کنزالایمان اپنے مفسرین کی نظرمیں

کنزالایمان: اپنے مفسرین کی نظرمیں

مولانا محمد ادریس رضوی،ایم اے،ممبئی

حضرت علامہ مولانامفتی الشاہ امام احمد رضا نے اپنے ترجمہ قرآن کا تاریخی نام کنزالایمان رکھا۔ یعنی ‘‘ایمان کاخزانہ’’ اس ترجمۂ قرآن پر تفسیر لکھنےکےلئے وہی عالم، وہی مفتی، وہی مفسراٹھے جو اعتقاد میں امام احمدرضاکے معتقدومقلدتھےاور ہیں۔ مفسرکےلئے ضروری ہے کہ وہ مترجم کے ترجمہ سےاتفاق رکھتاہو، ساتھ ہی مندرجہ ذیل علوم پر اسے عبور حاصل ہو، مثلاًصرف، نحو، معانی، بیان، بدیع، ادب، لغت، فلسفہ، حساب، جیومٹری، فقہ، تفسیر، حدیث، علم کلام، جغرافیہ، تاریخ، تصوف، جدل و مناظرہ، علم فرائض وغیرہ۔ ورنہ تفسیر نقل، چربہ اور سرقہ خوئی کا پلندہ بن کر رہ جائے گی۔

کنزالایمان پر سب سے پہلے علامہ ومولانا مفتی محمد نعیم الدین مرادآبادی نے‘‘خزائن العرفان’’ یعنی‘‘خداشناسی کےخزانے’’تفسیرتحریرفرمایاجو کنزالایمان کے حاشیےپر شائع ہوتی ہے اور عام و خاص میں مقبول ہے۔

دوسری تفسیر مفتی احمدیارخان نعیمی بدایونی کی‘‘نورالعرفان فی حاشیتہ القرآن’’ المعروف ‘‘تفسیرنعیمی’’ ہے،یہ بھی ‘‘کنزالایمان’’ کے حاشیہ پر شائع ہوتی ہے، مفسرموصوف کی دوسری تفصیلی تفسیر‘‘اشرف التفاسیر’’ ہے جس کی آٹھ جلدیں راقم کے پیش نظرہیں۔ دیگر تفاسیر کے تذکرے بعدمیں ہوں گے۔ترجمہ سے تفسیر میں مطابقت ہونا ضروری ہے ،ورنہ تفسیر کا مقصد فوت ہوکر رہ جائے گاآیات کے نزول کے مقصدکے ساتھ ساتھ ترجمے کی گہرائی اور گیرائی سے مفسرکا واقف ہوناضروری ہے۔قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا‘‘کلام برحق’’ اس میں سچ کے علاوہ جھوٹ کا شائبہ تک نہیں ہے تو ترجمہ کے پس منظر میں سچائی کو تلاش کرنااور صحیح صحیح بیان کرنا مفسرکاکام ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ربی ہے:

الذین اٰ تینٰھم الکتاب یعرفنہٗ کمایعرفون ابناءھم۔ قرآناًفریقاً منھم لَیکتُمونَ الحَقَّ وَھُم یعلمون۔سورہ البقرہ آیت ۱۴۶۔

ترجمہ:جنہیں ہم نے کتاب عطافرمائی، وہ اس نبی کو ایساپہچانتے ہیں جیسے آدمی اپنے بیٹوں کو پہچانتاہے، اور بیشک ان میں ایک گروہ جان بوجھ کر حق چھپاتے ہیں۔۱؎

آیت میں نبی کاذکر نہیں ہے اور ترجمہ میں نبی کا تذکرہ ہے۔‘‘یعرفونہ’’وہ انہیں خوب پہچانتے ہیں، سوال پیداہوتاہے کہ کون کس کو پہچانتاہے؟خلاصہ نہیں ہے، اس لئے بعض مترجمین جیسےمولانامحمد جونا گڑھی نے آیت کا ترجمہ کیا کہ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ تو اسے ایساپہچانتے ہیں، جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے، ان کی ایک جماعت حق کوپہچان کر پھر چھپاتی ہے۔۲؎

مولانامحمدجوناگڑھی کے ترجمہ میں‘‘وہ’’،‘‘اُسے’’اشارہ بعید کے الفاظ ہیں۔ اس لئے مولانا محمد جوناگڑھی کے ترجمہ پر تفسیر لکھنےوالے‘‘مولاناصلاح الدین یوسفی’’ نے بھی اس کا خلاصہ کیا ہے کہ‘‘اُسے’’ سے کون سی ذات مراد ہے، یہ کس کی طرف اشارہ ہے۔ ‘‘یعرفونہ’’ کے بعد‘‘یعرفون’’کی خبر کس کی طرف لوٹتی ہے؟ جیساتوویسامیں کی طرح یہ حاشیہ چڑھادیا ہے کہ وہ یہاں اہل کتاب کے ایک فریق کو حق کے چھپانے کا مجرم قراردیاہےکیونکہ ان میں ایک فریق عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کا بھی تھا جو اپنے صدق و صفائے باطنی کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔۳؎

تفسیر میں لفظ‘‘وہ’’ کاخلاصہ ہوگیایعنی‘‘اہل کتاب’’لیکن لفظ‘‘اُسے’’ کا خلاصہ نہیں ہوا۔ اسی طرح شیخ الہند مولانا محمودالحسن صاحب نے آیت کا ترجمہ کیا ہے۔‘‘جن کو ہم نے کتاب دی ہے کتاب پہچانتے ہیں اُس کو جیسے پہچانتےہیں اپنے بیٹوں کو، اور بیشک ایک فرقہ اُن میں سے، البتہ چھپاتے ہیں حق کو جان کر۔۴؎

یہاں بھی لفظ‘‘اُس’’اشارہ سےکام لیاگیاہے‘‘یعنی پہچانتے ہیں اُس کو’’ اور ‘‘کنزالایمان’’ کا ترجمہ ہے کہ ‘‘وہ،اُس نبی کو ایساپہچانتے ہیں’’الخ۔ترجمہ کا سیاق وسباق کیا ہے روایتیں کیا بتاتی ہیں کنزالایمان کے مفسرین نے اس ضمن میں کیا تحریر فرمایاہے۔ ‘‘کنزالایمان’’ کے ترجمہ کو کس طرح واضح کیا ہے وہ یہاں ملاحظہ کریں۔حضرت مولانا محمد نعیم الدین مرادآبادی نے آیت کا ترجمہ ‘‘جنہیں ہم نےکتاب عطافرمائی’’ کی تفسیر میں لکھتےہیں۔ ‘‘یعنی علماء یہود ونصاریٰ’’ آگے لکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کتب سابقہ میں، نبی آخرالزماں حضور سید عالم ﷺ کے اوصاف ایسے واضح اور صاف بیان کئے گئے ہیں، جن میں علماء اہل کتاب کو حضور ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں کچھ شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتااور وہ حضور کے اس منصب عالی کو کامل یقین کے ساتھ جانتے ہیں، احباریہود میں سے عبداللہ بن سلام مشرف بہ اسلام ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ آیتہ‘‘یَعرِفُونَہٗ’’میں جو معرفت بیان کی گئی ہے، اس کی کیا شان ہے، انہوں نے فرمایا کہ اے عمررضی اللہ عنہ میں حضور ﷺکودیکھاتو بے اشتباہ پہچان لیا اور میراحضور کوپہچاننااپنے بیٹوں کو پہچاننےسے بدرجہا زیادہ اتم و اکمل ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایایہ کیسے؟ انہوں نے کہاکہ میں گواہی دیتاہوں کہ حضور،اللہ کی طرف سے اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں، ان کے اوصاف اللہ تعالیٰ نے ہماری کتاب توریت میں بیان فرمائے ہیں، بیٹے کی طرف سے ایسا یقین کس طرح ہو، عورتوں کا حال ایساقطعی کس طرح معلوم ہوسکتاہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا سر چوم لیا۔۵؎

ترجمہ کی روشنی میں، حضرت مفسرقرآن نے تفسیرلکھتے ہوئے ترجمہ کا حق ادا کردیا، تفسیر کی روشنی میں بالکل واضح ہوگیا، کہ ‘‘کنزالایمان’’ کا ترجمہ ‘‘وہ اُس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں’’ قرآن کے سیاق و سباق کی عمدہ ترجمانی ہے۔ اس لئے علامہ احمد یار خان نعیمی تحریر فرماتے ہیں کہ اردو تفاسیر میں سب سے بہتر تفسیر‘‘خزائن العرفان’’ مصنفہ حضرت مرشدی استاذی صدرالافاضل مولانا الحاج سیدمحمد نعیم الدین صاحب قبلہ مرادآبادی دام ظلہ ہے۔ اور اردو ترجموں میں نہایت اعلیٰ اور بہتر، اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کا ترجمہ ‘‘کنزالایمان’’ ہے، آگے مزید تحریر فرماتے ہیں کہ۔اسی (کنزالایمان)پر یہ تفسیر ہے۔۶؎

مفتی احمد یار خان خود مترجم ہیں، لیکن تفسیر لکھنے کے لئے آپ نے‘‘کنزالایمان’’ کا انتخاب فرمایا۔ آپ نے ہر آیت کے تحت پہلی آیت سے تعلق ‘‘کنزالایمان’’ کی روشنی میں ‘‘تفسیر، خلاصۂ تفسیر، فائدے، اعتراض مع جواب اور تفسیر صوفیانہ و ضروری مسائل پر مبنی بہتری تفسیر تحریر فرمایا ہے، آیت مذکو ر کی تفصیل میں جاؤں اور پوری تفسیر لکھوں توکئی صفحات ہو جائیں گے، لہٰذا ‘‘کنزالایمان’’ کی روشنی میں صرف ‘‘یَعرِ فُونَہٗ کَمَا یَعرِ فُونَ’’کی پہلے تفسیر ملاحظہ فرمائیے اور دیکھئے کہ اعلیٰ حضرت کا کنزالایمان کتنا ایمان افروز ہے، اور کنزالایمان کے مفسرین نے کنزالایمان کو کتنا پسند فرمایاہے۔

مفتی احمد یار خاں کی تفسیر

وہ‘‘یَعرِفُونَہٗ’’انہیں پہچانتے ہیں، رہے ان کے جاہل وہ اپنی کتاب ہی سے بے خبر ہیں تو اُس پیغمبرﷺ کی ان پہچانوں اور علامتوں کو کیا جانیں جو ان میں بیان ہوئیں، خیال رہے کہ تفسیر مدارک نے فرمایا کہ ‘‘اَلَّذِ ینَ’’سے آخر جملہ تک ظالمین کی صفت ہے جو پہلی آیت میں گزرایعنی تم اُن ظالموں میں سے ہو جاؤگے جن میں یہ عیوب ہیں۔ باقی مفسّرین کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علیحدٰہ جملہ ہے کہ ‘‘اَلَّذِ ینَ’’مبتدا اور‘‘یَعرِ فُونَہٗ’’خبر، یہ بھی خیال رہے کہ یہ ضمیر یا تو حضورﷺ کی طرف لوٹ رہی ہے کہ آپ کا ذکر‘‘وَمَااَنتَ بِتَابِعٍ’’ میں ہوچکا ہے، یا کعبہ معظمہ کی طرف، یا تبدیلی قبلہ کی طرف، مگر پہلی بات زیادہ قوی ہے (تفسیرکبیر) کیونکہ آئندہ بیٹوں سے تشبیہہ دی جارہی ہے، یعنی علماء کتاب کعبہ معظّمہ کے قبلہ ہونے، یا تبدیل قبلہ، یا اس پیغمبر آخرالزماں کی صرف صورت پاک ہی دیکھ کر ایسا پہچانتے ہیں،‘‘ کَمَایَعرِفُونَ اَبنَائَ ھُم’’جیسےاپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں کہ اگر ہزاربچوں میں بھی کھڑاہوتو پہچان جاتے ہیں کہ میرابیٹاوہ ہے اور کسی وقت بھی تردید نہیں کرتے کہ شاید یہ میرابچہ نہ ہو کوئی اور ہو،بلکہ دور سے اس کی آواز سُن کر چال ڈھال دیکھ کر بھی پہچان لیتے ہیں کہ یہ میرے بچے کی گفتار ہے، یااسی کی سی رفتار ہے، ایسے ہی اس پیغمبر کی شکل و شباہت، رفتاروگفتار بلکہ ہر ہر ادا سے ان کی نبوت ظاہر ہورہی ہے۔اُن کے یہ ساری صفات پچھلی کتابوں میں موجود ہیں، اُن کے ظہور کا تویہ کمال، مگر اُن کا تویہ حال کہ ان میں ایک گروہ تو ایمان لے آیا، جیسے عبداللہ ابن سلام اور کعب احباروغیرہ، خیال رہے کہ ہم کو بھی کچھ لوگ جانتےہیں اور حضور کو بھی، مگر ان دونوں پہچانوں میں چار طرح فرق ہے، ایک یہ کہ ہم کو ہماری پیدائش سے پہلے کوئی نہ پہچانتاتھا، حضور انورﷺ کو ہمیشہ سے سب پہچانتے تھے، پہلے انسان آدم علیہ السلام نے پیدا ہوکر پہلے حضور کے چرچے قیامت بلکہ ابدالابادتک ہوتے رہیں گے، اُن کی دھومیں مچی رہیں گی، تیسرے یہ کہ ہم کو پیداہونے کے بعدبھی صرف انسان ہی پہچانتے ہیں، مگرحضور کو ساری خدائی پہچانتی ہے اور حضور کی اطاعت کرتی ہے۔ چوتھے یہ کہ ہم کو انسان بھی تھوڑے پہنچتے ہیں، مگرحضور کی ولادت کی خبر سارے جہاں میں ایسی دیدی گئی کہ سبحان اللہ شکم مادر میں آتے ہی عالمگیر بارش ہوئی پارسیوں کا پُرانا آتشکدہ بجھ گیا، قصرکسریٰ کے چودہ کنگرے گرگئے وغیرہ وغیرہ۔ غرضکہ ساری دنیا میں اُن کی تشریف آوری کی اطلاع دے دی گئی۔۷؎

کنزالایمان کا یہ ترجمہ ‘‘وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں’’ کو اس کے مفسرین نے پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھا ہے۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا، یہاں مفسر قرآن مفتی احمد یار خاں نے صرفی اور نحوی بحث کے ذریعہ ثابت فرمادیاکہ ‘‘یَعرِفُونَہٗ’’کا ترجمہ!‘‘وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں’’میں لفظ‘‘نبی’’بالکل صحیح اور درست ہے کہ نبی کے متعلق ہی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، لیکن بعض مترجمین اور مفسرین نے صرف اشارے کنائے سے کام لے کر نکل گئے۔ اعلیٰحضرت نے اس کو واضح فرمایا اور کنزالایمان کے مفسرین نے اس کی توضیح فرمائی، علامہ نعیمی اسی آیت سے متعلق خلاصہ تفسیر میں تحریر فرمایاہے کہ‘‘روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عبداللہ ابن سلام سے پوچھا کہ تم رسول اللہ ﷺ کو کس طرح جانتے ہواور اس آیت‘‘یَعرِفُونَہٗ’’میں معرفت بیان کی گئی، اس کی کیا شان ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں حضور پر اپنے فرزند سے بھی زیادہ یقین رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا یہ کیسے؟ عرض کیا کہ ‘‘حضور کے اوصاف اُن کے معجزات اُن کی علامات ہماری کتابوں کی گواہیاں آپ پر یقین دلارہی ہیں، اپنے فرزند پر یہ یقین کہاں، نہ معلوم کہ اس کی ماں نے کیا کیاہو، دوسرے کے فرزند کو براکہہ دیا ہوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن کا سر چوم لیا’’۔ تفسیر کبیر و عزیزی و خزائن العرفان۔۸؎

آپ نے خلاصۂ تفسیرمیں بھی ثابت فرمادیا کہ کنزالایمان کا ترجمہ، روایات وواقعات و تاریخ کی روشنی میں بالکل درست ہے کہ تفسیر کبیر و عزیزی وغیرہ نے اسی پر اتفاق کیا ہے، بعض مترجمین و مفسرین نے کینہ و بغض اور حسد کی وجہ سے حضورﷺ کی تعریف و توصیف کو چھپانے کی کوششیں کی ہیں، اسی لئے موصوف نے فائدے کے عنوان میں ساتواں فائدہ کے تحت لکھتےہیں۔‘‘حضور کے اوصاف چھپانا، کبھی ان کا ذکرنہ کرنا بدترین گنا ہ ہے، جس میں علماء یہود گرفتار تھے، اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں، جو آج حضور کے اوصاف بیان نہیں کرتے اور حضور کی نعت خوانی سے لوگوں کو ہزارحیلوں، بہانوں سے روکتے ہیں، اُن کے اوصاف بیان کرنا بہترین عبادت ہے۔ شعر :

حی باقی جس کی کرتا ہے ثنا، مرتے دم تک اس کی مدحت کیجئے

جس کا حُسن اللہ کو بھاگیا، ایسے پیارے سے محبت کیجئے

تفسیراعتراض مع جواب کے ذیل میں مفسرعلیہ الرحمتہ نے چھ اعتراض قائم کئے ہیں۔تیسرا اعتراض کے عنوان میں رقم کیا ہے کہ یہاں کیوں نہ فرمایاگیا کہ‘‘کَمَا یَعرِفُونَ اَنفُسَھُم’’ جیسا کہ وہ اپنے آپ کو جانتے ہیں۔ اپنی پہچان زیادہ قوی ہے۔

جواب:۔اس لئے کہ اپنی پہچان دنیامیں آکر کچھ ہوش سنبھال کر ہوتی ہے، ماں کے پیٹ اور شروع ولادت میں اپنی خبر نہیں ہوتی مگر بیٹے کے نطفہ قائم ہوتے ہی باپ اس کو پہچانتاہے اور بچپن سے اس کے نام و اوصاف سے واقف ہوتا ہے۔ علماء اہل کتاب بھی حضورﷺ کو ولادت سے پہلے سے جانتے اور لوگوں کو خوشخبریاں دیا کرتے تھے بلکہ اُن کے نام ،کام سے باخبر تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہلے ہی فرما چکے تھے۔ اِسمُہٗ اَحمَد(۸)۔

غرضکہ ‘‘مفسر موصوف نے ہرجگہ اپنی تفسیرمیں’’ترجمہ کنزالایمان، کے ایمان افروز، روح افزا، نفیس اور اعلیٰ ترجمہ کے خطوط پر ہی کام کیا۔ اتباع کی، سراہا اور ترجمہ کے کمال کو بتایا ہے۔لوگوں کی خوب سنتے ہیں:

‘‘سَمّٰعُونَ لِلکَذِ ب سَمّٰعُونَ لِقَومٍ آخرِین’’(المائدۃ آیت ۴۱)سے اس ایک جز کامولانا محمد جوناگڑھی نے ترجمہ کیا ہے ‘‘یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلط باتیں سننے کے عادی ہیں اور ان لوگوں کے جاسوس ہیں’’۔

مولانافتح محمد خان صاحب جالندھری نے ترجمہ کیا ۔‘‘ان کی وجہ سے غمناک نہ ہونا، یہ غلط باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرتے پھرتے ہیں’’۔

مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے ترجمہ کیا۔‘‘جاسوسی کرتے ہیں جھوٹ بولنے کو اور جاسوس ہیں دوسری جماعت کے’’۔

مولانامحمودالحسن صاحب نے ترجمہ کیا۔‘‘جاسوسی کرتے ہیں جھوٹ بولنے کے لئے وہ جاسوس ہیں دوسری جماعت کے’’۔

مذکورہ چاروں مترجمین نے‘‘سَمّٰعُونَ’’کا ترجمہ‘‘جاسوس اور جاسوسی’’ کیا ہے۔ اس کے برعکس اعلیٰحضرت امام احمدرضا نے ترجمہ کیا۔ ‘‘جھوٹ خوب سنتے ہیں اور لوگوں کی خوب سنتے ہیں’’۔ یہاں ‘‘سَمَّعُونَ’’کا ترجمہ‘‘خوب سننا’’ کیا ہے۔ مذکورہ بالاچاروں مترجمین اور امام رضا کے ترجمے میں فرق کیا ہےاور کس بنیاد پر حضرت رضا کے ترجمہ کو فوقیت حاصل ہے۔ کنزالایمان کے مفسرمولانامحمدنعیم الدین مرادآبادی کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے۔ ‘‘ماشاءاللہ حضرت مترجم قدس سرہٗ نے بہت صحیح ترجمہ فرمایا۔ اس مقام پر بعض مترجمین و مفسرین سے لغزش واقع ہوئی۔ انہوں نے‘‘لقوم’’کے لام کو علّت قرار دے کر آیت کے معنی یہ بیان کئے کہ منافقین و یہود اپنے سرداروں کی جھوٹی باتیں سنتے ہیں، آپ کی باتیں دوسری قوم کی خاطرسے کان دھر کر سنتے ہیں جس کے وہ جاسوس ہیں، مگریہ معنی صحیح نہیں اور نظم قرآنی اس سے بالکل موافقت نہیں فرماتی، بلکہ یہاں ‘‘لامن’’کے معنی میں ہے اور مرادیہ ہے کہ یہ لوگ اپنے سرداروں کی جھوٹی باتیں خوب سنتے ہیں اور لوگوں یعنی یہودِ خیبرکی باتوں کو خوب مانتے ہیں۔ جن کے احوال کا آیت شریف میں بیان آرہاہے۔(تفسیر ابوالسعودوجمل)۔(۹)

ترجمہ سے متعلق مفسررحمتہ اللہ علیہ کی وضاحت خوب ہے کہ آپ نے علمی نکات سے ظاہر فرمادیا کہ ‘‘کنزالایمان’’ واقعی ایمان کا خزانہ ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ ترجمہ اور تفسیر لکھنا سب کے بس کی بات نہیں ہے،اللہ تعالیٰ کے کلام کا ترجمہ لکھنےکے لئے، اللہ تعالیٰ کی توفیق کا شامل حال ہونا ضروری ہے۔

اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔

(۵)اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُولُہٗ وَالَّذِ ینَ اٰمَنُواالَّذِ ینَ یُقِیمُونَ الصَّلوٰۃَ وَیُؤ تُونَ الزَّکوٰۃَ وَھُم رَاکِعُون۔آیت ۵۵۔سورۃ المائدہ۔

‘‘تمہارے دوست نہیں، مگراللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے، کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضورجھکے ہوئے ہیں۔(۱۰)

کنزالایمان میں ‘‘وَھُم رَاکِعُونَ’’کا ترجمہ ہے‘‘اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں’’ اس پر مفسر موصوف لکھتےہیں:جملہ‘‘وَھُم رَاکِعُونَ’’دووجہ رکھتاہے ایک یہ کہ پہلےجملوں پر معطوف ہو دوسری یہ کہ حال واقع ہو پہلی وجہ اظہرواقویٰ ہے اور حضرت مترجم قدس سرہٗ کا ترجمہ بھی اس کے مساعد ہے(جمل عن المسلمین) دوسری وجہ ہر دو احتمال ہیں ایک یہ ‘‘یُقِیمُونَ وَیُؤتُونَ’’ دونوں فعلوں کے فاعل سے حال واقع ہو اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ وہ بخشوع و تواضع نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں(تفسیر ابوالسعود) دوسرا احتمال یہ ہے کہ صرف ‘‘یُؤتُونَ’’کے فاعل سے حال واقع ہو اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور متواضع ہو کر زکوٰۃ دیتے ہیں(جمل) بعض کا قول ہے کہ یہ آیت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شان میں ہے کہ آپ نے نماز میں سائل کو انگشتری صدقہ دی تھی، وہ انگشتری انگشت مبارک میں ڈھیلی تھی، بے عمل کثیرکے نکل گئی لیکن امام فخرالدین رازی نے تفسیرکثیرمیں اس کا بہت شدومدسےرد کیا ہے اور اس کے بطلان پر بہت وجوہ قائم کی ہیں۔(۱۱)

مفسرعلیہ الرحمتہ نے‘‘وَھُم رَاکِعُونَ’’ترجمہ۔‘‘اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں’’کو سراہ کر علمی بحث فرمائی ہے آخرکیوں؟ کا سوال پیدا ہوتاہے۔ اس بات کے لئے دیگر تراجم کو پیش نظر رکھناہوگا کہ فتح محمد خان جالندھری نے مذکورہ جملہ کا ترجمہ کیا ہے۔ ‘‘اور(خدا کے آگے) جھکتےہیں’’۔

مولانامحمد جونا گڑھی نے ترجمہ کیا ہے کہ ‘‘اوررکوع(خشوع و خضوع) کرنے والے ہیں’’۔

موصوف نے پوری آیت کاترجمہ یہ کیا ہے کہ ‘‘(مسلمانوں)تمہارادوست خود اللہ ہے اور اس کارسول ہے اور ایمان والے ہیں، جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اورزکوٰۃ دیتے ہیں’’۔ لیکن‘‘وَھُم رَاکِعُونَ’’کا ترجمہ وہ کیا جو آپ نے اوپر ملاحظہ فرمایاہے۔ اگر رکوع سے خشوع و خضوع کرنے والے ہیں جبکہ موصوف ہی کے معنی پر‘‘ جو نماز کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں’’پر‘‘خشوع و خضوع کرنے والے ہیں’’عجیب سا لگ رہاہے۔

مفسرقرآن مفتی احمد یار خان کے مطابق خشوع و خضوع ہی مراد ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں ‘‘وَھُم رَاکِعُونَ’’واؤعاطفہ ہے اور جملہ ‘‘یُؤتُونَ الزَّکوٰۃَ’’پر معطوف ہو کر‘‘اِلَّذِ ینَ’’کا صلہ ہے، جملہ اسمیہ معطوف ہوسکتا ہے، جملہ فعلیہ پر یا واؤ حالیہ ہے اور یہ جملہ ‘‘یُقِیمُونَ’’ اور ‘‘یُؤتُونَ’’دونوں فعلوں کے فال ‘‘ھُم’’کا حال ہے یا صرف‘‘یُؤتُون’’ کے فاعل سے ‘‘رَاکِعُونَ’’ بناہے، رکوع سے ظاہر یہ ہے کہ یہاں رکوع بمعنی عجزونیاز اور دلی خشوع و خضوع ہے، جیسے رب تعالیٰ نے جنا ب مریم سے فرمایا‘‘وارکعی مع الراکعین’’۔(۱۲)

موصوف کی تفسیر کی روشنی میں بھی‘‘اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں’’ صحیح ہے کہ نماز اور زکوٰہ دونوں فعلوں کے فاعل ‘‘ھُم’’کا حال ہے۔

موصوف مفسر علیہ الرحمتہ خلاصۂ تفسیر میں لکھتے ہیں۔ ‘‘اے مسلمانو اگر تم سے یہود الگ ہوگئے۔ تمہارے مومن ہوجانے کی وجہ سے تو کیوں گھبراتے ہو، تم تو اس سودے میں بڑے نفع میں رہے۔ تمہارادوست، مددگار محبوب اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے رسول محمد مصطفیٰ ﷺہیں اور وہ سارے مسلمان ہیں جو نمازیں قائم رکھتے، زکوٰۃ دیتے ہیں ان کے دل میں خشوع و خضوع عجزونیاز کا دریا موجیں مارتاہے۔(۱۳)

دریا موجیں مارتا ہے، اور ترجمہ ‘‘اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں’’ کے صحیح ہونے کی دلالت کرتا ہے، ورنہ ‘‘خشوع و خضوع کرنے والے ہیں’’پرہوگا‘‘دریاموجیں مارنےوالاہے’’ جو کہ صحیح نہیں ہوگا۔

‘‘حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے نماز میں سائل کو انگشتری صدقہ دی تھی’’امام فخرالدین رازی اور مفتی احمدیار خاں نعیمی نے بھی اس کی تردید کی ہے اور مفتی نعیم الدین مرادآبادی نے نقل کیا ہے۔ ان سب سے قطع نظر بعض کے قول کے مطابق روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اعلیٰ حضرت کا ترجمہ حق ہے کہ‘‘اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں’’ اور اسی حال میں انگشتری صدقہ میں دے دی۔بے جا خرچ اور اسراف میں فرق:

وَلَاتُسرِفُوا اِنَّہٗ لَایُحِبُّ المُسرِ فِین۔ترجمہ!اور بے جا نہ خرچو، بے شک بے جا خرچنے والے اُسے پسند نہیں۔(۱۴)

‘‘وَلَاتُسرِفُو’’کا ترجمہ ‘‘اور بے جا نہ خرچ کرو’’پر اظہار پسندیدگی فرماتے ہوئے مفسر قرآن علامہ سید محمد نعیم الدین علیہ الرحمتہ اپنی تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں ‘‘حضرت مترجم قدس سرہٗ نےاسراف کا ترجمہ بے جا خرچ کرنا فرمایا، نہایت ہی نفیس ترجمہ ہے، اگر کل مال خرچ کر ڈالااور اپنے عیال کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا توسدی کاقول ہے کہ یہ خرچ بے جا ہے اور اگرصدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بے جا اور داخل اسراف ہے جیساکہ سعید ابن مسیّب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، سفیان کاقول ہے کہ اللہ کی اطاعت کے سوا اور کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ قلیل بھی ہو تو اسراف ہے، زہری کا قول ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ معصیت پر خرچ نہ کرو، مجاہد نے کہا کہ حق اللہ میں کوتاہی کرنا اسراف ہے اور اگر ابومبیس سوناہواور اس تمام کو راہِ خدامیں خرچ کردو تو اسراف نہ ہو اور ایک درہم معصیت میں خرچ کرو تو اسراف۔(۱۵)

اس سلسلہ میں علامہ احمد یارخاں نعیمی کی تفسیر بھی اعلیٰ حضرت کے ترجمے کی روشنی میں بہت طویل ہے۔ صرف عنوان کے تحت آیت کے جز کا ترجمہ کی روشنی میں مختصر تفسیر پیش نظر کررہاہوں، لکھتے ہیں:

‘‘وَلَاتُسرِفُو’’اس عبارت کی بھی بہت سی تفسیریں ہیں، جن میں سے ہم صرف دو تفسیریں عرض کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ زکوٰۃ دو، مال برباد نہ کرو کہ ساری پیداوارلٹاؤ بال بچوں کے لئے نہ رکھو جیساکہ شان نزول میں عرض کیاگیا، دوسرے یہ کہ تم پکنے سے پہلے ان کے پھل کھاتو سکتے ہو مگرزکوٰۃ سے بچنے کےلئے بیجافضول خرچ نہیں کرسکتے۔ صرف بقد ضرورت کچھ لینے کی اجازت ہے۔ تبذیر حرام کاموں میں خرچ اسی لئے تبذیر والوں کے متعلق ارشاد ہے کہ مبذرین شیاطین کےبھائی ہیں۔ اسراف والوں کے لئے ارشاد ہے۔‘‘اِنَّہٗ لَایُحِبُّ المُسرِفِین’’۔ یہ عبارت ‘‘وَلَاتُسرِفُوا’’کی علّت ہےیعنی فضول خرچی اس لئے نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ فضول خرچیوں کو پسند نہیں کرتا اور بعض کو ناپسند کرتا ہے ان سے ناراض ہے‘‘سرق’’ کے لغوی معنی ہیں حد سے بڑھنا، اس لئے گناہوں کو بھی اسراف کہا گیا ہے۔ ‘‘واسرافنا فی امرنا’’۔(۱۶)

نبی اُمّی کے معنیٰ

اَلَّذِ ینَ یَتَّبِعُو نَ الرَّسُولَ النَّبِیِّ الاُمِیِّ(الخ)۔(۱۷)

اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے مولانامحمد جوناگڑھی نے ‘‘اَلنَّبِیِّ’’ کا ترجمہ ‘‘نَبِیِّ’’ اور ‘‘اُمِّیِّ’’ کا ترجمہ ‘‘اُمِّیِّ’’ہی لکھا ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی ‘‘نَبِیِّ’’معنی‘‘نَبِیِّ’’اور‘‘اُمِّیِّ’’ کے معنی‘‘اُمِّیِّ’’ہی لکھا ہے۔مولانا محمودالحسن اور مولانا ثناء اللہ امرتسری نے بھی ‘‘نَبِیِّ’’ کا معنی ‘‘نَبِیِّ’’اور‘‘اُمِّیِّ’’کے معنی ‘‘اُمِّیِّ’’ہی لکھا ہے۔مولانا احمدرضاخاں نے ‘‘نَبِیِّ’’ کا ترجمہ! ‘‘غیب کی خبریں دینے والے’’اور ‘‘اُمِّیِّ’’کاترجمہ ‘‘بے پڑھے’’لکھا ہے۔یعنی مذکورہ عبارت کا ترجمہ اس طرح سے تحریر فرمایا ہے۔ ‘‘وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بےپڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی’’۔اس ترجمہ پراپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے مفسر قرآن علامہ نعیم الدین مرادآبادی تحریر فرماتے ہیں:

‘‘آپ کی توصیف میں نبی فرمایاگیا اس کا ترجمہ حضرت مترجم قدس سرہ نے (غیب کی خبریں دینے والے) کیا ہے اور یہ نہایت ہی صحیح ترجمہ ہے کیونکہ نبا خبر کو کہتے ہیں جو مفید علم ہو اور شائبہ کذب سے خالی ہو قرآن کریم میں یہ لفظ اہل معنی میں بکثرت مستعمل ہواہے ایک جگہ ارشاد ہوا:‘‘ قُل ھُوَ نَبَؤُ العَظِیمِ’’۔ ایک جگہ ارشادفرمایا۔‘‘تِلکَ مِن اَنبَاءِ الغَیبِ نُوحِیھَا اِلَیکَ’’ ایک جگہ فرمایا:‘‘ فَلَمَّا اَنبَاَہُم بِاَسمَاءِھِم’’۔ اور بکثرت آیات میں یہ لفظ اس معنی میں وارد ہواہے، پھر یہ لفظ یا فاعل کے معنی میں ہوگا یا مفعول کے معنی میں، پہلی صورت میں اس کے معنی غیب کی خبریں دینے والے۔ اور دوسری صورت میں اس کے معنی ہوں گے‘‘غیب کی خبریں دیئے ہوئے’’۔اور دونوں معنی کو قرآن کریم سے تائید پہنچتی ہے۔ پہلے معنی کی تائیداس آیت سے ہوتی ہے:‘‘ نَبِیِّ عِبَادِی’’،دوسری آیت میں فرمایا، ‘‘قُل اَو نَبِّئُکُم بِمَاتَاکُلُونَ وَمَاتَدَّ خِرُونَ’’اور دوسری صورت کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے‘‘نَبَّانِیَ العَلِیمُ النَجِیُو’’اور حقیقت میں انبیاء علیہم السلام غیب کی خبریں دینے والے ہی ہوتے ہیں، تفسیر خازن میں ہے کہ آپ کے وصف میں نبی فرمایا کیونکہ نبی ہونا اعلیٰ اور اشرف مراتب میں سے ہے اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ اللہ کے نزدیک بہت بلند درجہ رکھنےوالے اور اس کی طرف سے خبردینےوالے ہیں۔

‘‘اُمِّیِّ’’کا ترجمہ حضرت مترجم قدس سرہ نے(بے پڑھے)فرمایایہ ترجمہ بالکل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکے ارشاد کےمطابق ہے اور یقیناً‘‘اُمِّیِّ’’ہونا آپ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ دنیامیں کسی سے پڑھانہیں اور کتاب وہ لائے جس میں اولین وآخرین اور غیبوں کے علوم ہیں۔(خازن)(۱۸)

مذکورہ عبارت کی تفسیرمیں علامہ احمد یارخاں نعیمی لکھتے ہیں۔‘‘اللہ کی طرف سے تبلیغ کرنے والا رسول ہے، اللہ کے نزدیک بڑی شان، بڑے درجہ والانبی ہے۔ نبی نبوۃ سے بنا بمعنی بلندی درجات (تفسیر روح المعانی و کبیر)یا نبی نباءُ سےبنابمعنی خبر، نبی خبروالا، یعنی غیبی خبر دینے والا یا سب کی خبر رکھنے والا یا خبر لینے والا، اُمِّیِّ کی تفسیر ہم پہلے پارہ میں عرض کرچکے ہیں کہ یہ بنا ہے اُمُّ اور یاء نسبتی سے امّ سے مراد یا تو ام القریٰ یعنی مکّہ معظّمہ ہے، امّی بمعنی مکی ہے، یعنی مکہ میں پیدا ہونے والے یا امّ بنا ہے امّہ عربیہ سے جو لکھنے پڑھنے سے عموماًعلیحدہ تھے یعنی بے پڑھے لکھےجماعت میں پیداہونے والے یا امّ بمعنی ماں ہےیعنی شاندارماں والے کہ جناب آمنہ جیسی شان والی بی بی جو محمد مصطفیٰ کی ماں ہیں نہ پیداہوئی نہ پیداہو۔ بے مثال کی بےمثال ماں رضی اللہ عنہایا امّی کے معنی ہیں ماں کے پیٹ سے عالم وعارف پیداہونے والے جن کے دامن پر کسی کی شاگردی کسی کی مریدی کسی سے فیض لینے کا دھبہ نہیں۔(۱۹)

‘‘کنزالایمان’’اپنے مفسّرین کی نظر میں اعلیٰ عمدہ اور بہتر ترجمہ ہے کہ مترجم امام احمد رضا علیہ الرحمتہ نے ‘‘نبی’’ کا ترجمہ غیب کی خبریں دینے والے۔ ‘‘اُمّی’’کا ترجمہ!‘‘بے پڑھے’’تحریر فرمایا اور مفسّرین نے اسے ثابت کیا ہے جیسا کہ آپ نے اوپر ملاحظہ فرمالیا ہے جو کہ علمی اور ایمان افروز تفسیریں ہیں۔ ‘‘علامہ احمدیارخان نعیمی’’کی تفسیر‘‘نورالعرفان’’ مکمل ہے اور عرصہ قبل ادارہ‘‘استقامت’’ نے شائع کی تھی، اور ‘‘اشرف التفاسیر’’ نو پارے کی نو جلدوں میں کئی ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں، نو یں پارے سے آگے آپ کے صاحبزادہ مفتی اقتداراحمد خان نعیمی نے کی ہے۔ آپ کی لکھی ہوئی تفسیر یعنی ۱۰پارے سے ۱۵پارے کی ۶ جلدوں میں چھپ چکی ہے۔ یہ تفسیر بھی۔ ترجمہ کنزالایمان کی روشنی میں لکھی گئی اور علامہ احمد یار خاں نعیمی کی مکمل تقلید کی گئی ہے، ان کے علاوہ دیگر تفاسیر بھی ہیں جو عام نہیں ہیں۔ مثلاً:

۱۔ مفتی اعجاز ولی خان:۔تنویرالقرآن علیٰ کنزالایمان۔۱۳/پارے قلمی ‘‘جہان رضا’’ لاہور کی رپورٹ کے مطابق فروری ۱۹۹۳ء تک مذکورہ تفسیر شائع نہیں ہوئی تھی۔

۲۔ مولانا محمد حشمت علی خان:۔ جواہرالایقان فی توضیح القرآن،۳پارے۔

۳۔ مولانامحمد حشمت علی خاں:۔ امدادالادیان فی تفسیر القرآن، علیٰ کنزالایمان۔

۴۔ علامہ محمد عبدالمصطفیٰ ازہری:۔ تفسیر ازہری موسوم بہ اسم تاریخی۔ ۵ پارے کراچی۔

۵۔ مولاناغلام معین الدین:۔ تفسیرالبیان۔پارہ اوّل۔لاہور۔

۶۔ مفتی ریاض الدین قادری:۔تفسیر ریاض القرآن (جلداوّل)۶،۱،۴،پارے۔

۷۔ مفتی عزیز احمد قادری بدایونی:۔تفسیرفی ترجمتہ القرآن عرف ترجمہ قاری۔لاہور۔

۸۔ مولانامحمد نبی بخش حلوائی نقشبندی:۔تفسیر نبوی(پنجابی سے اردو ترجمہ۔15جلدیں)(۲۰)

ان تفاسیر کے علاوہ اور بھی تفاسیر ہوں گی، جن کی تحقیق ضروری ہے۔علاوہ ازیں کچھ اہل علم نےصرف ایک یا دوسورتوں کی تفسیر کنزالایمان کی روشنی میں کی ہیں، جیسے شہاب الدین بن محمود بن ابراہیم(۲۱)نےمصباح العاشقین(تفسیر الضحیٰ) کنزالایمان کی روشنی میں تحریر فرمائی ہے۔صرف ایک آیت کی تفسیر پیش نظر کررہاہوں:

وَاَمَّاالسَّائِلَ فَلَا تَنھَر۔اور منگتاکو نہ جھڑکو۔

البتّہ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک دن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بازار سے گزرے بڑے بڑے اور اچھے سیب بک رہے تھے، عثمان بن عفان نے ان سیبوں کو خرید لیا اور حضرت محمدمصطفیٰﷺ کے پاس لائے اور سید عالم کی نظر کےسامنے رکھا، پیغمبر علیہ السلام چاہتے تھے کہ ان سیب کو توڑیں کہ اتنے میں سائل آگیا اور کہنے لگا‘‘اَلتَّوفِیق شَئیٌ عَزِیز’’، سید عالمﷺ نے وہ سیب سائل کو دے دیا، عمر رضی اللہ عنہ اٹھےاور سائل کے پاس گئےاور اس سیب کو خرید لیا۔پیغمبر علیہ السلام کے سامنے لائے، پیغمبر علیہ السلام نے چاہا کہ کھائیں، پھر وہی سائل آیااور کہنے لگا‘‘اَلتَّوفِیق شُئیٌ عَزَیز’’پیغمبر علیہ السلام نےپھر وہی سیب سائل کودے دیا، اب علی رضی اللہ عنہ اٹھے اور اسی سیب کو خرید کر پیغمبرعلیہ السلام کے سامنے لائے پیغمبر علیہ السلام نے وہ سیب سائل کو دے کر ارشاد فرمایا‘‘انت سائیلی یا تاجری؟’’توسائل ہے یا تاجر؟ اتنے میں جبرئیل علیہ السلام آگئے اور اللہ رب العزت کے پاس سے یہ آیت لائے۔‘‘وَاَمَّاالسَّائِلَ فَلَاتَنھَر’’اور منگتاکو نہ جھڑکو۔

رسالہ قطب عالم خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے لکھےہوئےمیں نے دیکھا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک زانی کو خواب میں دیکھا جو بادشاہی ٹوپی پہنے ہوئے تخت نشیں تھا پوچھا، اس عزت واحترام کی کیا وجہ ہے۔وہ زانی بولاکہ ایک دن میں بھوکا تھامیں نے چاہا کہ روٹی کھا ؤں کہ اتنے میں دروازے پر ایک سائل آگیاتو میں وہ روٹی سائل کو دے دی، آج کے دن وہ روٹی میرے کام آئی۔(۲۲)

‘‘کنزالایمان اپنے مفسرین کی نظرمیں’’ اس عنوان سے ایک مختصر جائزہ سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کنزالایمان کو اہل علم نے ماضی میں بھی پسند فرمایااور حال میں بھی پسند فرماتے ہیں اور انشاءاللہ مستقبل میں بھی پسند فرمائیں گے،کیونکہ کنزالایمان کے حسین و جمیل، مرقع و مرصع اور بامحاورہ ترجمےکی معنوی و صوری علوم کی مددیں، معرفتِ قرآن کی پنہائیاں، حدیث رسول ﷺ کی گیرائیاں، عشق حقیقی کی تپشیں، عشق رسول کی سوزشیں، عشق انبیاء کی موجیں شامل ہیں۔ اسی لیے رموز قرآن کے علماء،دانشور اور شناور بےساختہ کہتے ہیں کہ ‘‘کنزالایمان’’زندہ باد‘‘کنزالایمان’’پائندہ باد۔

حواشی

(۱)۔ کنزالایمان ص۳۴،تاج کمپنی لمیٹڈ، ناشران قرآن مجیدلاہور، کراچی۔

(۲)۔ شاہ فہد، قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس۔

(۳)۔ ایضاً۔

(۴)۔ قرآن شریف پرنٹنگ کمپلکس، پوسٹ نمبر۳۵۶۱،مدینہ منورہ۔

(۵)۔ حاشیہ کنزالایمان ص۳۴۔۳۵، تاج کمپنی لمیٹڈ، ناشرین قرآن مجیدلاہور،

کراچی۔

(۶)۔ اشرف التفاسیرجلد۲،مکتبہ رضویہ، نئی دہلی۔۲۔

(۷)۔ ایضاً۔

(۸)۔ ایضاً۔

(۹)۔ خزائن العرفان ص۱۶۶،تاج کمپنی ،لاہور۔

(۱۰)۔ کنزالایمان۔

(۱۱)۔ خزائن العرفان برحاشیہ کنزالایمان ص۱۷۱، تاج کمپنی، لاہور۔

(۱۲)۔ اشرف التفاسیر۔ص۵۶۸،مکتبہ رضویہ، نئی دہلی۔

(۱۳)۔ اشرف التفاسیر۔ص۵۶۹،مکتبہ رضویہ، نئی دہلی۔

(۱۴)۔ کنزالایمان۔

(۱۵)۔ خزائن العرفان برحاشیہ کنزالایمان، ص۲۱۲۔ تاج کمپنی، لاہور۔

(۱۶)۔ اشرف التفاسیر، ص۱۸۱، جلد ۸، مکتبہ رضویہ،دہلی۔۶۔

(۱۷)۔ سورۃ اعراف آیت ۱۵۷۔

(۱۸)۔ خزائن العرفان برحاشیہ کنزالایمان، ص ۲۴۶،تاج کمپنی، لاہور۔

(۱۹)۔ اشرف التفاسیر، ص۲۹۲، جلد۹، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار، لاہور۔

(۲۰)۔ (نوٹ)۔۔۔تفاسیر کے حوالے کےلئے دیکھئے‘‘جہانِ رضا’’لاہور،فروری ۱۹۹۳ء کا شمارہ۔

(۲۱)۔ تاریخ صُوفیائے ناگورمع سلاطین وقت از قلم پیر صوفی محمد ایوب تارک چشتی فاروقی، میں مصباح العاشقین کو نقل کیا ہے۔ موصوف ‘‘رسالہ مصباح العاشقین کے تعلق سے تحریرفرمایاہے کہ رسالہ مصباح العاشقین چودھویں صدی کے اواخر یا پندرہویں صدی کے اوائل کا ہوسکتا ہے۔محمدادریس رضوی۔

(۲۲)۔ تاریخ صوفیائے ناگور مع سلاطین وقت۔ازقلم ایضاً،ص۲۱۹۔۲۲۰۔


متعلقہ

تجویزوآراء