کنزالایمان اورالفاظ کاحسن انتخاب
کنزالایمان اورالفاظ کاحسن انتخاب
مولاناعبدالسلام رضوی بریلی شریف
’’کنزالایمان’’قرآن کریم کاصحیح ترجمہ ہونےکےساتھ ساتھ تفاسیرمعتبرہ قدیمہ کے مطابق ہے،اہل تفویض کےمسلک اسلم کاعکاس ہے،اصحاب تاویل کےمذہب سالم کامؤید ہے۔ زبان کی روانی وسلاست میں بےمثل ہے،عوامی لغات اوربازاری بولی سےیکسرپاک ہے، قرآن کریم کی اصل منشاؤمرادکوبتاتاہے،آیات ربانی کےانداز خطاب کی پہچان کراتاہے، قرآن کریم کےمخصوص محاوروں کی نشاندہی کراتا،قادرمطلق کی ردائےعزت وجلام میں نقص وعیب لگانےوالوں کےلیےشمشیربراں ہے،حضرات انبیاکی عظمت وحرمت کامحافظ و نگہبان ہے،عامۂ مسلمین کےلیےبامحاورہ اردومیں سادہ ترجمہ ہےلیکن علماؤمشائخ کے لیے حقائق ومعرفت کاامنڈتاہواسمندرہے۔(۱)
یہ’’کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن’’کی بہت ہی جامع اورعمدہ تعریف ہےجوحضرت شیخ الاسلام علامہ سیدمحمدمدنی میاں صاحب قبلہ مدظلہ العالی نےفرمائی۔اوریہ تعریف محض ترجمہ نگارسرکاراعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کےساتھ قلبی وابستگی اورعقیدت ومحبت کی بنیاد پر نہیں ہےبلکہ مبنی برحقیقت وصداقت ہےاوربلاشبہ واقعہ یوں ہی ہے۔پروفیسرڈاکٹرطاہرالقادری رقم طرازہیں’’اعلیٰ حضرت مولانااحمدرضاخاں کےترجمۂ قرآن کا نام’’کنزالایمان’’ہے۔’’کنزالایمان’’کامعنی ہےایمان کاخزانہ۔کنزالایمان اوردیگر تراجم کا وقت نظرسےمطالعہ کرنےکےبعدکوئی بھی غیرجانبدارقاری اس امرکاواشگاف الفاظ میں اظہارکئےبغیرنہیں رہ سکتاکہ’’کنزالایمان’’تمام تراجم میں منفرد،ممتازاورجداگانہ حیثیت کا حامل ہے۔(۲)
’’کنزالایمان’’کےاوصاف وکمالات وامتیازات کےاجمالی بیان پرمشتمل ان دواقتباسات کی نقل کےبعدمیں’’کنزالایمان’’کی زبان وبیان کےکچھ پہلوپیش کرناچاہتاہوں۔مجھےپورے ’’کنزالایمان’’کےمطالعہ کی سعادت تونصیب نہیں ہوئی،ہاں گذشتہ سال طلبہ کوترجمۂ قرآن پڑھایاتوانیس سےبائیس پاروں کاترجمہ بالاستیعاب اورحرف بحرف پڑھااوران کےعلاوہ حسب ضرورت متفرق مقامات کامطالعہ کیاہے۔مذکورہ اجزااورمقامات پڑھنےکےدوران ’’کنزالایمان’’میں زبان کےاعتبارسےعام طورپرمندرجہ ذیل امورسامنےآئے۔
(۱)سرکار اعلیٰ حضرت ترجمہ کی عبارت مختصرسےمختصرلاتےہیں جبکہ قرآن حکیم کےمفہوم ومقصودکےابلاغ میں کسی قسم کاکوئی خلل نہیں ہوتا۔اورکلام کامختصرہوناجبکہ مخل مطلب نہ ہویقیناً کلام کی خوبی ہے۔اِلاّیہ کہ درازی عبارت کاکوئی داعی ہومثلا آیت کریمہ ’’وَعَصٰی اٰدَ مُ رَبَّہ’ فَغَوٰی’’:(طٰہٰ:۱۲۱)کاترجمہ آپ نےاس طرح فرمایا’’اورآدم سےاپنے رب کےحکم میں لغزش واقع ہوئی توجومطلب چاہاتھااس کی راہ نہ پائی’’۔اس ترجمہ سے معلوم ہوگیاکہ یہاں لفظ’’عَصٰی’’اورلفظ’’ غَوٰی’’سےکیامرادہے۔یہاں ان الفاظ کامختصر لغوی ترجمہ کردینااللہ کےمقدس نبی کی عصمت وعظمت کےمنافی اورخلاف ادب تھا۔جیسا کہ دیوبندی مترجمین نےترجمہ کیا’’اورآدم نےنافرمانی کی اپنےرب کی پس گمراہ ہوئے’’ (مولاناعاشق الٰہی میرٹھی)’’اورحکم ٹالاآدم نےاپنےرب کاپھرراہ سےبہکا’’(مولانا محمود الحسن دیوبندی)یہ دونوں ترجمےہرگزشایان شان نہیں اورخلاف ادب ہیں۔
اعلیٰ حضرت الفاظ کواس طرح مرتب فرماتےہیں کہ کم الفاظ میں کامل طورپرمفہوم ادا ہوجاتا ہے۔نیزاکثروبیشترایسےالفاظ کاانتخاب فرماتےہیں جوخالص اردواورکم حرفی ہوں اورمعنی مراد کوبخوبی اداکریں اورعبارت بھی سلیس ورواں رہے۔لیکن اگرغیراردوالفاظ ہی لانے میں اختصاراورحسن وسلاست ہوتوانہی کواختیارکرتےہیں۔
(۲)ترجمہ میں موقع ومحل کی مناسبت ملحوظ رہتی ہے۔
(۳)تفنن عبارت کےلیےایک ہی جیسےالفاظ کاترجمہ مختلف طریقوں سے فرماتے ہیں۔
(۴)’’ادب الفاظ’’کابہت لحاظ وپاس رہتاہے۔اب میں استشہادکےطورپرچند مثالیں پیش کرتاہوں۔
اختصارعبارت وانتخاب الفاظ:
اس امرپر’’کنزالایمان’’سےکثیرمثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن یہاں صرف چندمثالوں پر اکتفاکیاجاتاہے۔
مثال اول:۔ وَ قَالَ الَّذِ ینَ لَا یَرجُونَ لِقَاءَ رَبَّنَالَولَااُنزِل عَلَینَا المَلَا ئِکَۃُ أو نَرٰی رَبَّنَا لَقَدِ استَکبَرُو افِی اَنفُسِھِم وَعَتَو عُتُوًّا کَبِیراً۔ (پ۱۹،الفرقان:۲۱)
ترجمۂ اعلیٰ حضرت:اوربولےوہ جوہمارےملنےکی امیدنہیں رکھتےہم پرفرشتےکیوں نہ اتارے یاہم اپنےرب کودیکھتے،بیشک اپنےجی میں بہت ہی اونچی کھینچی اوربڑی سرکشی پرآئے۔
دیگرتراجم اس طرح ہیں:۔
(الف)جولوگ ہم سےملاقات کی توقع نہیں رکھتےانہوں نےکہاہم پرفرشتے کیوں نہیں نازل کئےگئےیاہم نےاپنےرب کودیکھ لیاہوتا،انہوں نےاپنےآپ کوبہت بڑا سمجھااوربہت بڑی سرکشی کی۔(حضرت علام غلام رسول سعیدی)
(ب)اورکہاان لوگوں نےجوامیدنہیں رکھتےتھےہم سےملنےکی کہ کیوں نہ اتارے گئےہم پرفرشتےیاہم دیکھ لیتےاپنےرب کووہ اپنےآپ کوبہت بڑاسمجھنےلگےتھے اپنےدلوں میں اورانہوں نےحدسےبڑھ کرسرکشی کی۔(پیرکرم شاہ ازہری)
(ج)اوربولےوہ لوگ جوامیدنہیں رکھتےکہ ہم سےملیں گےکیوں نہ اترے ہم پر فرشتےیاہم دیکھ لیتےاپنےرب کو،بہت بڑائی رکھتےہیں اپنےجی میں اورسرچڑھ رہے ہیں بڑی شرارت میں۔(مولانامحمودالحسن دیوبندی)
(د)اورجولوگ ہمارےسامنےپیش ہونےسےاندیشہ نہیں رکھتے(بوجہ اس کےکہ اس کےمنکرہیں)وہ یوں کہتےہیں کہ ہمارےپاس فرشتےکیوں نہیں آتےیاہم اپنےرب کو دیکھ لیں،یہ لوگ اپنےدلوں میں اپنےکوبہت بڑاسمجھ رہےہیں اوریہ لوگ حد(انسانیت) سےبہت دورنکل گئےہیں۔(مولانااشرف علی تھانوی)
(ہ)اورجنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نےکہاکہ ہم پرفرشتے کیوں نہیں اتارےجاتےیاہم اپنی آنکھوں سےاپنےرب کودیکھ لیتے،ان لوگوں نےاپنے آپ کو بہت ہی بڑاسمجھ رکھاہےاورسخت سرکشی کرلی ہے۔(مولانامحمدجوناگڑھی)
جن امورکےلیےیہ مثال پیش کی گئی وہ سب کےسب اس میں مشاہدہ کئےجاسکتےہیں۔ اعلیٰ حضرت کاترجمہ ان تمام تراجم سےمختصروقلیل الحروف ہے۔کلمات قرآنی کےموافق بھی ہےاوراس میں لسانی اعتبارسےکوئی خامی اورادائیگی مفہوم کےلحاظ سےکوئی خلل بھی نہیں ہے۔
آپ نےلفظ’’ لِقَاءَ’’کاترجمہ’’ملاقات’’اور’’پیش ہونے’’نہیں بلکہ’’ملنے’’فرمایا کہ یہ کم حرفی بھی ہےاورخالص اردوبھی۔اسی طرح کلمۂ’’ لَا یَرجُونَ’’کاترجمہ’’توقع نہیں رکھتے’’ یا ’’اندیشہ نہیں رکھتے’’کےبجائے’’امیدنہیں رکھتے’’فرمایاکہ یہ دونوں سےمختصر اورکم حرفی ہے اوراردوبھی۔
آگےبڑھنےسےپہلےیہ عرض کردیناضروری سمجھتاہوں کہ اس مبحث میں کنزالایمان کے علاوہ جودسرے تراجم پیش کئےجارہےہیں ان پرکوئی تنقیدوتبصرہ مقصود نہیں ہےبلکہ انہیں ذکرکرنےکامقصد صرف اس قدرہےکہ کنزالایمان کےتعلق سےجورائےذکرکی گئی ان تراجم کی روشنی میں اس کوثابت کیاجاسکے۔یہ بھی ملحوظ رہےکہ یہاں جوترجمےپیش کئےگئےوہ سب کےسب’’کنزالایمان’’کےبعد لکھے گئےہیں۔کنزالایمان ۱۳۳۰ھ میں مکمل ہواجبکہ مولانامحمودالحسن دیوبندی کاترجمہ ۱۳۳۶ھ میں مکمل ہوااور۱۳۴۴ھ میں منظرعام پرآیا(۳)دوسرےترجمےاس کےبھی بعدوجود میں آئےہیں۔
(مثال دوم) :۔وَیَعبُدُ ونَ مِن دُونِ اللہِ مَالَا یَنفَعُھُم۔(پ۱۹،الفرقان:۵۵)
ترجمۂ اعلی حضرت:اوراللہ کےسواایسوں کوپوجتےہیں جوان کابھلانہ کریں۔
دیگرتراجم اس طرح ہیں:۔
(الف)اوروہ اللہ کوچھوڑکران کی عبادت کرتےہیں جوان کونہ نفع پہونچا سکتےہیں اورنہ کوئی نقصان پہونچاسکتےہیں۔(حضرت علامہ سعیدی)
(ب)اورپوجتےہیں اللہ کےسواان بتوں کوجونہ فائدہ پہونچاسکتےہیں انہیں اور نہ نقصان۔(پیرکرم شاہ ازہری)
(ج)اورپوجتےہیں اللہ کوچھوڑکروہ چیزجونہ بھلاکرےان کانہ برا۔(مولانامحمود الحسن)
(د)(اورباوجوداسکے)یہ(مشرک)لوگ(ایسے)خداکوچھوڑکران چیزوں کی عبادت کرتےہیں جونہ ان کوکچھ نفع پہونچاسکتی ہیں اوران کوکچھ ضررپہونچاسکتی ہیں۔(مولاناتھانوی)
(ہ)اوراللہ کوچھوڑکران کی عبادت کرتےہیں جونہ توانہیں کوئی نفع دےسکیں نہ کوئی نقصان پہونچاسکیں۔(جوناگڑھی)
دوسرے تراجم کی بہ نسبت اعلیٰ حضرت کےترجمہ کامختصرہوناادنیٰ تامل سےسمجھاجاسکتاہے اورعبارت میں کسی قسم کاکوئی جھول ہےاورنہ ادائےمفہوم میں کوئی کمی ہے۔مولانا محمودالحسن کاترجمہ بھی مختصرہےلیکن وہ ترجمۂ اعلیٰ حضرت کی طرح بامحاورہ نہیں ہے۔اعلیٰ حضرت نے’’یَعبُدُ ونَ’’کاترجمہ’’عبادت کرتےہیں’’نہیں فرمایابلکہ’’پوجتےہیں’’فرمایا کہ یہ اس سےمختصروکم حرفی ہےاوراردومحاورہ میں رائج بھی ہے۔سورۂ فاتحہ،سورۂ البقرہ آیت ۲۱،سورۂ شعراءآیت۷۱،۷۰،اور۷۵میں اورسورۂ کافرون میں بھی’’عِبَادَۃ’’مصدر کےافعال کاترجمہ پوجناہی فرمایاہے۔لیکن کہیں بندگی کرنابھی کیاہے۔لفظ’’دُ ونَ’’کا ترجمہ ’’سوا’’یہ’’چھوڑکر’’سےکم حرفی ہے۔اسی طرح’’مَالَایَنفَعُھُم وَلَایَضُرُّھُم’’کاترجمہ ’’ان کابھلابراکچھ نہ کریں’’دوسرےترجموں سےمختصربھی ہےاورخالص اردو بھی۔لفظ ’’ان’’کی بجائے’’ایسوں’’لائےجبکہ اول مختصرہےکیوں کہ دریں صورت عبارت یوں ہوتی ’’اوراللہ کےسواان کوپوجتےہیں جوان کابھلابراکچھ نہ کریں’’۔صاحب ذوق سلیم سمجھ سکتا ہےکہ اس عبارت میں وہ حسن نہ ہوتاجوموجودہ عبارت میں ہے اورموجودہ صورت میں تفنن بھی ہے۔
(مثال سوم):۔ قُلِ الحَمدُ لِلہِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِ ینَ اصطَفٰی اَللہُ خَیرٌ اَمَّا یُشرِکُونَ۔(پ۱۹،النمل:۵۹)
ترجمۂ اعلیٰ حضرت: تم کہوسب خوبیاں اللہ کو،اورسلام اس کےچنےہوئےبندوں پر،کیا اللہ بہتر یاان کےساختہ شریک۔
دوسرے تراجم اس طرح ہیں:
(الف)آپ کہیےکہ سب تعریفیں اللہ ہی کےلیےہیں اوراس کےبرگزیدہ بندوں پرسلام ہو،کیااللہ اچھاہےیاوہ(بت)جن کو وہ اللہ کاشریک قراردیتےہیں۔(حضرت علامہ سعیدی)
(ب)فرمائیےسب تعریفیں اللہ تعالیٰ کےلیےہیں اورسلام ہواس کےبندوں پر جنہیں اس نےچن لیا(بتاؤ)کیااللہ بہترہےیاجنہیں وہ شریک بناتےہیں۔(پیرکرم شاہ ازہری)
(ج)توکہہ کہ تمام تعریفیں اللہ کواورسلام ہےاس کےبندوں پرجن کواس نے پسندکیا،کیااللہ بہترہےیاجن کووہ شریک کرتےہیں۔(مولانامحمودالحسن)
(د)کہیئےکہ تمام تعریفیں اللہ ہی کےلیےسزاوارہیں اوراس کےان بندوں پر سلام(نازل)ہوجن کواس نےمنتخب فرمایاہے۔(مولاناتھانوی)
(ہ)توکہدےکہ تمام تعریف اللہ ہی کےلیےہےاس کےبرگزیدہ بندوں پر سلام ہےکیااللہ بہترہےیاوہ جنہیں یہ لوگ شریک ٹھہراتےہیں۔(جوناگڑھی)
اعلیٰ حضرت کےترجمہ کامختصرہونامحتاج بیان نہیں ہے۔اورمفہوم بھی کامل ہے۔لفظ ’’سب’’ ‘‘تمام’’سےکم حرفی ہےاوراردوہے۔اسی طرح ’’چنےہوئے’’بھی اردوہےنیز’’جن کو اسنےمنتخب فرمایاہے’’اور’’جن کواس نےپسندکیاہے’’سےمختصربھی ہے۔’’یاان کےساختہ شریک’’یہ ترجمہ’’ مَایُشرِکُونَ’’کامفہوم بھی بخوبی اداکررہاہےاورباقی تراجم سےبہت مختصر بھی ہے۔
مثال چہارم:۔ وَالَّذِ ینَ کَذَّ بُو ابِاٰیَاتِنَاوَلِقَاءِالاٰخِرَۃِ حَبِطَت اَعمَالھُم ۔ (پ۹،الاعراف:۱۴۷)
ترجمۂ اعلیٰ حضرت:اورجنہوں نےہماری آیتیں اورآخرت کےدربارکوجھٹلایاان کاسب کیا دھرااکارت گیا۔
دوسرےتراجم اس طرح ہیں:
(الف)اورجن لوگوں نےہماری آیتوں اورآخرت کی پیشی کی تکذیب کی ان کے سب(نیک)عمل ضائع ہوگئے۔(علامہ سعیدی)
(ب)اورجنہوں نےجھٹلایاہماری آیتوں کواورآخرت کی ملاقات کوضائع ہوگئے اُن کےسارےاعمال۔(پیرکرم شاہ ازہری)
(ج)اورجنہوں نےجھوٹ جاناہماری آیتوں کواورآخرت کی ملاقات کوبرباد ہو گئیں ان کی محنتیں۔(مولانامحمودالحسن)
(د)اوریہ لوگ جنہوں نےہماری آیتوں اورقیامت کےپیش آنےکوجھٹلایاان کے سب کام غارت ہوگئے۔(مولاناتھانوی)
(ہ)اوریہ لوگ جنہوں نےہماری آیتوں اورقیامت کےپیش آنےکوجھٹلایاان کےسب کام غارت گئے۔(جوناگڑھی)
بعینہ وہی ترجمہ ہےجوتھانوی صاحب کاہے۔
اعلیٰ حضرت کاترجمہ سب سےمختصرہے۔اورآیت کےحصے’’حَبِطَت اَعمَالَھُم’’کے ترجمے
’’ان کاسب کیادھرااکارت گیا’’میں جولطف ہےوہ دوسرےتراجم میں نہیں۔
(مثال پنجم):۔وَ سَیَحلِفُونَ بِاللہِ لَوِاستَطَعنَا لَخَرَجنَا مَعَکُم یُھلِکُونَُ اَنفُسَھُم وَاللہُ یَعلَمُ اِنَّھُم لَکٰذِ بُونَ۔(پ۱۰،التوبہ:۴۲)
ترجمۂ اعلی حضرت:اوراب اللہ کی قسم کھائیں گےکہ ہم سےبن پڑتاتوضرورتمہارے ساتھ چلتے،اپنی جانوں کوہلاک کرتےہیں،اوراللہ جانتاہےوہ بےشک ضرورجھوٹےہیں۔
دیگرتراجم اس طرح ہیں:
(الف)اورعنقریب یہ اللہ کی قسمیں کھائیں گےکہ ہم میں طاقت ہوتی توہم ضرور آپ کےساتھ روانہ ہوتے،وہ اپنی جانوں کوہلاکت میں ڈال رہےہیں،اوراللہ تعالیٰ جانتاہے کہ بےشک وہ ضرورجھوٹےہیں۔(علامہ سعیدی)
(ب)اورابھی قسم کھائیں گےاللہ کی[اورکہیں گے]کہ اگرہم میں طاقت ہوتی تو ہم ضرورنکلتےتمہارےساتھ،ہلاک کررہےہیں اپنےآپ کو،اوراللہ جانتاہےکہ وہ قطعاً جھوٹے ہیں۔(پیرکرم شاہ ازہری)
(ج)اوراب قسمیں کھائیں گےاللہ کی کہ اگرہم سےہوسکتاتوہم ضرور چلتے تمہارے ساتھ،وبال میں ڈالتےہیں اپنی جانوں کو،اوراللہ جانتاہےکہ وہ جھوٹےہیں۔(مولانامحمودالحسن)
(د)اورابھی خداکی قسم کھائیں گےکہ اگرہمارےبس کی بات ہوتی توضرورہم تمہارے ساتھ چلتے،یہ لوگ(جھوٹ بول کر)اپنےآپ کوتباہ کررہےہیں،اوراللہ جانتاہےکہ یہ لوگ یقیناً جھوٹےہیں۔(مولاناتھانوی)
(ہ)اب تویہ اللہ کی قسمیں کھائیں گےکہ اگرہم میں قوت وطاقت ہوتی توہم یقیناً آپ کےساتھ نکلتے،یہ اپنی جانوں کوخودہی ہلاکت میں ڈال رہےہیں،ان کےجھوٹے ہونے کاسچاعکن اللہ کوہے۔(جوناگڑھی)
اعلیٰ حضرت کاترجمہ مختصرہونےکےساتھ ساتھ بامحاورہ بھی ہے۔مولانامحمودالحسن کاترجمہ بھی اگرچہ مختصرہےلیکن بامحاورہ نہیں ہے۔اورآیت میں حرف’’ اِنَّ’’اور’’ لام’’کے ذریعے جوتاکیدیں ہیں یہ ترجمہ ان سےخالی ہے۔مولاناجوناگڑھی کاترجمہ اتناہی نہیں کہ کلمات قرآنی کےمطابق نہیں بلکہ مقصود قرآنی کی ادائیگی بھی اس میں نہیں ہے۔’’ وَاللہُ یَعلَمُ اِنَّھُم لَکٰذِ بُونَ ’’کاترجمہ کیاہے’’ان کےجھوٹےہونےکاسچاعلم اللہ کوہے’’یہاں قرآن حکیم کامقصود منافقین کےکاذب ہونےکوبتاکید بیان کرتاہےنہ کہ باری تعالیٰ کے علم کی حقانیت وصداقت کابیان۔لیکن موصوف ترجمہ میں وہ چیزتولائےجویہاں مقصود نہیں ہے اوراسےچھوڑدیاجومقصودہے۔یہی وہ عمدہ اورفصیح وبلیغ ترجمہ ہے جسےسعودی حکومت عام کررہی ہےاورہرسال حجاج کرام کوہدیتہً مہیاکرتی ہے۔
(مثال ششم):۔فَلَمَّا جَھَّزَھُم بِجَھَازِھِم جَعَلَ السَّقَا یَۃَ فِی رِحلِ اَخِیہِ ثُمَّ أَذِّنَ مُؤَذِّنٌ أَیَّتُھَاالعِیرُاِنَّکُم لَسٰرِقُونَ۔(پ۱۳،یوسف:۷۰)
ترجمۂ اعلیٰ حضرت:پھرجب ان کاسامان مہیاکردیاپیالہ اپنےبھائی کےکجاوےمیں رکھ دیا، پھر ایک منادی نےنداکی اےقافلہ والو!بےشک تم چورہو۔
دیگرتراجم اس طرح ہیں:
(الف)پھرجب یوسف نےان کاسامان تیارکیاتواس نے(شاہی)پیالہ اپنےبھائی کی بوری میں رکھ دیا،پھرمنادی نےاعلان کیاکہ اےقافلہ والوبےشک تم ضرورچورہو۔(علامہ سعیدی)
(ب)پھرجب فراہم کردیاانہیں ان کاسامان (خوراک)تورکھ دیا(اپنا)پیالہ اپنےبھائی کی خورجی میں،پھرپکاراایک پکارنےوالااےقافلہ والو!بلاشبہ تم چورہو۔(پیرکرم شاہ ازہری)
(ج)پھرجب تیارکردیاان کےواسطےاسباب ان کا،رکھدیاپینےکاپیالہ اسباب میں اپنےبھائی کے،پھرپکاراپکارنےوالےنےاےقافلہ والو!البتہ تم چور ہو۔(مولانامحمودالحسن)
(د)پھرجب یوسف علیہ السلام نےان کاسامان تیارکردیاتوپانی پینےکابرتن اپنے بھائی کےاسباب میں رکھ دیا،پھرایک پکارنےوالےنےپکاراکہ اےقافلہ والوتم ضرورچور ہو۔(مولاناتھانوی)
(ہ)پھرجب انہیں ان کاسامان اسباب ٹھیک ٹھاک کرکےدیاتواپنےبھائی کے اسباب میں پانی پینےکاپیالہ رکھ دیا،پھرایک آوازدینےوالےنےپکارکرکہااےقافلہ والو تم لوگ چورہو۔(جوناگڑھی)
معمولی توجہ سےظاہرہوجاتاہےکہ اعلیٰ حضرت کاترجمہ سب ترجموں سےمختصرہے اوربلیغ بھی۔
’’پھرایک منادی نےنداکی’’اس جملہ میں اگرچہ’’منادی’’اور’’ندا’’دونوں عربی لفظ ہیں لیکن یہ ،سب سےمختصرہےاوریہی حضرت مترجم کامطلوب ہے۔اورایسابھی نہیں کہ اردو داں اسےسمجھ نہ پائیں۔
(مثال ہفتم):۔وَکَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ العُلیَا۔(پ۱۰،التوبہ:۴۰)
ترجمۂ اعلیٰ حضرت:اوراللہ ہی کابول بالاہے۔
دوسرے تراجم اس طرح ہیں:
(الف) اوراللہ کادین ہی بلندوبالاہے۔ (علامہ سعیدی)
(ب) اوراللہ کی بات ہی ہمیشہ سربلندہے۔ (پیرکرم شاہ ازہری)
(ج) اوراللہ کی بات ہمیشہ اوپرہے۔ (مولانامحمود)
(د) اوراللہ ہی کابول بالارہا۔ (مولاناتھانوی)
(ہ) اوربلندوعزیزتواللہ کاحکم ہی ہے۔ (جوناگڑھی)
اعلیٰ حضرت کاترجمہ کیاہی بامحاورہ اورخوبصورت اورموافق الفاظ قرآنی ہےاورمختصربھی ہے۔تھانوی صاحب کاترجمہ بھی معمولی فرق سےوہ ہےجواعلیٰ حضرت کاہےلیکن اعلیٰ حضرت کاترجمہ جملہ اسمیہ ہےجس طرح’’کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ العُلیَا’’جملۂ اسمیہ ہےجبکہ تھانوی صاحب نےلفظ’’رہا’’لاکرجملہ کوفعلیہ کردیا۔
(مثال ہشتم):۔ ظَھَرَ الفَسَادُ فِی البَرِّ وَالبَحرِ۔((۲۱،الروم:۴۱)
ترجمۂ اعلی حضرت:چمکی خرابی خشکی اورتری میں۔
دیگرتراجم اس طرح ہیں:
(الف) خشکی اورتری میں فسادپھیل گیا۔ (علامہ سعیدی)
(ب) پھیل گیاہےفسادبراوربحرمیں۔ (ازہری صاحب)
(ج) پھیل پڑی ہےخرابی جنگل اوردریامیں۔ (مولانامحمود)
(د) خشکی اورتری میں بلائیں پھیل رہی ہیں۔ (تھانوی صاحب)
غورکریں توواضح ہوگاکہ امام احمدرضاکاترجمہ سب سےمختصر ہےاورخالص اردوبھی۔
ان کےعلاوہ جیساکہ آغازمیں عرض کیاگیاڈھیروں مثالیں اس تعلق سےپیش کی جاسکتی ہیں یہ توصرف ان آیات کےتراجم مثالوں میں پیش کئےگئےجن کی طرف دوران مطالعہ اس تعلق سےتوجہ ہوئی۔
مناسبت مقام کالحاظ
(۱)وَقَالَ الرَّسُولُ یٰرِبَّ اِنَّ قَومِی اتَّخَذُ و اھَذاالقُرآنَ مَھجُوراً(پ۱۹،الفرقان:۳۰)
ترجمہ: رسول نےعرض کی کہ اےمیرےرب!میری قوم نےاس قرآن کوچھوڑنے کےقابل ٹھہرالیا۔یہاں لفظ’’قَالَ’’کاترجمہ’’عرض کی’’اس مقام کےعین مناسب ہے۔
(۲)قَالَ یَأَیُّھَاالمَلَؤُ
ترجمہ:سلیمان نےفرمایااےدرباریو!
یہاں قول کاتعلق خدام اوردرباریوں سےلہٰذا’’ قَالَ’’کاترجمہ’’فرمایا’’ہی موقع ومحل کے مطابق ہے۔
(۳)قَالَ عِفرِ یتٌ مِّنَ الجِنَّ أَنَاآتِیکَ بِہٖ قَبلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِک(النمل:۳۹)
ترجمہ:ایک بڑاخبیث جن بولا کہ میں وہ تخت حضور میں حاضرکردوں گاقبل اس کےکہ حضوراجلاس برخاست کریں۔
الفاظ قرآن’’ أَنَاآتِیکَ بِہٖ’’کایہ ترجمہ’’میں وہ تخت آپ کےپاس لےآؤنگا’’اگرچہ موجودہ ترجمہ سےمختصرہوتااورخالص اردوبھی لیکن موقع ومحل کی مناسبت سےیہی ترجمہ عمدہ ہے، کیونکہ یہ بات ایک درباری جن نےاس وقت کہی تھی جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے درباریوں سےفرمایاکہ کون ہےوہ جوبلقیس کےآنےسےپہلےپہلےاس کاتخت میرے پاس لےآئے۔اورایک درباری کی طرف سےاپنےبادشاہ کی بارگاہ میں یہی الفاظ مناسب ہیں۔ ترجمہ کادوسراحصہ بھی کہ’’قبل اس کےکہ حضوردرباربرخاست کریں’’مناسب مقام ہے اورمفہوم قرآنی کوبھی بحسن وخوبی اداکررہاہے۔جلالین شریف اوراس کےمشہورومستند حاشیہ صاوی شریف میں اس مقام پرجوتفسیروتشریح کی گئی ہےاس کامفہوم یہ ہے کہ آیت میں لفظ’’مقام’’سےمرادوہ مجلس ہےجس میں حضرت سلیمان علیہ السلام مقدمات فیصل کرنے کےلیے تشریف فرماتھے۔(۴)لہٰذایہ ترجمہ کہ’’حضوراجلاس برخاست کریں’’ بہت عمدہ اورخوبصورت ہے۔
(۴)قَالَ نَکَرُوالَھَاعَرشَھَا (النمل:۴۱)
ترجمہ:سلیمان نےحکم دیاعورت کاتخت اس کےسامنےوضع بدل کربیگانہ کردو’’ قَالَ’’ کاترجمہ’’حکم دیا’’اگرچہ’’کہا’’اور’’بولا’’کی یہ نسبت کثیرالحروف ہےلیکن فعل امر’’نَکَرُو’’ کےپیش نظراورقائل ومخاطب کےاعتبارسےبہت ہی عمدہ اورمناسب ہے۔
(۵)قُلِ للہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیعاً(پ۲۴،الزمر:۴۴)
ترجمہ:تم فرماؤ شفاعت توسب اللہ کےہاتھ میں ہے۔
(۶)قُلِ اللّٰھُمَّ فَاطِرَالسَّمَوَاتِ وَالاَرضِ(الزمر:۴۶)
ترجمہ:(اللہ اپنےرسول سےفرماتاہے)تم عرض کرواےاللہ آسمانوں اورزمین کےپیدا کرنےوالے۔پہلی آیت میں’’قل’’کاترجمہ کیا’’تم فرماؤ’’اوردوسری آیت میں ’’قل’’کا ترجمہ کیا’’تم عرض کرو’’ذکرکی مناسبت مقام کی احتیاج نہیں ہے۔
تفنن عبارت
’’مناسبت مقام کالحاظ’’کےتحت جومثالیں ذکرکی گئی ہیں ان میں بھی تفنن عبارت ہےکہ لفظ ’’قال’’کاترجمہ کہیں ہے’’فرمایا’’توکہیں’’حکم دیا’’اورکہیں ہے’’عرض کیا’’لیکن یہ موقع و محل کی مناسبت کی وجہ سےتھالیکن اعلیٰ حضرت صرف عبارت میں تنوع اوررنگارنگی پیدا کرنےکےلیےبھی ایک ہی جیسےالفاظ کاترجمہ مختلف طریقوں سےکرتےہیں یہاں ایسی ہی چندمثالیں ذکرکی جاتی ہیں۔
(۱)قَالَ اِنِّی أَعلَمُ مَالَا تَعلَمُونَ(پ۱،البقرۃ:۳۰)
(اللہ نے)فرمایامجھےمعلوم ہےجوتم نہیں جانتے۔
(۲)وَاشکُرُو الِی وَلَاتَکفُرُونَ(پ۲،البقرۃ:۱۵۲)
’’اورمیراحق مانواورمیری ناشکری نہ کرو’’۔اس ترجمہ میں تنوع ہےبہ نسبت اس ترجمہ کے کہ ’’میراشکرکرواورمیری ناشکری نہ کرو’’۔
(۳)قَالَ قَائِلٌ مِّنھُم(پ۱۵،الکہف:۱۹)
ان میں ایک کہنےوالابولا۔عبارت کی رنگارنگی کےلیے’’قال’’کاترجمہ’’بولا’’اور’’قائل’’کا کہنےوالاکیاہے۔
(۴)یٰأَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوارَبَّکُم وَاخشَوا یَومًالَّایَجزِی وَالِدً عَن وَّلَدِ ہٖ۔(پ۲۱،لقمٰن:۳۳)
اےلوگواپنےرب سےڈرواوراس دن کاخوف کروجس میں کوئی باپ اپنےبچہ کےکام نہ آئیگا۔یہاں تفنن کےلیے’’اتقوا’’کاترجمہ’’ڈرو’’اوراخشوا’’کا’’خوف کرو’’فرمایاہے۔
(۵)نَنظُر أَتَھتَدِ ی أَم تَکُونُ مِنَ الَّذِ ینَ لَایَھتَدُ ونَ ۔(۱۹،النمل:۴۱)
ہم دیکھیں کہ وہ راہ پاتی ہےیاان میں ہوتی ہےجوناواقف رہے۔تفنن ظاہرہے۔
(۶)أَ للہُ یَتَوَفَّی الأَنفُسَ حِینَ مَوتِھَاوَالَّتِی لَم تَمُت فِی مَنَامِھَا۔(۲۴،الزمر:۴۲)
اللہ جانوں کووفات دیتاہےان کی موت کےوقت،اورجونہ مریں انہیں ان کےسوتےمیں۔
(۷)قُل ھَل یَستَوِی الَّذِ ینَ یَعلَمُونَ وَالَّذِ ینَ لَایَعلَمُونَ۔(پ۲۲،الزمر:۹)
تم فرماؤ کیابرابرہیں جاننےوالےاورانجان۔’’ لَایَعلَمُونَ’’کاترجمہ’’انجان’’کیاہےاس سے تفنن بھی حاصل ہوااورعبارت بھی مختصرہوگئی۔
(۸)وَاُولٰئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ۔(پ۱،البقرۃ:۵)اوروہی مرادکوپہنچنےوالےہیں۔
(۹)وَاُولٰئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ۔(پ۲۱،الروم:۳۸)اورانہیں کاکام بنا۔
(۱۰)فِی قُلُوبِھِم مَرَضٌ۔(پ۱،البقرۃ:۱۰)ان کےدلوں میں بیماری ہے۔
(۱۱)وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِھِم مَرَضٌ۔(پ۲۱،الاحزاب:۱۲)اورجن کےدلوں میں روگ تھا۔
(۱۲)وَیَومَ یُنَادِیھِم فَیَقُولُ أَینَ شُرَ کَاءِیَ الَّذِ ینَ کُنتُم تَزعُمُونَ۔(پ۲۰،القصص:۶۲)
اورجس دن انہیں نداکریگاتوفرمائیگاکہاں ہیں میرےوہ شریک جنہیں تم گمان کرتےتھے۔ اس سورت کی آیت نمبر۷۴کےبھی بالکل یہی الفاظ ہیں وہاں’’ اَلَّذِ ینَ کُنتُم تَزعُمُونَ’’ کا ترجمہ اس طرح کیاہے’’کہاں ہیں میرےوہ شریک جوتم بکتےتھے’’۔
’’ اِطَاعَۃٌ’’مصدرسےبننےوالےافعال کامتعدد طریقوں سےترجمہ فرمایاہے۔
(۱)لِیُطَاعَ(پ۵،النساء:۶۴)اس کی اطاعت کی جائے۔
(۲)فَلَا تُطِعھُمَا(پ۲۰،العنکبوت:۸)توتوان کاکہانہ مان۔
(۳)فَلَا تُطِعھُمَا(پ۲۱،لقمٰن:۱۵)توان کاکہنانہ مان۔
(۴)وَلَاتُطِعِ الکَافِرِینَ وَالمُنٰفِقِینَ(پ۲۱،الاحزاب آیت اول)اورکافروں اورمنافقوں کی نہ سننا۔
(۵)اس سورت کی آیت نمبر۴۸میں بھی یہی الفاظ ہیں وہاں یوں ترجمہ کیاہے’’اورکافروں اورمنافقوں کی خوشی نہ کرو’’۔
(۶)وَأَطِعنَ اللہَ وَرَسُولَہ’(پ۲۲،الاحزاب:۳۳)اوراللہ اوراس کےرسول کاحکم مانو۔ اسی طرح’’نجاۃ’’کےافعال کابھی ترجمہ کہیں’’بچانا’’اورکہیں’’نجات دینا’’کیاہے۔
ادب الفاظ
کنزالایمان میں’’ادب الفاظ’’کی مثالیں پیش کرنےسےپہلےخود’’ادب الفاظ’’کے تعلق سے چندباتیں لکھی جاتی ہیں۔سیدنااعلیٰ حضرت امام احمدرضاقدس سرہ العزیزفرماتےہیں:
’’ادب الفاظ’’بھی ایک بہت بڑاعلم ہے،جسےاللہ عطافرمائے۔آج کل بہت لوگ اس سے معریٰ ہیں یاپرواہ نہیں کرتے۔اوریہ اول سےسخت ترہےوالعیاذباللہ۔(۵)
’’ادب الفاظ‘‘کی تعریف میری نظرسےنہیں گزری لیکن میری سمجھ سےاس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہےکہ ’’الفاظ اپنےمحل استعمال میں نامناسب اورخلاف ادب نہ ہوں’’یادوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیاجائےکہ’’جس کےتعلق سےاستعمال کیےجارہےہیں اس کےشایان شان ہوں اوراس کےمقام ومرتبہ کےلحاظ سےنامناسب اورکم درجہ نہ ہوں۔وضاحت کے لیےایک واقعہ لکھاجاتاہے۔
صحابی رسول حضرت قباث ابن اثیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےپوچھاگیاکہ تم بڑےہویارسول اللہﷺ؟آپ نےجواب دیا: رَسُولُ اللہِ ﷺ أَکبَرُمِنِّی وَأَنَاأَقدَ مُ مِنہُ فِی المِیلَادِ ۔ بڑےتورسول اللہﷺہی ہیں ہاں پیدائش میری پہلےہوئی۔(۶)
ظاہرہےکہ سائل کامقصد عمرکی بڑائی دریافت کرناتھالیکن حضرت قباث رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کی بہ نسبت بہ اعتبارعمربھی خودکوبڑاکہناشان ادب کےخلاف تصورکیااوراس طرح جواب دیا’’بڑےتوآپ ہی ہیں لیکن پیدامیں پہلےہواہوں۔شئی کی معرفت اس کی ضدسےبھی ہوتی ہےلہٰذایہاں چندایسےالفاظ لکھےجاتےہیں جواس خوبی سےخالی ہیں۔سرکاراعلیٰ حضرت تحریرفرماتےہیں:اللہ عزوجل اپنےغضب سےبچائے اس کے’’غضب’’کو’’غصہ’’سےترجمہ کرنابھاری غلطی ہے۔غصہ اصل میں گلےکے ’’اچھو’’ کوکہتےہیں اورمجازاًاس غضب پراطلاق ہواجوگلےکےپھندےکی طرح گھٹےاورآدمی کسی خوف یاخاطرسےاسےظاہرنہ کرسکے۔اصل معنی یہ ہیں اوراللہ عزوجل اس سےپاک ہےتو اس پراس کےاطلاق سےاحترازچاہیےجیسےناواقف اس کی رضاکو’’رضامندی’’بولتےہیں، یہ بھی نادانی اورجہالت ہے۔فارسی میں ’’مند’’کاکلمہ ظرفیت کےلیےآتاہے۔’’رضامند’’ یعنی رضا سے بھراہوااوراللہ عزوجل ظرفیت سےپاک ہے۔(۷)اسی موقع پرآپ نےیہ فرمایاہےکہ’’ادب الفاظ بھی ایک بہت بڑاعلم ہےجسےاللہ عطافرمائےالخ’’۔
مشہورمیلاد خواں اورنعت گوشاعرخواجہ اکبرحسین وارثی میرٹھی علیہ الرحمہ نے بارگاہ اعلیٰ حضرت میں حاضرہوکراپنی لکھی ہوئی ایک نعت پاک سنائی۔اس نعت کےایک مصرع میں مولیٰ عزوجل کےلیےلفظ’’مالی’’استعمال کیاگیاتھااعلیٰ حضرت نےاصلاح فرمائی اور’’مالی’’کی جگہ’’مالک’’بنادیا۔آپ فرماتےہیں:مولیٰ عزوجل کومالی کہناخلاف ادب ہے۔مالی صرف ناظرہ خادم باغ ہوتاہے۔(۸)
اللہ عزوجل اوررسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی عطائےجلیل سےاعلیٰ حضرت کویہ عظیم علم بھی علیٰ وجہ الکمال حاصل تھااورآپ کوایمان وادب سےحصۂ وافیہ نصیب ہواتھا۔ بتائید ایزدی آپ کی زبان وقلم ہمیشہ ایسےالفاظ کےاستعمال سےمحفوظ ومصؤن رہے جوحسن ادب سےعاری ہوں۔آپ الفاظ کی حقیقت واصلیت اورمحاورات عرفیہ پرگہری اور وسیع نظر رکھتےتھےاوراستعمال لفظ کےوقت آپ کواس کاپوراپورالحاظ رہتاتھا۔کیوں کہ بعض الفاظ عرف میں جس معنی میں بولےجاتےہیں اپنی حقیقت واصلیت کےاعتبارسے ان کےوہ معنی نہیں ہوتے۔مثلالفظ ’’غلام’’اردومیں’’عبد’’کےمترادف کےطورپراستعمال ہوتاہےلیکن اس کےحقیقی معنی ’’لڑکا’’ہیں۔لہٰذااسمائےالٰہیہ کی طرف اس کی اضافت ممنوع ہے۔یعنی اللہ کاغلام،رحمٰن کاغلام نہیں کہاجائےگا۔اعلیٰ حضرت فرماتےہیں:لفظ غلام کی اسمائےالٰہیہ جل وعلیٰ کی طرف نسبت خودممنوع ہے۔اللہ کاغلام نہ کہاجائیگاکہ لفظ’’غلام’’ کےحقیقی معنی’’پسر’’ہیں۔(۹)
اب جس شخص کی نظرصرف محاورۂ عرفیہ پرہواوراس لفظ کےحقیقی معنی سےناواقف ہوتووہ اسمائےالٰہیہ کی طرف اس لفظ کی نسبت کرنےکی غلطی میں مبتلاہوسکتاہے۔’’کنزالایمان’’میں ادب الفاظ کی خوبی کامل طورپرجلوہ گرہے۔جن مقامات پردیوبندی مترجمین قرآن نےسخت ٹھوکریں کھائی ہیں خداکےفضل وکرم سےاعلیٰ حضرت کاقلم لغزش سےمحفوظ رہاہے۔عالی جناب ملک شیرمحمدخاں اعوان آف کالاباغ پاکستان نے اپنے مقالہ’’محاسن کنزالایمان’’میں اس تعلق سےمتعددمثالیں ذکرکی ہیں۔میں یہاں انہی کے مقالہ سےصرف تین مثالیں جوں کےتوں نقل کرتاہوں۔
(۱)وَمَکَرُواوَمَکَرَ اللہُ۔ وَاللہُ خَیرُالمَاکِرِینَ۔(پ۳،رکوع۱۳)
ترجمہ مولانامحمودالحسن:۔اورمکرکیاان کافروں نےاورمکرکیاالللہ نےاوراللہ کامکرسب سے بہترہے۔
مکرکےلغوی معنی خفیہ تدبیرکرنےکےہیں مگراردومیں یہ لفظ دھوکااورفریب جیسی مبتذل صفات کےاظہارکےلیےاستعمال ہوتاہے۔سوچئےکہ خداکی ذات کےلیے’’مکر’’اورداؤ’’ جیسےالفاظ کااستعمال کس قدرسوئےادبی کامتحمل ہے۔اب ذرااعلیٰ حضرت کاترجمہ ملاحظہ فرمائیے:۔
اورکافروں نےمکرکیااوراللہ نےان کےہلاک کی خفیہ تدبیرفرمائی اوراللہ سب سے بہتر چھپی تدبیروالاہے۔
(۲)نَسُواللہَ فَنَسِیَھُم۔(پ۱۰،رکوع۱۵)
ترجمہ مولانامحمودالحسن:۔ ’’بھول گئےاللہ کوسووہ بھول گیاان کو’’
ترجمہ مولانااشرف علی تھانوی:۔’’انھوں نےخداکاخیال نہ کیاپس خدانےان کاخیال نہ کیا’’۔
’’نسی’’کےمعنی بالارادہ اوربےارادہ بھول جانےکےبھی ہیں اورنظراندازکرنےاورچھوڑ دینےکےبھی۔مترجم کافرض ہےکہ وہ ترجمہ کرتےہوئےخداکی شان اورعظمت کوضرور پیش نظررکھے۔مولانامحمودالحسن نے’’بھول جانے’’کےالفاظ خداسےمنسوب کئےہیں جن سے یہ احتمال ہوسکتاہے کہ معاذاللہ خداکوبھی نسیان لاحق ہوسکتاہے۔اس کےبرعکس امام احمدرضاکاترجمہ زیادہ واضح ہے۔انھوں نےلغت سےایسامفہوم لیاجوشان خداوندی کے خلاف نہیں۔امام احمدرضا کاترجمہ ملاحظہ فرمایئے:۔
’’وہ اللہ کوچھوڑ بیٹھےتواللہ نےانہیں چھوڑدیا’’۔
(۳)وَمَریَمَ ابنَتَ عِمرَانَ الَّتِی أَحصَنَت فَرجَھَا۔(پ۲۸،رکوع۲۰)
ترجمہ مولانامحمودالحسن:۔’’اورمریم بیٹی عمران کی جس نےروکےرکھااپنی شہوت کی جگہ کو’’۔
ترجمہ امام احمدرضا:۔’’اورعمران کی بیٹی مریم جس نےاپنی پارسائی کی حفاظت کی’’۔
یہ آیت حضرت مریم کی عصمت وتقدیس کےسلسلہ میں واردہوئی ہے۔اب دونوں تراجم پر نظرڈالیے۔مولانامحمودالحسن کاترجمہ بلاشب درست لفظی ترجمہ ہےلیکن ہرزبان کااپنااپنا اندازواسلوب بیان ہوتاہے۔مترجم کافرض یہ ہے کہ وہ اصل زبان کاصحیح مفہوم سمجھ کر اسے زبان کےاسلوب میں ڈھالےجس میں وہ عبارت کومنتقل کررہاہے۔عربی زبان میں ’’حَصَنٌ’’کالفظ محفوظ کرنے،روکنےاورقلعہ کےمعنوں میں آتاہےلیکن یہ تمام معنی اس امر پر دلالت کرتےہیں کہ اس کےبنیادی معنی حفاظت کےہیں۔امام احمدرضانےبھی اسی کو ترجیح دی ہے۔’’فرج’’کےلفظی معنی بلاشبہ جائےشہوت ہیں لیکن اردومیں یہ لفظی ترجمہ کچھ زیب نہیں دیتا۔امام احمدرضا نےجومرادی ترجمہ کیاہےاس میں عربی کی اصل روح بھی برقرارہےاوراردوزبان کااحترام پسندانہ اسلوب بھی قائم ہے۔(۱۰)
ایک طرف قاری کنزالایمان کےلسانی ومعنوی اوصاف وکمالات اورامتیازات کودیکھتاہےاور دوسری طرف جب اسےیہ معلوم ہوتاہےکہ اعلیٰ حضرت یہ ترجمہ املاکرایاہےاوراس طرح کہ’’آپ قرآن مجیدکافی البدیہہ برجستہ ترجمہ اس طرح بولتےجاتےجیسےکوئی پختہ یادداشت کاحافظہ اپنی قوت حافظہ پربغیرزورڈالےقرآن شریف روانگی سےپڑھتاجاتاہے اور حضرت صدرالشریعہ اسےلکھتےجاتےہیں۔(۱۱)توحیرت وتعجب میں غرق ہوجاتاہےاور پکاراٹھتاہےذٰ لِکَ فَضلُ اللہِ یُؤتِیہِ مِن یَّشَاءُ۔اوربارگاہ اعلیٰ حضرت میں یوں خراج عقیدت پیش کرتاہے؎
ملک سخن کی شاہی تم کورضا ؔمسلم |
جس سمت آگئےہوسکّےبٹھادیئےہیں |
اللہ تبارک وتعالیٰ اعلیٰ حضرت امام احمدرضارضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تربت انورپررحمتوں کی بارش فرمائےاورہمیں آپ کےعلمی وروحانی فیوض وبرکات سےبہرہ مندفرمائے۔آمین۔ وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیرخلقہٖ محمدوآلہ واصحابہ اجمعین۔
مآخذ ومراجع
(۱) المیزان امام احمدرضانمبر۸۸۔
(۲) کنزالایمان کی فنی حیثیت ص۹۔
(۳) مولانامحمودالحسن کےترجمہ کےبارےمیں یہ معلومات اس نسخہ کے شروع میں منسلک تحریروں سےماخوذ ہےجومدینہ بک ایجنسی،بجنور،یوپی کاشائع کردہ ہے۔
(۴) صاوی شریف جزء ثالث ص۱۶۳۔
(۵) جامع الاحادیث،جلدسابع ص۱۵۴۔مؤلفہ حضرت علامہ مولانامحمدحنیف خان صاحب پرنسپل جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف۔
(۶) ترمذی شریف ج۲ ص۲۰۲۔
(۷) جامع الاحادیث جلد۷ص۱۵۴۔
(۸) مکتوبات امام احمدرضا خاں بریلوی مرتبہ مولانامحموداحمدقادری ص۳۶۔
(۹) احکام شریعت اول ص۶۱۔
(۱۰) مقالہ محاسن کنزالایمان مشمولہ المیزان امام احمدرضانمبرص۱۲۳،۱۱۹،۱۱۸۔
(۱۱) سوانح اعلیٰ حضرت امام احمدرضاص۳۷۴۔