کنز الایمان تاریخ کے آئینے میں

کنزالایمان تاریخ کے آئینےمیں

تحریر:ڈاکٹر مجید اللہ قادری

امام احمد رضامحدثِ بریلوی کے اردوترجمۂ قرآن سے قبل بیسیوں اردوتراجمِ قرآن موجود تھے مگراتنی بڑی تعداد میں تراجم کی کیا ضرورت تھی؟ کیا شاہ برادران۱؎کےاردوتراجمِ قرآن کافی نہ تھے کہ اتنی بڑی تعداد میں تراجمِ قرآن کیے گئے۔اصولی اعتبارسےایک یا چند اردوتراجم کافی تھے کہ اس کو تمام مسلمان پڑھتےاوراستفادہ کرتےیاجب ایک خاصی تعداد اردوترجمۂ قرآن کی سامنےآگئی تھی تو سب مسلمان مل کرایک قرآن کے ترجمے پر متفق ہو جاتےاوراگرکسی مستندترجمۂ قرآن پر اتفاق نہ ہو پاتا توپھرکسی ایک عالم پر اتفاق کرکے اس سے ترجمۂ قرآن کرواتے تاکہ برصغیرپاک و ہندمیں مسلمان ایک ترجمہ پر متفق رہتے اور بغیر تفرقہ کے پُرسکون زندگی گزارتے۔مختلف تراجمِ قرآن پڑھنےکے بعد قاری کو یہ احساس ہوتاہے ہر مترجمِ قرآن کی فکرجدا ہےاورعقائد کے معاملے میں ہرمترجم دوسرے سے مختلف ہے۔اس کی اس فکراور جدیدنظریات کوترجمۂ قرآن میں پڑھاجاسکتا ہے۔ مترجمینِ قرآن نےجہاں۱۳ویں صدی ہجری میں ترجمہ ٔقرآن کے ذریعہ اردو زبان کے دینی ادب کو فروغ دیا وہاں انہوں نے اپنے خودساختہ عقائد اور نظریات کو بھی ترجمۂ قرآن میں بھرپور جگہ دی لیکن اس عمل سے ایک عام قاری کے اعتماد کو سخت دھچکا لگا کہ وہ اس ترجمۂ قرآن کو ہی منشاءِ الٰہی سمجھنےلگااورجو کچھ ترجمےکے ذریعےاس کو عقیدہ ملا،وہ اس کوہی حق سمجھا۔

قارئین کرام!۱۳ویں صدی ہجری میں متعدد نئے عقائد رکھنے والے مترجمینِ قرآن نے برصغیر پاک و ہند میں اپنے اپنے تراجمِ قرآن کے ذریعہ فرقہ بندیوں کا ایک جال بچھا دیا۔ ابتدا میں نیچری، چکڑالوی، دیوبندی، پرویزی، اہلِ قرآن، اہلِ حدیث، قادیانی، وغیرہ وغیرہ نہ جانے کتنے نئے نئے نظریات رکھنے والے سامنے آئے اور انہوں نے اپنے عقائد کے پرچار کے لیے قرآن کا سہارا لیا اور اپنے عقائد انہوں نے ترجمۂ قرآن کے ذریعے لوگوں تک پہنچائے اور عام لوگ صحیفے قرآن کے ترجمہ کو بھی روحِ قرآن سمجھتے ہوئے اس پر یقین کرتے چلے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر میں عقائد کی ایک جنگ چھڑگئی۔برصغیر میں جہاں ایک طرف اردو زبان فروغ پارہی تھی تو دوسری طرف ترجمۂ قرآن کے ذریعہ تفرقہ کی آگ سلگائی جارہی تھی اور ہر کوئی ترجمۂ قرآن سے سہارا لے رہا تھا۔ شاید ان ہی حالات کے لیے قرآن میں ایک جگہ ارشادموجودہے:

یُضِلُّ بِہٖ کَثِیراًوَّ یَھدِ ی بِہٖ کَثِیراًط وَمَایُضِلُّ بِہٖ اِلَّاالفٰسِقِینَO

(البقرۃ:۲۶)

ترجمہ: اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہےاوربہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے۔اور اس سے انہیں گمراہ کرتاہے جو بے حکم ہیں۔

قرآنِ مجیدکو اللہ تعالیٰ نے اس لیے نازل کیا کہ یہ ہر دور میں حق و باطل میں امتیاز بنائے۔ ۱۳ویں صدی ہجری برصغیر پاک و ہندمیں اس لحاظ سے بڑی ابترتھی کہ انگریز یہاں مختلف سازشوں کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوارہا تھا۔اس نے مسلمانوں کے درمیان خونی جنگ سے ابتداء نہ کی بلکہ اس نے مسلمانوں کی یکجہتی ختم کرنے کے لیے نام نہاد مسلمانوں اور نام نہاد علماء کے ذریعہ اول ترجمۂ قرآن کے ذریعہ لوگوں کو منتشر کرنے کی سازش کی اور دوسری طرف اس نے نبی کریم ﷺ کی محبت اورعظمتوں کوکم کرنے کے لیے نام نہاد مسلمانوں سے ایسی باتیں قلم سے لکھوائیں جو ۱۳سوسال میں کسی نے نہ لکھیں اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کو منتشر کردیا۔لہٰذا ان حالات کے پس منظر میں ایک جامع،مستنداورصحیح العقیدہ ترجمہ کی ضرورت تھی۔

اللہ تعالیٰ نے امام احمدرضاسے ترجمۂ قرآن کا کام لیا۔امام احمدرضا کے ترجمۂ قرآن میں اسلاف کے عقائد کارنگ نمایاں ہے بالخصوص برصغیرپاک و ہندکے اکابرین مثلاًحضرت عبدالحق محدث دہلوی،حضرت مجددالف ثانی،حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی،حضرت شاہ عبدالعزیزدہلوی،حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی،حضرت نظام الدین اولیاء،حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہم الرضوان۔

قارئینِ کرام کے ذہن میں یہ سوال بھی جگہ پاسکتا ہے کہ اس کاکیا بین ثبوت کہ امام احمد رضا کا ترجمۂ قرآن ہی مستند ہے اور باقی تراجم مستندتراجم نہیں۔یقیناً یہ سوال قاری کے ذہن میں آسکتا ہےاس کے لیے راقم اصولِ ترجمۂ قرآن کی کسوٹی پیش کرتا ہے۔ پھر قاری خود فیصلہ کرے کہ کون سا مترجم مستند ہےاور کون سا نہیں۔

علامہ جلال الدین سیوطی(م۹۱۱ھ/۱۵۰۵ء)مفسرِ قرآن کے لیے بیسیوں علوم پر دسترس کو لازمی قرار دیتے ہیں جن میں سے چند نقل کیے جا رہے ہیں:

علم اللغتہ،علمِ نحو، صرف،علمِ معانی و بیان،علمِ اصولِ دین،علمِ اصولِ فقہ،علمِ حدیث،علمِ ناسخ و منسوخ،علم التاریخ،علمِ محاوراتِ عرب وغیرہ وغیرہ۔

(الاتقان فی علوم القرآن،جلد۲،ص۱۸۵،سہیل اکیڈمی،لاہور)

علامہ جلال الدین سیوطی کی بیان کردہ شرائط کی روشنی میں مترجمِ قرآن کی ذمہ داری مفسرِ قرآن سے بھی زیادہ بنتی ہے کیوں کہ مترجمِ قرآن کو بہت ہی محدودالفاظ میں وہی کچھ کہنا یا لکھناہےجومنشاءِ الٰہی ہے اور یہ کام ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرورہے۔تمام احتیاط کے ساتھ مستند ترجمہ جب ہی ممکن ہے کہ مترجمِ قرآن تمام تفاسیر،تمام کتبِ احادیث، فقہ و تاریخ پر دسترس کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب پر کامل عبوررکھتاہو۔ساتھ ہی وہ عبقری شخصیت کا مالک ہو۔علاوہ ازیں مترجمِ قرآن اصل مآخذ عربی زبان سمجھنے کی حد درجہ صلاحیت رکھتا ہو۔ احقر اس میں صرف یہ اضافہ کرے گا کہ مترجمِ قرآن تمام دینی علوم کے ساتھ ساتھ تمام دنیاوی علوم کوبھی سمجھتا ہو کہ قرآن میں ہر علم سے متعلق آیات موجود ہیں اور ترجمہ کرتے وقت ضروری ہے کہ مترجم اس علم کو بھی جانتا ہواورپھراس علم سے متعلق اصطلاحات کو ترجمہ میں استعمال کرے تاکہ اس علم کی نشاندہی ہوسکے۔

ان حقائق اورقوانینِ تفاسیروترجمہ کے آئینے میں جب آپ اردو مترجمینِ قرآن کو دیکھیں گے تو آپ کواکثر مترجمین اس کسوٹی پر پورے اترتے ہوئے نظرنہیں آئیں گے کیونکہ اکثر مترجمینِ قرآن کنزالایمان سے قبل کے اور متعدد مترجم ِقرآن کنز الایمان کے بعد کے بھی، مستندعالم دین ہی نہیں ہیں اور ان کی کوئی مستند کتب نہ اصولِ دین پر ہیں اور نہ اصولِ حدیث و تفسیر پر ہیں، نہ ہی فقہ پر دسترس ہے اور نہ ان کی عربی زبان میں کوئی تصنیف ہے جس سے ان کی قابلیت کا اندازہ لگایاجاسکے۔ اصل عربی متنِ قرآن سے ترجمہ کرنے والا بھی شاید کوئی ایک بھی مترجم سوائے امام احمدرضا کے نظر نہ آئے گا۔تمام مترجمینِ قرآن نے ترجمہ کرتے وقت اپنے سے قبل اردو تراجم سامنے رکھے ہیں یا انہوں نے صرف لغت کا سہارالیاہے۔آپ معروف مترجمین کے حالات کامطالعہ کریں، اکثریت آپ کو صحافی پیشہ نظر آئے گی یا کسی نہ کسی نئے فرقے کا بانی یا ان کا پیروکارنظرآئے گا ان تمام فرقوں میں کسی فرقے کی عمر سو برس بھی نہیں ہے اور ان تمام مترجمینِ قرآن میں ایک بھی مترجم ایسا نہیں ہے جس کو دین و دنیا کے تمام علوم پر دسترس حاصل ہو سوائے امام احمد رضامحدثِ بریلوی کے۔اور یہ محبت یا عقیدت میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے کہ امام احمد رضا نے ایک ہزارسے زا ئدرسائل ایک سو سے زیادہ علوم و فنون پر اردو، فارسی اور عربی میں لکھے ۔ فقہ میں ان کا عظیم قلمی شاہکار(غیر تخریج شدہ)۱۲؍جلدوں پر مشتمل فتاویٰ رضویہ ہے جس کے ہر ہر مسئلہ میں قرآن و حدیث و فقہ کے اصول سے استفادہ کیا گیا ہے۔ دوسری طرف دیگرمترجمینِ قرآن پر اجمالی نظر ڈالیے، سرسیداحمد خان، دنیاوی ماہر تعلیم او رگورنمنٹ کے ملازم، مولوی عاشق الٰہی میرٹھی، عام مدرس، مولوی فتح محمد جالندھری، کہ سوائے ترجمۂ قرآن کے اور کوئی تصنیف نہیں، ڈپٹی نذیراحمددہلوی، افسانہ نگار، مولوی محمودالحسن دیوبندی، دیوبندی عالم دین،مولوی مرزا وحید الزمان، اہلِ حدیث، مولوی اشرفعلی تھانوی، معروف دیوبندی عالم مگر شانِ رسول میں گستاخ، ابوالکلام آزاد،صحافی۔مولوی مودودی، صحافی وسیاستدان۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی، اہلِ قرآن۔ غلام احمد پرویز، فرقہ پرویز کا بانی۔[تفصیل کے لیے احقرکاPh.Dتھیسس بعنوان کنزالایمان اور معروف تراجمِ قرآن کامطالعہ ضرور کریں] فیصلہ قاری خودکرسکتاہے کہ کو ن سامترجمِ قرآن مستندہے۔

برصغیر پاک وہندمیں ایک صدی کے اندرکثیرتعدادمیں نئے نئے فرقے سامنے آئے اور ہر فرقے کا اپناترجمۂ قرآن ہے جو اس فرقے کے نظریات کی تائید کرتاہے مگرعام قاری کیونکہ عربی زبان سے نابلد ہوتاہے اس لیے وہ ہر فرقے کے ترجمے کوترجمۂ قرآن ہی سمجھتا ہے اور اس دھوکے میں آکر اس کو ہی اپنا عقیدہ بنالیتاہے۔

امام احمدرضاکے احباب نے آپ سے گزارش کی کہ ملتِ اسلامیہ غیر مستنداردوتراجمِ قرآن کے باعث فرقہ بندیوں کا شکارہورہی ہےاورروزانہ نئے فرقے اورعقائدسے دوچار ہورہی ہے،اس لیے آپ ایک مستندترجمۂ قرآن لکھیں تاکہ ملتِ اسلامیہ کو راہِ نجات ملے۔ چنانچہ امام احمدرضاخان جو پہلے ہی پورے دن میں ۲۲گھنٹے مسلسل دین کی خدمت میں قلم کے ذریعہ مصروفِ عمل تھے،اس ذمہ داری کوبھی قبول کیااور مغرب و عشاء کے درمیان(جوآپ کا آرام اور وظائف پڑھنےکاوقت تھا)مولانامفتی امجدعلی اعظمی کوکہاکہ آپ میرے پاس آجایاکریں۔جیسے جیسے وقت ملے گا،احقر ترجمہ املاکروادے گا۔ حضرت مولاناامجدعلی اعظمی علیہ الرحمتہ نے حکم کے مطابق ان اوقات میں ان کے پاس بیٹھنا شروع کردیا۔

امام احمد رضانے قرآن مجید کا ترجمہ املاکرواناشروع کیا۔اس دوران کوئی تیسراآدمی نہ ہوتا۔ مولاناامجدعلی آیت تلاوت کرتےجاتےاور امام احمدرضافی البدیہہ ترجمہ لکھواتے جاتے اور دورانِ ترجمہ کسی آیت کے لیے بھی لغت کی ضرورت پیش آئی نہ کسی تفسیر کو دیکھا نہ کسی اور ترجمۂ قرآن کو سامنے رکھا۔ایک ایک گھنٹے میں ایک،آدھ پارے کا ترجمہ لکھوادیااور کبھی کسی لفظ یاجملے کو دوبارہ لکھوانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔مولاناامجد علی بعض دفعہ مطمئن نہ ہوتے مگرجب وہ تفسیریا لغت دیکھتے،ان کو وہی ترجمانی نظرآتی جو امام احمدرضانے ترجمہ میں کی تھی۔( ھذا من فضل ربی)

امام احمدرضا کے ترجمۂ قرآن کے مخطوطے سے اس بات کی واضح نشاندہی ہوتی ہے کہ ترجمہ تقریباًسال،ڈیڑھ سال کے اندر۲۸جمادی الآخر۱۳۳۰ھ کومکمل ہواجوجلد ہی مرادآباد کے پریس سے شائع ہوا۔اول صرف ترجمہ شائع ہواتھا اور بعدمیں مولانانعیم الدین مرادآبادی کے حاشیہ کے ساتھ شائع ہوناشروع ہواجو آج تک شائع ہورہاہے۔

احقر نے پاک و ہند کے اکثر علماء سے رابطہ کرکے اس اوّل ترجمۂ قرآن جو بغیر حاشیہ کے شائع ہوا تھا،حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی نہ ہوئی ۔ البتہ قدیم ترین ترجمہ جو حاشیہ خزائن العرفان کے نام سے مراد آباد سے شائع ہوا، وہ احقر کے پاس موجود ہے۔

امام احمدرضا کے ترجمۂ قرآن کو جلد ہی ایک مستندترجمۂ قرآن کی حیثیت حاصل ہوگئی جس کا بین ثبوت اس کی لاتعداداشاعت ہے۔برصغیر پاک و ہند کاکوئی مکتبہ ایسانہ ہوگا جہاں یہ ترجمۂ قرآن موجود نہ ہو۔ابھی چونکہ عوام اہلِ سنت کی تعداد دیگرفرقوں کے مجموعہ تعداد سے بھی زیادہ ہے، اس لیے عوام الناس کی کثیرتعداداس ترجمے کو برابرخرید رہی ہے اس لیے اس کی مقبولیت برقرارہے۔

احقرکے خیال میں کنزالایمان کی فروخت نے دیگر فرقے کے ترجمے شائع کرنے والوں کے کاروبار کو جب بالکل ٹھپ کردیاتوانہوں نے اپنے کاروبارکوسنبھالنے کے لیے دیگر فرقوں کے علمائے کرام سے مل کر ایک سازش تیارکی کہ کسی طرح کنزالایمان پر پابندی لگائی جائے تاکہ ہمارے ترجمے بھی لوگ خریدیں اور پڑھیں۔چنانچہ غیر اہلِ سنت کے علماء جمع ہوئے۔ انہوں نے غوروفکرکیااور پابندی لگوانے کی وہاں سفارش کی جہاں کی زبان اردو نہیں، عربی ہے مگر وہ اپنی سازش میں کامیاب ہوئے۔ان علماء کی سفارش پر۱۹۸۲ء میں سعودی عرب، کویت اور امارات نےاردوزبان کے ترجمۂ قرآن کنزالایمان پرپابندی لگادی۔ساتھ ہی ساتھ ایک سازش یہ بھی کی گئی کہ کنزالایمان کی مقبولیت کومزید کم کرنے کے لیے اور لوگوں کو اس سے دورکرنے کے لیے سعودی حکومت کو سفارش کی گئی کہ حج کے موقع پر اردو زبان والے حجاج کومولوی محمودالحسن دیوبندی کا ترجمۂ قرآن تحفۃً دیاجائےتاکہ ہر سال برصغیر پاک و ہند کے اردو بولنے والے مسلمان اس ترجمہ کو پڑھ کر اپنے عقائد کنزالایمان سے بدل کر اس نئے ترجمے کے مطابق کرلیں۔چنانچہ ۱۹۸۲ء سے یہ عمل آج تک جاری ہے اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مولوی محمودالحسن کا ترجمۂ قرآن نہایت خوب صورت آرائش کےساتھ چھپاہوااردوبولنے والے حجاج کو حج سے واپسی پر زم زم کے ساتھ تحفۃً پیش کیاجاتاہے۔آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اب کتنی بڑی تعداداردوترجمۂ قرآن کنزالایمان سے دورہوتی جارہی ہے۔

قارئین کرام!آپ کی معلومات کے لیے محمودالحسن کے ترجمۂ قرآن کا مختصر تعارف پیش کر رہاہوں ملاحظہ کیجئے:

محمودالحسن دیوبندی۱۲۸۸ھ/۱۸۷۲ء میں دارالعلوم دیوبندسے فارغ التحصیل ہوئےاور اس مدرسے میں تدریسی خدمات انجام دینےلگے۔۱۹۱۴،تک اسی دارالعلوم میں خدمت انجام دیتے رہے۔مولوی قاسم نانوتوی اور مفتی رشید احمدگنگوہی کی شاگردی حاصل ہوئی جب کہ ان کے تلامذہ میں مولوی حسین احمدمدنی، مولوی عبیداللہ سندھی،مولوی انورشاہ کشمیری،مولوی احمدعلی لاہوری اور مولوی الیاس کاندھلوی (بانی تبلیغی جماعت) کے نام قابل ذکر ہیں۔مالٹا کے جزائرمیں ۱۹۱۷ءتا۱۹۱۹ء قیدرہے۔اسی دوران ترجمۂ قرآن کاکام مکمل کیاجس کی تفصیل وہ خودبیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

عاجزمحمودابن مولوی ذوالفقارعلی عرض کرتاہے کہ بعض احباب نے بندے سے درخواست کی کہ قرآن شریف کا ترجمہ سلیس مطالب خیزاردوزبان میں مناسب حال زمانہ کیاجائےتاکہ لفظی اغلاط جو بعض آزادپسندصاحبوں کے ترجمے سے لوگوں میں پھیل رہی ہیں۔ان سے بچاؤ کی صورت نکل آئے۔۱؎اس عاجز نے اس درخواست کے جواب میں عرض کیاکہ اکابرکے فارسی و اردوکے تراجم موجودہیں۔پھراب کسی جدیداردوترجمہ کی کیا حاجت بجزاس کے کہ اسمائے مترجمین میں ایک نام اور زیادہ ہوجائےاور کوئی نفع نہیں اور اگریہ اکابر قرآنِ مقدس کی اس ضروری خدمت کو انجام نہ دیتے تواس شدّتِ ضرورت کے وقت میں ترجمہ بہت دشوار ہوتا۔علماء کو صحیح اور معتبرترجمہ کرنے کےلیے متعدد تفاسیر کا مطالعہ کرناپڑتااور بہت ہی فکرکرناہوتااور ان دقتوں کے بعد بھی شاید ایسا ترجمہ نہ کرسکتےجیساکہ اب کرسکتے ہیں۔

(مولوی محمود الحسن،مقدمۂ ترجمۂ قرآن،ص:۱،دارالتصنیف،کراچی)

آگے چل کر شاہ برادران یعنی حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی وشاہ عبدالقادرکے تراجمِ قرآن کو سراہتے ہوئے رقم طراز ہیں:

زیادہ کہتے ہوئے ڈرتاہوں مگراتنا ضرورکہتاہوں کہ ہم جیسوں کا ہرگز کام نہیں۔اگرہم ان کے کلام کی خوبیوں کو اور ان اغراض واشارات کوجوان کے سیدھےسیدھے مختصر الفاظ میں ہی سمجھ میں آجائیں تو ہم جیسوں کے فخرکے لیے یہ امر بھی کافی ہے۔(ایضاً،ص:۲)

مزیدخودترجمہ کرنے سے متعلق رقم طراز ہیں:

تراجم موجودہ صحیح و معتبرہ کے ہوتے ہوئے ہمارا جدید ترجمہ لہو لگاکر شہیدوں میں شامل ہونا ہے جس سے نہ مسلمانوں کو کوئی نفع معتبرہ پہنچ سکتاہے نہ ہم کو بلکہ جب ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماراجدیدترجمہ کرناگویازبانِ حال سے یہ کہنا ہے کہ تراجم موجودہ میں کوئی خلل ہے جس کا تدارک کیاجارہاہےیاہمارے ترجمے میں کوئی خوبی اور منفعت زیادہ ہے جس کی وجہ سے جدیدترجمہ کی حاجت ہوئی توہم کو جدیدترجمہ کرنافضول سے بڑھ کر نہایت مذموم اورمکررنظرآتاہے۔ (ایضاً،ص:۲)

آخرمیں اپنے ترجمہ کی غایت بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں:

اس لیے اس ننگِ خلائق کویہ خیال ہواکہ حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی کے مبارک مفید ترجمہ میں لوگوں کو جو کل ۲خلجان ہیں یعنی ایک بعض الفاظ ومحاورات کامتروک ہوجانا، دوسرے بعض بعض مواقع میں ترجمے کے الفاظ کا مختصرہوناجس سے اپنے مفیدوقابلِ قدر ترجمہ کے متروک ہونے کااندیشہ ہوتاہے۔سو اگرغورواحتیاط کے ساتھ الفاظ متروکہ کی جگہ الفاظ مستعملہ لے لیے جائیں اوراختصار واجمال کے موقعوں کوتدبر کے ساتھ کوئی لفظ مختصر زائد کرکے کھول دیاجائے تویہ عمل مستقل ترجمہ سے زیادہ مناسب ہےاور مفید بھی۔ (ایضاً،مقدمہ ترجمہ قرآن،ص:۲)

مولوی محمودالحسن دیوبندی کا اعتراف اور ان کا کیاہواترجمۂ قرآن کا مطالعہ یہ بتاتاہے کہ مولوی محمودالحسن مترجم قرآن نہیں ہیں کیونکہ اس ترجمہ میں ۹۰ فیصدترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی کا ہی استعمال ہواہے جس کا آپ نے خود اقرارکیااوراِک اور ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی میں صرف چندمقامات پر متروک الفاظ کوبدل دیا،کچھ محاورات تبدیل کیے البتہ اپنے عقائد اور نظریات کو بھرپور جگہ دی ہےجو عقائداہلِ دیوبندکے تھے۔یہ حقیقت ہے کہ شاہ عبدالقادردہلوی یاشاہ عبدالعزیز دہلوی یاان کے والد شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے داداشاہ عبدالرحیم دہلوی کے عقائد ونظریات ہرگزہرگزوہ نہ تھے جو اہل دیوبند کے ہیں جب کہ محمودالحسن دیوبندی کا ترجمۂ قرآن عقائد میں اہلِ دیوبند کی نمائندگی کرتاہے جس کے اصل عقائدنجدی ہیں۔محمودالحسن دیوبندی کے ترجمۂ قرآن کواس لیے تقسیم کیاجاتاہے تاکہ اہلِ دیوبندکے عقائد لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کیے جائیں۔

کنزالایمان پر جب پابندی لگوائی گئی تواہلِ سنت وجماعت کے عوام برصغیر پاک و ہند میں سراپااحتجاج بن گئے۔دنیابھرمیں بڑے بڑے جلسے اس پابندی کے خلاف منعقد کیے گئے اور اہلِ عرب سے مطالبہ کیاگیاکہ یہ پابندی جلدہٹائی جائے۔اس احتجاج کے باعث کچھ نرمی ضروربرتی گئی مگرمستقل پابندی سالوں لگی رہی۔اب آہستہ آہستہ یہ پابندی مکمل طور پر ختم کردی گئی ہے لیکن اہلِ دیوبندنے اس پابندی سے خاصا فائدہ حاصل کرلیا۔

اللہ کی شان دیکھئے کہ سالوں پابندی لگی رہی مگرکنزالایمان کی ترسیل میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوتاچلاگیا۔جس مقصد کے لیے انہوں نے پابندی لگوائی تھی کہ پابندی کے بعد عوام امام احمدرضا کا ترجمۂ قرآن نہیں خریدیں گے مگرسازش ناکام ہوگئی۔کنزالایمان کے مقابلے میں برصغیر پاک وہندکے مکتبوں میں محمودالحسن کے ترجمۂ قرآن کی ترسیل نہ ہوسکی جب کہ کنزالایمان کی مانگ اتنی بڑھ گئی کہ برصغیرپاک وہندکے تمام ہی بڑے بڑے مکتبےاور مطبع خانے اس اشاعت میں مصروف ہوگئے اور سب ترجمے فروخت ہوتے رہے۔ آج بھی اگرمعلومات اکٹھاکی جائیں تو تمام تراجم کی فروخت ایک طرف اور کنزالایمان کی فروخت ان سب کے مجموعے سے بھی زیادہ ہوگی۔خداعوام الناس کے عقائد کو سلامت رکھے اور کنزالایمان سے افادہ کی سعادت نصیب کرے۔

کنزالایمان پرپابندی لگنےکے بعد پاک وہند کے اندربےشمار مقامات پراحتجاجی جلسے منعقد ہوئے،ریلیاں نکالی گئیں اور علمی مذاکرے ہوئے۔ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا جو ۱۹۸۰ء میں چنداحبابِ اہلِ سنت کی مشاورت سے قائم ہواتھا۔اس نے اس پابندی کے خلاف قلمی جہاد کاکام کیااور اپنی سالانہ کانفرنسوں میں مسلسل کنزالایمان کے حوالے سے مقالات پڑھوائے،لکھوائے۔اس کے علاوہ بھی ادارہ کی کاوشوں سے اہلِ قلم نے کنزالایمان کے حوالے سے جو مقالات تحریرکیے تھے، ان کی تفصیل ملاحظہ کیجیے:

۱۔پروفیسرامتیازاحمدسعید۔کنزالایمان کاترجمۂ قرآن مجید کنزالایمان۔معارف رضا۱۹۸۵ء

۲۔پروفیسرڈاکٹررشیداحمدجالندھری۔ترجمۂ قرآن مولانااحمدرضاخان۔معارفِ رضا ۱۹۹۴ء۔

۳۔مولوی سعیدبن یوسف زئی(اہلِ حدیث)۔کنزالایمان ایک اہلِ حدیث کی نظرمیں۔ معارف رضا۱۹۸۳ء۔

۴۔محترمہ ڈاکٹرصالحہ عبدالحکیم شرف۔مولانااحمدرضاخاں اور ان کا ترجمۂ قرآن۔ معارفِ رضا۱۹۹۴ء۔

۵۔عبدالستارطاہرمسعودی۔کنزالایمان علم ودانش کی نظرمیں۔معارف رضا۱۹۸۹ء۔

۶۔مولاناغلام مصطفیٰ رضوی۔کنزالایمان اورتحقیقی امور۔معارفِ رضا۲۰۰۵ء۔

۷۔ڈاکٹرفضل الرحمٰن شرر۔کنزالایمان کے ایک علمی تجزیے کا جائزہ۔معارفِ رضا ۱۹۹۶ء۔

۸۔مولانافضل القدیر ندوی۔کنزالایمان اور خزائن العرفان۔معارفِ رضا۱۹۹۴ء۔

۹۔پروفیسرڈاکٹرمجیداللہ قادری۔قرآن،سائنس اور امام احمدرضا۔معارفِ رضا۱۹۸۹ء۔

۱۰۔پروفیسرڈاکٹرمجیداللہ قادری۔کنزالایمان کی امتیازی خصوصیات۔معارفِ رضا۲۰۰۴ء

۱۱۔پروفیسرڈاکٹرمجیداللہ قادری۔سائنس،ایمانیات اور امام احمدرضا۔معارفِ رضا۲۰۰۰ء۔

۱۲۔پروفیسرڈاکٹرمجیداللہ قادری۔کنزالایمان اور دیگراردوتراجمِ قرآن(مقالہPhD)۔۱۹۹۹ء

۱۳۔پروفیسرڈاکٹرمجیداللہ قادری۔اردوتراجمِ قرآن کا تقابلی مطالعہ۔معارفِ رضا۲۰۰۷ء۔

۱۴۔پروفیسرڈاکٹرمجیداللہ قادری۔کنزالایمان میں سائنسی مصطلحات۔۲۰۰۳ء۔

۱۵۔علامہ محمدحنیف رضوی بریلوی۔علمِ تفسیرمیں امام احمدرضاکامقام۔معارفِ رضا ۲۰۰۸ء۔

۱۶۔پروفیسرمحمدطاہرالقادری۔کنزالایمان کا اردوتراجم میں مقام۔معارفِ رضا۔۱۹۸۵ء۔

۱۷۔پروفیسرڈاکٹرمحمدطفیل۔قرآنِ حکیم فتاویٰ رضویہ کا اصل مآخذ۔معارفِ رضا۔۱۹۹۴ء

۱۸۔پروفیسرڈاکٹرمحمدمسعوداحمد۔کنزالایمان کی ادبی جھلکیاں۔معارفِ رضا۱۹۹۲ء۔

۱۹۔علامہ نوشاد عالم چشتی۔کنزالایمان اورعظمتِ رسالت۔معارفِ رضا۱۹۹۴ء۔

۲۰۔علامہ سیدوجاہت رسول قادری۔قرآنِ پاک کے اردوتراجم کا تقابلی جائزہ۔معارفِ رضا۱۹۸۹ء۔

ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضا کے علاوہ متعدد مکتبوں نے مختلف اہلِ قلم کے مقالات، مضامین اور کتابیں کنزالایمان کے حوالے سے شائع کیں۔ا ن میں سے چندمعروف کی تفصیل بھی ملاحظہ کیجیے:

۱۔امام احمدرضا کاترجمۂ قرآن حقائق کی روشنی میں۔از:تاج الشریعہ علامہ اختر رضاخاں ازہری۔ (المیزان،امام احمدرضانمبر)

۲۔امام احمدرضااوراردوتراجمِ قرآن کا تقابلی مطالعہ۔از:علامہ سیدمحمدمدنی اشرفی جیلانی۔ (المیزان،امام احمدرضانمبر)

۳۔کنزالایمان اور معارف القرآن۔ (المیزان،امام احمدرضانمبر)

۴۔امام احمدرضااورترجمۂ قرآن کی خصوصیات۔از:مولاناحکیم خلیل الرحمٰن۔ (المیزان،امام احمدرضانمبر)

۵۔کنزالایمان پر اربابِ علم ودانش کے تاثرات۔از:کلیم احمدقادری۔ (سہ ماہی افکاررضا،۲۰۰۷ء)

۶۔کنزالایمان اور عظمتِ توحید۔از:جناب یٰسین اخترمصباحی۔ (القول السدید،جولائی،۱۹۹۵ء)

۷۔فاضل بریلوی کاترجمۂ کنزالایمان۔از:ڈاکٹرفضل الرحمٰن شرر مصباحی۔ (ماہنامہ قاریتعلیماتِ قرآن نمبر)

۸۔کنزالایمان۔تفاسیرکی روشنی میں،از:مولاناعبداللہ خاں صاحب عزیزی بستی۔ (القول السدید،ستمبر،۱۹۹۲ء)

۹۔ترجمۂ قرآن۔مولوی فتح محمدجالندھری۔از:صاحبزادہ سیدمحمدزین العابدی راشدی۔ (القول السدید،جون،۱۹۹۲ء)

۱۰۔صاحبِ کنزالایمان۔از:ابوطیب نذیرفریدی۔ (نورالحبیب،جون۱۹۹۱ء)

۱۱۔کنزالایمان پر اعتراض کاتحقیقی جائزہ۔از:محمدآفتاب عالم رحمانپوری۔ (اعلیٰ حضرت،اپریل۱۹۸۹ء)

۱۲۔دولتِ عشق و ایمان یعنی کنزالایمان۔از:سیدکفیل احمدہاشمی،بریلی شریف۔ (اعلیٰ حضرت،مارچ۲۰۰۲ء)

۱۳۔ایک اہم جملہ اوراس کا فکری وفنی تجزیہ۔از:مفتی محمدشمشادحسین رضوی۔ (اعلیٰ حضرت،فروری۲۰۰۷ء)

۱۴۔ترجمانِ قرآن۔امام احمدرضاخان۔از:علامہ عبدالحکیم شرف قادری۔ (ماہنامہ کاروان قمر،فروری۲۰۰۸ء)

۱۵۔اعلیٰ حضرت کابے مثال ترجمۂ قرآن،کنزالایمان۔از:مولانابدرالدین احمدقادری۔ (مصلح الدین،مارچ ۲۰۰۸ء)

۱۶۔انوارِکنزالایمان۔از:محمدوارث جمال۔ (ناشر:مکتبہ غوثیہ،بمبئی)

۱۷۔کنزالایمان پر اعتراضات کا علمی محاسبہ۔از:خواجہ غلام حمیدالدین سیالوی مدظلہ۔ (رضااکیڈمی،لاہور،۲۰۰۱ء)

۱۸۔الردعلی الشبہ الثارۃ حول کنزالایمان۔از:فضیلتہ الشیخ غلام حمیدالدین سیالوی۔ (اکادیبیتہ رضا،لاہور،۲۰۰۱ء)

۱۹۔شانِ کنزالایمان۔ازمولانامحمدتوفیق احمدنعیمی،قاضی امان اللہ صاحب۔(شہیدِاُمّت علیہ الرحمہ اکیڈمی،اسلام آباد،آزادکشمیر،۱۹۹۶ء)

۲۰۔کنزالایمان کی امتیازی شان۔از:محمد ارشدحسین قادری۔ (ادارہ کنزالایمان،سندھ)

۲۱۔خصائصِ کنزالایمان۔از:علامہ عبدالحکیم اختر شاہجہاں پوری۔ (مرکزی مجلسِ امام اعظم لاہور)

۲۲۔محاسنِ کنزالایمان۔از:ملک شیر محمداعوان نواب آف کالاباغ۔ (رضااکیڈمی،لاہور۲۰۰۸ء)

۲۳۔کنزالایمان اور تحقیقی امور۔از:غلا مصطفیٰ رضوی۔ (نوری مشن مالیگاؤں)

۲۴۔کنزالایمان کے خلاف سازش اور اس کا مثبت جواب۔از:علامہ عبدالستارخان نیازی۔ (مرکزی مجلس رضا،لاہور،۱۴۰۳ھ)

امام احمدرضاکے ترجمہ کنزالایمان کی اشاعت کے بعد۷۰تا۸۰سال تک کسی نے ترجمۂ قرآن کرنےکی ضرورت محسوس نہ کی۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایک مستندترین ترجمے کے بعد مزیدترجمہ کرناسورج کے آگےچراغ دکھلانے کے مترادف تھا۔حقیقت بھی یہی ہےکہ جب اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے ایک چیز کو شہرت ودوام حاصل ہوجائے۔اس کے بعد اس جیسی دوسری چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔مثلاًاس دنیامیں خلافتِ راشدہ جیسی حکومت دوبارہ قائم نہیں ہوسکتی۔یہ بات نہیں کہ یہ قدرت کے لیے ممکن نہیں (معاذاللہ)بلکہ اللہ عزوجل کی بھی یہ سنت ہے کہ وہ ایک ہی دفعہ ایک شاہکار تخلیق دیتاہے جیسے حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی ذاتِ والا۔اب ان جیسادوسراناممکن ہے۔اسی لیے ان کو آخرمیں بھیجاتاکہ بقیہ انبیاءکرام کی فضیلتیں متاثر نہ ہوں۔ اسی طرح انبیاء کے بعدخلافتِ راشدہ اس کے فضل و کرم سے دنیامیں قائم ہوئی،اب اس جیسی خلافت ناممکن ہے۔اس نے فقہائے کرام میں امام ابوحنیفہ کوفہم وذکا عطاکی،اب ان جیسا امامِ مطلق ممکن نہیں۔ اس نے سیدناعبدالقادرجیلانی علیہ الرحمہ کوطریقت میں اعلیٰ مقام عطافرمادیاکہ اب ان جیسا صاحبِ طریقت قیامت تک ممکن نہیں۔اسی طرح اللہ عزوجل نے امام احمدرضا سے جہاں اور دین کی خدمات لیں۔وہاں ان سے قرآنِ کریم کاایساجامع ترجمہ کروادیاکہ اب اس کے بعدکسی اورترجمہ کی ضرورت نہیں۔یہ ترجمۂ قرآن اُردو ملتِ اسلامیہ کے لیے قیامت تک صحیح العقیدہ ترجمانی کرتارہےگا۔

خدمت قرآنِ پاک کی وہ لاجواب کی

راضی رضاسے صاحبِ قرآں ہے آج بھی

(مرزا ادیب)

پچھلے۱۵،۲۰سالوں میں اہلِ سنت کی طرف سے بھی کئی اردوترجمۂ قرآن سامنے آئے ہیں جن کی ضرورت نہ تھی مگرانھوں نے ترجمۂ قرآن کو سعادت سمجھتےہوئےیہ خدمت انجام دی۔مثلاً

ترجمۂ قرآن البیان۔ حضرت علامہ سعیداحمدشاہ کاظمی

ترجمۂ قرآن عرفان القرآن۔ پروفیسرڈاکٹرمحمدطاہرالقادری

ترجمۂ قرآن۔ علامہ مفتی سرورقادری

تبیان القرآن۔ مولوی غلام رسول سعیدی

ضیاء القرآن۔ پیرکرم شاہ الازھری

مگران تمام تراجم کو وہ مقبولیت حاصل ہی نہ ہوسکی جو کنزالایمان کو حاصل ہے۔پچھلے دور کے علماء نے امام احمدرضاکے ترجمۂ قرآن کوحرفِ آخرسمجھااور انہوں نے ترجمہ کرنے کی بجائے اس ترجمۂ قرآن کی روشنی میں تفاسیر لکھیں اور ترجمہ کنزالایمان برقراررکھا۔ ان مفسرین کی عظمتوں کو سلام جنہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ امام احمدرضاکے ترجمۂ قرآن سے بہترترجمہ ممکن ہی نہیں۔اس لیے انہوں نے تفاسیر لکھیں اور اس کمی کو پورا کیا جو امام احمدرضا اپنی مصروفیت کے باعث نہ کرسکے۔

امام احمدرضا کے ترجمۂ قرآن کا جب کسی عام ترجمۂ قرآن سے تقابل کیاجاتاہےتو صاحبِ کنزالایمان کے ترجمےمیں بہت خوبیاں اور انفرادیت نظرآتی ہے۔اس ترجمہ کی ایک اہم ترین خوبی عصرِ حاضر کے ایک بہت بڑے عالم دین حضرت علامہ مولاناعطامحمدبندیالوی علیہ الرحمہ نے مولانامفتی غلام نبی فخری صاحب مدظلہ العالی کے سامنے بیان کی، جو انہوں نے مجھ سے زبانی بیان کی۔وہ فرماتے ہیں:

امام احمدرضاکاترجمۂ قرآن کنزالایمان کی جہاں اور بےشمارخوبیاں ہیں وہاں ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ اس ترجمہ کو جس علمی سطح کاآدمی پڑھےگا۔اس کو اپنی علمی سطح کے مطابق ترجمانی ملےگی۔ہربلندعلمی سطح کے عالم کو اس میں بلندعلمی سطح کا ترجمہ ملےگااور وہ اس مقام پرامام احمدرضاکے ترجمے کی بلندی کو سمجھےگاجب کہ باقی تراجم میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔اس لیے اردوزبان میں صرف امام احمدرضاکا ترجمہ ہی سب سے زیادہ مستند اور صحیح ترجمانی کرنےوالاترجمہ ہے۔

اب ملاحظہ کیجئے ان مفسرین کی فہرست جنہوں نے کنزالایمان کومآخذ بناکرتفاسیر لکھیں۔

۱۔حاشیہ خزائن العرفان فی تفسیرالقرآن۔از:مولانامفتی محمدنعیم الدین مرادآبادی۔(م۱۹۴۸ء)

۲۔تفسیرامدادالدیان فی تفسیرالقرآن۔از:مولانامفتی حشمت علی خاں قادری پیلی بھیتی۔ (۱۹۶۱ء)

۳۔احسن البیان لتفسیرالقرآن۔از:علامہ عبدالمصطفیٰ ازھری۔(م۱۹۸۹ء)

۴۔حاشیہ نورالعرفان۔از:مولانامفتی احمدیارخان نعیمی۔(م۱۹۷۱ء)

۵۔تفسیرنعیمی ازمولانامفتی احمدیارخان نعیمی۔(۱۵جلدیں)

۶۔خلاصتہ التفاسیر۔از:مولانامفتی خلیل احمدخان برکاتی۔(م۱۹۸۴ء)

۷۔تفسیرحسنات۔از:مولانامفتی سیدمحمداحمدقادری۔(م۱۹۸۰ء)

۸۔تفسیر نبوی۔از:مولانامحمدنبی بخش حلوائی نقشبندی۔(م۱۹۴۴ء)

۹۔فیوض الرحمٰن اردوترجمہ روح البیان۔از:علامہ مولانافیض احمدصاحب اویسی۔

۱۰۔نجوم القرآن من تفسیرآیات القرآن۔از:مولانامفتی عبدالرزاق بھترالوی حطاروی۔

امام احمدرضا کے ترجمۃ القرآن کنزالایمان کودیگرزبانوں میں بھی ترجمہ کیاجارہاہے۔جو ترجمے مختلف زبانوں میں کیے جاچکے ہیں اور شائع بھی ہوچکے ہیں، ان کی فہرست ملاحظہ کیجیے:

۱۔انگریزی ڈاکٹرحنیف اختر فاطمی

۲۔انگریزی پروفیسرشاہ فریدالحق قادری

۳۔سندھی زبان مفتی عبدالرحیم سکندری،شیخ الحدیث جامعہ راشدیہ پیر جو گوٹھ۔

۴۔بنگلہ زبان مفتی عبدالمنان

۵۔ڈچ زبان مولاناغلام رسول الٰہ دین

۶۔ترکی زبان مولانااسمٰعیل حقی

۷۔ہندی زبان مولانانورالدین نظامی

۸۔پشتوزبان قاری نورالہدیٰ نعیمی

۹۔انگریزی ڈاکٹرعبدالمجید

۱۰۔انگریزی مفتی محمدحسین مقدم

۱۱۔انگریزی سخاوت علی

۱۲۔گجراتی مولاناحسن آدم گجراتی

۱۳۔پشتو(زیرِطبع) مولاناذاکراللہ نقشبندی

۱۴۔سرائیکی مولاناریاض الدین شاہ صاحب

۱۵۔چترالی مولاناپیرمحمدچشتی صاحب

راقم الحروف نے ادارہ میں ۱۹۸۲ء کے آخرمیں بحیثیت ادنیٰ کارکن شمولیت اختیار کی اور ادارہ سے وابستگی کے ساتھ ہی کنزالایمان پر پابندی کی آوازیں کانوں میں بازگشت کرنے لگیں۔اس دوران کئی بڑے بڑے جلسوں میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی اورادارہ کی کانفرنسوں میں بھی علماء سے کنزالایمان کی نمایاں خصوصیات سننےکوملیں۔نشترپارک میں ۱۹۸۳ء میں ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ منعقدکیاگیاجس میں حضرت مفتی اختررضاخاں قادری بریلوی الازھری مدظلہ العالی نے بھی شرکت کی۔اس جلسے میں متعدد تقاریرنے دل پر اثرکیااوربغیرسوچےسمجھےاحقرنے ارادہ کرلیاکہ اب کنزالایمان پر پابندی کا علمی جواب اس پر PhDکرکے دیاجاناچاہیے۔چنانچہ سب نے احقر کی حمایت کی لیکن ضروری تھا کہ پہلےایم۔اے کیاجائے۔چنانچہ ۱۹۸۶ءمیں اسلامیات میں کراچی یونیورسٹی سے ایم ۔اے کیااوراس میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔اس کے بعدجامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک لرننگ کے استادپروفیسرڈاکٹرعبدالرشید صاحب کے پاس گیا اور اپنا مدعابیان کیا۔انہوں نے مولانامنتخب الحق قادری(م۱۹۸۹ء)سےملنےکےلیےکہا۔احقر ان کے پاس گیااورعرض کیاکہ احقر کنزالایمان پر علمی تحقیقی کام کرناچاہتاہے۔آپ نے ہمت بندھائی اور خاکہ لکھنےکےلیےکہا۔احقرنے علمی احباب کی مدد سے خاکہ تیارکیااور اس کو یونیورسٹی میں جمع کرادیا۔جب اس خاکہ کی منظوری ہوئی تو اس کو صرف M.Phillکےلیےمنظورکیاگیا۔ احقر کوزیادہ معلومات نہ تھیں۔یہ خیال کیاکہ پہلے اس پر ایم۔فل کیاجاتاہے،بعدمیں Ph.D۔چنانچہ کام شروع کردیا۔اس دوران پروفیسرڈاکٹرمحمدمسعوداحمد (م۲۰۰۸ء) سے بھی برابرمشاورت جاری رہی۔اس کام کے دوران ۱۹۸۹ء میں مولانامنتخب الحق قادری صاحب کا انتقال ہوگیا۔پھراحقرنے پروفیسرڈاکٹر محمدمسعوداحمدصاحب کو اپناسپروائزر مقرر کروایا۔ڈاکٹرصاحب کی توجہ سے احقرنے۱۹۹۰ء میں مقالہ مکمل کرلیااوراس کو جمع کرادیا۔اب مرحلہ ممتحن حضرات کاکہ یہ مقالہ کس کس کے پاس بھیجاجائےگا۔آپ تعجب کریں گے کہ اس مرحلہ میں مجھےتین برس سے زیادہ لگ گئے۔کبھی یہ مقالہ امریکہ بھیجاگیا،کبھی ساؤتھ افریقہ اور کبھی ہندوستان اور کبھی پاکستان کے مختلف اسکالرزکوبھیجا گیا۔ بالآخر اس کی ایک رپورٹ امریکہ کے ایک اسکالر کے پاس سے آئی اور ایک رپورٹ سندھ کے معمراسکالرکے پاس سے آئی اوران دونوں کی سفارش پر احقرکو۱۹۹۳ء میں PhD کی سندتفویض کردی گئی۔

اس مقالے کو حضرت ڈاکٹرمحمدمسعوداحمدکے علاوہ حضرت شمس بریلوی(م۱۹۹۷ء) نے اول تاآخربغوردیکھااورپڑھااوراس کی اصلاح فرمائی۔اس کے علاوہ حضرت عبدالحکیم شرف قادری (م۲۰۰۵ء)نے بھی اس کے چنداہم باب پڑھےاور انڈیاکے معروف مذہبی رہنما حضرت علامہ مولانامفتی محمدشریف الحق امجدی نے بھی اس کو پڑھااوراحقر کی ہمت افزائی فرمائی۔ان حضرات کے چنداقتباسات ملاحظہ کیجیے۔پروفیسرڈاکٹرمحمدمسعوداحمد نقشبندی مجددی دہلی علیہ الرحمہ رقم طرازہیں:

فاضل مقالہ نگارنے تقریباً۴سومآخذسے رجوع کیاہےجس سے مقالے کے علمی معیار کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔

ڈاکٹرمجیداللہ قادری بنیادی طورپرچونکہ سائنس کے استاذ ہیں اس لیے ممکن ہے کہ بعض قارئین کو ان کی بعض عبارات میں جھول نظرآئے،تحریرمیں پختگی بڑےریاض کے بعد آتی ہے۔ان شاءاللہ مستقبل میں یہ کمی بھی دورہوجائے گی۔ڈاکٹرمجیداللہ تحقیق کا ذوق رکھتےہیں،اورجب لکھتےہیں توموضوع کا حق پورااداکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات مقالےکے مطالعے کے بعد سامنےآجائے گی۔

آخرمیں مقالہ نگارکے بارے میں یہ کہناچاہوں گاکہ وہ شعبہ ارضیات کے استادہیں،جدید رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔پھرانہوں نے ہمت کی اور رنگ بدلااور اللہ کے رنگ میں رنگ گئے۔اللہ تعالیٰ یہ رنگ اورگہراکردے۔آمین۔

ارضیات میں مہارت کےباوجود انہوں نے بلندہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامعہ کراچی سے ایم اے اسلامیات کیااور زمین(ارضیات)سے آسمان(اسلامیات) کی طرف سفر شروع کیا۔ان کے والد گرامی شیخ حمیداللہ قادری حشمتی علیہ الرحمہ سلسلہ قادری میں بیعت تھے،عاشق رسول تھےاور فقیر سے بہت محبت کرتے تھے۔فاضل مقالہ نگار نے بہت جلد میدان تحقیق میں قدم بڑھایا،ان کے کئی وقیع مقالات اوررسائل شائع ہوچکے ہیں اور برابر شایع ہورہے ہیں۔تحقیق میں علم سے زیادہ لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔الحمدللہ ان میں یہ لگن بدرجہ اتم موجود ہے اور مسلسل مطالعہ سے علم میں ترقی کررہےہیں۔راقم کی دعاہے کہ مولیٰ تعالیٰ ان کودین ودنیامیں سرفراز کرے۔ مسلکِ اہلِ سنت وجماعت کی خدمت کرتے رہیں اور امام احمدرضامحدث بریلوی کا نام روشن کرتےرہیں۔


متعلقہ

تجویزوآراء