کنز الایمان پس منظر اور پیش منظر

کنزالایمان:پس منظراورپیش منظر

تحریر:مولاناغلام مصطفیٰ رضوی،مالیگاؤں،انڈیا

قوانینِ الٰہی کی اطاعت اور انسانیت کی رہبری کے لیے انبیائےکرام کی بعثت ہوئی اور پھر جب وقارِآدمیت وانسانیت زوال کی انتہاکو پہنچاتوخاتم الانبیاسیدِعالم رحمتِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد ہوئی اور یوں دین مکمل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی دین ٹھہرا:

اِنَّ الدِّ یْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسلَامُ

بےشک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔

(کنزالایمانآلِ عمران: 19)

قرآنی انقلاب:

کتابِ حکمت قرآنِ مقدس کے نزول نے دین کی اکملیت پر مہر ِتصدیق ثبت کردی جب کہ عرب میں فصاحت و بلاغت کا بڑازورتھااوراخلاقی لحاظ سے پستی میں رہ کربھی عرب ادب کی زبان میں کلام کیاکرتے تھےاور اس قدرنازاں تھے کہ ساری دنیاکو گونگا گردانتے۔ ایسے میں قرآنِ مقدس کا نزول ان کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوااور وہ بے زبان ہو کر رہ گئے۔

عرب کا معاشرہ بڑاابتراور ظلم سے مکمل طور پر آلودہ تھا۔ قرآن ِمقدس کی بنیاد پر رحمتِ عالمﷺ نے جو معاشرہ تشکیل فرمایا وہ ایک انقلابی اور آفاقی معاشرہ کہلایا۔جو ظالم تھے وہ رحم دل اور نیک بن گئے،پتھر دل موم ہوگئے۔اس کے اثرات عالم گیر تھےنتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کاپیغام پوری کائنات کے لیے متاثرکن ثابت ہوا۔قرآن نے معاشرے میں انقلاب برپاکردیا۔شعور کو صحیح راہ دی اور علم و فن کاذوق دلایا۔ تجربہ و مشاہدہ کی سمت مائل کیا۔ قرآن سے روشنی لے کر مسلمانوں نے سمتوں میں علم و فن کی روشنی پھیلائی اور جبینوں کے وقار کو پامال ہونے سے بچایا۔معبود برحق کی بارگاہ میں سروں کو جھکایا۔قوانینِ فطرت کا پابند بنایا۔

قرآنِ مقدس کی رہنمائی ایسی جامع اورعالم گیرہےکہ ماضی،حال و مستقبل سب اس سے فیض یاب ہیں اور ممنونِ کرم۔ جغرافیائی و سیاسی اور لسانی و ارضیاتی حدود و قیود قطعاً حائل نہیں اور پوری کائنات کو قرآنی ہدایات و احکام کی ضرورت ہے۔ کتاب ایسی کہ شکوک و شبہات سے بری و منزا:

ذٰ لِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدً ی لِّلْمُتَّقِینَ

وہ بلندرتبہ کتاب(قرآن)کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں ہدایت ہےڈروالوں کو۔

(کنزالایمانالبقرۃ:2)

ایک سازش:

نزولِ قرآن سے اسلام دشمن اور فطرت سےانحراف کرنےوالےادیانِ باطلہ لرزاٹھے۔ فطری دین کی تابشیں بہت جلد نہاں خانۂ دل کو روشن کرنے لگیں۔اسلام کی دعوت کے نتیجے میں دنیا ایک عظیم و صالح انقلاب سے دوچارہوئی تو تمام باطل قوتیں متحد ہوکر اسلام کے مقابلے پر جٹ گئیں۔اللہ کریم کی مدداور قرآن کی رہنمائی نے مسلمانوں کو ناکامی سے بچائے رکھااورہرجامسلمان کام یاب ہوتےگئے۔جب دو بدو،مقابلےمیں مخالفین ناکام و نامراد ہوگئےتوقرآنِ مقدس کے خلاف سازشیں تیارکرنے لگے،اس کے کلامِ الٰہی ہونے میں شبہات پھیلانے لگےحالاں کہ پہلے ہی قرآنِ مقدس نے چیلنج کررکھاتھا:

وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّانَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِ نَا فَأْتُوْابِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ

اوراگرتمھیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے خاص بندے پر اتاراتواس جیسی ایک سورت تو لے آؤ۔

(کنزالایمانالبقرۃ:23)

مخالفین مبہوت ہوکررہ گئے۔ ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ انہیں پتہ تھاکہ قرآن کا جواب نہیں اور اس کے احکام شک و شبہہ سے بالاترہیں۔اس کے فیصلے غلطیوں سے مبرا ہیں۔ پھر بھی وہ اسلام سے مخالفت میں قرآن کے خلاف سرگرم رہےاور توہین کے حیلے بہانے تلاش کرتے رہے۔

۱۸ویں صدی عیسوی میں اسلام کے خلاف متحرک برطانوی سامراج نے جو خفیہ منصوبہ بنایا اس میں جو اہم نکتہ تھااسے برٹش جاسوس ہمفرے نے اس طرح لکھاہے:ضروری ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجودقرآن میں کمی و بیشی کرکے لوگوں کو شک میں مبتلا کیا جائے۔ایک اور مقام پر تحریر کرتاہے کہقرآن میں کمی بیشی۔۔۔۔۔ایک جدید قرآن کی نشرو اشاعت۔ان کی یہ سازش بارآور تونہ ہوسکی اس لیے کہ قرآن مقدس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھاہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَ وَاِنَّالَہٗ لَحٰفِظُوْنَ

بے شک ہم نے اتاراہے یہ قرآن اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔

(کنزالایمانالحجر:9)

اور یہ اعجاز ہے قرآن کا جو کسی اور کتاب کو نہ ملااس لیے بھی کہ جس طرح سرکاردوعالم ﷺخاتم النبیین ہیں قرآن بھی آخری پیغام جس کے احکام جاری و ساری رہیں گے۔ قرآن مقدس کے خلاف رچائی جانے والی سازش کے دو رخ سامنے آئے:

(۱)خارجی(۲)داخلی۔

خارجی رُخ توساری دنیاکے سامنے کھلےطورپر ہے کہ کس طرح صیہونی سازشیں کام کررہی ہیں،سیدعالمﷺ کی توہین و بے ادبی ،قرآنی اصولوں کے خلاف معاشرے کی تشکیل، اسلامی قوانین ومبادیات پر طنزوتشنیع، تمدنی حملہ،تہذیبی وثقافتی حملہ، اسلامی مملکتوں میں سود رشوت اور خردبرد کو رواج دینا،قرآنی احکام پرعمل سے روکنا،اسلامی مملکتوں کے معاشی وسائل پر کنٹرول، یوں ہی فلم، اخبارات، انٹرنیٹ،الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مسلسل اسلام پر تنقید کی جارہی ہے۔

برطانوی سامراج کے سازشی نکتہ ایک جدیدقرآن کی نشرواشاعت کو بہ زعم خود اس طرح عمل میں لایاگیاکہ فرقان الحق(True Furqan)کومنظرعام پر لایاگیا۔ اس کی کم زوری کھل گئی اور مسلم معاشرے نے اس خودساختہ کتاب کو مسترد کردیا۔ ارشادِ الٰہی ہے:

وَمَاکَانَ ھٰذَ االْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ

اوراس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے بنالے بےاللہ کے اتارے۔

(کنزالایمان یونس:37)

فتنوں کی بھیڑ:

یہودونصاریٰ نے جان لیا کہ ہم اسلام کے مقابلے میں کوئی سازش بناتے ہیں، کوئی چال چلتے ہیں تومسلمان اسے ناکام کردیتے ہیں اور ان کا بھرم کھل جاتاہے۔ پھرمنصوبہ بند طریقہ یہ اپنایاکہ جو ظاہراًمسلمان رہیں وہ ہمارے کام انجام دیں۔اسلاف کی راہ چھوڑ بیٹھنےاور دینی اصولوں سے انحراف کرنے والے ایسے مسلم نماافراد کے بارے میں جسٹس پیرمحمدکرم شاہ ازہری تحریرفرماتےہیں:

بعض نوجوانوں کو جن میں حکمت کی متانت کم اور جوش وخروش زیادہ ہوتاہے انگریز نے اپنے دامِ فریب میں آسانی سے اسیر کرلیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک ایسی کھیپ تیار ہوگئی جن کے قلب ونظرکو اغیار کی عشوہ طرازیوں نے اپنا گرویدہ بنالیا۔وہ برملااسلامی تعلیمات کا استخفاف کرنےلگے۔دین کے اصول ،دین کےمسلمات کا انکاران کے لیے قطعاً کوئی اہم بات نہ رہی،انہیں اپنے اسلامی تمدن سےبھی گھن آنے لگی۔

اس وجہ سے کہ یہ کوئی بات کہیں گے تونوعیت مسلمان کی سی ہوگی اوربات انگریزکی۔ اس تناظرمیں جب ہم برصغیر میں انگریزی اقتدارکاجائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جب انگریزوں نے یہاں قبضہ جمایاتوسب سے شدیدمخالفت مسلمانوں نے کی اور جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کا معرکہ پیش آیا۔جس میں اصل کردارعلمائے حق نے اداکیا۔پھر ایسے علماخریدے گئےجنھوں نےبارگاہِ سیدِ عالمﷺ میں اہانت و گستاخی کی جسارت کی، ان کے پس ِپشت مادی منفعت وآسائش کارفرماتھی۔قرآن توبدلنے سے رہے پھر ایسی من گھڑت تفسیریں منظرعام پرلائی گئیں کہ عقیدے کی دنیابنجرہوکررہ جائےاورفکرمجروح۔اس سلسلےمیں وہابیت،دیوبندیت،غیرمقلدیت،نیچریت، قادیانیت وغیرہ نوپیدفرقے قابل ذکر ہیں۔جن کے لٹریچرایسے ہی افکار سے آلودہ ہیں کہ ایمان جاتارہے۔ ان فرقوں کے پیش واؤں نے قرآنِ مقدس کے ترجمے بھی کئے جن کا مقصد قرآن کی اپنے فہم و عقیدے کے مطابق تعبیر پیش کرناتھا۔ان کے اکابرنے اپنی اپنی کتابوں میں عظمت و شانِ رسالت مآب ﷺ میں گستاخی کی جرأت کی اور کتابیں بھی شائع کیں جن سے مسلمانوں میں انتشارپھیلا،اختلاف پروان چڑھا۔انھیں علمائے حق نے رجوع و توبہ کی ترغیب دی، ان کی حرکتوں پر حکمِ شرع بیان کیالیکن وہ باز نہ آئےاوراپنے فرنگی آقاؤں کی خوش نودی اور دنیوی فائدے کے لیےاپنی ایمان سوز عبارات کی تاویلیں گڑھتے رہے۔

فتنۂ ملتِ بیضاہے امامت اس کی

جومسلماں کو سلاطیں کا پرستارکرے

دیوبندکے ایک ذمہ دار عالم مولوی عامر عثمانی نے اپنے اکابر کی کتابوں میں متنازعہ عبارتوں کا اعتراف کرتے ہوئےاس طرح کا ریمارک دیا ہے جو لائق غورہے:ہمارے نزدیک جان چھڑانے کی ایک ہی راہ ہے کہ یا توتقویۃ الایمان اور فتاویٰ رشیدیہ،فتاویٰ امدادیہ اور بہشتی زیور اور حفظ الایمان جیسی کتابوں کو چوراہے پر رکھ کرآگ لگادی جائےاور صاف اعلان کردیا جائے کہ ان کے مندرجات قرآن وسنت کے خلاف ہیں۔

دیابنہ کے اکابرنے قرآنِ مقدس کے جو ترجمہ کیے ان میں بھی اپنے مذموم عقائد کو ملایا یوں عقیدہ و ایمان کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسراٹھانہ رکھی۔علامہ عبدالحکیم اختر شاہ جہاں پوری رقم طراز ہیں:

یوں تو قرآنِ کریم کا کتنے ہی علمانے اردوزبان میں ترجمہ کیا ہے جن میں سے مولوی محمودحسن دیوبندی (المتوفی۱۳۳۹ھ /۱۹۲۰ء)، مولوی اشرف علی تھانوی(المتوفی۱۳۶۲ھ/۱۹۴۳ء)، مولوی فتح محمدجالندھری، ڈپٹی نذیراحمددہلوی اور جناب ابوالاعلیٰ مودودی کے تراجم پاک و ہند میں آج کل بڑی آب و تاب سے شائع ہورہے ہیں اور ان حضرات کو کلامِ الٰہی کی ترجمانی کے علم بردارمنوانے کی بھرپورسعی کی جاتی رہی ہے لیکن انصاف کی نظر سے دیکھاجائے تو ان حضرات نے اپنے اپنے مخصوص خیالات کو ترجمے کی آڑ میں قرآنِ کریم سے ثابت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔

طلوع سحر:

خائف ولرزاں ہواتجھ سے ہر اک باطل پرست

تیرے علم و فضل کی ہے کیاہی یہ روشن دلیل

یہ بھی خدائی اہتمام تھا کہ انیسویں صدی میں وجود میں آنے والے فتنوں کے سدباب کے لیے ۱۸۵۶ء میں شہر بریلی میں مجدداسلام امام احمدرضاقادری برکاتی محدث بریلوی (متوفی ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء)کی ولادت ہوتی ہے۔

ایک طرف فتنوں کی بھیڑ تھی اور ہر ایک اسلام کے قصرِ رفیع میں شگاف ڈالنا چاہتا تھا۔ اسلاف کی راہوں کو چھوڑکر نئے نئےراستے تراش لیے گئے تھےاس وقت ان فتنوں کے دامِ فریب سے امتِ مسلمہ کو بچانے کے لیے امام احمدرضاکی ذات میدانِ عمل میں آئی۔ جس طرح فاسد انقلابات کا آپ نے مقابلہ کیا اورحق کے چہرے پر غبار نہ آنے دیا اس بارے میں پروفیسرڈاکٹر محمدمسعود احمد (م۲۰۰۸ء) لکھتےہیں:

امام احمدرضا متقدمین اہل سنت و جماعت کے مسلک پر قائم تھےاوراس استقامت کے ساتھ کہ زمانہ کاکوئی انقلاب ان کو متاثرنہ کرسکاحالاں کہ ان کے معاصرین میں اکثر زمانے کی رو میں بہہ گئےاور تاریخی عمل کی زد میں آگئےمگرامام احمدرضانے اپنی بے پناہ ہمت و استقامت اور حق تعالیٰ کی رحمت وعنایت سے تاریخ کے دھارے کو موڑدیا، زمانے سے ٹکر لی،اسلام کی خاطر اپنے جان ومال اور ناموس وشہرت کو داؤ پرلگادیااور بالآخروہی سب کچھ ہوا جو ان کے مولیٰ نے چاہا،بےشک؏

ایام کامرکب نہیں،راکب ہے قلندر

ہند میں عہدِ اکبری میں جو الحادسرابھاراتھااور مشیت نے مجددالف ثانی کو بھیجاتھاایسے ہی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد رونما ہوا۔اگرمجددِ اسلام امام احمدرضامحدث بریلوی شعارِ مشرکین اور باطل تحریکات کا سدِّ باب نہ فرماتے تو شاید ایمانی حمیت و رمق، الحاد و بےدینی اور مراسمِ شرک کی نذرہوکررہ جاتی۔علامہ ارشدالقادری تحریرفرماتے ہیں:

تاریخ شاہد ہے کہ وقت کا بڑےسے بڑافتنہ چاہے اپنے چہرے پر کتناہی خوب صورت نقاب ڈال کر سامنے آیاہواعلیٰ حضرت کے قلم کی ضرب سے پاش پاش ہوکےرہ گیا۔باطل کی آمیزش سے اسلام کو پاک کرنے کے لیے انہیں چومکھی لڑائی لڑنی پڑی۔فتنہ چاہے اندر کا ہو یا باہر کاان کے قلم کی تلواریکساں طورپر سب کے خلاف نبردآزما رہی۔عملِ تطہیر کی اس مہم کے پیچھےنہ کسی حکومت کی سرپرستی تھی نہ کسی دولت مندی کی منت پذیری۔

ایک ایمان افروزبہارآئی۔ڈالیاں جھولنے لگیں۔شاخیں جھومنے لگیں۔ایمان کے گلستاں میں تاز ہ پھول کھلنےلگے۔بلبلیں چہکنےلگیں۔قمریاں نغمہ ریزہوگئیں۔امام احمدرضا نے ایک انقلاب برپاکردیا۔صالح اور ایمان افروزانقلاب، باطل سوزانقلاب کہ ہر طرف چاندنی پھیل گئی بہ قول علامہ بدرالقادری مصباحی ؎

خونِ دل سے جس نے بزمِ دیں کو بخشی روشنی

ہندمیں چاروں طرف ہے اس کے رُخ کی چاندنی

روشنی ہی روشنی

تازگی ہی تازگی

عشق کی تابندگی

زندگی ہی زندگی

خوشبوئے ایماں لیے آئی نسیمِ آگہی

عشقِ سَرورکی شمیمِ جاں فزا

یوں چلی،مرجھائے غنچے کھل گئے

قافلے صحراؤں میں بھٹکے ہوئے

گنبدِخضریٰ کے رُخ پر چل پڑے۱۳؎

چوں کہ اس دورمیں قلم کا زورتھا۔اسی کے ذریعےعقیدے کی عمارت میں نقب زنی کی گئی تھی تو امام احمدرضانے قلم کے ذریعےاحیاوتجدیدِدین کا فریضہ انجام دیا۔ملک شیرمحمد خاں لکھتےہیں:

اس وقت اعلیٰ حضرت بریلوی کے علم ودانش نے زبان و قلم کے ہتھیاروں سے تجدد کی فتنہ انگیزتحریک کے خلاف صف آرائی کی اورتاریخ آج تک شہادت دے رہی ہے کہ اس منہ زورتحریک نے علم کے اسی بحرِزخّارکےسامنےدم توڑدیا۔وہ معارفِ قلب و روح کے ساتھ ساتھ علوم ِعقلی ونقلی میں بے مثال مہارت کے حامل تھے۔مسلمانانِ پاک وہندکے سوادِ اعظم کو۱۸۵۷ء میں مولانافضلِ حق خیرآبادی اور دیگرعلمائے اہل سنت کے فتوئ جہاد کے بعدآپ ہی کی تحریک عرفانِ رسالت نے مجتمع کیاتھا۔

امام احمدرضانے یہودونصاریٰ کی سازشوں کو بے نقاب کیا۔مشرکین کے شعار کا رد کیا۔ تہذیبی و تمدنی حملوں کا جواب دیا۔اوراسلامی معاشرے کے قیام کو یقینی بنایا۔ختمِ نبوت کے عقیدے پر ضرب لگانے والے مولوی قاسم نانوتوی اور مرزاغلام احمدقادیانی کو دنداں شکن جواب دیا۔قرآنِ مقدس کی من مانی تفسیریں کرنے والوں پر قدغن لگایااورتفہیمِ قرآن کے سلسلے میں رہنمائی کی اس رخ سےکنزالایمان فی ترجمۃ القرآن(۱۳۳۰ھ) ایک شاہ کار ہے جس سے ایمان کی کھیتی سیراب ہوتی ہےاور عقیدے کے گلشن میں بہارآجاتی ہے۔

کنزالایمان کی جوہرپاشی:

کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن جسے امام احمدرضا نے ۱۳۳۰ھ میں مکمل فرمایا قلیل مدت میں مقبولیت وشہرت کی بلندیوں پر فائزہوگیا۔اور ایمان سے لبریزدلوں میں بس بس گیا۔ مومنوں کی نگاہوں کا نوراور دل کا سرور بن گیا۔جس میں ادبی و فنی نیزشرعی لوازمات کی پاس داری کے ساتھ ساتھ حفظ ِمراتب کا بھی اہتمام ہے۔ملک شیرمحمدخاں لکھتےہیں:

اعلیٰ حضرت شاہ احمدرضاخاں بریلوی برصغیرپاک وہندکے وہ عظیم ترین مترجم ہیں جنھوں نےانتہائی کدوکاوش سے قرآنِ حکیم کا ایساترجمہ پیش کیا ہے جس میں روحِ قرآن کی حقیقی جھلک موجودہے۔مقامِ حیرت واستعجاب ہے کہ یہ ترجمہ لفظی ہے اور بامحاورہ بھی اس طرح گویالفظ اور محاورہ کا حسین ترین امتزاج آپ کے ترجمہ کی بہت بڑی خوبی ہے۔پھرانھوں نے ترجمہ کے سلسلہ میں بالخصوص یہ التزام بھی کیا ہے کہ ترجمہ لغت کے مطابق ہو اور الفاظ کے متعددمعانی میں سے ایسے معانی کا انتخاب کیاجائے جو آیات کے سیاق و سباق کے اعتبارسے موزوں ترین ہوں۔اس ترجمہ سے قرآنی حقائق و معارف کے وہ اسرارومعارف منکشف ہوتے ہیں جو عام طورپردیگرتراجم سے واضح نہیں ہوتے۔یہ ترجمہ سلیس،شگفتہ اور رواں ہونے کے ساتھ ساتھ روحِ قرآن اور عربیت کے بہت قریب ہے۔ان کے ترجمہ کی ایک نمایاں ترین خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے ہر مقام پر انبیاعلیہم السلام کے ادب و احترام اور عزت وعصمت کوبہ طورخاص ملحوظ رکھاہے۔

(مرجع سابق،ص۲۲)

کنزالایمان اگرچہ صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی کو املاکروایاگیالیکن ظاہری اہتمام کے بغیر فی البدیہہ وجود میں آنے والایہ ترجمہ خصوصیات ومحاسن کا حامل ہے اس لیے بھی کہ اس ترجمہ کی زمانے کو ضرورت تھی۔ترجمہ جس نے فرمایااورجس ذات نے اسے قلم بند کیا دونوں کو رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے وافرحصہ عطاہواتھا۔دونوں نےاپنی اپنی زندگی اسلام کی اشاعت اور قرآنی احکام کی ترویج میں گزاری۔امام احمدرضانے شریعت ہی کو مقدم رکھا۔۔۔شریعت سے جداراہ تلاش کرنے والوں کی خبرلی۔۔۔قرآنی احکام سے منہ موڑ جانے والوں کا محاسبہ کیا۔۔۔وہ عملی زندگی میں قرآنی احکام کی جھلک دیکھناچاہتے تھے۔۔۔اس لیے کہ جو قرآن سے قریب ہوجائےگاوہ سیدعالمﷺکے اسوہ سے قریب ہوجائےگا۔۔۔اوراللہ عزوجل و رسولﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کاپیکربن جائے گا۔۔۔قرآن ِ مقدس کے معنی و مفہوم کی گہرائی و گیرائی اور اس کی اہمیت نیزاس کے جواہر کی شان سے متعلق امام شرف الدین بوصیری (م۶۹۴ھ)فرماتے ہیں ؎

لَھَا مَعَانٍ کَمَوجِ البَحرِ فِی مَدَ دٍ

وَفَوق جَوھَرِہٖ فِي الحُسنِ وَالقِیَمٖ

ترجمہ:ان کے معانی کثرت اور زیادتی میں سمندرکی لہروں کی طرح ہیں اور حسن وجمال اور قدروقیمت میں دریاکے موتیوں سے بڑھ کر ہیں۔

(نفیس احمدمصباحی،مولانا،کشف بردہ،الجمع القادری مبارک پور۲۰۰۵ء،ص۳۱۱)

کنزالایمان بے شک ایمان کا خزانہ ہے۔۔۔دوسروں نے متاعِ ایمانی کی تباہی کا سامان کیا۔۔ قرآن ِمقدس کے ترجمے کی آڑ میں ایمان کی کھیتی کو بنجرکرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہونےدیا۔۔۔جب کہ کنزالایمان قرآن کی ترجمانی میں نمایاں رہا۔۔۔یہ ایمان کے جوہر تقسیم کرتارہا۔۔۔خوش عقیدگی کی قلمیں لگاتارہا۔۔۔ایمان کی جوت جگاتارہا۔فکرکومہکاتارہا۔۔۔مشامِ جاں کو معطر کرتا رہا۔۔۔ علامہ عبدالحکیم خاں اختر شاہ جہاں پوری نے سچ فرمایا:

قرآنِ مجید کے یوں تو اردو میں بہت سے ترجمے منظرعام پر آچکے ہیں لیکن کنزالایمان کے نام سے ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۱ء میں جو ترجمہ امام احمدرضاخاں بریلوی نے کیااس کا جواب نہیں ہےحقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نےاردومیں کلامِ الٰہی کی ترجمانی کا حق اداکردیاہے۔ یہ ترجمہ ایک جانب تفاسیرِ معتبرہ کے عین مطابق ہے تودوسری جانب اردوادب کی جان، عظمتِ خداوندی و شانِ مصطفوی کا نگہبان اور حفظ ِ مراتب کا پاسبان ہے۔ واقعی یہ ترجمہ کنزالایمان کا خزانہ ہے۔

(عبدالحکیم خاں اخترشاہ جہاں پوری،علامہ،خصائص کنزالایمان، مشمولہ ماہ نامہ قاری، دہلی،مئی۱۹۹۰ء،ص۴۹)

خصوصیات کی ایک جھلک:

مولانابدرالدین احمدقادری رضوی تحریرفرماتے ہیں:دورِحاضر میں اردو کے شائع شدہ ترجموں میں صرف ایک ترجمہ کنزالایمان ہے جو قرآن کا صحیح ترجمان ہونے کے ساتھ (۱)تفاسیرِمعتبرہ قدیمہ کے مطابق ہے۔(۲)اہلِ تفویض کے مسلک اسلم کا عکاس ہے۔ (۳) اصحابِ تاویل کے مذہب سالم کا مؤید ہے۔(۴)زبان کی روانی اور سلاست میں بے مثل ہے۔(۵)عوامی لغات و بازاری بولی سے یکسرپاک ہے۔(۶)قرآنِ حکیم کے اصل منشا و مراد کو بتاتاہے۔(۷)آیاتِ ربانی کے اندازخطاب کو پہچنواتاہے۔(۸)قرآن کے مخصوص محاوروں کی نشان دہی کرتاہے۔(۹)قادرِمطلق کی ردائےعزت وحرمت کا محافظ و نگہبان ہے۔(۱۱)عامۂ مسلمین کے لیے بامحاورہ اردومیں سادہ ترجمہ ہے۔(۱۲)لیکن علما و مشائخ کے لیے حقائق ومعارف کا امنڈتاسمندرہے۔

(بدرالدین احمدقادری،علامہ، سوانح اعلیٰ حضرت،رضااکیڈمی ممبئی ۲۰۰۲ء،ص۳۶۶)

کنزالایمان کی جامعیت کے حوالے سے علامہ شمس بریلوی(م۱۹۹۷ء)کے ملفوظات میں ایک نفیس نکتہ نظرسے گذراجسے بہ طور مثال یہاں درج کرتاہوں،جامع ملفوظات پروفیسر ڈاکٹر مجیداللہ قادری فرماتے ہیں:

علامہ شمس بریلوی نےاحقر سے سوال کیا:قادری صاحب!یہ بتائیےکہ قرآن میں سفر معراج میں جانے کا ذکر تو سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں موجود ہےواپسی کا ذکر کس آیت میں ہے؟فقیر کوفوری ذہن میں نہیں آیا۔پھر خودہی فرمایاکہ:قربان جائیےاعلیٰ حضرت پراوران کے فہمِ قرآن پر آپ نے سورۃ النجم کی پہلی آیت کریمہ اس پیارے چمکتےمحمدکی قسم جب یہ معراج سے اترے کاجوترجمہ کیاہے وہ اردو زبان کے تراجم میں بالکلوَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی منفرد ہے۔آپ نے قرآن پاک کی اس آیت کریمہ کا جو ترجمہ کیا ہے اس سے نبی کریم ﷺ کی سفرِمعراج سے واپسی کا اس طرح ثبوت پیش کردیا ہے کہ داد دیے بغیر نہیں رہاجاسکتا۔

(مجیداللہ قادری،ڈاکٹر،ملفوظات شمس،ادارۂ تحقیقات امام احمدرضاکراچی۲۰۰۳ء، ص۶۴۔۶۵)

ڈاکٹر صابرسنبھلی نےاپنے ایک تحقیقی مقالہ میں کنزالایمان کی ادبی نقطۂ نظر سے ۸ خصوصیات بیان کی ہیں:

(۱)آیات کے تراجم میں ربط ِباہمی(۲)روانی(۳)سلاست(۴)اردوکاروزمرّہ (۵)اللہ (تعالیٰ) اور رسول(ﷺ)کے مراتب کالحاظ(۶)احتیاط(۷)سوقیانہ اور بازاری الفاظ سے اجتناب(۸)سہل ِممتنع

(صابرسنبھلی،ڈاکٹر،سہ ماہی افکاررضاممبئی،جولائی تادسمبر۲۰۰۰ء،ص۱۶)

ہمہ گیر اثرات اور مقبولیت:

کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن کی پہلی اشاعت نعیمی پریس مرادآباد سے ہوئی۔دوسری اشاعتاہل سنت برقی پریس مرادآباد میں صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی (م۱۹۴۸ء) کے تفسیری حواشیخزائن العرفانکے ساتھ ہوئی،پھرجب طلب بڑھتی گئی اشاعت کا دائرہ پھیلتاگیا۔اس کی شہرت برصغیر سے نکل کر اکناف عالم میں پھیل گئی۔ ایسی مقبولیت نصیب ہوئی کہ اردوزبان میں کسی اور ترجمۂ قرآن کو نہیں ملی جس سے مخالفین کے حواس جاتے رہےاور وہ بجائے اس استفادہ کے اس کی مخالفت پر اترآئےپروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمدلکھتےہیں:

امام احمدرضا کاترجمۂ قرآنکنزالایمانجب لاکھوں کی تعدادمیں مشرق و مغرب میں پھیلنےلگاتوبڑی تشویش ہوئی،یہ کوشش کی گئی کہ الزام تراشیوں کا سہارالے کر کم از کم عرب ملکوں میں اس پر پابندی لگوادی جائےاور بالآخرپابندی لگادی گئی۔۔۔جب کہ ایسے مترجمین کے ترجموں پر پابندی نہ لگی جو قرآن کی اداؤں کےرازدارنہیں۔۔۔جوترجمے کے مزاج سے واقف نہیں۔

(محمدمسعوداحمد،پروفیسرڈاکٹر،مقدمہ البریلویہ کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،رضااسلامک فاؤنڈیشن بھیونڈی،ص۱۴۔۱۵)

پھرعرب میں بھی اس کی عظمتوں کے گن گائے جانے لگے۔نگاہوں سے پردے اٹھنے لگے۔صداقت شعاراس کی طرف مائل ہونےلگےاورمطلع صاف نظرآنےلگا۔پروفیسر ڈاکٹرمحمدمسعوداحمد نے سچی اور دل لگتی بات کہی:مطالعہ و مشاہدہ نیک و بداورخیروشرکی پہچان کا بہترین ذریعہ ہے۔پروپیگنڈے سے کچھ وقت کے لیے خیرکو شراور نیک کو بد بنا کر پیش کیاجاسکتاہے مگرہمیشہ کے لیے نہیں۔۔۔مطالعہ کے بعدجب جہل و لاعلمی کے پردے اٹھتے ہیں تو مطلع صاف نظرآنے لگتاہے۔

(محمدمسعود احمد،پروفیسرڈاکٹر،آئینۂ رضویات،مرتبہ محمدعبدالستارطاہر، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضاکراچی۲۰۰۴ء،ص۶۱)

اورایمان کے خزانے تقسیم ہونے لگے۔۔۔اس ترجمے کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہونےلگے۔راقم نے اپنے ایک مقالے میں ایسے ۹ تراجم کا ذکرکیاہے جن میں اکثر مطبوعہ ہیں ان میں انگریزی،بنگلہ،ڈچ،ترکی، ہندی، کردل،گجراتی،بروہی،پشتواورسندھی ترجمے میں شامل ہیں۔کتب و مقالات بھی اس کثرت سے لکھےگئےکہ راقم نے اجمالی فہرست تیارکی تو تعداد۶۰ سے بڑھ گئی جب کہ جن کاعلم نہیں وہ سواہیں اور یہ ۲۰۰۵ء کی بات ہے اس کے بعد بھی کئی اہم کام ہوئے ہیں۔ مولانا محمدعبدالمبین نعمانی تحریرفرماتے ہیں:

ناشرینِ قرآن کا فیصلہ ہے کہ آج کنزالایمان جس کثرت سے پھیل رہاہے اور جس عقیدت سے پڑھاجارہاہےدوسرےتمام اردوتراجم اس سے بہت پیچھےہیں اس کی مقبولیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اب تک انگریزی،ہندی،بنگالی،گجراتی،پنجابی،سندھی،بلوچی، ڈچ وغیرہ متعدد زبانوں میں اسے منتقل کیا جاچکا ہےاور بہت ساری زبانوں میں اس کو منتقل کرنےپر کام جاری ہے۔

(محمدعبدالمبین نعمانی قادری،مولانا،خاتمتہ الطبع،مشمولہ کنزالایمان، رضا اکیڈمی ممبئی، ص۹۹۱)

ڈاکٹرصابرسنبھلی نےترجمۂ کنزالایمان کا لسانی جائزہ کے زیرِعنوان ایک تفصیلی مقالہ قلم بندکیاہے۔کراچی یونی ورسٹی کے پروفیسرڈاکٹرمجیداللہ قادری نے پروفیسرڈاکٹر محمودمسعود کی نگرانی میں کنزالایمان اور معروف قرآنی تراجم کے عنوان سے مقالہ لکھ کر۱۹۹۳ء میں کراچی یونی ورسٹی کراچی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

کنزالایمان میں کشش ہے۔جو ہر چمکتاہےلیکن حالات کی گرد کی جب تہہ اسے دھندلادیتی ہےحسن کی کشش کم ہوجاتی ہےلیکن یہ وہ خزانہ ہے جس کی چمک دمک میں نشیب نظر نہیں آتا،سچ ہے وہ شمع کیابجھےگی جسے خدائے تعالیٰ نے روشن فرمایاہے،کنزالایمان؛ قرآن ِ مقدس سے روشن ہوااور ایسا کہ جہاں بھر میں مشہورہوگیا۔اہلِ علم کی نگاہوں کا نوربن گیا۔ اپنوں کی کیابات بیگانےبھی اس کی عظمت کے معترف ہیں راقم نے اس کے مظاہر خود دیکھے۔

چندسال گزرےکہ شیخ الازہردکتورمحمدسیدطنطاوی کی سرپرستی میں چلنےوالاتحقیقی ادارہ مجمع البحوث الاسلامیہ قاہرہ مصرنے کنزالایمان کوتحقیق کے بعد اردوزبان کا معتبر و مستند ترجمۂ قرآن قراردیااس سلسلے میں الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پورکی کوششیں شامل ہیں۔ازہرسے معرکہ آراترجمہ کے متعلق سند کے اجراکی خبر درج ذیل عربی اخبارات میں شائع ہوئی جن کے عکس راقم کے پاس محفوظ ہیں:

(۱)صوت الازھرقاہرہ مصر،۱۲ربیع الآخر۱۴۲۱ھ۔

(۲)الجمھوریۃ۱۸ربیع الاول۱۴۲۱ھ۔

(۳)الازھرربیع الآخر۱۴۲۱ھ۔

آخرالذکرنے تفصیلی خبردی علاوہ ازیں انگریزی و فرانسیسی میں شائع ہونے والے کے شمارے میں خبردی۔اخبارالد عوۃ نے۲۶ربیع الاول ۱۴۲۱ھ

حزم واحتیاط:

قرآنِ مقدس کی ترجمانی سعادت کی بات ہے لیکن یہ بڑی احتیاط کی راہ ہے۔یہاں صرف علم ہی کافی نہیں بلکہ شعوروفکرپرخشیت وخوف الٰہی کاہونابھی ضروری ہے اور دل میں احترام ومحبت کا جلوہ بھی۔علم کے ساتھ ساتھ وہ ترجمہ نگاری کے تمام اصول و ضوابط سے پوری طرح باخبرہو،علامہ عبدالحکیم شرف قادری(م۱۴۲۸ھ/۲۰۰۷ء)رقم طراز ہیں:

(۱)مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس زبان میں ترجمہ کررہاہےاس زبان اور عربی لغت کے معانی وضعیہ سے آگاہ ہو،اسے معلوم ہوکہ کون سا لفظ کس معنیٰ کے لیے وضع کیا گیا ہے؟

(۲)اسے دونوں زبانوں کے اسالیب اورخصوصیات کابھی پتاہو۔

(۳)کسی آیت کے متعددمطالب ہوں توان میں سے راجح مطلب کواختیارکرے۔

(۴)اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت کوپیش نظررکھےاورترجمہ میں کوئی ایسالفظ نہ لائے جو بارگاہ الٰہی کے شایان شان نہ ہو۔

(محمدعبدالحکیم شرف قادری،علامہ،مقالات رضویہ،الجمع المصباحی مبارک پور، ۲۰۰۰ء،ص۲۹)

مناسب معلوم ہوتاہے کہ ذکرکردہ اصولوں کے پیش نظر دومثالیں درج کردی جائیں۔ پہلی عظمتِ الٰہی عزوجل سے متعلق ہے اور دوسری عظمتِ سیدناآدم علیہ السلام سے متعلق۔

پھلی مثال:

اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

اِنَّ المُنَافِقِینَ یُخٰدِ عُونَ اللہَ وَھُوَ خَادِ عُھُم

(سورۃ النساء:142)

البتہ منافق دغابازی کرتے ہیں اللہ سے اور وہی ان کو دغادے گا۔

(ترجمہ ازمولوی محمود حسن دیوبندی)

اللہ تعالیٰ کی طرف دغا کی نسبت کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے،اس لیے اس آیت کا ترجمہ یہ ہے:

(بےشک منافق لوگ اپنےگمان میں اللہ کو فریب دیاچاہتے ہیں اور وہی انھیں غافل کرکے مارے گا۔(کنزالایمان

منافقین اللہ تعالیٰ کو دغانہیں دے سکتےکیوں کہ وہ تو عالم الغیب و الشھادۃہے،وہ ہرظاہر اور مخفی امرکوجانتاہے،اسے کون دھوکادےسکتاہے؟ہاں منافقین دھوکہ دینے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں،اگرچہ انھیں اس میں کام یابی نہیں ہوسکتی، وَھُوَ خَادِعُھُم کاکتنا عمدہ اور صحیح ترجمہ ہے کہ:وہی انہیں غافل کرکے مارے گا۔

(محمدعبدالحکیم شرف قادری،علامہ ،مقالات رضویہ،الجمع المصباحی مبارک پور،۲۰۰۰ء،ص۲۹)

 

دوسری مثال:

عصمتِ انبیاکاتقاضاہے کہ ان کا ادب واحترام بجالایاجائے،آیت مبارکہ

وَ عَصٰی اٰدَ مُ رَبَّہٗ فَغَوٰی

(سورۃ طٰہٰ:121)

کےدوترجمے دیکھیں پھرکنزالایمان کا ایمان افروز ترجمہ،

ترجمہ مولوی اشرف علی تھانوی:اورآدم سے اپنے رب کا قصو ہوگیاسو غلطی میں پڑگئے۔

ترجمہ مولوی عاشق الٰہی میرٹھی: اورآدم نے نافرمانی کی اپنے رب کی پس گمراہ ہوئے۔

اول الذکرنے حضرت آدم علیہ السلام کی ذات سے قصوراورغلطی کا انتساب کیا جب کہ آخر الذکرنےنافرمانی اورگمراہی کا۔اور یہ عصمتِ انبیاکے موافق اور شایانِ شان نہیں جب کہ امام احمدرضا نے جو ترجمہ کیااس میں ترجمہ کے قواعدکااہتمام بھی ہےاور عصمتِ انبیاکاپاس بھی:

(اورآدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی توجو مطلب چاہاتھااس کی راہ نہ پائی۔(کنزالایمان

اختتامیہ:

اللہ تعالیٰ نے امام احمدرضاکو مقبولیت عطاکی۔آپ کے ترجمۂ قرآن کو مقبولیت عطاکی۔ ایسی مقبولیت کہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ پھیلتی ہی جارہی ہے۔امام احمدرضاایسے مقبول تھے کہ حرمین کے اکابرعلماتعظیم بجالاتے،مدح میں زبان تررہتی۔ مکہ معظّمہ کے جلیل القدر عالم مولاناعبدالحق الہ آبادی کے تلمیذ مولانامحمدکریم الفنجابی (مدینہ منورہ) فرماتے ہیں:

میں سالہاسال سے مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہوں ہندوستان سے ہزاروں انسان آتے ہیں ان میں اہلِ اصلاح،اہلِ تقویٰ سب ہوتے ہیں انھیں دیکھاہےکہ وہ بلدۂ مبارکہ کی گلیوں میں گھومتے ہیں کوئی ان کی طرف دھیان نہیں کرتالیکن آپ کی مقبولیت کی عجیب شان دیکھتاہوں کہ بڑےبڑےعلما،عظماآپ کی طرف دوڑے آرہے ہیں اور تعظیم بجالانے میں جلدی کررہے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتاہے دیتاہےوہ بڑےفضل والا ہے۔

(احمدرضاخاں،امام،الاجازات المتینتہ لعلماء بکتہ والمدینتہ ،مشمولہ رسائل رضویہ،مترجم محمداحسان الحق رضوی،مولانا،ادارۂ اشاعت تصنیفات رضابریلی،ص۱۳۰)

 

جیسے جیسے وقت گزرتاجارہاہےامام احمدرضاکی خدمات سے آشنائی بڑھتی جارہی ہے اور تطہیرِ فکرکاعمل برابرجاری ہے اور کنزالایمان کی عظمت و شہرت کے نقوش گہرے ہوتے جارہے ہیں، اس خزانے کی چمک دمک سے نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں اور باطن بھی روشن لاریب:

ذٰ لک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء


متعلقہ

تجویزوآراء