کنز الایمان کی امتیازی خصوصیات

کنزالایمان کی امتیازی خصوصیات

تحریر : ڈاکٹر مجید اللہ قادری

امام احمدرضا خاں قادری برکاتی محدث بریلوی کی شخصیت عالمِ اسلام میں ایک عظیم مدبّراور مفکرکی ہے اورآپ بےشک ایک طرف علومِ اسلامیہ کے بحرِ ذخّارہیں تودوسری طرف دیگر علوم میں کنزالفنون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک عظیم مفکر کی پہلی پہچان قرآنی علوم پر کامل دسترس ہے کیونکہ یہ اوّل مآخذہوتاہے۔امام احمدرضابھی اس اوّل ماخذپرکامل دسترس رکھتے تھے۔علومِ قرآن میں ترجمہ، تفسیر، اصولِ تفسیر، لغت سب ہی شامل ہیں اور امام احمد رضاکی تصانیف وتالیفات ان علوم پربھی ملتی ہیں۔ یہاں صرف ان کے ترجمۃ القرآن کے حوالے سے تحریر پیش کی جارہی ہے۔ان کے ترجمہ کابغورجائزہ لینےکے بعد دیگر معروف اردو قرآنی تراجم سے تقابل بھی کیا گیا تاکہ اس فن میں امام احمدرضا کی مہارت کاصحیح اندازہ لگایاجاسکےاحقرنے امام احمد رضاکے ترجمہ کی چند بہت ہی اہم خصوصیات پریہاں مقالہ قلمبند کیا ہے۔

جن خطوط کی روشنی میں اس ترجمۂ قرآن کاجائزہ لیاگیاہے۔ جن خصوصیات کوخاص طورسے مدنظررکھاگیاہےان میں سے چنددرج ذیل ہیں:

(۱)۔۔۔۔ نام کاانتخاب

(۲)۔۔۔اسلوبِ ترجمہ

(۳)۔۔۔جامعیت ومعنویت اورمقصدیت

(۴)۔۔۔صوتی حسن،سلاست و ترنم

(۵)۔۔۔ادبی خصوصیت

[۱]۔۔۔۔۔کنزالایمان:

امام احمدرضاخاں کے ترجمۂ قرآن کی ایک اہم خصوصیت اس ترجمہ قرآن کا نام ہے جس کا انہوں نے تاریخی نام کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن(1330)رکھا۔جس طرح خداوندِ کریم نے کتابِ الٰہی کانام قرآن رکھا جو نہ صرف نام کی مناسبت سے جامع ہے بلکہ قرآن کے اندرموجود تمام جامعِ رموزکی نشاندہی بھی کرتاہےیعنی یہ وہ کتابِ الٰہی ہے جس کے اندر سب کچھ جمع کردیا گیا، امام صاحب نے اپنے ترجمہ کا نام کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن رکھا یعنی قرآن کا ایسا ترجمہ جس کو پڑھ کرقاری ایمان کا خزانہ پالیتا ہےآپ نے قاری کو پہلے ہی ذہن نشین کرادیا کہ حقیقت میں یہ الکتاب ایسا خزانہ ہے کہ اس سے بڑھ کر دنیا کا کوئی خزانہ ممکن ہی نہیں۔

امام احمدرضاکے ترجمۂ قرآن کانام کنزالایمان اس لحاظ سے صد فیصد مناسب ہے کہ قرآن کی ہرہرآیتِ شریفہ مسلمانوں کے لیے خصوصاً اورعام انسانوں کے لیے عموماً خزانہ ہے۔ مثلاً اگر کوئی آیتِ شریفہ امر بالمعروف کاحکم دے رہی ہے تواس حکم پر عمل اور اس کی پیروی ہی اصلِ ایمان ہے۔ اگرنہی عن المنکر کا ذکر ہے تو گناہ سے بچنا ہی مومن کے لیے ایمان کی دلیل ہے۔ اگرآیتِ کریمہ عزیزواقارب کے ساتھ حُسنِ سلوک کا پیغام دے رہی ہے تواس پر عمل درآمد مسلمانوں کے فرائض میں سے ہےاور اگر آیتِ مبارکہ کفار و مشرکین کے ساتھ دوستی رکھنے سے منع کررہی ہے توان سے دور رہنے میں ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبولﷺ کی خوشنودی حاصل ہوسکتی ہے اور اگر قرآن کی آیت مسلمانوں کومژدہ سنا رہی ہے تواللہ سے امید رکھنا ایمان کا بنیادی حصہ ہے۔ اس لحاظ سے قرآن کی ہر آیت ایمان کے خزانے کاپتہ دے رہی ہے اس لیے یہ نام کنزالایمان تمام تراجمِ قرآن میں انفرادی خصوصیت کاحامل ہے کیونکہ ہر آیت کے حوالے سے ایمانی خزانے کی نشاندہی ہورہی ہے۔

(۲)۔۔۔۔۔اسلوب ترجمہ:

اردوقرآنی تراجم میں سوائے شاہ محمدرفیع الدین دہلوی کے ترجمۂ قرآن کے بقیہ تمام تراجم، قرآن کا بامحاوہ ترجمہ ہیں۔ ان تراجم میں مترجمین ِ قرآن نے اپنے ترجمۂ قرآن کو سلیس اور سادہ زبان میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔کنز الایمان کے قبل کے اکثرمترجمینِ قرآن نے خاص طورسے ترجمۂ قرآن میں عبارت آرائی، انشاءپردازی اور روزمرہ کی زبان اور گوناگوں محاورات کے استعمال پر قوت زیادہ صرف کی ہے جب کہ کنزالایمان کے بعد مترجمینِ قرآن نے عموماًمفہومی، توضیحی اور تشریحی اسلوب پر زیادہ زوردیاہے جس کے نتیجے میں بعدکے مترجمین خصوصیت کے ساتھ نظمِ قرآن کی اصل روح سے دور ہوتے چلےگئے جب کہ قرآنِ پاک کا اپنا اسلوب نہ صرف لفظی ہے اور نہ صرف محاوراتی۔اس طرح نہ یہ اسلوب تقریری ہے نہ تحریری،بلکہ قرآنِ پا ک کا اپنا ایک انفرادی اسلوب ہے جس کو اسلوبِ قرآنی کہاجاناچاہیے۔

جناب مودودی صاحب تمام مترجمین میں واحد مترجمِ قرآن ہیں جن کی نظر میں قرآن کا اسلوب صرف تقریری ہے اور وہ قرآنِ مجید کے طرزِ بیان کو صرف تقریری قراردیتے ہیں چنانچہ اس سلسلے میں تفہیم القرآن کے دیباچہ میں رقمطرازہیں:

ایک اور وجہ اوربڑی اہم وجہ لفظی ترجمہ کے غیرمؤثر ہونے کی یہ ہے کہ قرآن کا طرز ِبیان تحریری نہیں بلکہ تقریری ہے۔اگراس کو منتقل کرتے وقت تقریر کی زبان کو تحریر کی زبان میں تبدیل نہ کیاجائے اور جوں کاتوں ترجمہ کرڈالاجائے توساری عبارت غیرمربوط ہوکر رہ جاتی ہے۔

اہلِ زبان اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ قرآنی اسلوب بیان میں حسنِ کلام، روانی ٔبیان، شکوۂ لفظی اور مضامین کاربط وضبط ایسی منفرد صفات ہیں جنہیں کوئی ایک اسلوب اپنے اندر سمو نہیں سکتاجب تک کہ اس اسلوب میں سب کو جذب کرلینے کی استعدادنہ ہو اور یہ صرف اسلوبِ الٰہی میں ہی ممکن ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔کوئی بھی ترجمہ اس اسلوبِ قرآنی کے قریب ترضرور ہوسکتاہے مگرحقیقی روح کاترجمہ نہیں ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کاحقیقی مفہوم نہ تو صرف لفظی ترجمہ اداکرسکتاہے اور نہ ہی صرف بامحاورہ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ جہاں لفظی ترجمہ کی ضرورت ہے وہاں لفظی ترجمہ کیاجائےاوربامحاورہ کی جگہ محاوراتی ترجمہ کیاجائےاوراس کے ساتھ ساتھ الفاظ کاانتخاب اس طرح کیاجائے کہ ترجمہ نہ صرف تحریر معلوم ہواور نہ صرف تقریری بلکہ الفاظ کاچناؤ آیت کی مناسبت سے ہو۔

امام احمدرضاخاں قادری محدث بریلوی کاترجمۂ قرآن خاص حدتک قرآنی اسلوب کے قریب ترہے کیونکہ آپ کا ترجمہ قرآن نہ صرف بامحاوہ ہے اور نہ صرف لفظی بلکہ آپ نے ترجمہ قرآن میں یہ التزام و اہتمام کیاہے کہ حتی الامکان لفظ کے نیچے لفظ ہی کاترجمہ لائیں مگر الفاظ کاچناؤ موقع اور محل کی مناسبت سے اتناعمدہ کیا ہے کہ عبارت میں تسلسل بھی قائم رہتا ہےاورترجمہ لفظی ہونے کے باوجودبامحاورہ معلوم ہوتاہے۔مثلاً

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رٰعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ؕ

(البقرۃ:104)

اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو حضور ہم پرنظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔

جب کہ دیگرمعروف اردوقرآنی مترجمین نے ترجمہ کو بامحاورہ بنانے کی کوشش میں اسلوبِ قرآن کی روشنی کو مدہم کردیا،مثلاًچنددوسرے تراجم ملاحظہ ہوں:

(۱)مسلمانو!(پیغمبروں کے ساتھ)راعناکہہ کرخطاب نہ کیاکروبلکہ انظرناکہاکرواور(دھیان لگاکر)سنتےرہاکرو۔

(۲)اےایمان والو!تم نہ کہوراعنااورکہوانظرنااورسنتےرہو۔

اب امام احمدرضابریلوی کا ترجمہ دیکھیں کہ لفظ کے نیچے لفظی ترجمے کا اہتمام بھی ہے اور ہر لفظ کے معنی ایسے منتخب کیے ہیں کہ ترجمہ میں روانی بھی برقراررہی اور کسی لفظ کے معنی بھی قاری کی نظرسے اوجھل نہ رہے جب کہ دیگر تراجم کے پڑھنے کے بعد قاری انظرنا کے معنی سے نہ صرف بے خبر رہتا ہے بلکہ عبارت میں تسلسل بھی قائم نہیں رہتا اس طرح واسمعوا کی معنویت سے بھی بے خبر رہتا ہے کیونکہ مترجمین نے واسمعوا کا ترجمہ، سنتے رہو،اور خوب سنتے رہوجب کہ امام احمدرضا بریلوی اس معنوی ماحول کی پوری عکاسی کرتے ہوئے ترجمہ کرتے ہیں کہ پہلے ہی سے بغورسنو۔امام احمد رضا بریلوی ہرہرلفظ پر گہری نظر رکھتے ہیں اس لیے قاری کو ہر طرح تفسیری مواد چند لفظوں میں پہنچانے کے ساتھ ساتھ ترجمہ میں قرآنی اسلوب سے قریب تر بھی رہتے ہیں۔

قرآنِ پاک کے آزاداور لفظی تراجم کے علاوہ مترجمینِ قرآن نے قرآنی اسلوب اپنانے کی کوشش ضرورکی ہے مگرامام احمدرضا کا ترجمۂ قرآن، لفظی تراجم کے نقائص سے بھی پاک ہے اوربامحاورہ ترجمہ کی کمزوریوں سے بھی مبرّاہے۔آپ کے ترجمہ کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ لفظی ترجمے کے محاسن کے حوالے سے قرآن کے ہر ہر لفظ کا مفہوم ومعنی اس طرح واضح کردیا ہے کہ اسے پڑھ لینے کے بعد کسی لغت کی طرف رجوع کرنے کی حاجت نہیں رہتی۔ با محاورہ ترجمےکےمحاسن کو بھی اس خوبی وکمال کے ساتھ اپنے اندرسمولیاہے کہ عبارت میں کسی قسم کا بوجھ یا ثقل محسوس نہیں ہوتا اسی طرح امام احمد رضا نےترجمے کے انداز کو کسی نئے اسلوب میں نہیں ڈھالا بلکہ اسلوبِ قرآن کو قائم رکھتے ہوئےاس کا اس طرح ترجمہ کیا کہ یہ اسلوب نہ توتقریری رہے اور نہ تحریری۔ اب ایک مثال پیش کی جاتی ہے جس کی مدد سے مذکورہ بالا توجیحات کی تصدیق ہوسکے:

اللہ تعالیٰ کلام الٰہی میں ارشادفرماتاہے:

وَیُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ

(یوسف:6)

اور تجھے باتوں کا انجام نکالنا سکھائے گا۔

دیگرمترجمین کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

(۱)اورتجھ کو(خواب کی)باتوں کی تعبیرسکھائے گا۔

(۲)اورسکھادےگاکل بٹھانی باتوں کی۔

(۳)اورسکھادے گاتجھ کو تعبیربتانی باتوں کی۔

(۴)اورسکھادے گاتجھ کو ٹھکانے پر لگاناباتوں کا۔

ان تراجم کے علاوہ دیگراردوقرآنی تراجم میں لفظ تاویل اور احادیث کے معنی واضح نہیں ہیں جب کہ امام بریلوی کے ترجمہ قرآن میں دونوں معنی واضح ہیں۔اسی طرح اسلوب پر نظرڈالیں توامام صاحب کی تحریر میں وہی تسلسل قائم رہتاہے جس طرح متن میں پڑھنے والےکاربط نہیں ٹوٹتا جب کہ بقیہ تراجم میں کہیں الفاظ ثقیل ہیں اور کہیں اضافی الفاظ سے عبارت میں جھول پیداہوگیا۔

[۳]۔۔۔۔۔جامعیت، معنویت اورمقصدیت:

امام احمدرضابریلوی کے ترجمۂ قرآن کاایک اور امتیازی پہلودیگرمعروف اردوقرآنی مترجمین کے مقابلےمیں یہ ہے کہ جوجامعیت، معنویت اورمقصدیت قرآن کے کلمات میں پوشیدہ ہے اس کی مکمل جھلک امام موصوف کے ترجمہ میں نمایاں ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے کہ مترجم کے ذہن میں وہ تمام تفاسیر،لغوی معنی،اس سے متعلق احادیثِ مبارکہ اور اقوالِ صحابہ موجودہوں اور ساتھ ہی ساتھ قوتِ حافظہ بھی اتنا قوی ہو کہ وہ کمپیوٹر کی طرح کام کرے، جس طرح کمپیوٹر کابٹن دباکرمطلوبہ معلومات(Informations) یکجا طور پر ایک ہی نظر میں اسکرین پردیکھی جاسکتی ہیں اسی طرح مترجم کا ذہن بھی اتناقوی اور فعال ہو کہ فوراًان تمام کلمات کے مقامات کویکجاکرکےاوران کی جامعیت، معنویت اور مقصدیت کے پیشِ نظر ایسے الفاظ کا انتخاب کرےکہ ترجمہ میں کسی قسم کی تشنگی باقی نہ رہے اور نہ عبارت میں کوئی جھول۔حقیقت میں اگربلاامتیازامام احمدرضاکے ترجمہ کابغور مطالعہ کیاجائے تو محسوس ہوگاکہ یہ ترجمہ مستند تفاسیراورمستند کتبِ لغت کی عکاسی کرتا ہے۔اگرچہ یہ تینوں پہلو ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں مگرتینوں میں جو فرق ہے اسی فرق کے پیشِ نظر مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

ترجمہ میں جامعیت:

جامعیتِ قرآن کو امام بریلوی نے جس خوبی کے ساتھ ترجمہ میں ڈھالاہے اس کے لیے مندرجہ ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ؕ لَا تَنْفُذُوْ نَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ

(الرحمٰن:33)

اے جن و انسان کے گروہ اگر تم سے ہوسکے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ جہاں نکل کر جاؤ گے اسی کی سلطنت ہے

قرآنِ پاک کی یہ آیتِ شریفہ سائنس وحکمت کے بہت ہی اہم نکتہ کی طرف نشاندہی کررہی ہے۔ اس آیت میں کلمۂ سُلْطٰن کی جامعیت کوکوئی بھی مترجم ترجمہ میں پیش نہ کرسکا۔ البتہ تفاسیر میں کسی حدتک اس کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مگر امام احمد رضا خاں نے سُلْطٰن کا ترجمہ سلطنت کرکے عظمتِ خداوندی کو عوام کی نظرمیں اجاگرکیاہے۔اس ترجمہ سے یہ احساس ویقین قوی ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکومت پوری کائنات میں ہے گویا امام احمد رضا یہاں لفظِ سلطنت کی مددسے حکومتِ الہٰیہ اوراقتدارِاعلیٰ کا تصورقاری کے ذہن میں بٹھانا چاہتے ہیں جب کہ دیگر تراجم میں اس قسم کا قطعی تاثر نہیں ملتا۔

امام احمدرضاترجمہ میں اس بات کاخاص اہتمام کرتے ہیں کہ جس آیت سے جس علم پر روشنی پڑتی ہے اس آیت کاترجمہ ٹھیک اسی علم کی مصطلحات میں کیاجائےجیساکہ انہوں نے اس آیت میں بھی کیاہےاس کی وجہ یہ ہے کہ امام احمدرضابریلوی وہ واحدمترجمِ قرآن ہیں جن کے علومِ عقلیہ یعنی موجودہ اور قدیم سائنس وحکمت پر بھی سو سے زیادہ رسائل موجود ہیں اور سائنس وحکمت کاکوئی بنیادی شعبہ ایسانہیں جس پر امام صاحب کی دوچارقلمی یادگاریں نہ ہوں۔

یہاں سائنس وحکمت کے حوالے سے چندامثال پیش کرناچاہوں گا تاکہ امام موصوف کی ان علوم پر دسترس کا اندازہ لگایاجاسکے۔(مثلاً)

سورۃ النباء کی 20ویں آیت ملاحظہ ہو:

وَّ سُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَکَانَتْ سَرَابًا

(النباء:20)

اور پہاڑ چلائے جائیں گے کہ ہوجائیں گے جیسے چمکتا ریتا دور سے پانی کا دھوکا دیتا۔

دیگرمترجمین کا ترجمہ بھی ملاحظہ ہو:

(۱)اورچلائے جاویں گے پہاڑ پس ہوجاویں گے مانند ریت کی۔۱۴؎(شاہ رفیع الدین دہلوی)

(۲)اورپہاڑ(اپنی جگہ سے)ہٹادیےجائیں گے سو وہ ریت کی طرح ہوجاویں گے۔۱۵؎(مولوی اشرف علی تھانوی)

(۳)اورپہاڑ(اپنی جگہ سے)چلائے جائیں گےاور وہ غبارہوکر رہ جائیں گے۔۱۶؎(ڈپٹی نذیراحمد)

(۴)اورپہاڑچلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہوجائیں گے۔(ابوالاعلیٰ مودودی)

اس آیت کاترجمہ جوامام احمدرضانے کیاہے اس کو پڑھ کرجہاں ایک دینی عالم متاثرہوئے بغیر نہیں رہتاوہیں علومِ عقلیہ کا ماہرخاص کر علوم ارضیات اورطبیعات کاماہر بھی امام صاحب کے اس ترجمۂ قرآن سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا، خاص کر لفظ سَرَابًا کا ترجمہ جب کہ اکثر مفسرین نے انہیں معنوں میں تفسیرفرمائی ہے۔ مثلاً:تفسیرِخازن میں ہے:

(فَکَانَتْ سَرَابًا) ای ھبآء منبثا کالسراب فی عین الناظر۔

ریت کے ذرات جو دورسے دیکھنے میں (پانی کی طرح) چمکتے ہیں انہیں سراب کہاجاتاہے۔

مدارک میں ہے:

ای ھبآء تخیل الشمس انہ مآء۔

پانی کی طرح چمکتے معلوم ہوں۔

تفسیر فتح القدیر میں ہے:

فکانت ھبآء منبثا یظن الناظر أنھا سراب والمعنی کما أن السراب یظن الناظر أنہٗ ولیس بماء۔

ریت کے ذرات کی چمک کا دیکھنے میں پانی کا گمان ہوتا ہے اور سراب درحقیقت دیکھنے میں پانی کا گمان دیتا ہےمگر حقیقت میں وہاں پانی نہیں ہوتا

تفاسیر اور لغت کی معنویت سے جوبات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ سَرَابًا ایک قسم کا دھوکہ ہے کہ جب ریگستان میں یا کسی سخت سطح پر سورج کی شعاعیں پڑتی ہیں تو دورسے پانی کی موجودگی کا دھوکہ ہوتا ہے دیگر مترجمین نے اس کا ترجمہ صرف ریت کیاہےجس سے سَرَابًا کی جامعیت اجاگر نہیں ہوتی۔ جبکہ امام احمد رضا نے سَرَابًا کی جامعیت کے پیشِ نظر صحیح مفہوم اخذ کرکے ترجمہ کیا ہے۔

امام احمد رضاخان نے دراصل قرآنِ پاک کی سورۃ القارعہ میں قیامت میں پہاڑوں کی حالت کوپیشِ نظر رکھ کر ترجمہ کیاہے۔ارشادِ خداوندی ہے:

وَ تَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ

(القارعہ:5)

اور پہاڑ ہوں گے جیسے دھنکی اون۔

اسی طرح سوۃ المرسلٰت کی آیت کے پیشِ نظر کہ ارشادخداوندی ہے :

وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ

(المرسلٰت:10)

اور جب پہاڑ غبارکرکے اڑادیئے جائیں۔

امام احمدرضانے سَرَابًا کا وہ مفہوم بیان کیا ہے کہ جیسااس وقت نظرآئے گاکیونکہ قیامت سے قبل جو زلزلوں کاایک طویل سلسلہ شروع ہوگاجس کی وجہ سے پہاڑجواپنی جگہ سے چلنا (سرکنا)شروع ہوں گے۔ٹوٹ ٹوٹ کرگرجائیں گےاور زمین کی اپنی تھرتھراہٹ کی وجہ سے بڑے بڑے گڑھے پڑجائیں گے جس میں سے زمین اپنے اندرکا لاوا(LAVA)اگلے گی، یعنی (VOLCANIC ERUPTION)ہوگااورجب یہ لاوا(LAVA)ٹھنڈا ہوجائےگاتویہ دورسے چمکتی ریت کی طرح پانی کادھوکادےگاکہ لوگ پانی کی طرف دوڑیں گےمگرپانی ان کو نہ مل سکےگا۔کیونکہ اس وقت زمین سخت تانبے کی ہوگی۔ اور تانبے پرسورج کی شعاعیں پڑیں گی تو دوسرے دیکھنےوالوں کواس کی سطح پرپانی کاگمان ہوگا۔ اس سارے منظر کے پیشِ نظرامام احمدرضابریلوی نے لفظ سَرَابًا کی مکمل جامعیت کو اپنے ترجمہ میں سمودیاہے۔انہوں نے ترجمہ کرتے ہوئےتمام علوم کا لحاظ رکھاہے۔

امام احمدرضاصرف دینی علوم کے ہی نہیں سائنسی علوم کے بھی اپنے وقت کے امام ہیں یہاں صرف ایک مثال علمِ ارضیات کے حوالے سے بھی دیناچاہوں گا۔کیونکہ علمِ ارضیات راقم کا شعبۂ تعلیم وتدریس ہے اور ترجمہ کے وقت کئی آیات ایسی نظرکے سامنے آئیں کہ جن کے تراجم میں اگرعلمِ ارضیات کی اصطلاحات میں ترجمہ نہ کیاجاتاتوراقم امام موصوف کے سائنسی شعورسے کبھی آگاہ نہ ہوتااس لیے دومثالیں ملاحظہ کیجیےجس کو دیگرمترجمین اپنے تراجم میں علمِ ارضیات کی صحیح عکاسی نہ کرسکے۔قرآنِ پاک کی سورہ النٰزعٰت کی 30ویں آیت میں اللہ پاک ارشادفرماتاہے:

وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىہَا

(النٰزعٰت:30)

اور اس کے بعد زمین پھیلائی۔

دیگرتراجم کاجب مطالعہ کیاجائےتواکثرمترجمین نےدحٰھاکے معنی پھیلنےکے بجائے جماؤکیے ہیں جب کہ پھیلنااورجمانادومختلف مفہوم رکھتے ہیں۔جمانےسےجومفہوم ذہن میں آتاہے وہ یہ کہ کوئی چیزتہہ بہ تہہ ایک کے اوپرایک جم رہی ہوجس طرح سمندرکے اندرمٹی تہہ بہ تہہ جمتی ہے اور اس طرح آبی چٹانیں(Sedimentary Rocks)بنتی ہیں اور یہ عمل دراصل پہاڑوں کے بننے یاجمائےجانے کاتصورپیش کرتاہے۔اس کے مقابلے میں لفظ پھیلنےسے جو مفہوم ایک علمِ ارضیات کے طالبِ علم کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ کسی چیز کے پھیلنے سے اس کاحجم(یہاں رقبہ مرادہے)بڑھے۔علمِ ارضیات کے ماہرین کاکہناہے کہ زمین جب سے وجودمیں آئی ہےبرابرپھیل رہی ہے۔۲۵؎یہ عمل اسی طرح جاری ہے کہ دنیاکے تمام بڑےبڑے سمندروں(OCEANS) یعنی بحیرۂ ہند،بحیرۂ اوقیانوس وغیرہ میں بیچ بیچ میں 5تا 6میل گہرےپانی کے نیچےسمندری خندقیں،جن کوOceanic Trenches بھی کہاجاتاہے،موجودہیں۔ یہ خندقیں ہزاروں میل لمبی ہیں۔خندقوں سے ہروقت گرم گرم پگھلاہوا لاوا(LAVA)نکل رہاہے۔جب یہ لاواخندق کے دونوں سروں پرآتاہے تو جلد ٹھنڈاہوجاتاہے۔جب نیالاواپھرنکلتاہےتووہ پہلے جمع شدہ لاوے کی تہہ کو دونوں جانب سرکاتاہے۔خندق کے کنارے پرجویہ عمل ہوتاہے تواس سرکنے سے پوراخشک براعظم بھی سرکتاہےاورسمندرپیچھےکی جانب چلاجاتاہےیعنی زمین کی سطح بلند ہوجاتی ہے۔ یہ عمل اگرچہ بہت خاموشی کے ساتھ اور بہت آہستہ ہوتاہےمگربرابرجاری رہتاہے۔

براعظم اسی عمل کی وجہ سے پھیل رہے ہیں۔اس پھیلاؤ کی رفتارمختلف براعظموں کی مختلف ہے۔کوئی براعظم ہرسال3سینٹی میٹر سمندرسے اونچاہوجاتاہےکوئی ۳ سینٹی میٹر نیچے۔ براعظم ایشاکے برصغیرپاک وہندکاحصہMount Everestہرسال 3،اعشاریہ5سینٹی میٹر اوپراٹھ جاتاہےاس کو آسانی سے سمجھنے کے لیے بحیرۂ ہند کا مطالعہ کریں، یہ ہرسال پیچھے ہٹ جاتاہےاس طرح سمندری کناروں کاحجم ہرسال بڑھ جاتاہے۔اس قدرتی عمل سے زمین برابرپھیل رہی ہے اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی نشاندہی سورہ النٰزعٰت کی آیت میں فرمائی اور سوائے امام احمدرضاکی قوتِ بصیرت کے اس عمل کو سمندرکی 6میل تہہ کے نیچے کوئی اور نہ دیکھ سکا۔امام موصوف نے باطنی علوم کی روشنی میں دیکھ لیا اس لیے انہوں نے اس قدرت کے عمل کو ترجمے میں ارضیاتی اصطلاح کو استعمال کرتےہوئےاپنی علمی وسعتوں کا اظہارکیااورترجمہ کیااس کے بعدزمین پھیلائیزمین کے پھیلنے کے اس عمل کو صرف امام احمدرضاجیساسائنسداں ہی دیکھ سکاکیونکہ ظاہری لفظوں کے ساتھ ساتھ وہ قرآن کا باطن بھی اللہ کی دی ہوئی فہم سے سمجھتے ہیں جب کہ اردوزبان کے تمام مترجمین قرآنی آیت کا ترجمہ علمِ ارضیات کی روشنی میں نہ کرسکےجس علم کے متعلق آیت اشارہ کررہی ہے۔

راقم الحروف علمِ ارضیات کا طالبِ علم ہے اور گزشتہ 20سال سے جامعہ کراچی کے شعبہ ارضیات میں علومِ ارضیات کی تدریس میں مصروف ِ عمل ہے اس لیے میری نظر جب قرآن پرپڑتی ہےتومیں آیاتِ قرآنی میں وہ قانون تلاش کرتاہوں جوزمین کی پیدائش اور اس کے ارتقاء سے تعلق رکھتےہیں۔مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی کہ کسی بھی ترجمہ ٔقرآن میں مجھے علومِ ارضیات سے متعلق خصوصاً اوردیگرسائنسی علوم سے متعلق عموماًایسی اصطلاحات نہیں ملتیں جو ان علوم وفنون کی نشاندہی کریں،مثلاً:

علمِ ارضیات میں یہ قانون عام ہے کہ زمین جب پیداہوئی تویہ آگ کا گولہ تھی اس کے بعد یہ ٹھنڈاہوناشروع ہوئی۔ٹھنڈا ہونےکے دوران یہ برابرہچکولے کھاتی رہی یعنی اس میں تھرتھراہٹ تھی اورزمین کو قرارنہ تھا۔اس کے ساتھ ساتھ زمین کے اوپرپہاڑ بنناشروع ہوئے،زمین اگرچہ اوپرسے ٹھنڈی ہوگئی مگراس کے اندر(نیچے)گرم پگھلاہوامادہ مائع کی شکل میں موجود رہا،پہاڑ(آبی یا آتشی)سمندرکے نیچے بھی موجودہیں اورسمندرکے باہرزمین کے اوپربھی موجودہیں اور یہ سب پہاڑ اسی گرم لاواکے اوپراسی طرح لنگراندازہیں جس طرح سمندری جہاز سمندرمیں لنگراندازہوتاہے۔ اس سمندری جہازکو اس کے لنگر(Anchors) روکے رکھتےہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس زمین کی جنبش یا تھرتھراہٹ کو پہاڑوں کے لنگرڈال کر روک رکھاہےیہی وجہ ہے کہ زمین ہم کو ساکن محسوس ہوتی ہے۔ جب کبھی اس توازن میں فرق آتاہے تو ان مقامات پرزلزلے آجاتے اوربعض اوقات بڑی بڑی دراڑوں(Deep Faults)کےذریعےوہ پگھلاہوالاوابھی اوپرآجاتاہے کیونکہ ان سخت پہاڑوں کے نیچے ہر جگہ یہ لاواموجودہےکہیں اس کی گہرائی ہزاروں فٹ میں ہے اور کہیں اس کی گہرائی کئی سو میل کے نیچے ہے۔زلزلہ کے وقت جو تھرتھراہٹ یاجنبش ہوتی ہے زمین اپنی پیدائش کے وقت اس طرح کانپتی رہتی تھی۔اللہ تعالیٰ نے پہاڑ بناکراس پر لنگراندازکیے اور اس طرح اس زمین کوسکون حاصل ہوا۔اس سارے عمل کو علمِ ارضیات میں (Plate-Tectionics)کہتےہیں۔

ان امثال کے بعدیہ بات قطعی واضح ہوجاتی ہے کہ امام احمد رضا کا ترجمۂ قرآن دیگرتمام تراجم سے زیادہ بہترہے اوریہ عین سائنٹیفک توجیہات کے مطابق بھی ہےیہاں موقع نہیں ورنہ دیگرسائنسی علوم وفنون سے متعلق بھی آیات کا تقابل پیش کرتا۔شواہداوردلائل اس بات کے مظہر ہیں کہ امام احمد رضا مسلمان سائنسدانوں میں ان چند ہستیوں میں شامل ہیں جن کو دین کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کا مجدد تسلیم کیاجاسکتا ہےکیونکہ امام احمد رضا کی کوئی بھی تھیوری قرآن و حدیث کے خلاف نہیں ہوتی۔ دنیا آج زمین کو سورج کے گرد گھومتا ہوا تسلیم کرتی ہے مگر آپ نے اپنی کتاب فوزِ مبین درردِّ حرکتِ زمین میں 105دلائل سے زمین کو ساکن قراردیا کیونکہ قرآن کی نص سے یہ بات ثابت ہے کہ زمین و آسمان ساکن ہیں اور باقی سارے سیارے گھوم رہے ہیں۔

تاریخ میں ہزاروں مسلمان سائنسدان علومِ عقلیہ کے امام تسلیم کیےگئے ہیں مگر ان میں علومِ نقلیہ کی استعدادرکھنےوالے بہت کم ہیں۔اگرچہ ہر کوئی قرآن و حدیث سے استفادہ ضرور کرتا ہے کیونکہ اوّل ماخذ یہی ہے لیکن دونوں علوم میں دسترس رکھنےوالی امام غزالی جیسی ہستیاں کم ہیں۔ امام احمد رضا دینِ اسلام کے اکثر علوم وفنون کے مجدد نظر آتے ہیں۔راقم اس دعوے پر غلطی پر نہیں کہ امام احمد رضا مجددِ دین وملت اور مجددِ علومِ جدیدہ ہیں۔ حکیم محمد سعید صاحب نے صحیح تجزیہ فرمایا۔ آپ لکھتے ہیں:

گزشتہ نصف صدی میں طبقۂ علماء میں جو جامع شخصیات ظہورمیں آئی ہیں ان میں مولانا احمد رضاکادائرہ وسیع ہے۔تفقہ اور دینی علوم کے ساتھ ساتھ فاضل بریلوی کی مہارت سائنس اور ادب کے علوم میں بھی بہت زیادہ ہے ان کی بصیرت علماء سلف کے اس ذہن وفکرکی نمائندگی کرتی ہے جس میں دینی ودنیاوی علوم کی تفریق نہ تھی، ان کی شخصیت کا یہ پہلو عصرِ حاضر کے علماء اور دانش گاہوں کے معلمین دونوں کو دعوتِ فکرومطالعہ دیتاہے۔

حکیم صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں:

فاضل بریلوی کے فتاویٰ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ احکام کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لیے سائنس اور طب کے تمام وسائل سے کام لیتے ہیں اور اس حقیقت سے اچھی طرح باخبرہیں کہ کسی لفظ کی معنویت کی تحقیق کے لیے کن علمی مصادر کی طرف رجوع کرناچاہیے۔

ترجمہ میں معنویت کاپھلو:

قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت کے سب ہی معترف ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کلامِ الٰہی کے الفاظ اپنی جگہ اتنے جامع ہیں اور الفاظ اپنے اندراتنے معانی سموئے ہوئے ہیں کہ انسان اگر احادیث وتفاسیر کا سہارانہ لے توجومعنی چاہے وہ اخذکرکےمطالب نکال سکتاہے جب ہی قرآن نے ارشادفرمایا:

یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًاۙ وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا

(البقرۃ:26)

قرآن کی معنویت اورمقصدیت کوسمجھناہرفردیاعربی زبان کی معمولی قابلیت رکھنےوالوں کا کام نہیں بلکہ قرآنِ پاک کی فہم وادراک کے لئے اگرعلم لدنی حاصل نہ ہوتوکم ازکم علامہ جلال الدین السیوطی کی شرائط پراترنامترجم اورمفسردونوں کے لیے اشدضروری ہے۔ علامہ سیوطی کی شرائطِ تفسیر و ترجمہ کی روشنی میں اکثراردومترجمینِ قرآن ان پابندیوں سے دور نظر آتےہیں، جو شرائط پر پورے بھی اُترتے ہیں تو ان میں امام احمدرضابریلوی سرفہرست ہیں۔ امام بریلوی نے علومِ عقلیہ ونقلیہ کی ہرنوع پر کتب و رسائل لکھ کر یہ ثابت کردیاکہ ان کے معاصرین میں نہ کوئی عالم ہی ان جیساتھااور نہ کوئی مسلمان سائنسدان، بلکہ وہ انگریز سائنسدانوں سے بھی بہت آگے تھے،افسوس کہ ان کے یہ علمی کارنامے زیورِطباعت سے آراستہ نہ ہوسکے۔یہاں قرآن کے معنوی پہلو کو سمجھنے کے لیے امام احمدرضاکے ترجمۂ قرآن سے سورۃ رحمٰن کی ابتدائی آیات کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے، یہ ترجمہ تفاسیر کی مکمل عکاسی بھی کرتا ہے، ملاحظہ کیجیے:

اَلرَّحْمٰنُ ۙ﴿۱﴾ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ؕ﴿۲﴾ خَلَقَ الْاِنْسَانَ ۙ﴿۳﴾ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ

(سورۃ الرحمٰن:4-1)

رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔ انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا۔ ما کان وما یکون کا بیان انہیں سکھایا۔

دیگر معروف مترجمین کا ترجمہ بھی ملاحظہ کیجیے:

(۱)رحمٰن نے قرآن کی تعلیم دی۔ اس نے انسان کو پیدا کیا، پھراس کو گویائی سکھائی۔

(۲)رحمٰن نے قرآن پڑھایا، اس نے انسان کو پیدا کیا۔ پھر اس کو بولنا سکھایا۔

(۳)بڑے رحم والے خدا نے قرآن محمد کو سکھایا۔اسی نے آدم کو پیدا کیا،اس کو بولنا سکھایا۔

(۴)نہایت مہربان خدا نے۔اس قرآن کی تعلیم دی۔ اس نے انسان کو پیدا کیااوراسے بولنا سکھایا۔

امام احمدرضا بریلوی نے سورۃ الرحمن کی ابتدائی آیات کے ترجمے میں جس مہارت کاثبوت دیاہے اسے لغت و تفاسیرکی روشنی میں دیکھناضروری ہے۔تب ہی اس فیصلے پرپہنچنےمیں آسانی ہوگی کہ کہاں تک یہ ترجمہ جوبالکل انفرادی خصوصیت کاحامل ہے معیاری ہےکیونکہ ایک فریق اس ترجمےکوکھلی تنقید کا نشانہ بناتاہےجب کہ دوسرا گروہ اس ترجمہ کی تائید میں دلائل فراہم کرتا ہے لہٰذا ایسی صورت میں یہ ضروری ہے کہ ترجمہ کا حقائق کی روشنی میں تجزیہ کیاجائے۔ان ابتدائی آیات میں عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ کے ترجمے میں امام احمد رضا بریلوی کے علاوہ صرف نواب وحید الزماں نے اس مقام پرقرآن سکھانانبی کریمﷺ کی ذات کی طرف منسوب کیاہے مگرفرق پھربھی یہ ہے کہ نواب وحیدالزماں نے نام نامی محمدﷺ استعمال کیا ہےجب کہ امام احمد رضا نے محبوب کا لفظ استعمال کیا ہے۔

امام احمدرضانے سورۃ رحمٰن کی تیسری اور چوتھی آیات کا مرادی ترجمہ کیاہے جو تقریباً مترجمین سے مختلف ہے۔ایک لمحہ کے لیے ترجمہ پڑھ کرتعجب یقیناًہوتاہےلیکن قاری اس ترجمۂ قرآن کوپڑھنےکے بعد محظوظ ضرورہوتاہے جب کہ عربی زبان سے کچھ واقفیت رکھنے والاجس کی تفاسیرپر اچھی نظر ہو داد دیئےبغیرنہیں رہتاکیونکہ تفاسیرکے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس ترجمۂ قرآن میں معتبر تفاسیر کا بھرپورسہارا لیا گیا ہے۔ جیسا کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ سے جمہورمفسرینِ قرآن نے خلقتِ مصطفیٰﷺ ہی مراد لی ہے اور عَلَّمَہُ الْبَیَانَ سے مراد اکثرمفسرین کے نزدیک علم ماکان ومایکون ہی لیاگیاہے۔ مثلاًامام القرطبی اس مرادی معنی کو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے اخذ کرتے ہیں:

وعن ابن عباس ایضًا وابن کیسان (خَلَقَ الْاِنْسَانَ)الانسان ھاھنا مراد بہ محمد ﷺ۔

ابن عباس اور ابن کیسان خَلَقَ الْاِنْسَانَ سے متعلق فرماتے ہیں کہ یہاں الانسان سے مراد محمدﷺ ہیں۔

خلق الانسان انہ محمدﷺ (عَلَّمَ الْبَیَانَ) کل شئی ماکان ومایکون قالہ ابن کیسان۔

خلق الانسان سے مرادیہاں محمدﷺ ہیں جن کو ماکان ومایکون کاکل علم اللہ نے سکھایا یہ فرمان ابن کیسان کا ہے۔

۔۔۔۔۔ملاواعظ حسین کاشفی اپنی فارسی تفسیر میں جمہورمفسرین کی آراء کے مطابق تشریح فرماتےہیں:

(خَلَقَ الْاِنْسَانَ)بیافریدخداجنس آدمیان(عَلَّمَہُ الْبَیَانَ)بیان اموخت خدآموخت محمدﷺ راوبیاموزیدویرابیان آنچہ بود ھست وباشدچنانچہ مضمون فعلمت علم الاولین و الاخرین معنی خبرمیدھد۔

ترجمہ:پیداکیاخدانےانسان کو جنس۔۔۔تعلیم کردیا اس کو بیان یعنی محمدﷺ کو پیدا کیا اور جو کچھ تھا اور ہے اور ہوگا سب ان کو تعلیم کردیا چنانچہ علمت علم الاولین والآخرین اسی کی خبر دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔دورحاضرکے مفسرین میں علامہ طنطاوی (المتوفی۱۳۵۸ھ/۱۹۴۰ء) بھی قریب قریب یہی معنی مرادلیتےہیں:

الرحمن علم القرآن ای علم محمد القرآن ومحمد علم امتہ۔

یعنی اللہ نے محمدﷺ کوقرآن سکھایااورمحمدﷺنے اپنی امت کو قرآن سکھایا۔

ترجمہ میں معنویت کی عکاسی:

امام احمدرضاکاترجمہ لفظوں کی مقصدیت کے اعتبارسےبھی اپناثانی نہیں رکھتا۔ترجمہ قرآن میں مقصدکے پہلوسےمرادیہ ہے کہ قرآن کسی مقام پر خاص مضمون یاکسی خاص حقیقت کو عام لفظوں میں جوتاثر قائم کرتاہے ترجمۂ قرآن میں مناسب الفاظ منتخب کرکے اس تصورِ قرآن کوذہن نشین کرایاجائے اس مقصدکےلیے جوآیات منتخب کی ہیں اس میں امام احمدرضا خان نے عام مترجمینِ قرآن سے ہٹ کراورقرآن سے قریب تر رہ کر تمام معتبر تفاسیرکی جمہوررائےکے مطابق ترجمہ کیاہےاس سلسلے میں مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ ہو:

قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ

(سورۃ الکھف:110/حم السجدۃ،4)

تم فرماؤ!(ظاہرصورتِ بشری میں تو)میں تم جیساہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔

تم فرماؤ!آدمی ہونےمیں تومیں تمہیں جیساہوں مجھے وحی ہوئی کہ تمہارامعبودایک ہی معبود ہے۔

ساتھ ہی ساتھ دیگرتراجمِ قرآن بھی ملاحظہ ہوں:

(۱)توکہہ میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم، حکم آتاہے مجھ کو تمہاراصاحب ایک صاحب ہے۔

(۲)(اےپیغمبراُن لوگوں سے)کہوکہ میں(بھی تو)تم ہی جیساایک بشر ہوں۔(مجھ میں تم میں صرف اتنافرق ہے)کہ میرے پاس (خداکی طرف سے)یہ وحی آئی ہے کہ تمہارامعبود (وہی اکیلا)ایک معبودہے۔

(۳)(اور)آپ (یوں بھی)کہہ دیجیےکہ میں تم ہی جیسا بشرہوں میرے پاس بس یہ وحی آتی ہے کہ تمہارامعبودِبرحق ایک ہی معبودہے۔

اس آیت کے ترجمہ میں مترجمین نے کسی نہ کسی لفظ کا اضافہ کیاہے اور کچھ نہ کچھ زوردینے کی کوشش کی ہے بلکہ آیت کاسادہ ترجمہ کرنے کے بجائے اس میں زورِبیان پیداکرنے کی کوشش کی گئی ہے جو قرآنی آیات کے لیے مناسب نہیں۔ بہتریہ ہوتاکہ قرآن کا وہی مفہوم لیاجاتاجو آیت سے حاصل ہورہاہے۔اپنا من پسند مفہوم اخذ کرنے کے لیے کسی لفظ کا غیر ضروری اضافہ یاترجمہ کرتے وقت زورِبیان پیداکرناکسی طرح بھی مناسب نہیں۔ قرآنی آیات کی خوبی یہ ہے کہ اگر انہیں اردومیں اسی انداز سے منتقل کیاجائےتب بھی بات سمجھ میں ضرورآجاتی ہے۔

اسی آیت میں قُلْ اگرچہ فعلِ امرہے لیکن اس سے مراد محض کہنا ہے، اعلان کرنا ایک الگ بات ہے۔ اسی طرح آیتِ مبارکہ میں لفظ بس کا اضافہ یا بھی اور واحد صاحب قطعی غیرضروری اور غیر مناسب معلوم ہوتے ہیں۔یوں بھی چونکہ قل کے مخاطب کفارو مشرکینِ مکہ ہیں ان کو کوئی بھی اہلِ زبان جونبی کریمﷺ کوپہلے ہی بشرکہتے تھے اورسمجھتے تھےاور اس مسئلہ میں ان کو کوئی اختلاف بھی نہیں تھامگراس کو قرآنِ پاک نے کئی مقامات پر خودکفارِ مکہ کی زبان میں دھرایابھی ہے مثلاًسورۃ فرقان میں اللہ تعالیٰ کفارِ مکہ کے قول کو دھراتے ہوئے ارشادفرماتاہے:

وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ؕ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَكٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا ۙ﴿۷﴾ اَوْ یُلْقٰۤی اِلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ تَکُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاْکُلُ مِنْہَا ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا

(الفرقان:8-7)

اوربولے(کفارِقریش)اس رسول کو کیا ہوا کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے کیوں نہ اتارا گیا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کہ ان کے ساتھ ڈر سناتا یا غیب سے انہیں کوئی خزانہ مل جاتا یا ان کا کوئی باغ ہوتا جس میں سے کھاتے اور ظالم بولے (مسلمانوں سے) تم تو پیروی نہیں کرتے مگر ایک ایسے مرد کی جس پر جادو ہوا ۔

 

اللہ تعالیٰ نے کفار کی ان کہاوتوں کااپنے محبوب کی تسلی کی خاطریہ جواب دیا:

اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثٰلَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا

(الفرقان:9)

(اے محبوب)دیکھو کیسی کہاوتیں تمہارے لیے بنارہے ہیں تو گمراہ ہوئے کہ اب کوئی راہ نہیں پاتے۔

امام بغوی ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکاقول نقل کرتے ہوئے رقمطرازہیں:

قال ابن عباس علم اللّٰہ رسولہ التواضع لنلایزھوعلی خلقہ،فامرہ اللّٰہ یقرأ فیقول أنا آدمی مثلکم إلا انی خصصت بالوحی وأ کرمنی اللّٰہ بہ

یعنی اللہ تعالیٰ نے آیتِ کریمہ میں نبی کریمﷺ کواظہارِ تواضع کے لیے حکم فرمایا چنانچہ آیتِ کریمہ میں یوں ارشاد کیا گیا کہ پیارے محبوب فرمادیجئےکہ آدمی ہونے میں میں تمہاری مثل ہوں مگرمجھے وحی جیسی نعمت عظیمہ کے ساتھ مختص کیاگیااور اللہ تعالیٰ نے اس وحی کی وجہ سے بزرگ کیا۔اس کے علاوہ امام بغوی کے اس قول کو جو ابن عباس سے منسوب ہے تفسیرِ نیشاپوری، تفسیرِخازن اوردیگرمعروف مفسرین نے بھی نقل کیاہےتفسیرِ روح البیان میں علامہ شیخ اسماعیل حقی اس بشریت کی مزید وضاحت فرماتے ہیں:

(قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ) بمعنی قل یا محمد ما أنا إلا آدمی مثلکم فی السورۃ ومساویکم فی بعض الصفات البشریۃ

یعنی اے محمدﷺ فرمادو میں نہیں ہوں مگر تم جیسا آدمی صورت میں (نہ کہ حقیقت میں) اور بعض صفات ِبشریہ (نہ کہ کل)کے ظہورمیں تم جیساہوں۔

اس مقام پر ملاواعظ حسین کاشفی، شیخ رکن الدین علاءالدولہ سمنانی کے اقوال نقل فرماتے ہیں۔رسول اکرمﷺ کی تین صورتیں ہیں ایک صورتِ بشری جیساکہ حق تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ

دوسری ملکی جیساکہ خود رسالت مآبﷺنے ارشاد فرمایا:

إنی لست کأحدکم إنی أبیت عند ربی یطعمنی و یسقینی

تیسری صورتِ حقی جیساکہ خودارشادفرمایا:

لی مع اللّٰہ وقت لایسعنی فیہ ملك مقرب ولا نبی مرسل

اوراس سے بھی کھلی یہ حدیث ہے:

من رانی فقد رای الحق۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے مدارج النبوۃ میں واضح طور پر قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ کو متشابہات میں شمارکیا۔ ان کے نزدیک اس آیت کو متشابہات میں شمارکرنے کی واضح دلیل یہ ہے کہ جمہورمفسرین کے نزدیک مِّثْلُکُمْ کاخطاب ان کفارومشرکین سے ہے جو طرح طرح کی کہاوتیں گھڑتےتھےاورپھرکہتےکہ ہم اپنے جیسے آدمی کو کیسے نبی ورسول مان لیں اس پر اللہ تعالیٰ نبی کریم کی دلجوئی کی خاطراوران کوتواضع کی تعلیم دینےکی خاطر اس آیت کریمہ کو نازل کیا۔یہ حقیقت ہے کہ نبی کریمﷺ کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں کسی صحابیٔ رسول نے اپنی زبان مبارک سے کفارومشرکین کی کہاوتوں کے الفاظ کبھی نہیں دہرائے یہاں تک کہ جب ایک دفعہ نبی کریمﷺ نے ایک صحابی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ فرمایاکہ قال إنی لست کھئیتکم اس پرکسی بھی صحابی رسول نے یہ نہیں فرمایا کہ یارسول اللہﷺ آپ ہمارےجیسے انسان تو ہیں اس سے ظاہر ہواکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نبی کریمﷺ کواپنے جیسا بشر تصورہی نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی یہ کہےکہ یہ محض ادبِ رسالت کی وجہ سے تھا تو بھی صحیح ہے کہ کیونکہ ادب کی ہی وجہ سے ہم قرآن ِ کریم کو دوسری کتابوں کی مثل نہیں سمجھتے،اگرچہ تمام کتابیں ایک ہی طرح کے کاغذ پر چھپی ہوئی ہوتی ہیں اگر سرِ ورق پر کوئی نام لکھاہوانہ ہو توکوئی انسان کسی بھی کتاب میں تفریق نہ کرسکےمگر جب سرورق پرقرآنِ کریم لکھاہواہوتاہے تووہ کتاب دیگر کتب سےمنفردوممتاز ہوجاتی ہےاسی طرح ہرانسان دیکھنےمیں ایک جیساہے مگرجب کسی کے پاس وحی کا نزول ہوتاہے تو وہ تمام انسانوں سے منفرد وممتاز ہوجاتا ہےاور سوائے ظاہری صورت کے وہ اس جیساہرگز نہیں ہوتا۔

صوتی حسن، سلاست وترنم:

علومِ قرآن سے شغف رکھنے والےاس امرسے بخوبی واقف ہیں کہ اعجازِ قرآن میں ایک اچھوتاصوتی حسن اور وجد آور صوتی سلاست و ترنم ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نےالفوزالکبیرکے بابِ سوم میں قرآن کے صوتی ترنم اور سلاست و نغمگی پرسیر حاصل گفتگو کی ہے مثلاً ایک جگہ کہتے ہیں:

خداتعالیٰ نےاکثر سورتوں میں آواز کی کشش کااعتبارکیاہے نہ کہ بحرِطویل ومدید وغیرہ کا۔

آگے تحریر فرماتے ہیں:

دیکھو حق تعالیٰ ایک جگہکریمادوسری جگہحدیثااور تیسرے مقام پر بصیرافرماتا ہے۔ اگر حراف روی کی موافقت کاالتزام اس موقع پر کیا جائے تو گویا خود کو ایک غیر لازمی شئی کا پابند بنانا ہے جیسا کہ سوۃ مریم، اور سورۃ فرقان، کے ابتداء میں واقع ہوا ہے علی ہذا ایک مخصوص جملے کو کلام کے درمیان باربارلاناہی لذت پیداکرتاہے جیساکہ سورۃ شعراء،سورۃ قمر،سورۃ رحمٰن وسورۃ مرسلات میں واقع ہے۔

دورِحاضر کے محقق اور ادیبِ شہیرعلام شمس الحسن شمس بریلوی قرآن کے صوتی حسن سے متعلق لکھتے ہیں:

قرآنِ کریم کے اسلوبِ بیان کے سلسلے میں کوئی جامع بات کہنا انسانی قدرت سے باہر ہے کیونکہ انسان کے نظم اور نثر کے جتنےبھی اسلوب جس جس زبان میں بھی بنائے گئےہیں قرآن کے کسی اسلوب میں محدودنہیں ہوتاہےکیونکہ اس کا اپنا ایک اسلوب ہے جس کو قرآنی اسلوب کہاجاتاہے۔قرآنی اسلوب کے وجوہ اعجاز میں ایک وجہِ اعجاز نظمِ قرآن ہے۔قرآن بطورِکل،حروف، کلمات اورجملوں سے مرکب ہوتاہے۔حروف کامادہ صوت (آواز)ہےیعنی وہ صوت سے بنتے ہیں اور قرآن کےکلمات کی ترکیب حروف سے ہوتی ہےاور جملہ ان کلمات کی ترکیب سے بنتاہے،نظمِ کلام کااعجازان تینوں سے وابستہ ہے۔

قرآنِ پاک کی بلاغت یہ ہے کہ فنونِ ادبی ازقسمِ مجاز،کنایہ استعارہ اوردوسری ادبی خصوصیات جو قرآنِ حکیم میں ادبی حیثیت سے موجودہیں بالکل طبیعی ہیں۔قرآنِ حکیم نے بصورت مجاز، استعارہ اور کنایہ جو لفظ جہاں استعمال کیا ہے، اس کے سوا کوئی اور لفظ نہیں مل سکے گایہی وجہ ہے کہ حروف، کلمات اورجملوں کے نظم سے اگرآپ قطع نظربھی کرلیں تو یہی ایک وصفِ خاص کاملاً اعجازِ قرآن میں ایک مقام رکھتا ہے۔ قرآنِ حکیم کا صرف ایک حرف بھی اپنے موقع کی مناسبت سے دوسرے تمام حروف پر ان کی تقدیم و تاخیراور اسی طرح دوسرے کلموں اورجملوں کے مقابلے میں اپنے اندراعجازرکھتاہےیعنی صرف ایک حرف جس طرح اور جہاں قرآن میں استعمال ہوا،خواہ تمام حروف کی تقدیم و تاخیرکی جائے یا دوسرے کلمات یاجملے اس کی جگہ رکھ دیئے جائیں وہ خوبی ہرگزپیدانہیں ہوسکتی۔


متعلقہ

تجویزوآراء