تدبیر کے جامع لفظ کے مفہوم میں سزا دینا ، بدلہ دینا اور دشمن کی سازش کو ناکام بنادینا، سب کچھ شامل ہے، جو صحیح معنوں میں اس آیت کی مراد ہے۔
تقابلی جائزے کے ساتھ ان پانچ مقامات کی نشاندہی سے سامعینِ کرام نے اچھی طرح سمجھ لیا ہوگا کہ ترجمۂ قرآن کے سلسلے میں امام احمد رضا کی فکری بصیرت، وسعت نظر اور علمی سطح دوسروں کے مقابلے میں کتنی بلند ہے۔
دوسرا رُخ:
ترجمہ میں اختصار اور جامعیت:
حضرات پہلے رُخ سے کنز الایمان کا جائزہ ختم ہوا۔ اب ترجمے میں اختصار و جامعیت کے رُخ سے اس کا جائزہ لیجئے ۔
اصل بحث کے آغاز سے پہلے یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ عربی زبان دنیا کی ساری زبانوں میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معنی کو سمیٹتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی نا محرم عورت کے دیکھنے کے سلسلےمیں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
فان الاولی لك والثانیۃ علیك
گنتی کے یہ پانچ الفاظ ہیں، لیکن اگر ان کے مفہوم کو آپ اردو زبان میں منتقل کرنا چاہیں تو عبارت یوں بنے گی:
پہلی نظر تیرے لئے معاف ہے، لیکن دوسری نظر پر تجھ سے مواخذہ ہوگا۔
ملاحظہ فرمائیے! عربی زبان کے پانچ الفاظ کا مفہوم اردو میں پندرہ الفاظ کی مددسے منتقل ہوسکا ہے۔
دوسری مثال قرآنِ کریم کی آیت کریمہ ہے، جس میں عورتوں کے حقوق کی بابت ارشاد فرمایا گیا ہے۔
لَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ
گنتی کے یہ چار الفاظ ہیں، لیکن ان کا مفہوم جب اردو زبان میں منتقل کریں گے تو اس کی عبارت یوں ہوگی:
جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں، اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔
یہاں بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ عربی کے چار الفاظ کا مفہوم اردو کے سولہ الفاظ کی مدد سے ادا ہوسکا ہے۔
ان دومثالوں سےآپ نےاچھی طرح اندازہ لگایا ہوگا کہ عربی زبان پھیلے ہوئے معانی کو اپنے اندر سمیٹنے کی جو صلاحیت رکھتی ہے، اردو زبان بہت حد تک اس سے محروم ہے۔ لیکن اسے زبان اور تعبیر پر امام احمد رضا بریلوی کی غیر معمولی قدرت ہی کہا جائے گا کہ اردو کی تنگ دامانی کے باوجود انہوں نےاپنےاردوترجمےمیں اختصار اور جامعیت کی نادر مثال قائم کی ہے۔ اختصار کا حال تو آپ حرفوں کو گن کر معلوم کرلیں گے، لیکن جامعیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پورے کنز الایمان میں آیت کا مفہوم واضح کرنے کے لئے انہیں عبارت میں ہلالین کا پیوند جوڑنے کی کہیں ضرورت پیش نہیں آئی ہے، کیونکہ ترجمہ ہی اتنا جامع اور صاف ہے کہ وہی وضاحت کے لئے بہت کافی ہے۔
اس رُخ سے اب تک کنز الایمان کے محاسن کاجائزہ نہیں لیاگیاتھا،آج پہلی بارمیں اس رُخ سےنقاب اٹھارہاہوں۔آنے والی مثالوں سے آپ اچھی طرح اندازہ لگالیں گے کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی کو تعبیر پر حیرت انگیز قدرت کے ساتھ ساتھ ایجازکےفن میں بھی کتنی عظیم دسترس حاصل ہے۔
اس سلسلے میں کنز الایمان سےہم نے پچیس آیتوں کا انتخاب کیا ہے، جن میں امام احمد رضا فاضل بریلوی کے ترجمے کے ساتھ مولانا تھانوی کے ترجمے کا بھی ایک تقابلی خاکہ پیش کیا ہے تاکہ آپ اس آئینے میں امام احمد رضا کےخداداد ہنر کا جلوہ دیکھ سکیں۔
حروف کی تعداد
۱۔اُولٰٓئِكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۱۴
ترجمۂ رضویہ:وہی نقصان میں ہیں۔ ۱۴
ترجمۂ تھانویہ:پس یہی لوگ پورے خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ ۳۱
۲۔ وَاُولٰٓئِكَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ ۱۷
ترجمۂ رضویہ:اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔ ۱۷
ترجمۂ تھانویہ:اوریہی لوگ ہیں جن کی حقیقت تک رسائی ہوگی۔ ۳۳
۳۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ۳۶
ترجمۂ رضویہ:اے ایمان والوصبراورنماز سے مدد چاہو۔ ۳۰
ترجمۂ تھانویہ:اے ایمان والو!صبر اور نمازسے سہاراحاصل کرو۔ ۳۵
۴۔وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ۲۳
ترجمۂ رضویہ:اور خداجسے چاہے بے گنتی دے۔ ۲۱
ترجمۂ تھانویہ:اور رزق تواللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں بے اندازہ دیتے ہیں۔ ۴۳
۵۔وَاللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرٰطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۲۸
ترجمۂ رضویہ:اوراللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے۔ ۲۸
ترجمۂ تھانویہ:اوراللہ جس کو چاہتے ہیں راہِ راست بتاتے ہیں۔ ۳۴
۶۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ۲۴
ترجمۂ رضویہ:ہے کوئی جو اللہ کوقرضِ حسن دے۔ ۲۳
ترجمۂ تھانویہ:کون شخص ہے ایسا جو اللہ تعالیٰ کو قرض دے اچھے طور پر قرض دینا۔ ۴۶
۷۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ ۳۷
ترجمۂ رضویہ:اے ایمان والو! اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو۔ ۳۰
ترجمۂ تھانویہ:اے ایمان والوں!نیک کام میں خرچ کیا کروعمدہ چیز اپنی کمائی میں سے۔ ۵۲
۸۔وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاؕ ۲۷
ترجمۂ رضویہ:جسے حکمت ملی اسے بہت بھلائی ملی۔ ۲۵
ترجمۂ تھانویہ:سچ تو یہ ہے کہ جسے دین کا فہم مل جائے اس کو بڑی خیر کی چیز مل گئی۔ ۴۷
۹۔قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىۃِ فَاتْلُوْھَاۤ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۳۲
ترجمۂ رضویہ:تم فرماؤتوریت لاکر پڑھو اگر تم سچے ہو۔ ۳۱
ترجمۂ تھانویہ:فرمادیجئے کہ پھر تورات لاؤپھر اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو۔ ۴۱
۱۰۔لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ ۴۱
ترجمۂ رضویہ:مسلمان کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں مسلمانوں کے سوا۔ ۴۲
ترجمۂ تھانویہ:مسلمانوں کوچاہئے کہ کفار کو ظاہرًا و باطناًدوست نہ بنائیں مسلمانوں کی دوستی سے تجاوز کرکے۔ ۷۳
۱۱۔وَلَا تَنۡکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۳۹
ترجمۂ رضویہ:اورباپ دادا کی منکوحہ سے نکاح نہ کرو جو گزرا گزرا۔ ۳۹
ترجمۂ تھانویہ:اورتم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ دادا نانانے نکاح کیا ہو، مگر جو بات گزرگئی گزرگئی۔ ۷۶
۱۲۔یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ ۳۰
ترجمۂ رضویہ: آدمیوں سے چھپتے ہیں اللہ سے نہیں چھپتے۔ ۳۲
ترجمۂ تھانویہ: جن لوگوں کی یہ کیفیت ہے کہ آدمیوں سے تو چھپاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے۔ ۶۳
۱۳۔وَ اجْتَبَیْنٰہُمْ وَ ھَدَیْنٰہُمْ اِلٰی صِرٰطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۲۹
ترجمۂ رضویہ:ہم نے انہیں چن لیا اورسیدھی راہ دکھائی۔ ۲۹
ترجمۂ تھانویہ:ہم نے ان سب کو چن لیا اور ان سب کو راہِ راست کی ہدایت کی۔ ۴۰
۱۴۔فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوٰزِیْنُہٗ فَاُولٰٓئِكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۳۰
ترجمۂ رضویہ:تو جن کے پلےبھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ ۳۰
ترجمۂ تھانویہ:پھرجس شخص کا پلہ بھاری ہوگا سو ایسےلوگ کامیاب ہوں گے۔ ۴۰
۱۵۔وَّھُوَ الْواحِدُ الْقَہَّارُ ۱۵
ترجمۂ رضویہ:وہ اکیلا سب پر غالب ہے۔ ۱۷
ترجمۂ تھانویہ:اوروہی واحد ہے غالب ہے۔ ۱۸
۱۶۔ذٰلِكَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ۱۸
ترجمۂ رضویہ:یہی ہے دورکی گمراہی۔ ۱۸
ترجمۂ تھانویہ:یہ بھی بڑی دوردرازکی گمراہی ہے۔ ۱۴
۱۷۔اُولٰٓئِكَ ھُمُ الْوٰرِثُوْنَ ۱۵
ترجمۂ رضویہ:یہی لوگ وارث ہیں۔ ۱۳
ترجمۂ تھانویہ:پس ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں۔ ۲۶
۱۸۔وَ مَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ ۱۸
ترجمۂ رضویہ:ہم خلق سے بے خبر نہیں ہیں۔ ۲۲
ترجمۂ تھانویہ:اورہم مخلوق کی مصلحتوں سے بے خبرنہ تھے۔ ۳۰
۱۹۔وَاُولٰٓئِكَ ھُمُ الْمُعْتَدُوْنَ ۱۶
ترجمۂ رضویہ:اوروہی سرکش ہیں۔ ۱۳
ترجمۂ تھانویہ:اوریہ لوگ بہت زیادتی کررہے ہیں۔ ۲۵
۲۰۔وَیُذْھِبْ غَیْظَ قُلُوْبِہِمْ ۱۴
ترجمۂ رضویہ:اور ان کے دلوں کی گھٹن دور فرمائے گا۔ ۲۶
ترجمۂ تھانویہ:اوران کے قلوب کے غیظ و غضب کو دور فرمائے گا۔ ۳۱
۲۱۔وَاللّٰہُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۱۸
ترجمۂ رضویہ:اوراللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ ۲۸
ترجمۂ تھانویہ:اوراللہ تعالیٰ کوسب خبرہےتمہارے سب کاموں کی۔ ۳۶
۲۲۔فَعَسٰۤی اُولٰٓئِكَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ ۲۷
ترجمۂ رضویہ:توقریب ہےکہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں۔ ۳۱
ترجمۂ تھانویہ:سو ایسے لوگوں کی نسبت توقع یعنی وعدہ ہے کہ اپنے مقصود تک پہنچ جاویں گے۔ ۵۴
۲۳۔وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۲۳
ترجمۂ رضویہ:اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا۔ ۲۶
ترجمۂ تھانویہ:اور جو لوگ بے انصاف ہیں اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ نہیں دیتا۔ ۴۲
۲۴۔ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ ۳۶
ترجمۂ رضویہ:پھر اللہ نے اپنی تسکین اتاری اپنے رسول پر اورمسلمانوں پر۔ ۴۵
ترجمۂ تھانویہ:پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے قلب پر اور دوسرے مسلمانوں کے قلب پر اپنی طرف سے تسلی نازل فرمائی۔۸۱
۲۵۔وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ۲۱
ترجمۂ رضویہ:اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ ۲۴
ترجمۂ تھانویہ:اور زمین میں فساد کرتے ہوئے حد سے مت نکلو۔ ۳۲
تیسرا رُخ:
شگفتہ زبان:
حضرات! اختصار اور جامعیت کے رُخ سے ابھی آپ نے کنز الایمان کے ترجموں کا جائزہ لیا۔ زبان اورتعبیر پر امام احمد رضا فاضل بریلوی کو کتنی بےمحاباقدرت ہےکہ کہیں کہیں عربی عبارت سے بھی اس کا اردوترجمہ مختصر ہوگیا ہے اورتعبیر کا کمال یہ ہے کہ مفہوم کی وضاحت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔جبکہ تھانوی صاحب کاترجمہ حشووزوائداورتعبیرکےبہت سے نقائص پرمشتمل ہے۔
اب گفتگو کےآخری مرحلےمیں شگفتہ زبان کی حیثیت سے کنزالایمان کے محاسن کاجائزہ لیجئے۔اس عنوان پرچند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
پہلی مثال:
سورۂ یونس کی آیت نمبر24:
حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اَھْلُہَاۤ اَنَّہُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْہَاۤ ۙ اَتٰىہَاۤ اَمْرُنَا.........
ترجمہ:یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کے یہ ہمارے بس میں آگئی تو اس پر ہمارا حکم آیا........
دوسری مثال:
سورۃ التکویرکی یہ چندآیتیں ملاحظہ فرمائیں:
اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ۪ۙ﴿۱﴾ وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ ۪ۙ﴿۲﴾ وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ ۪ۙ﴿۳﴾ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ۪ۙ﴿۴﴾ وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ ۪ۙ﴿۵﴾ وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ۪ۙ﴿۶﴾ وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ ۪ۙ﴿۷﴾
ترجمہ: جب دھوپ لپیٹی جائے۔اور جب تارے جھڑ پڑیں ۔اورجب پہاڑ چلائے جائیں۔ اورجب تھلکی اونٹنیاں چھوٹی پڑیں۔اورجب وحشی جانورجمع کئےجائیں۔اورجب سمندر سلگائے جائیں۔اورجانوں کےجوڑبنیں۔
تیسری مثال:
سورۃ الانفطار کی یہ چندآیتیں ملاحظہ فرمائیے:
اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ ۙ﴿۱﴾ وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ ۙ﴿۲﴾ وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ ﴿ۙ۳﴾ وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ ۙ﴿۴﴾
ترجمہ: جب آسمان پھٹ پڑے۔اورجب تارے جھڑ پڑیں۔اورجب سمندر بہادئیے جائیں۔اورجب قبریں کریدی جائیں۔
چوتھی مثال:
سورۃ الإنشقاق کی یہ چندآیتیں ملاحظہ فرمائیے:
اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ ۙ﴿۱﴾ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتْ ۙ﴿۲﴾ وَ اِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ ﴿ۙ۳﴾ وَاَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَ تَخَلَّتْ ۙ﴿۴﴾ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتْ ؕ﴿۵﴾
ترجمہ: جب آسمان شق ہو۔اوراپنے رب کا حکم سنے اور اسے سزاوار ہی یہ ہے۔اور جب زمین درازکی جائے۔اور جو کچھ اس میں ہے ڈال دے اور خالی ہوجائے۔اور اپنے رب کا حکم سنے اور اسے سزاوارہی یہ ہے۔
پانچویں مثال:
سورۃ الشّمس کی یہ چند آیتیں ملاحظہ فرمائیں:
وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىہَا ﴿۱﴾۪ۙ وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا ﴿۲﴾۪ۙ وَ النَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا ﴿۳﴾۪ۙ وَالَّیۡلِ اِذَا یَغْشٰىہَا ﴿۴﴾۪ۙ وَالسَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىہَا ﴿۵﴾۪ۙ وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىہَا ﴿۶﴾۪ۙ
ترجمہ: سورج اور اس کی روشنی کی قسم۔ اور چاند کی جب اس کے پیچھے آئے۔اوردن کی جب اسے چمکائے۔اوررات کی جب اسےچھپائے۔اور آسمان اوراس کے بنانے والے کی قسم۔ اور زمین اور اس کے پھیلانے والے کی قسم۔
چھٹی مثال:
سورۃ اللیل کی یہ چند آیتیں ملاحظہ فرمائیں:
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰیۙ﴿۱﴾ وَالنَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی ۙ﴿۲﴾ وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰۤی ۙ﴿۳﴾ اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی ؕ﴿۴﴾
ترجمہ: اور رات کی قسم جب چھاجائے۔اوردن کی جب چمکے۔اوراس کی جس نے نر ومادہ بنائے۔بیشک تمہاری کوشش مختلف ہے۔
ساتویں مثال:
سورۃ الغاشیہ کی یہ چندآیتیں ملاحظہ فرمائیے:
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۙ﴿۸﴾ لِّسَعْیِہَا رَاضِیَۃٌ ۙ﴿۹﴾ فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ﴿ۙ۱۰﴾ لَّا تَسْمَعُ فِیْہَا لٰغِیَۃً ﴿ؕ۱۱﴾ فِیْہَا عَیْنٌ جَارِیَۃٌ ﴿ۘ۱۲﴾ فِیْہَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ ﴿ۙ۱۳﴾ وَّ اَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾ وَّ نَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ ﴿ۙ۱۵﴾ وَّ زَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ ﴿ؕ۱۶﴾
ترجمہ: کتنے ہی منہ اس دن چین میں ہیں۔ اپنی کوشش پر راضی۔ بلند باغ میں کہ اس میں کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے۔اس میں رواں چشمہ ہے۔اس میں بلند تخت ہیں۔اور چنے ہوئے کوزے۔ اور برابر برابر بچھے ہوئے قالین اور پھیلی ہوئی چاندنیاں۔
کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان آپ نے ملاحظہ فرمالی۔امام احمد رضا فاضل بریلوی کی خوبصورت اورشائستہ زبان کا یہ رنگ پورے کنز الایمان میں پھیلا ہوا ہے۔
کنز الایمان کے سہ رخا مطالعہ پر اپنے مضمون کی آخری سطر لکھتے ہوئےمیں اپنے قارئین سے عرض کروں گا کہ وہ خالی الذہن ہوکر کنز الایمان کے ان محاسن کا مطالعہ فرمائیں اورفہمِ قرآن کے سلسلےمیں کنز الایمان کی واجبی خدمات کا دل سے اعتراف کریں۔
مولائے قدیر ہمیں قرآنِ حکیم کے معارف وبرکات سے بہرہ مند فرمائے اور ہماری زندگی کو قرآن کے فرمودات کا تابع بنائے۔
وصلی اللّٰہ علی خیرخلقہ وقاسم نعمہ و مظہر لطفہ سیدنا محمد وآلہ و صحبہ و حزبہ اجمعین۔